متفرق مضامین

فسانۂ عجائب اور رجب علی بیگ سرورؔ

گو یہ قصّہ طبع زاد تصوّر کیا جاتا ہے تاہم محققین نے اس کہانی کے نقوش اردو و فارسی کی قدیم داستانوں اور مثنویوں میں تلاش کیے ہیں

’مِرقات الیقین فی حیاتِ نورالدین‘ میں درج رام پور میں پیش آمدہ واقعات کےتحت سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کاایک دل چسپ مکالمہ کچھ یوں ملتا ہے کہ ’’مَیں رام پور میں جن حکیم صاحب سے طب پڑھتا تھا وہ بڑے آدمی تھے۔ ان کے یہاں بہت سےمہمان لکھنؤ وغیرہ کے پڑے رہتے تھے۔ وہیں مرزا رجب علی بیگ سرور مصنف ’فسانۂ عجائب‘بھی جو بہت بوڑھے آدمی تھے، رہتے تھے۔ مَیں نے ایک دن ان سے کہا کہ مرزا صاحب! مجھ کو اپنی کتاب ’فسانۂ عجائب‘ پڑھادو۔ مَیں اس کتاب کو آپ سے پڑھ کر اس کی سند لینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ مَیں نے ایک دو صفحہ ہی پڑھا تھا کہ یہ فقرہ آیا کہ ’’اِدھر مولوی ظہور اللہ و مولوی محمد مبین وغیرہ اور اُدھر مولوی تقی و میر محمد مجتہد وغیرہ‘‘ مَیں نے اس فقرے پر پہنچ کر ان سے کہا کہ مرزا صاحب یہ بتاؤ کہ تم سنّی کیسے ہوئے۔ نہایت حیران اور متعجب ہوکر کہنے لگے کہ تم نے یہ کیسے معلوم کیا کہ مَیں سنّی ہوں؟ مَیں نے کہا کہ آپ کواس سے کیا؟ آپ ہیں تو سنّی۔ یہ بتادیجے کس طرح سنّی ہوئے۔ انہوں نے کہا تم اوّل یہ بتاؤ میرا سنّی ہونا کس طرح معلوم کیا؟ مَیں نے کہا ’اِدھر‘ کا لفظ اپنی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ آپ نے ’اِدھر‘کے ساتھ سنّی مولویوں کےنام لکھے ہیں اور جب لکھا ہے ’اُدھر‘تو اُدھر کے ساتھ شیعوں کے نام لکھے ہیں۔ دلیل اس بات کی ہے کہ تم سنّی ہو۔ سن کر ہنس پڑے…’’

(مرقات الیقین فی حیات نورالدین صفحہ 244تا245)

سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی فراست اور باریک بینی کے عکّاس اس واقعے میں حضورؓ نے جس کتاب کی،مصنف سے سند لینے کی خواہش کا اظہار کیا؛ یہ کتاب ’فسانۂ عجائب‘اردو کلاسیکی ادب کی نمائندہ تصنیف ہے۔

مختصر داستانوں کے سلسلے کی اس عمدہ کتاب ’فسانۂ عجائب‘کے مصنف مرزا رجب علی بیگ سرؔوراندازاً 1787ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزااصغر علی بیگ ایک عِلْم دوست معزز گھرانےکے فرد تھے۔ سرؔور نے لکھنؤ ہی میں عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم پائی اور زمانے کی روش کےمطابق فنِ خطاطی،سپہ گری اور موسیقی میں مہارت حاصل کی۔ شاعری میں وہ آغا نوازش حسین خاں نوازؔش،عرف مرزا خانی لکھنوئی کے شاگرد رہے۔رشید حسن خاں کےمطابق ’[سرورؔ کے اشعار پڑھ کر واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ معمولی درجے کے شاعر تھے اور یہ اچھا ہی ہوا کہ انہوں نے شاعری کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی‘‘

(مقدمہ،فسانہ عجائب از مرزا رجب علی بیگ سرورؔ،مدوّن رشید حسن خاں، مجلس ترقی ادب ،لاہور،2008ء،صفحہ 32)

سروؔر کے بچپن اور جوانی کے ایام آصف الدولہ (1775۔1797ء)اور سعادت علی خاں(1798۔1814ء) کے شان دار لکھنؤ میں گزرے۔’فسانۂ عجائب‘ کے دیباچےمیں اس دور کے لکھنؤ پرروشنی پڑتی ہےڈاکٹر نیّرمسعود لکھتے ہیں کہ ’’(سروؔر) نے جس انداز سے لکھنؤکے جزئیات کا تذکرہ کیا ہے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس شہرِ طرب کا بھرپور لطف اٹھایا تھا۔ ‘‘بیانِ لکھنؤ‘‘ خود بتاتا ہے کہ وہ ایسے شخص کا لکھا ہوا ہے جس نے ہر پہلو سے لکھنؤکی بھرپور سیر کی ہے۔ وہ کھانے پینے کا بہت شوقین ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ کون سی چیز کہاں اچھی بنتی ہے۔ وہ نان بائیوں اور حلوائیوں میں بہت دل چسپی رکھتا ہےاور انواع و اقسام کے فواکہات کا مزہ چکھے ہوئے ہے،میلہ ہو یا چوک کا بازار، وہ ہرجگہ دخیل ہے۔‘‘

(رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے،ڈاکٹر نیّرمسعود رضوی،شعبہ اردو،الہ آباد یونی ورسٹی الہ آباد،1967)

سروؔر کی زندگی کا یہ بےفکری کا دَور عروج پر تھا کہ غازی الدین حیدر(1814۔1827ء)کے عہدمیں وہ ایک قتل کےمقدمےمیں ملوث ہوگئےاور نواب کے حکم پرکان پور جلاوطن کیے گئے۔غازی الدین حیدر کی وفات کےبعد جب ان کا بیٹا نصیر الدین حیدر(1827۔1837) تخت نشین ہوا تو سروؔر نے نئے فرماں رواسے لکھنؤ واپسی کی درخواست کی جس میں وہ کامیاب ہوئے۔1847ء میں واجد علی شاہ کے تخت پر بیٹھنے کے ساتھ سروؔر کو دربار میں نوکری مل گئی جو سلطنت کے خاتمے (1856ء) تک جاری رہی۔ اس کے بعد سروؔر کی باقی ماندہ زندگی معاشی پریشانیوں میں کٹی۔انہوں نے زندگی کے آخری گیارہ برس بنارس میں بسر کیےاور وہیں وفات پائی۔

سرورؔ نے لمبی عمر پائی اور بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی زندگی میں بےشمار اتارچڑھاؤ آئے۔انہیں دُور و نزدیک کے سفر کرنے کا موقع ملا،بادشاہوں کے درباروں سےعوام کےبازاروں ، عِلمْ و ادب کی مجالس سے قتل کے مقدمےاور سلطنتِ اودھ کے عروج سے زوال تک سروؔر کی اپنی زندگی بھی کسی ’فسانۂ عجائب‘سےکم نہیں۔ ان کی بیشتر زندگی تصنیف و تالیف کے کام میں بسر ہوئی فسانۂ عجائب کے علاوہ ان کی تصانیف میں ’سرور سلطانی‘،’شرر عشق‘، ’شگوفۂ محبت‘، ’گلزار سرور‘، ’شبستان سرور‘اور ’انشائے سرور‘ بھی خاصی مشہور ہیں۔

جہاں تک ’فسانۂ عجائب‘ کا تعلق ہےتو گو یہ قصّہ طبع زاد تصوّر کیا جاتا ہے تاہم محققین نے اس کہانی کے نقوش اردو و فارسی کی قدیم داستانوں اور مثنویوں میں تلاش کیے ہیں۔ یوں بھی اس میں کوئی سُبکی یا شرمندگی کی بات نہیں ، ہر مصنف اور تخلیق کار کا ذہن قدیم ادبی شاہ کاروں سے متاثر ہواہی کرتا ہے۔ جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ’فسانۂ عجائب‘ نے اپنے بعد کے ادب کو کس قدر متاثر کیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ1825ء میں تخلیق ہونےوالی یہ داستان آج تک اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ہند و پاک میں اس کےلاتعداد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،منظوم صورت میں اسے پیش کیا جاچکا ہے، قصّے کو بنیاد بنا کر بہت سے ڈرامے لکھے جاچکے ہیں،کالج اور جامعات کی سطح پر اس کے اقتباس نصاب کا حصّہ اور تحقیق کا تختۂ مشق ہیں۔ ’فسانۂ عجائب‘کے کردار جانِ عالَم، انجمن آرا، ملکہ مہرنگار وغیرہ ایسی لازوال حیثیت کے حامل ہیں کہ اُن کا عکس عہدِ حاضر کے ناول اورڈراموں میں جھلکتا نظر آتا ہے۔ بیشتر قدیم داستانوں کی مانند’فسانۂ عجائب‘ کا موضوع بھی محبوب سے ملاقات اور اس کی جان کاہیوں سے متعلق ہے۔لیکن قصّہ محبوب سے ملاقات پر ٹھہرتا نہیں بلکہ یہ وصل نئی نئی مشکلات لے کر آتا ہے۔پے بہ پے آنے والے مصائب اور امتحانات سے سرخرو ہوکر گزرنے کا بیان روایتی داستانوی ادب کا خاصا ہے جو ’فسانۂ عجائب‘ میں ہمیں اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود ’فسانۂ عجائب‘ کا موضوع اور کہانی کبھی بھی اس کی حقیقی پہچان نہیں رہے۔اس قصّے کا اصل کمال تو وہ زبان اور اندازِ بیان ہے جو سرورؔ نے وضع کیا ہے اور جس کے متعلق بلا خوفِ تردید کہا جاسکتاہے کہ کم از کم اردو نثری ادب میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناقدین کی جانب سےسب سے زیادہ ’فسانۂ عجائب‘کی زبان اور طرزِ بیان کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔لیکن ہم ایک پوری تہذیب کی نمائندگی کرتے اُسلوب کو محض پیچیدہ، گراں بار اور آورد قرار دےکر ردّ نہیں کرسکتے۔ بےشک’فسانۂ عجائب‘ اپنی مقفّیٰ،مسجّع اور پُرتکلّف طرزِ تحریرنیز داستان کی روایتی سحرانگیزی کےسبب انشاپردازی کا ایک دل کَش نمونہ ہے۔ ملاحظہ ہو کہ کتاب کے آغاز میں خدا تعالیٰ کی تعریف و توصیف کس دل کش انداز میں بیان کی گئی ہے۔

’’الحمدللّٰہ الذی خلق من المآء بشرا فجعلہ نسبا و صھرا وکان ربک قدیرا۔ سزاوارِ حمد و ثنا خالقِ ارض و سما جلّ وعلی صانع بے چون وچرا۔ جس نے رنگ بےثباتی سے بایں رنگا رنگی تختہ چمن دنیا پراز لالہ و گل جزو کل بنایا اور باوجود ترس باغبان و بیم صیاد و لولہ رخ گل بلبل کو دے کر دام محبت میں پھنسایا اور عاشق باوفا و معشوق پر دغا کو ایک آب و گِل سے خمیر کرکے پردۂ غیب سے بعرصۂ شہود لایا ایک خلقت سے دو طرح کا جلوہ دکھایا اور انسان ضعیف بنیان کو اشرف المخلوقات فرمایا۔ جلوۂ حسن و بتاں بخدا شیفتگی کا بہانہ ہے۔ نالۂ بلبل شیدا گوش گل رعنا کا ترانہ ہے۔ اس کی نیرنگیوں کے مشہور فسانے ہیں۔ ہم اس کی قدرتِ کاملہ کے دیوانے ہیں صفت اس کی محال ہے۔ زبان اس کی تقریر سے لال ہے۔ جس کی شان میں فجر صادق یہ فرمائے دوسرا اس عہدے سے کب برائے۔ ماعرفنا ک حق معرفتک۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button