کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

سورۂ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہیے

ایک مرتبہ اِس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۃ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اِس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی خوبصورت اور دلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہےسُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اِس قدر لداہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں اور جب یہ عاجز اِس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اِس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اُوپر کی طرف اُڑتے ہیں اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سُندر اور تروتازہ اور خوشبودارہیں جن کےاُوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطّر ہوجاتا ہے اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنی بےمثل لذتوں کی کشش سے دُنیاو مافیہا سے نہایت درجہ کی نفرت دلاتے ہیں۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۳۹۵،حاشیہ نمبر۱۱)

سوجاننا چاہیے کہ جیسا خداوند حکیم مطلق نے گلاب کے پھول میں بدن انسان کے لئے طرح طرح کے منافع رکھے ہیں کہ وہ دل کو قوت دیتا ہے اور قویٰ اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور کئی اَور مرضوں کو مفید ہے۔ ایسا ہی خداوند کریم نے سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح روحانی مرضوں کی شفا رکھی ہے اور باطنی بیماریوں کا اس میں وہ علاج موجود ہے کہ جو اس کے غیر میں ہرگز نہیں پایا گیا۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۴۰۵ حاشیہ نمبر ۱۱)

سورۃ فاتحہ اور قرآنِ شریف میں ایک اور خاصہ بزرگ پایا جاتا ہے کہ جو اسی کلام پاک سے خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے اور سینے کو منشرح کرتا ہے اور طالبِ حق کو حضرتِ احدیّت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقرّبان حضرتِ احدیت میں ہونی چاہئے اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔

(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۴۰۲ حاشیہ نمبر ۱۱)

فاتحہ فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے۔یعنی دونو میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی،سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے۔ اس لئے سورۂ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہیے اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے۔انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بنا وے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے۔اسی طرح سے چاہیے کہ پوری تضرّع اور ابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے۔پس جب تک نماز میں تضرّع سے کام نہ لے اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے نماز میں لذت کہاں۔

(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱۴۵-۱۴۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button