خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جون ۲۰۲۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن،لندن یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:بدری صحابہؓ کی سیرت کے پہلو اور ان کا تعارف اور ان کی قربانیاں مَیں ایک سلسلہ ٔخطبات میں بیان کرتا رہا ہوں۔ بہت سے لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا اور مجھے لکھا کہ اگر آنحضرت ﷺ کی سیرت نہ بیان کی جائے تو تشنگی رہ جائے گی کیونکہ اصل محور تو آپ ﷺ کی ذات تھی جس کے گرد صحابہؓ گھومتے تھے۔ جس کے ساتھ جڑ کر صحابہؓ نے قربانیاں کرنے کے بے مثال معیار حاصل کیے اور نئے نئے اسلوب سیکھے اور توحید کو پھیلانے اور خود اس کا عملی نمونہ بننے کے وہ معیار قائم کیے جو آپ ﷺ کی قوتِ قدسی اور اللہ تعالیٰ کے خاص محبوب ہونے کا ثبوت ہے۔ پس آپؐ کی سیرت کا بیان بھی ضروری ہے۔آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف وقتوں میں گذشتہ سالوں میں خطبات دیے بھی گئے ہیں لیکن بہرحال آپﷺکی سیرت ایسی ہے کہ اس کے بیان کو محدود نہیں کیا جا سکتا… اس وقت مَیں جنگِ بدر کے حوالے سے آپ ﷺ کی سیرت کے پہلو اور تاریخ کے واقعات بیان کروں گا اور یہ سلسلہ آئندہ کچھ خطبات میں بھی چلے گا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگِ بدرکےاسباب کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:جنگِ بدر کے اسباب بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’آنحضرتﷺ کی مکی زندگی میں جو جو مظالم قریش نے مسلمانوں پر کئے اور جو جو تدابیر اسلام کو مٹانے کی انہوں نے اختیار کیں وہ ہر زمانہ میں ہر قسم کے حالات کے ماتحت کسی دو قوموں میں جنگ چھڑ جانے کا کافی باعث ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ سخت تحقیر آمیز استہزا اور نہایت دلآزار طعن وتشنیع کے علاوہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو خدائے واحد کی عبادت اور توحید کے اعلان سے جبراً روکا۔ ان کو نہایت بے دردانہ طورپر مارا اور پیٹا۔ ان کے اموال کو ناجائز طور پر غصب کیا۔ ان کا بائیکاٹ کر کے ان کو ہلاک وبرباد کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے بعض کو ظالمانہ طور پر قتل کیا۔ ان کی عورتوں کی بےحرمتی کی۔ حتی ٰکہ ان مظالم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے لیکن قریش نے اس پر بھی صبر نہ کیا اورنجاشی کے دربار میں اپنا ایک وفد بھیج کر یہ کوشش کی کہ کسی طرح یہ مہاجرین پھر مکہ میں واپس آ جائیں اور قریش انہیں اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور یا ان کا خاتمہ کر دیا جاوے۔ پھر مسلمانوں کے آقا اور سردار کو جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے سخت تکالیف پہنچائی گئیں اور ہر قسم کے دکھوں میں مبتلا کیا گیا اور قریش کے بھائی بندوں نے طائف میں خدا کا نام لینے پر آپؐ پر پتھر برسا دئیے حتیٰ کہ آپؐ کابدن خون سے تربتر ہو گیا اور بالآخر مکہ کی قومی پارلیمنٹ میں سارے قبائلِ قریش کے نمائندوں کے اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محمد رسول اللہﷺکوقتل کر دیا جاوے تاکہ اسلام کا نام ونشان مٹ جائے اور توحید کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو اورپھر اس خونی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نوجوانانِ مکہ جو مختلف قبائل قریش سے تعلق رکھتے تھے رات کے وقت ایک جتھہ بنا کر آپؐ کے مکان پر حملہ آور ہوئے لیکن خدا نے آپؐ کی حفاظت فرمائی اور آپؐ ان کی آنکھوں پرخاک ڈالتے ہوئے اپنے مکان سے نکل آئے اور غارِثور میں پناہ لی۔ کیا یہ مظالم اور یہ خونی قراردادیں قریش کی طرف سے اعلانِ جنگ کا حکم نہیں رکھتیں؟ کیا ان مناظرکے ہوتے ہوئے کوئی عقل مند یہ خیال کرسکتا ہے کہ قریش مکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار نہ تھے؟ پھر کیا قریش کے یہ مظالم مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگ کی کافی بنیاد نہیں ہو سکتے تھے؟ کیا دنیا میں کوئی باغیرت قوم جو خودکشی کا ارادہ نہ کر چکی ہو ان حالات کے ہوتے ہوئے اس قسم کے الٹی میٹم کے قبول کرنے سے پیچھے رہ سکتی ہے جو قریش نے مسلمانوں کو دیا؟ یقیناً یقیناً اگر مسلمانوں کی جگہ کوئی اَور قوم ہوتی تووہ اس سے بہت پہلے قریش کے خلاف میدانِ جنگ میں اتر آتی مگر مسلمانوں کو ان کے آقا کی طرف سے صبر اور عفو کاحکم تھا۔ جب مکہ میں قریش کے مظالم بہت بڑھ گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف اور دوسرے صحابہؓ نے آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کے مقابلہ کی اجازت چاہی مگر آپؐ نے فرمایا اِنِّی اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا یعنی مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے اس لئے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ چنانچہ صحابہؓ نے دین کی راہ میں ہرقسم کی تکلیف اورذلت برداشت کی مگر صبر کے دامن کونہ چھوڑا حتیٰ کہ قریش کے مظالم کاپیالہ لبریز ہوکر چھلکنے لگ گیا اور خداوند عالم کی نظر میں اتمام حجت کی میعاد پوری ہو گئی۔ تب خدا نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ تُو اِس بستی سے نکل جاکہ اب معاملہ عفو کی حد سے گزر چکا ہے اوروقت آگیا ہے کہ ظالم اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔پس آنحضرت ﷺ کی یہ ہجرت قریش کے الٹی میٹم کے قبول کئے جانے کی علامت تھی اور اس میں خدا کی طرف سے اعلانِ جنگ کا ایک مخفی اشارہ تھا جسے مسلمان اور کفار دونوں سمجھتے تھے چنانچہ دارالندوہ ’’جو خانہ کعبہ کے قریب قریش کے مشورہ کی جگہ تھی‘‘ کے مشورہ کے وقت جب کسی شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ آنحضرت ﷺ کومکہ سے نکال دیا جاوے تو رؤسائے قریش نے اس تجویز کو اسی بنا پر رد کردیا تھا کہ اگر محمد (ﷺ) مکہ سے نکل گیا تو پھر ضرور مسلمان ہمارے الٹی میٹم کوقبول کرکے ہمارے خلاف میدان میں نکل آئیں گے اور مدینہ کے انصار کے سامنے بھی جب بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی ہجرت کا سوال آیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں تمام عرب کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہو جانا چاہئے اور خود آنحضرت ﷺ جب مکہ سے نکلے اور آپؐ نے مکہ کے درودیوار پرحسرت بھری نگاہیں ڈال کر فرمایا کہ اے مکہ! تومجھے ساری بستیوں سے زیادہ عزیز تھا مگر تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے تواس پر حضرت ابوبکرؓ نے بھی یہی کہا کہ انہوں نے خدا کے رسول کو اس کے وطن سے نکالا ہے اب یہ لوگ ضرور ہلاک ہوں گے۔

سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکےکفارکےمظالم کےخلاف مکہ میں تلوارنہ اٹھانے کی کیاوجوہات بیان فرمائیں؟

جواب: فرمایا: (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں) جب تک آنحضرت ﷺ مکہ میں مقیم رہے آپؐ نے ہرقسم کے مظالم برداشت کئے لیکن قریش کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی کیونکہ اوّل تو پیشتر اس کے کہ قریش کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی سنت اللہ کے مطابق ان پر اتمامِ حجت ضروری تھا اور اس کے لئے مہلت درکار تھی۔ دوسرے خدا کایہ بھی منشاء تھا کہ مسلمان اس آخری حد تک عفو اور صبر کانمونہ دکھلائیں کہ جس کے بعد خاموش رہنا خودکشی کے ہم معنی ہو جاوے جو کسی عقل مند کے نزدیک مستحسن فعل نہیں سمجھا جا سکتا۔ تیسرے مکہ میں قریش کی ایک قسم کی جمہوری حکومت قائم تھی اور آنحضرتﷺاس کے شہریوں میں سے ایک شہری تھے۔ پس حسنِ سیاست کاتقاضا تھا کہ جب تک آپؐ مکہ میں رہیں آپؐ اس حکومت کا احترام فرمائیں اور خود کوئی امن شکن بات نہ ہونے دیں اورجب معاملہ عفو کی حد سے گزر جاوے تو آپؐ وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ چوتھے یہ بھی ضروری تھا کہ جب تک خدا کی نظر میں آپؐ کی قوم اپنی کارروائیوں کی وجہ سے عذاب کی مستحق نہ ہو جاوے اوران کو ہلاک کرنے کا وقت نہ آ جاوے آپؐ ان میں مقیم رہیں اورجب وہ وقت آ جاوے توآپ وہاں سے ہجرت فرما جائیں کیونکہ سنت اللہ کے مطابق نبی جب تک اپنی قوم میں موجود ہو ان پر ہلاک کر دینے والا عذاب نہیں آتا۔ اورجب ہلاکت کاعذاب آنے والا ہو تو نبی کووہاں سے چلے جانے کا حکم ہوتا ہے۔ ان وجوہات سے آپؐ کی ہجرت اپنے اندر خاص اشارات رکھتی تھی مگر افسوس کہ ظالم قوم نے نہ پہچانا اور ظلم وتعدّی میں بڑھتی گئی ورنہ اگراب بھی قریش باز آ جاتے اوردین کے معاملہ میں جبر سے کام لینا چھوڑ دیتے اور مسلمانوں کو امن کی زندگی بسر کرنے دیتے تو خدا ارحم الراحمین ہے اوراس کا رسول بھی رحمة ٌللعالمین تھا یقیناً اب بھی انہیں معاف کردیا جاتا اور عرب کو وہ کشت وخون کے نظارے نہ دیکھنے پڑتے جواس نے دیکھے مگر تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی ہجرت نے قریش کی عداوت کی آگ پر تیل کا کام دیا اور وہ آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

سوال نمبر۴ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکی مدینہ ہجرت کےبعدقریش کےطرزِعمل کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: جب آنحضرت ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے چلے آئے تو قریش نے مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے نام ایک دھمکی آمیز خط لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی کو پناہ دی ہے اور ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور تم اس سے جنگ کرو یا اسے جلا وطن کر دو یا ہم سب متحد ہو کر تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے جنگجوؤں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے ماتحت کر لیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو ملا تو وہ نبی ﷺ سے جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ جب آپ ﷺ کو اس بات کی اطلاع ملی تو آپؐ ان سے ملے اور فرمایا قریش نے جو دھمکی تمہیں دی ہے وہ تمہارے خیال میں بہت بڑی دھمکی ہے حالانکہ وہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جس قدر تم خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لو گے۔ تم چاہتے ہو کہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرو۔ کیونکہ ان میں سے بہت سے مسلمان ہو چکے تھے۔ جب یہود نے نبی ﷺ سے یہ باتیں سنیں تو وہ تو اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس کو چھوڑ گئے۔اسی طرح قریش مکہ نے قبائل عرب کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ان کو اکسانا شروع کیا۔چنانچہ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’پھر اسی پر بس نہیں بلکہ جب قریش نے دیکھا کہ اوس وخزرج مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار نہیں ہوتے اور اندیشہ ہے کہ اسلام مدینہ میں جڑ نہ پکڑ جاوے تو انہوں نے دوسرے قبائل عرب کا دورہ کر کر کے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور چونکہ بوجہ خانہ کعبہ کے متولی ہونے کے قریش کا سارے قبائل عرب پر ایک خاص اثر تھا اس لئے قریش کی انگیخت سے کئی قبائل مسلمانوں کے جانی دشمن بن گئے اورمدینہ کایہ حال ہو گیا کہ گویا اس کے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔‘‘

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہجرت کےبعدمدینہ کےاندرونی حالات کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:اس بارے میں مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’مدینہ کے اندر یہ حالت تھی کہ ابھی تک ایک معتدبہ حصہ اوس وخزرج کاشرک پرقائم تھا اورگووہ بظاہر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ تھے لیکن ان حالات میں ایک مشرک کاکیا اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ پھر دوسرے نمبر پر منافقین تھے جو بظاہر اسلام لے آئے تھے مگر درپردہ وہ اسلام کے دشمن تھے اور مدینہ کے اندر ان کا وجود خطرناک احتمالات پیدا کرتا تھا۔ تیسرے درجہ پر یہود تھے جن کے ساتھ گو ایک معاہدہ ہو چکا تھا مگر ان یہود کے نزدیک معاہدہ کی کوئی قیمت نہ تھی۔ غرض اس طرح خود مدینہ کے اندر ایسا مواد موجود تھا جو مسلمانوں کے خلاف ایک مخفی ذخیرۂ بارود سے کم نہ تھا اور قبائل عرب کی ذرا سی چنگاری اس بارود کو آگ لگانے اور مسلمانانِ مدینہ کو بھک سے اڑا دینے کے لئے کافی تھی۔ اس نازک وقت میں جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت ﷺ پرخدا کی وحی نازل ہوئی کہ اب تمہیں بھی ان کفار کے مقابلہ میں تلوار استعمال کرنی چاہئے جو تمہارے خلاف تلوار لے کر سراسر ظلم وتعدی سے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اورجہاد بالسیف کااعلان ہو گیا۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button