اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق،حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نمازپر کاربند ہو جائو
ترکِ نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے تو روح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح (جس کی شاخیں ابتداءً ایک طرف کر دی جاویں اور اس طرف جھک کر پر ورش پالیں) ادھر ہی جھکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدّد اس کے دل میں پیداہو کر اسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے۔ جیسے وہ شاخیں۔ پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتا۔ اسی طرح پر دل اور رُوح دن بدن خدا تعالیٰ سے دُور ہوتی جاتی ہے۔ پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے۔ اسی لئے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تاکہ اوّلًاوہ ایک عادتِ راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو۔ پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خود آجاتا ہے جبکہ انقطاعِ کلّی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وارث ہو جاتا ہے۔میں اس امرکو پھر تاکید سے کہتا ہوں افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے جس میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بُرا ئیاں بیان کرسکوں۔ لوگوں کے پاس جا کر منّت خوشامد کرتے ہیں۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے۔کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے۔پس وہ اُس سے ہٹتا اور اُسے دُور پھینک دیتاہے۔ میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آ سکتا ہے کہ جیسے ایک مردِ غیورکی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیداکرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مر د ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا۔ بلکہ بسا اوقات ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے۔ عبودیت اور دعا خاص اسی ذات کے مدّ مقابل ہیں۔ وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اَور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکارا جاوے۔پس خوب یاد رکھو !اور پھریاد رکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے۔ نماز اور توحید کچھ ہی کہو۔کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے۔ اُس وقت بے برکت اور بےسُود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلّل کی رُوح اورحنیف دل نہ ہو۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۶۶-۱۶۷، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کار بند نہیں ہوتا اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی۔ اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجو ع کرکے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور سرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا۔ مداراسی بات پر ہے کہ جب تک برے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں، انانیت اور شیخی دُور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچابندہ نہیں کہلا سکتا اورعبودیتِ کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلّم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے۔
میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق، حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نمازپر کاربند ہو جائو۔ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۷۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)