کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا تعالیٰ قدوس ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ ناپاکی کی راہیں اختیار کریں

قرآن شریف کی رُو سے خدا کے غضب کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ انسان کی طرح اپنی حالت میں ایک مکروہ تغیر پیدا کرکے خشم ناک ہو جاتا ہے کیونکہ انسان توغضب کے وقت میں ایک رنج میں پڑجاتا ہے اور اپنی حالت میں ایک دُکھ محسوس کرتا ہے اور اس کا سرور جاتا رہتا ہے مگر خدا ہمیشہ سرور میں ہے اُس کی ذات پر کوئی رنج نہیں ہوتا بلکہ اس کے غضب کے یہ معنی ہیں کہ وہ چونکہ پاک اور قدوس ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے بندے ہوکر ناپاکی کی راہیں اختیار کریں اور تقاضا فرماتا ہے کہ ناپاکی کو درمیان سے اُٹھا دیا جاوے پس جو شخص ناپاکی پر اصرار کرتا ہے آخر کار وہ خدا ئے قدوس اپنے فیض کو جو مدار حیات اور راحت اور آرام ہے اس سے منقطع کر لیتا ہے اور یہی حالت اُس نافرمان کے لئے موجب عذاب ہو جاتی ہے۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۶۳)

میرا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ مَیں تمہیں یہ بتائوں کہ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی کے درجہ پر جب تک انسان نہ پہنچے۔ اس وقت تک اُسے پیشگوئی کی قوّت نہیں مل سکتی۔ اور یہ درجہ اُس وقت حاصل ہوتا ہے، جبکہ انسان قربِ الٰہی حاصل کرے۔ قربِ الٰہی کے لیے یہ ضروری بات ہے کہ تَخَلَّقُوا بِاَخْلاَقِ اللّٰهِپر عمل ہو، کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کو ملحوظ خاطررکھ کر اُن کی عزت نہ کرے گا اور اُن کا پرتواپنی حالت اور اخلاق سے نہ دکھائے۔ وہ خداکے حضور کیونکر جاسکتا ہے۔ مثلاً خدا کی ایک صفت قُدُّوْس ہے۔پھر ایک ناپاک، غلیظ، ہر قسم کے فسق وفجور کی ناپاکی میں مبتلا انسان اللہ تعالیٰ کے حضور کیونکرجاسکتا ہے اور وہ خداتعالیٰ سے تعلق کیونکر پیداکرسکتا ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۷۵-۲۷۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

خدا کا کلام جو خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ امر اللہ ہے جو ایک وہبی اور لدنّی امر ہے۔ خدا کی کلام کے لئے یہ شرط ضروری ہے کہ جیسے خدا اپنی ذات میں سہو اور خطا اور کذب اور فضول اور ہریک نقصان اور نالائق امر سے منزہ ہے۔ ایسا ہی اس کا کلام بھی ہریک سہو اور خطا اور کذب اور فضول اور ہر طرح کے نقصان اور نالائق حالت سے منزہ اور پاک چاہئے۔ کیونکہ جو کلام پاک اور کامل چشمہ سے نکلا ہے۔ اس پر ہرگز یہ بات جائز نہیں کہ کسی نوع کی اس میں ناپاکی یا نقصان پایا جاوے اور ضرور ہے کہ وہ کلام ان تمام کمالات سے متصف ہو کہ جو خدائے قادر و کامل و قدوس و عالم الغیب کے کلام میں ہونی چاہئے۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۳۸۳ بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱)

خداتعالیٰ اگرچہ قدوس ہے لیکن بغیر نازل کرنے اپنے قانون کے کسی کو مواخذہ نہیں کرتا اور یہ بھی بات ہے کہ وہ بجز اس کے کہ بالذات یہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس سے شرک نہ کرے اور کوئی اس کا نافرمان نہ ہو اور کوئی اس کے وجود سے انکار نہ کرے اور اقسام کے معاصی کو حقیقی معصیت بجز احکام نازل کرنے کے نہیں قرار دیتا۔

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۲۵۳)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button