اب مسلمانوں کے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بناویں
یاد رہے کہ نکاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی کی اور نیز مرد کی بھی رضا مندی لی جاتی ہے لیکن جس حالت میں ایک عورت اپنی آزادی کے حقوق کھو چکی ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ وہ ان ظالم طبع جنگجو لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں پر بےجا ظلم کئے ہیں تو ایسی عورت جب گرفتار ہو کر اپنے اقارب کے جرائم کی پاداش میں لونڈی بنائی گئی تو اس کی آزادی کے حقوق سب تلف ہوگئے لہٰذا وہ اب فتحیاب بادشاہ کی لونڈی ہے اور ایسی عورت کو حرم میں داخل کرنےکے لئے اس کی رضا مندی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے جنگجو اقارب پر فتحیاب ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں لانا یہی اس کی رضا مندی ہے۔ یہی حکم توریت میں بھی موجود ہے ہاں قرآن شریف میں فَکُّ رَقَبَۃٍ یعنی لونڈی غلام کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام بیان فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو رغبت دی ہے کہ اگر وہ ایسی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کردیں تو خدا کے نزدیک بڑا اجر حاصل کریں گے۔ اگرچہ مسلمان بادشاہ ایسے خبیث اور چنڈال لوگوں پر فتح یاب ہو کر غلام اور لونڈی بنانے کا حق رکھتا ہے مگر پھر بھی بدی کے مقابل پر نیکی کرنا خدا نے پسند فرمایا ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اور زیادتی کاطریق چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے اب مسلمانوںکے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بناویں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو۔ پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بناویں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ ۲۵۳،حاشیہ)