متفرق مضامین

اطاعت امام میں معروف کی شرط کا مطلب اورحکمت

(’ایچ ایم طارق‘)

اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہوا ہےاور ان شاءاللہ قیامت تک قائم رہے گا۔ ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے رہے ہیں اور ان شا ءاللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں

اطاعت کامیابی کا راز

کسی بھی نظام کی کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہوتاہے کہ اس میں شامل افراد کس قدر جذبۂ اخلاص واطاعت اور تعاون سے اس میں شامل ہوتےہیں۔ دنیا میں چھوٹے خاندانی یونٹ سےلےکر شہری اور ملکی سطح تک جس طرح یہ اصول کارفرما نظرآتا ہےاسی طرح دینی یا دنیوی نظام میں بھی یہ کارگر ہےاسی لیے مومنوں کو احکام الٰہی میں جس امر کی طرف سب سے بڑھ کر توجہ دلائی گئی وہ’’اطاعت‘‘ہے۔ دینی اور دنیوی حکام کی کامل اطاعت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کى اطاعت کرو اور رسول کى اطاعت کرو اور اپنے حکام کى بھى اور اگر تم کسى معاملہ مىں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو اىسے معاملے اللہ اور رسول کى طرف لَوٹا دىا کرو اگر (فى الحقىقت) تم اللہ پر اور ىومِ آخر پر اىمان لانے والے ہو ىہ بہت بہتر (طرىق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔‘‘( النساء: 60)

معروف کی تعیین امام کا حق

اس آیت میں واضح فرمادیا کہ اگر حکم کی اطاعت میں کوئی تنازعہ ہو کہ مثلاً وہ معروف ہے یا نہیں اس کا آخری فیصلہ بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے فیصلہ کی روشنی میں ہوگا۔ سورۃ الممتحنہ میں اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق مومن عورتوں کی شرائط بیعت کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ’’اے نبى! جب مومن عورتىں تىرے پاس آئىں (اور) اس (امر) پر تىرى بىعت کرىں کہ وہ کسى کو اللہ کا شرىک نہىں ٹھہرائىں گى اور نہ ہى چورى کرىں گى اور نہ زنا کرىں گى اور نہ اپنى اولاد کو قتل کرىں گى اور نہ ہى (کسى پر) کوئى جھوٹا الزام لگائىں گى جسے وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے سامنے گھڑ لىں اور نہ ہى معروف (امور) مىں تىرى نافرمانى کرىں گى تو تُو اُن کى بىعت قبول کر اور اُن کےلئے اللہ سے بخشش طلب کر ىقىناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘‘(الممتحنة:13)

اس جگہ شرک، چوری، زنا، بہتان تراشی وغیرہ منکر امورسے بچنے کےساتھ معروف احکام کی نافرمانی نہ کرنے کا بھی حکم ہےاور مطلب یہ ہے کہ ان سب ’’منکر‘‘ گناہوں کو چھوڑنے کا عہدعورتیں کریں۔ صرف وہی کافی نہیں بلکہ امام کی معروف باتوں کو ماننا بھی بیعت کا حصہ ہے۔ اور معروف باتوں میں اللہ اور رسول کے وہ تمام دینی احکام ہیں جو انسان کی بھلائی کےلیے دیے ہیں۔ اور عرفاً بھی کوئی ان کو منکر نہیں کہہ سکتا۔

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’غیر معروف وہ ہے جو واضح طورپر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍نومبر2003ءصفحہ5)

رسول کریمﷺ نےبھی معروف احکام کی اطاعت کی وضاحت کرتے ہوئےفرمایاکہ ہر مسلمان پر بات سننا اورماننا فرض ہے خواہ اسے کوئی حکم اچھا لگے یابرا لگے سوائے اس کے کہ وہ ایسی بات کا حکم ہوجس میں خدا اور رسول کےکسی حکم یا کسی افسر کے حکم کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ اگروہ ایسی نافرمانی کاحکم دیں توپھر اس میں ان کی اطاعت فرض نہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع و الطاعۃ الامام)

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت (کا حکم ) توصرف معروف میں ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب سریہ عبد اللہ بن حذافہؓ روایت نمبر: 4340)

اس حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ معروف حکم کی اطاعت کی شرط خالق اور مخلوق کے فرق کی خاطرہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت غیر مشروط ہے جبکہ بندوں کی اطاعت کےلیے یہ اصولی ارشاد ہے: لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِيةِ الْخَالِقِ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 131)کہ مخلوق کی اطاعت خالق کی معصیت کرکے نہیں کی جاسکتی۔ معروف حکم کی اطاعت کی شرط سے ہرگز یہ مقصود نہیں کہ معاذ اللہ نبی یا خلیفہ غیر معروف حکم بھی دے سکتے ہیں کیونکہ تاریخ انبیاء میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کیونکہ خدانےانبیاءو خلفاءکو اس مقدس منصب پر فائز فرمایا ہے۔ وہ انہیں اس کی اجازت بھی کیسے دے سکتا ہے جواس بات پر قادر ہے کہ ان کے ایسے کسی غیر معروف حکم سے پہلے انہیں اپنے پا س بلالے۔

دوسرے معروف اطاعت میں مومنوں کو یہ تحریک کرنی بھی مقصود ہے کہ منکر باتوں کو چھوڑنے کے ساتھ دراصل امام کی سب معروف باتوں کو ماننا بیعت کے تقاضے پورے کرنا ہے۔

عربی لغت میں معروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہے اور منکر ہر اس بات کو کہا جائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بُری ہو۔ (مفردات امام راغب)

غیر معروف حکم کی مثال

حضرت علیؓ سے روایت ہے، انہوں نےکہا کہ نبیﷺ نے ایک دستہ فوج بھیجا اور انصار میں سے ایک شخص کو سردار مقرر کیا اور آپ نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی فرمانبرداری کریں۔ ایک دفعہ وہ (انصاری امیر) ناراض ہوا اور کہنے لگا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو حکم نہیں دیا کہ تم نے میری فرمانبر داری کرنی ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، بےشک دیا ہے۔ تب اس نے کہا: میرے لیے جلانے کی لکڑیاں اکٹھی کرو۔ انہوں نے اکٹھی کیں۔ پھر اس نے کہا: آگ جلاؤ اور انہوں نے آگ جلائی۔ پھر کہا: اس میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے ارادہ کیا مگر وہ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور کہنے لگے: ہم آگ سے بھاگ کر نبیﷺ کے پاس آئےتھے ( کہ قیامت کے دن آگ سے بچیں )۔ خیر وہ یہی کہتے رہے یہاں تک کہ آگ بجھ گئی اور انصاری امیر کا غصہ بھی فرو ہو گیا۔ یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی۔ آپ نے فرمایا: اگر اس میں داخل ہوتے تو قیامت تک نہ نکلتے ؛ اور (فرمایا: ) اطاعت تو معروف بات میں ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب سریۃ عبد اللّٰہ بن حذافہ السھمی و علقمۃ بن مجزز المدلجی)

اس مثال سے صاف ظاہر ہے کہ غیر معروف حکم وہ ہوگاجو واضح طور پر اللہ اور رسولؐ کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اپنے آپ کو خود ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (البقرة: 196)اس کے خلاف اگر امیر حکم دیتا ہے کہ بے مقصد آگ میں کود کر ہلاک ہوجاؤ تو یہ جائز نہیں۔ خصوصاً جبکہ خودکشی اسلام میں حرام ہے اور نبی یا خلیفہ کبھی ایسا حکم نہیں دیتا۔ ماسوا ان احکام کے جو انسان کے جسمانی اور اخلاقی و روحانی فائدہ کےلیے ہوتے ہیں نہ کہ نقصان دہ۔

ارشادحضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام یَاْ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (الاعراف 158)کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہےجن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پا ک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتاہے اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 420)

ارشادات خلفائے سلسلہ احمدیہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ خلیفہ کی معروف اطاعت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے۔ یہ لفظ نبی کریمﷺ کے لئے بھی آیا ہے۔ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوْفٍ۔ (الممتحنہ:13)اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔ اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے۔ اس میں ایک سرّ ہے۔ میں تم میں سے کسی پر ہر گز بد ظن نہیں۔ میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھوکہ نہ لگ جائے‘‘(خطبات نور صفحہ 420تا421)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کے متعلق بعض منافقین نے یہ سوال اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ آپؑ کے صرف اس حکم کو ماننا ضروری ہے جو اللہ نے الہاماً فرمایا ہو۔ باقی امور میں صرف معروف کی اطاعت لازم ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اگر رسول کے ہر ایک حکم کی اطاعت کرنا ضروری نہیں تو خدا تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا ہےکہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰهِ (النساء: 65) اگر رسول کےاُس حکم کو ماننا تھا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے آئے تو یوں کہنا چاہئے تھا کہ ہم جو حکم دیتے ہیں اس لئے دیتے ہیں کہ لوگاس کو مانیں۔ رسول کی اطاعت پر زور دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ اطاعت اس اطاعت کے علاوہ ہے جو رسولوں کے الہامات میں ہوتی ہے۔ یہاں جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰهِ اس سے رسول کے احکام کی اطاعت مراد ہے۔

ہماری جماعت کے لوگوں کو اس بات سے بہت ہوشیار رہنا چاہئے یہ ایک سخت گستاخی کا کلمہ ہےاس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور باتیں جانے دو تم لوگوں نے کم از کم یہ تو بیعت میں اقرار کیا ہوا ہے کہ امر بالمعروف کی اطاعت کریں گے۔ اب دو ہی باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہر ایک حکم معروف ہے۔ دوسرے یہ کہ نہیں۔ اگر نہیں تو ماننا پڑے گا کہ خدا نے ایسا مسیح موعود بھیجا ہے جس کو امر بالمعروف کا بھی پتہ نہیں …یہ ناممکن ہے کہ نبی امر بالمعروف کے خلاف کوئی بات کہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جولائی 1915ءمطبوعہ خطبات محمودجلد4صفحہ410)

اسی طرح حضورؓ نے فرمایا: ’’اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرے کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے، اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوئوں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے، اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتاہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍اگست1937ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 18صفحہ 367)

یہی مضمون بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ ا لمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’پس جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات سے پرے نہیں ہٹتا توخلیفہ بھی جو نبی کے بعد اس کے مشن کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر ہوتاہے۔ وہ بھی اسی تعلیم کو، انہیں احکامات کو آگے چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچائےاور اس زمانے میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت کر کے ہمیں بتائے۔ تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہوچکا ہےاور انشا ءاللہ قیامت تک قائم رہے گا۔ ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے رہے ہیں اور انشا ءاللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں۔‘‘ (شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں، صفحہ 172،ایڈیشن2007ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز دسویں شرط بیعت میں طاعت در معروف کے الفاظ کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس نظام میں شامل ہو کر ایک بھائی چارے کارشتہ مجھ سے قائم کر رہے ہو…یہاں برابری کا تعلق اور رشتہ قائم نہیں ہو رہا بلکہ تم اقرار کر رہے ہو کہ …سر بلندی اور اسلام کواکناف عالم میں پہنچانے کے لئے پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہو سکتا ہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اورپھر اس عہدکومرتے دم تک نبھاؤ اورپھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روزپہلے سے بڑھ کرمضبوطی آنی چاہئے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ اس کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے، تعلق، دوستیاں ہیچ ثابت ہوں۔ ایسا بے مثال اورمضبوط تعلق ہو کہ اس کےمقابل پر تمام تعلق اور رشتے بےمقصد نظر آئیں …رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو، کبھی مانو اورکبھی منواؤ کا اصول بھی چل جاتا ہے۔ تویہاں یہ واضح ہو کہ تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ تم نے یہ اطاعت بغیر چون چرا کئےکرنی ہے۔‘‘(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں، صفحہ 167۔168، ایڈیشن2007ء)

پھر فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اورکبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا …پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرکے خود ٹھوکر نہ کھاجائے۔اپنی عاقبت خراب نہ کرلے۔ پس دعائیں کرتے ہوئے اوراس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کےآستانہ پر پڑے رہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍مئی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍جون 2004ء صفحہ 9)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت احمدیہ کےساتھ چمٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور خلیفہ وقت کےتمام فیصلوں کو اسی طرح سمجھنےاور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےجس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button