متفرق مضامین

براہین احمدیہ کے مطالعہ سے احمدیت قبول کرنے والے احباب کی ایمان افروز سرگزشت

(فرخ سلمانی)

یہ محض ایک کتاب نہیں صور اسرافیل تھا جس نے مردوں کو جگا دیا ایک پیغام تھا جس نے بے سمت لوگوں کو منزل دکھائی بجلی کا کڑکا تھا جس نے گمراہوں کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیا ایک شور قیامت تھا جس نے خفتگان کو خواب ہستی سے بیدار کر دیا اس نے سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچا اور اللہ اور رسول ﷺ کا والہ و شیدا بنا دیا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گا

آغاز جوانی میں حضرت مسیح موعودؑکو بذریعہ کشف خبردی گئی کہ قطبی نام کی ایک کتاب لکھنا آپ کے لیے مقدر ہے۔اور قطبی لفظ میں یہ حکمت ہے کہ وہ اپنے مضبوط دلائل اور مستحکم اور غیر متزلزل براہین کی وجہ سے ستارہ کی طرح افق پرطلوع ہو گی اور دنیا بھر کو سچے دین کی طرف راہنمائی کرنے کا موجب بنے گی ۔حضور ؑکا یہ رؤیا براہین احمدیہ کی اشاعت کی شکل میں پورا ہوا۔اس کتاب نے ایک نئےعلم کلام کی بنیاد ڈالی اور حضرت مسیح موعودؑکی سات درجن کتب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اس بے نظیر کتاب نے حضرت مسیح موعودؑکے عشاق کی ایک جماعت تیار کی۔ ان میں سے چند ایسے بزرگوں کے واقعات پیش خدمت ہیں جنہوں نے اس کتاب کے مطالعہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی سعادت پائی۔

پہچان لیا

حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول ؓکا حضرت مسیح موعودؑسے ابتدائی غائبانہ تعارف اس وقت ہوا جب آپ جموں میں تھے ضلع گرداسپور کے ایک باشندہ شیخ رکن الدین صاحب نے آپ کو بتایا کہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی حمایت میں رسالہ لکھا ہے ان دنوں براہین احمدیہ شائع ہو رہی تھی۔حضرت مولوی صاحب ؓ نے یہ سن کر حضور کی خدمت میں خط لکھ کر کتابیں منگوائیں اور ان کے آنے پر جموں میں حضور کا چرچا شروع ہوگیا۔( تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 100)

اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ پہلا اشتہار ملا جو حضور علیہ السلام نے اپنے دعویٰ ماموریت کے بعد نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کے لیے ایشیا، امریکہ اور یورپ کے تمام مذہبی عمائدین اور مفکرین کو بھجوایا تھا تو آپ جموں سے قادیان پہنچے اور خدا کے اس برگزیدہ کو پہچان لیا۔( الحکم 22؍اپریل1908ء)آپ خود اپنی ایک عربی تحریر میں فرماتے ہیں: ’’مجھے ایک ایسے کامل مرد کے دیکھنے کا انتہائی شوق تھا جو یگانہ روزگار ہو اور میدان میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے کھڑا ہونے والا ہو…مجھے نہایت طلب اور جستجو تھی اور میں صادقوں کی ندا کا منتظر تھا اسی اثناءمیں مجھے حضرت السید الاجل اور بہت ہی بڑے علامہ اس صدی کے مجدد،مہدی زمان، مسیح دوراں اور مؤلف براہین احمدیہ کی طرف سے خوشخبری ملی میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے فوراً مان لیا کہ یہی موعود حکم و عدل ہے اور یہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کے لیے مقرر فرمایا ہے میں نے فورا ًاللہ تعالیٰ کے حضور لبیک کہا اور اس عظیم الشان احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر گیا۔‘‘ (بحوالہ کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 151)

دوربین نگاہ

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کو جب پہلی مرتبہ براہین احمدیہ کی زیارت نصیب ہوئی تو وہ اپنی دوربین نگاہ سے حضرت مسیح موعودؑکا مقام اور اعلیٰ مرتبہ فوراً بھانپ گئے اور ہزاروں جان سے فریفتہ ہو کر پکار اٹھے۔

ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لئے

حضرت صوفی احمد جان صاحب نے اشتہار واجب الاظہار کے نام سے مفصل ریویو شائع کیا اور بڑے پر شوکت انداز میں اپنے تاثرات سپرد قلم کیے۔ اگر چہ آپ سلسلہ بیعت سے قبل وفات پا گئے تھے مگر حضرت اقدسؑ نے آپ کا نام اپنے عقیدت مندوں کی فہرست میں مندرجہ ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا۔حضرت صوفی احمد جان صاحب نے براہین احمدیہ کی تاثیرات کا یوں ذکر فرمایا۔

یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو 300 مضبوط دلیل عقلی و نقلی سے ثابت کرتی ہے۔اس چودھویں صدی کے زمانہ میں ہر ایک مذہب و ملت میں ایک طوفان بےتمیزی برپا ہے… ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ براہین احمدیہ۔اس کے مؤلف جناب مخدوم مولانا مرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں جو ہر طرح سے دعوی…کو مخالفین پہ ثابت کرنے کے لیے موجود ہیں جناب موصوف عامی علماء اور فقراء میں سے نہیں بلکہ اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملہم اور مخاطب الٰہی ہیں……مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد میں سے ہیں (تاثرات قادیان صفحہ 64تا 68)آپ کے بیٹے حضرت پیر افتخار احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میرے والد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہوئے تھے انہوں نے جب ان تینوں کو پڑھا تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑکی عقیدت و ارادت آپ کے دل میں مستحکم ہو گئی تھی اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع ہوئی۔والد صاحب کی ارادت سے آپ کے اہل و عیال اور مریدین بھی زمرہ معتقدین میں داخل ہوگئے۔اس وقت حضرت مسیح موعودؑکا مجدد ہونے کا دعویٰ تھا۔میرے والد صاحب نے حضرت صاحبؑ کے اس دعویٰ کو قبول کرکے اپنے دوستوں واقف کاروں اور ناواقفوں میں بڑی سرگرمی کے ساتھ اشاعت شروع کی اور ایک طویل اشتہار بھی چھاپا اور اس کی نقل زمانہ حال میں روزنامہ الفضل میں شائع ہو چکی ہے میرے والد صاحب نے علاوہ اشاعت کے خود اپنے مریدوں سے مالی خدمات میں بھی حصہ دلوایا۔ ان کی زندگی کا آخری زمانہ اسی خدمت میں گزرا کہ جس قدر ہوسکے چندہ دیں اور اشاعت کریں۔‘‘ (روزنامہ الفضل 15؍ستمبر 2001ء)

وہ شخص بڑا کامل ہے

حضرت مولوی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ صاحب کو بچپن ہی سے اہل اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا شوق تھا آپ کے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب نے آپ کو بتایا کہ قادیان میں ایک بزرگ نے 10 ہزار روپیہ پر مشتمل انعام مقرر کر کے کتاب لکھنی شروع کی ہے اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بڑا کامل ہے اس کی زیارت کے لیے چلا جا ۔حضرت مولوی صاحب کو یہ ذکر سن کر ایسا ولولہ اٹھا کہ اسی جگہ سے سیدھا قادیان روانہ ہو گئے اور بٹالہ سے پیدل چل کر قادیان پہنچے اور بیت الفکر کے دروازے پر دستک دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لائے۔ حضور کا چہرہ دیکھتے ہی دل میں بے حد محبت پیدا ہوگئی۔ فرماتے ہیں:اس وقت تک میں نے براہین احمدیہ یا اس کا اشتہار خود نہیں دیکھا یہاں آکر بھی کوئی دلائل حضور یا کسی اور سے نہیں سنے بلکہ میری ہدایت کا موجب صرف حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک ہی ہوا۔اس طرح حضرت مولوی صاحب کو براہین احمدیہ کی تالیف و اشاعت کے آغاز میں ہی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی اور جلد چہارم کے طبع کے کام میں خدمت کا موقع بھی ملا اور بعد میں سرخی کے چھینٹوں والے معجزہ کے ساتھ آپ کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہو گیا۔(حیات احمد جلد اول صفحہ 444 حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نومبر 1928ء امرتسر)

عش عش کر اٹھتے

کپورتھلہ کی ابتدائی جماعت بھی براہین احمدیہ نے ہی تیار کی۔اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ؓکے مایہ ناز فرزند حضرت شیخ محمد احمد مظہر فرماتے ہیں:براہین احمدیہ جب چھپی تو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا ایک نسخہ حاجی ولی اللہ صاحب کو بھیجا جو کہ کپورتھلہ میںمہتمم بندوبست تھے اور ہمارے پھوپھا صاحب مرحوم منشی حبیب الرحمان صاحب رئیس حاجی پور کے چچا تھے۔حاجی صاحب براہین احمدیہ کا نسخہ اپنے وطن قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں لے گئے۔وہاں عندالملاقات والد صاحب کو وہ کتاب حاجی صاحب نے دے دی والد صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس کتاب کو پڑھا کرتے تھے اور اس کی فصاحت و بلاغت پر عش عش کر اٹھتے کہ یہ شخص بے بدل لکھنے والا ہے اور براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے والد صاحب کو حضرت صاحب سے محبت ہوگئی۔

اس کے تھوڑے عرصہ بعد والد صاحب کپور تھلہ آگئے اور حاجی صاحب والد صاحب سے براہین احمدیہ پڑ ھواکر سنتے۔منشی اروڑا خان صاحب اور محمد خان صاحب نے بھی کتاب کا مطالعہ کیا اور انہیں محبت پیدا ہوئی اس کے بعد اتفاق ایسا ہوا کہ والد صاحب جالندھر اپنے ایک رشتہ دار کو ملنے گئے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب بھی کسی سفر کے اثنا میں جالندھر ٹھہرے ہوئے تھے اور بعد کا واقعہ والد صاحب کی روایات میں مفصل درج ہے اور جیسا کہ اس روایت میں مذکور ہے والد صاحب کی آمدورفت قادیان شروع ہوگئی۔ یہ 1884ءاور 1885ءکے قریب کا واقعہ ہے والد صاحب نے بہت دفعہ حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور بیعت لے لیں لیکن حضور نے انکار فرمایا کہ مجھے حکم نہیں۔جب لدھیانہ سے حضور نے بیعت کا اعلان فرمایا تو والد صاحب ومحمد خان صاحب اور منشی اروڑا خان صاحب کے نام ایک خط لکھا کہ آپ بیعت کے لیے کہا کرتے تھے مجھے اب اذن الٰہی ہوچکا ہے۔ اس خط کے مطابق مذکورہ اصحاب نے لدھیانہ پہنچ کر بیعت کر لی۔(روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب صفحہ10)

حضرت منشی حبیب الرحمان صاحب تحریر فرماتے ہیں: ایک شخص خلیفہ محی الدین نے جناب حاجی ولی اللہ خان صاحب سے بیان کیا کہ میں نے براہین احمدیہ منگائی ہے…مرحوم نےبتاکید ان سے فرمایا کہ براہین احمدیہ دیکھنے کے واسطے میرے پاس بھیج دو۔اور اس وقت ہی ان سے منگائی تیسری اور چوتھی جلد انہوں نے…بھیج دی۔ آپ نے اس کا مطالعہ کیا میں نے دیکھا کہ وہ ہر وقت آپ کے مطالعہ میں رہتی تھی یہاں تک کہ دونوں جلدیں ختم کر لیں اس کے بعد آپ نے دو خط تحریر فرمائے۔ ایک خط حضرت مسیح موعود کے نام اردو میں اور دوسرا مولوی محمد صاحب کے نام فارسی زبان میں۔مولوی صاحب کو لکھا تھا کہ آپ نے جو حالات مرزا صاحب کے سنائے تھے اب جو میں نے براہین احمدیہ دیکھی تو سب غلط ثابت ہوئے اور حضرت صاحب کا حق پر ہونا ظاہر فرمایا مگر مولوی صاحب نے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ (اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 39،38)حضرت حاجی ولی اللہ صاحب کے متعلق حضرت شیخ خواجہ یعقوب علی عرفانی ؓ لکھتے ہیں ’’ابتدا میں جب کہ حضرت نے کوئی دعویٰ نہ کیا تھا براہین احمدیہ کو ہی دیکھ کر حاجی صاحب خود لوگوں پر ظاہر کیا کرتے تھے کہ یہ مجدد ہیں چنانچہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حاجی صاحب 38 یا 39 بکرمی قریبا 1883ءمیں قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں تشریف لے گئے تھے اس وقت ان کے پاس براہین احمدیہ تھی وہ حاجی صاحب سنایا کرتے تھے اور بہت سے آدمی جمع ہو جایا کرتے تھے مختلف لوگوں اور مجھ سے بھی سنا کرتے تھے اور حاجی صاحب لوگوں پر یہ ظاہر کرتے تھے کہ یہ مجدد ہیں گو حاجی صاحب بیعت نہ کر سکے مگر ان کے بعد عزیز رشتہ دار…بھی بہت سے احمدی ہو گئے۔(اصحاب احمد جلد 10صفحہ46،45،41)

پڑھتے ہی معتقد ہو گئے

حضرت منشی عبدالرحمن صاحب میرٹھ کے رہنے والے تھے۔کپورتھلہ میں رہائش اختیار کی اس طرح کپور تھلہ کے صحابہ کے ساتھ ان کا ذکر ہے۔ براہین احمدیہ پڑھتے ہی مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد ہو گئے اور جب بیعت کرنے کا اعلان شائع ہوا تو وہ بعد استخارہ فوراً بیعت کرنے کی غرض سے لدھیانہ روانہ ہوگئے اور بیعت کر لی۔منشی فیاض علی صاحب کو بھی براہین احمدیہ شائع ہونے کے وقت سے سمجھاتے رہے تھے اور بعد بیعت کرنے کے ان کو بھی ترغیب دی اور وہ بھی بیعت کر کے 313 صحابہ کی فہرست میں شامل ہو گئے۔(روزنامہ الفضل 2؍جولائی 1931ءصفحہ 5)

تعلق محبت

حضرت میاں چراغ دین صاحب کو ابتدا ہی سے دینداری کی طرف توجہ تھی۔خوش قسمتی سے دوست بھی نیک اور دیندار ملے۔نیک لوگوں کے حالات اور تذکرے سننے کا بہت شوق تھا۔محکمہ نہر میں ملازمت کا آغاز کیا اور انہی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کا محبت کا تعلق پیدا ہوا۔براہین احمدیہ کے زمانہ تصنیف میں قادیان آئے اور حضور علیہ السلام کے مہمان رہے۔ براہین احمدیہ کے مددگاروں اور خریداروں کے سلسلہ میں آپ کا نام ملتا ہے۔آپ نے 1893ء میں باقاعدہ بیعت کرلی۔(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 161)

خدا نما وجود

حضرت سید میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ 1876ء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارادت مندوں میں شامل اور آپ علیہ السلام کی خدا نما شخصیت کے مداح تھے۔جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو انہوں نے بھی اس کا ایک نسخہ خریدا اور پھر اپنے جذبات عقیدت میں چند امور کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا منگوانے کے لیے خط لکھا۔ بعد میں یہی تعلق حضرت میر ناصر نواب صاحب کے لیے بے انتہا فخر کا موجب بنا جب ان کی بیٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقد میں آئیں۔ آپ نے 1892ءکے جلسہ سالانہ میں شرکت کے بعد بیعت کی۔ (تاریخ احمدیت جلد نمبر 1صفحہ 243)

جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے

حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تقریباً پانچ سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔25 سال کی عمر میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی تشریف لے گئے اور سید نذیر حسین دہلوی صاحب سے علم حدیث حاصل کیا۔اسی طرح تفسیر فقہ اور نحو وغیرہ دینی علوم میں دسترس حاصل کی۔طب یونانی میں خاص مہارت پیدا کی اور 1865ء میں وطن واپس آکرتحریک اہل حدیث کے پُرجوش کارکن کے طور پر کام کرتے رہے آپ کے ذریعہ سے متعدد اہل حدیث جماعتیں قائم ہوئیں۔

آپ چو نکہ اردو،فارسی ،عربی ،پشتو اور پنجابی میں بلاتکلف گفتگو کرسکتے تھے۔اس لیے آپ سے ملنے اور استفادہ کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا زبان میں بڑا اثر تھا اور ماہر طبیب ہونے کی وجہ سے لوگوں میں خاص عزت تھی۔جس سے ان کے کاروبار پر بھی عمدہ اثر پڑا اور مالی حالت خاصی ترقی کرتی گئی۔دور دور سے شاگرد استفادہ کرنے کے لیے آتے تھے بالخصوص علم حدیث میں آپ نے کئی نامور شاگرد پیدا کیے۔جن میں حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی،مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی،مولوی محمد عرفان صاحب ڈونگا گلی(مری)، مولوی حشمت علی راجوری، مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی،مولوی عبد الرحمٰن صاحب کھیوال اور مولوی محمد قاری صاحب جہلمی اپنے علاقہ میں حدیث کے علماء سمجھے جاتے تھے۔

لیکن ظاہری علم آپ کو متکبر اور ظاہر پرست نہ بنا سکا۔بلکہ باطنی ترقی کے لیے آپ کی پیاس بڑھتی رہی اور آپ روحانی استفادہ کے لیے پہلے باولی شریف کے بزرگ مولوی حیات گل صاحب و مولوی غلام رسول صاحب کے پاس ٹھہرے۔پھر کئی سال حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی صحبت سے فیض اٹھایا۔بعد ازاں حضرت پیر صاحب کوٹھہ شریف کی مریدی اختیار کی لیکن آپ کی روحانی تسکین نہ ہوئی بلکہ سرگردانی اور بے چینی بڑھتی ہی گئی جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکہ آرا کتاب براہین احمدیہ شائع کی تو اسے پڑھ کر حضور علیہ السلام کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔آپ کے ایک شاگرد مولوی مہر الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ براہین احمدیہ پڑھنے کے بعد ان کو خیال پیدا ہوا کہ یہ شخص آئندہ کچھ بننے والا ہے۔اس لیے اسے دیکھنا چاہیے۔اس ارادہ سے وہ 1886ء میں قادیان پہنچے مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں ہوشیار پور میں مقیم تھے۔حضرت مولوی صاحب نے ہوشیارپور کا رخ کیا۔اور بڑی کوشش کے بعد آپ کی رہائش گاہ کا پتہ لگایا۔ دروازہ پر جاکر دستک دی اور خادم کے ذریعہ اپنے نام کی اور مقصد سے متعلق اطلاع بھجوائی جب خادم اندر گیا تو اسی وقت حضرت مولوی صاحب کو فارسی میں الہام ہوا کہ جہاں آپ نے پہنچنا تھا پہنچ گئے ہیں۔اب یہاں سے مت ہٹیں۔ خادم نے واپس آکر معذرت کی کہ اس وقت ملاقات کی فرصت نہیں۔ اس لیے پھر کسی وقت تشریف لائیں۔حضرت مولوی صاحب نے خادم سے کہا میرا گھر دور ہے اس لیے فرصت کے انتظار میں یہیں دروازہ پر بیٹھتا ہوں۔خادم پھر اندر گیا اور حضور علیہ السلام کو مولوی صاحب کے جواب سے مطلع کیا۔اسی وقت حضور علیہ السلام کو عربی میں الہام ہوا جس کا مطلب یہ تھا کہ مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنی چاہیے۔ جس پر حضور علیہ السلام نے خادم کو جلدی سے دروازہ کھول کر مہمان کو اندر لے آنے کا حکم دیا۔ حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا کہ یہاں سے مت ہٹیں۔ جہاں پہنچنا تھا آپ پہنچ گئے ہیں۔(ماہنامہ انصاراللہ فروری 1974ء) چند دن وہاں رہ کر حضرت مولوی صاحب حضور علیہ السلام کے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے۔اور بیعت کی درخواست کی مگر حضور علیہ السلام نے فرمایا ابھی مجھے بیعت کا حکم نہیں ملا۔1892ءمیں حضرت مولوی صاحب نے باقاعدہ بیعت کر لی۔1905ء میں ان کی وفات پر حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’ایک سوزش اور جذب ان کے اندر تھا اور ہمارے ساتھ ایک خاص مناسبت رکھتے تھے۔‘‘

کمال درجہ کی حیرت

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی ملاقات کے لیے 1887ء میں قادیان آئے آپ حضور علیہ السلام سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’غرض میں حضرت مرزا صاحب سے رخصت ہوا چلتے وقت انہوں نے اس کم ترین کو براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ کی ایک ایک جلد عنایت کی۔انہیں میں نے پڑھا ان کے پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ جناب حضرت مرزا صاحب بہت بڑے رتبے کے مصنف ہیں۔خاص کر براہین احمدیہ میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر دیکھ کر مجھ کو کمال درجہ کی حیرت حضرت مرزا صاحب کی ذہانت پر ہوئی۔

اس کے بعد حضور علیہ السلام سے دوسری ملاقات کے لیے آپ 1894ء میں قادیان آئے اور بیعت کرلی۔(اصحاب احمد جلد 14 صفحہ 118،49بابت حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری ایڈیشن اول جنوری 1971ء)

پڑھنے کا شوق

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ سلسلہ احمدیہ کے پہلے اخبار نویس اور مؤرخ احمدیت ہیں۔1872ءمیں پیدا ہوئے اور1889ء میں بیعت کی آپ اپنے حالات میں لکھتے ہیں:

1889ء میں پہلی مرتبہ مجھے حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ شیخ اللہ دیا صاحب واعظ انجمن حمایت اسلام نے مجھے پیش کیا اور میرے سنسکرت پڑھنے کا ذکر کیا جس کو سن کر حضرت بہت خوش ہوئے اور ہر قسم کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا۔حضرت صاحب علیہ السلام کو پہلی مرتبہ یہاں ملا مگر آپ کی کتاب براہین احمدیہ 87-1886ء میں چودھری رستم علی خان مرحوم کے ذریعہ دیکھ چکا تھا۔جب کہ وہ سارجنٹ تھے گواس کتاب کو سمجھنے کی اس وقت قابلیت نہ تھی تاہم پڑھنے کا شوق بے حد تھا۔( تاریخ احمدیت جلد 19صفحہ 637)

براہین احمدیہ کے پریس کارکنان

براہین احمدیہ جس پریس میں شائع ہوئی اس کے کارکنان میں سے بھی ایک گروہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے حضرت شیخ نور احمد صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ کی طباعت کے لیے مطبع سفیر ہند پریس میں انتظام کیا جس کے مالک پادری رجب علی صاحب تھے۔انہوں نے براہین احمدیہ کی بہترین طباعت کے لیے مرادآباد سے حضرت شیخ نور احمد صاحب کو بلایا جو اپنے فن میں بہت ماہر تھے تھوڑے عرصہ میں انہوں نے پادری صاحب سے الگ ہوکر اپنا ذاتی مطبع ریاض ہند پریس کے نام سے جاری کیا اور پادری صاحب نے براہین احمدیہ کی طباعت کا کام وہی معیار قائم رکھنے کے لیے اجرت پر شیخ نور احمد صاحب کو دے دیا۔اسی دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے پریس میں تشریف لائے اور حضور علیہ السلام سے ان کا تعارف ہوا۔ اس طرح براہین احمدیہ ہی حضرت نور احمد صاحب کو مرادآباد سے پنجاب لانے اور پھر سلسلہ احمدیہ میں داخل کرنے کا موجب ہوئی۔ ان کے ساتھ حضرت شیخ محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ اور منشی غلام حسین رضی اللہ عنہ اس سلسلہ میں شامل ہوگئے۔حضرت شیخ نور احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب واشتہارات کے علی العموم پرنٹر رہے۔(حیات احمد جلد اول صفحہ 386تا 391)

دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی

حضرت صوفی نبی بخش صاحب لاہوری بیان فرماتے ہیں۔13؍جون 1886ءکا واقعہ ہے پنڈت لیکھرام پشاوری نے ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار کی مخالفت میں شائع کیا جس میں آنجناب نے ایک بشیر لڑکے کی پیدائش کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ اس اشتہار میں پنڈت لیکھرام نے اپنی فطرت کے مطابق دشنام دہی اور سب و شتم سے کام لیا۔اتفاقاًوہ اشتہار میری نظر سے بھی گزرا۔ میں نے استفسار کے طور پر حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ لکھا۔لیکن وہ باعث عدم علم ایسے طرز سے لکھا گیا کہ حضور علیہ السلام نے مجھے معاندین میں سے تصور کیا۔الاعمال بالنیات۔خیر یہ گزری کہ حضرت صاحب نے چند مخلص دوستوں سے بذریعہ خط و کتابت خاکسار کے متعلق دریافت فرمایا جنہوں نے ازراہ کرم حضور علیہ السلام کی تسلی کی اور لکھا کہ یہ شخص ہمیشہ سے آپ کا مداح رہا ہے۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا۔جس کے عنوان میں یہ شعر درج تھا کہ

ہم نے الفت میں تیری بار اٹھایا کیا کیا
تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا

اس اشتہار کے پڑھنے اور براہین احمدیہ کے بار بار کے مطالعے سے میرے دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی کہ میں خود قادیان جا کر حضرت صاحب سے ملاقات کروں کیونکہ خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کا یہ دیدار فیض آثار گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔اس نیت سے اکتوبر 1886ءکو میں پہلی دفعہ حاضر خدمت ہوا اور مغرب کی نماز میں نے مسجد مبارک میں حضرت اقدس علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھی۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ وہیں بیٹھ گئے اور بطور نصیحت مختصرا الفاظ میں تقریر فرمائی۔صوفی صاحب نے جماعت کے پہلے جلسہ سالانہ پر 27؍ستمبر 1891ءکوبیعت کر لی۔(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 94،93)

کتاب کو پڑھ کر لٹو ہو گئے

گوجرانوالہ کے حضرت شیخ کریم بخش صاحب اور حضرت شیخ صاحب دین صاحب کو خدا تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت صاحب کے دعویٰ کے معا ًبعد جب شہر میں حضور کا ہر جگہ چرچا شروع ہوا تو حضرت شیخ صاحب دین صاحب نے جو ان دنوں مڈل جماعت کے طالب علم تھےاپنے استاد حضرت مولوی احمد جان صاحب سے دریافت کیا کہ یہ مرزا صاحب کون ہیں جن کی شہر میں ہر جگہ باتیں ہو رہی ہیں۔ حضرت مولوی صاحب موصوف شیخ صاحب کی خوش قسمتی سے احمدی تھے انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا آج دنیا میں قرآن کریم کو جاننے اور سمجھنے والے صرف مرزا صاحب ہی ہیں۔ان کی اس بات سے متاثر ہو کر حضرت شیخ صاحب نے اپنے بڑے بھائی حضرت شیخ کریم صاحب سے بھی اس گفتگو کا ذکر کیا۔ شیخ کریم بخش صاحب نے کہا کہ کل تم اپنے ماسٹر صاحب سے حضرت مرزا صاحب کی کوئی کتاب لے آنا۔چنانچہ حضرت شیخ صاحب کے مطالبہ پر حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور کتاب براہین احمدیہ ہر چہار حصص دے دیں۔حضرت شیخ کریم بخش صاحب تو اس کتاب کو پڑھ کر لٹو ہوگئے اور فورا ًقادیان جاکر بیعت کرآئے۔ان کی واپسی پر حضرت شیخ صاحب دین صاحب نے بھی بیعت کا خط لکھ دیا۔یہ واقعہ1891ء،1892ء کا ہے۔

یہ دونوں بھائی کیونکہ گوجرانوالہ کی ایک وسیع برادری کے افراد تھے۔اس لئے ان کی خوب مخالفت ہوئی۔مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی…دونوں بھائی قادیان گئے اور حضرت شیخ صاحب دین صاحب نے بھی دستی بیعت کر لی۔(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ139-140)

چودھویں کا چاند

حضرت منشی گلاب دین صاحب روہتاس (جہلم )جب 44سال کے ہوئے تو ان کی زندگی میں ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

حضرت منشی صاحب کی ہمشیرہ رانی زوجہ علی بخش مرحوم نے خواب میں دیکھا کہ آسمان پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے اور ہر طرف روشنی پھیل گئی ہے۔ انہوں نے صبح اٹھ کر اپنی خواب حضرت منشی صاحب کو سنائی اور صرف اتنا کہا کہ مہدی آگیا ہے اس کو ڈھونڈو۔

اس کے کچھ دن بعد حضرت منشی صاحب کے ایک نہایت متقی شاگرد سید غلام حسین شاہ صاحب نے جو جہلم کچہری کے محکمہ مال میں ملازم تھے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار اور دو کتب مطالعہ کے لیے بھیجیں کہ غور سے ملاحظہ کریں۔اور دیکھیں کہ مصنف کس شان کا شخص ہے۔جب آپ نے وہ کتابیں دیکھیں جن میں ایک کتاب براہین احمدیہ تھی آپ نے اپنی ہمشیرہ سے کہا کہ مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہو گئی ہے امام مہدی کا ظہور ہو گیا ہے۔جب کتاب کا مطالعہ کیا دوران مطالعہ آپ کو کچھ مشکل پیش آئی تو آپ اپنے ایک دوست میاں اللہ دتہ صاحب کے پاس گئے جو ناخواندہ ہونے کے باوجود بڑے ذہین، دانا اور نیک سیرت انسان تھے۔انہوں نے کہا مولوی صاحب آپ صبر سے کام لیں کہیں جلدی میں صادق کا انکار نہ ہو جائے۔(الفضل قادیان 7؍جنوری 1921ء)

جب حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی قادیان اور ہوشیار پور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے بعد واپس جہلم آئے تو منشی گلاب دین صاحب آپ کے پاس گئے اور اپنی ہمشیرہ کی خواب اور کتب کے مطالعہ کا ذکر کیا تو مولوی برہان الدین جہلمی نے کہا کہ جس کی ہمیں انتظار تھی وہ قادیان میں پیدا ہوگیا ہے جاؤ تم بھی دیکھو اور تسلی کر لو۔ اس پر منشی گلاب دین صاحب نے کچھ اعتراض کیا تو غصہ میں آکر فرمایا کہ ’’پہلے انہیں جا کر دیکھو پھر آ کر میرے ساتھ بات کرنا۔‘‘ یوں آپ نے قادیان کا سفر اختیار کیا۔آپ کے ہمراہ آپ کے ایک قریبی رشتہ دار ملک غلام حسین صاحب قادیان گئے۔جب بٹالہ پہنچے تو آپ کی ملاقات مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی سے ہوئی۔مولوی محمد حسین بٹالوی نے آمد کے بارے میں پوچھا تو علم ہوا کہ یہ دونوں آدمی مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے روہتاس جہلم سے آئے ہیں۔مولوی محمد حسین بٹالوی نے ان دونوں کو کافی بہکایا۔ قریب تھا کہ آپ واپس چلے جاتے مگر اس خیال سے کہ واپس جاکر کیا بتائیں گے بٹالہ سے صبح سویرے سفر شروع کیا اور قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے (جب کہ آپ سیر کر کے واپس آ رہے تھے) ملاقات ہوئی۔آپ کے نورانی چہرہ کو دیکھ کر واپس آگئے تو منشی گلاب دین صاحب اور ملک غلام حسین صاحب نے بیعت کا خط لکھ دیا۔۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ خط آپ کی بیعت بتاریخ 8؍ستمبر 1892ءکو منظور فرمائی آپ کا بیعت نمبر352درج ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف انجام آتھم میں مندرجہ فہرست 313 اصحاب میں آپ کا نمبر34 ہے۔ (ماہنامہ انصاراللہ جنوری 2002ء)

عالم ربانی

وزیر اعظم پٹیالہ خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خاص عقیدت مندوں میں سے تھے۔جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو وہ دل و جان سے آپ کے گرویدہ ہوگئے اور اس کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا۔آپ بصد ذوق و شوق براہین احمدیہ پڑھتے اور دوسروں سے پڑھوا کر سنتے اور گھنٹوں محظوظ ہو کر زبان سے بار بار فرماتے فی الحقیقت یہ شخص علمائے ربانی میں سے ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سفر پٹیالہ کے ایمان افروز حالات جناب مرتضیٰ حسن خان صاحب کے قلم سے ملاحظہ ہوں: ’’وزیر صاحب کی دعوت پر حضرت اقدس علیہ السلام جون 1888ءمیں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ آپ حضرت کی آمد پر جامے میں پھولے نہ سماتے تھے۔ریاست میں اعلان کیا کہ ہمارے ایک عالم ربانی تشریف لارہے ہیں۔ان کی زیارت کے لئے سب کو آنا چاہیے…حضرت تشریف لائے تو آپ کا استقبال اس شان و شوکت سے کیا گیا جس طرح بڑے بڑے راجاؤں اور نوابوں کا کیا جاتا ہے ریاست کے دستور کے مطابق ہاتھی اور گھوڑے لے کر اسٹیشن پر گئے اور ایک شاندار جلوس حضرت اقدس کے استقبال کے لیے مرتب کیا گیا۔

وزیر صاحب فرماتے ہیں دنیا کے لوگوں کی عزت تو کی ہی جاتی ہے مگر اصل عزت کے لائق تو یہ لوگ ہیں جو دین کی جائے پناہ ہیں۔استقبال کے لیے لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے۔لوگ شوق زیارت سے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے تھے کہتے ہیں کہ اس قدر خلقت کا اژدہام تھا کہ پٹیالہ کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر حضرت ہیں کہ اس ظاہری شان و شوکت کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھتے۔اور نہ کسی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں نہ کوئی فخر ہے نہ غرور نہ تکبر۔وہی سادگی وہی منکسرالمزاجی جو جبلت میں خدا نے ودیعت فرمائی تھی اب بھی عیاں ہے۔ آنکھیں حیا سے نیچے جھکی ہوئی ہیں۔لب ہائے مبارک پر ہلکا ہلکا تبسّم ہے۔چہرہ مبارک پر انوار الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔گویا ابھی غسل کر کے باہر نکلے ہیں دیکھنے والوں کی نظر آپ پر پڑتی ہے تو سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔چاروں طرف سے السلام علیکم السلام علیکم کی آواز آتی ہے آپ کمال وقار سے ہر ایک کا جواب دیتے اور دونوں ہاتھوں سے اور کبھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ330 )

محبت کا جوش پیدا ہو گیا

حضرت حکیم محمد حسین صاحب المعروف مرہم عیسی اپنے احمدی ہونے کا باعث یہ بیان کیا کرتے تھے کہ آپ سر سید احمد خان صاحب مرحوم کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔اس کے بعد آپ نےحضرت صاحب کا تذکرہ سنا اور کچھ اشتہا رات بھی دیکھے۔براہین احمدیہ بھی پڑھنے کا موقع ملا۔اس سے آپ کے دل میں حضرت کی محبت کا جوش پیدا ہوا اور آپ قادیان تشریف لے گئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وساطت سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ (تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 132)

دہریت کافور ہوگئی

حضرت میاں محمد دین صاحب جن کا نام 313 صحابہ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ان کی ہدایت کا موجب بھی براہین احمدیہ بنی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت میاں صاحب کے تعلقات حضرت منشی جلال الدین صاحب بلا نوی کے بیٹوں سے تھے۔ 1893ء میں حضرت منشی جلال الدین صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام (313 صحابہ میں نمبر اوّل پر)نے سیالکوٹ سے اپنے بیٹوں کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب اپنے گھر گجرات بھجوائیں ۔حضرت منشی صاحب کے بڑے بیٹے مرزا محمد قیم صاحب نے ان کتب کا ذکر حضرت میاں محمد دین صاحب سے کیا اور کہا کہ تم دوسری کتابیں پڑھتے رہتے ہو یہ بھی پڑھ کر دیکھ لو۔

حضرت منشی صاحب نے فتح اسلام اور توضیح مرام کے بعدبراہین احمدیہ پڑھنی شروع کی تو ساری دہریت اترنی شروع ہوگئی خود فرماتے ہیں:

براہین کیا تھی آب حیات کا بحر ذخار تھا۔براہین احمدیہ کیا تھی ایک تریاق کوہ لانی یاتریاق اربعہ دافع صرع ولقوہ تھا۔براہین احمدیہ کیا تھی ایک عین روح القدس یار وح مکرم یار وح اعظم تھا۔براہین احمدیہ کیا تھی یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ تھی ایک نورخدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کافور ہوگئی۔

آریہ برہمو و دہریہ لیکچراروں کے بد اثر نے مجھ جیسے اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان کے اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتے ہوئے صفحہ 90 کے حاشیہ نمبر 1پر اور صفحہ 149 کے حاشیہ نمبر 11پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ کھل گئی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے۔

سردی کا موسم جنوری 1893ءکی 19؍تاریخ تھی۔آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں ہونا چاہیےاور ہے کے مقام پر پہنچا پڑھتے ہی معاً توبہ کی۔کورا گھڑا پانی کا بھرا ہوا باہر صحن میں پڑھا تھا۔سرد پانی سے تہ بند پاک کیا۔میرا ملازم مسمی منگتو سو رہا تھا وہ جاگ پڑا۔وہ مجھ سے پوچھتا تھا کیا ہوا کیا ہوا۔لاچا تہ بند مجھ کو دومیں دھو دیتا ہوں مگر میں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا آخر منگتو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا۔اور گیلا لاچا پہن کر نماز پڑھنی شروع کی۔اور منگتو دیکھتا گیا۔

محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتوتھک کر سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا۔پس یہ نماز اسی براہین احمدیہ نے پڑھائی کہ بعد ازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی۔صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب بلانے تشریف لائے تو ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا 1895ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے دستی بیعت کی۔(رجسٹر روایات صحابہ حضرت اقدسؑ جلد 7صفحہ 47،46)

عقیدت مند

علی گڑھ میں ایک بزرگ سید محمد تفضل حسین صاحب تحصیل دار رہتے تھے جنہیں ’’زمانہ براہین احمدیہ‘‘ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقیدت تھی۔وہ کئی مرتبہ حضرت کی خدمت میں علی گڑھ میں تشریف لانے کی درخواست کر چکے تھے اسے حضور علیہ السلام نے قبول فرمایا۔اور آپ اپریل 1889ءمیں لدھیانہ سے علیگڑھ تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضور کے ہمراہ آپ کے خدام میں سے حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری۔میر عباس علی صاحب۔اور حافظ حامد علی صاحب تھے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سید محمد تفضل حسین صاحب تحصیلدار کے ہاں ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ تھے آپ نے 7؍اپریل 1889ء کو بیعت کی سعادت حاصل کی 313 اصحاب کبار میں آپ کا نام ہے۔(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 376)

سانس اچھلنے لگا

حضرت ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی (خلف الصدق حضرت مولانا محمود الحسن صاحب) آپ کے واقعہ بیعت کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں۔

میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ اگرچہ مجھ کو ایام جوانی میں صوفیا کے گرو ہ سے کوئی خاص عقیدت حاصل نہ تھی لیکن والد صاحب کو اس قدر عشق الٰہی تھا کہ ہر وقت اور ہر لحظہ روتے رہتے تھے۔یہ اسی عشق الٰہی کی برکت ہے کہ مجھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا م میں شامل ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ور نہ جوانی میں نیچریانہ خیال رکھتا تھا۔نماز روزے کی طرف کوئی رغبت نہ تھی۔ایسی حالت میں بغیر ذاتی نیک اعمال کے کسی مخفی تصرف الٰہی کے ذریعہ صحابہ کی جماعت میں شامل ہونا خدائے ذوالجلال کا خاص فضل و کرم اور اس کی موہبت الٰہی کے نزول کی وجہ صرف والد صاحب کا وہ عشق الٰہی ہی معلوم ہوتا ہے۔

ایک دفعہ والد صاحب اپنے سسرال میں والدہ صاحبہ کو پہنچانے پٹیالہ آئے نانا جان شیخ فخرالدین صاحب اس وقت مجسٹریٹ تھے نانا جان صاحب نے براہین احمدیہ کا ایک نسخہ یہ کہہ کر دیا کہ مولوی صاحب پنجاب میں ایک بزرگ دہریوں اور بالخصوص سر سید صاحب جیسوں کے سر کچلنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔والد صاحب نے بہت بے رغبتی سے کتاب لے لی۔لیکن جب جلی قلم میں اشتہار دیکھا اور پڑھا تو فرماتے تھے کہ میرا سانس سینے میں اچھلنے لگا۔بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ واقعی یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور معلوم ہوتا ہے والد صاحب کتاب کو ساتھ لے گئے اور کتاب کا کئی دفعہ مطالعہ کیا کچھ عرصہ بعد پھر پٹیالہ آئے اور نانا جان صاحب کو کتاب واپس کرنی چاہی لیکن نانا جان صاحب نے کہا کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص بےدین ہو گیا ہے۔کیوں کہ نبوت کا مدعی ہے۔اب اس کتاب کو آپ ہی رکھیں اس وقت والد صاحب کے دل میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا بے حد اشتیاق پیدا ہوا خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر تیرے مقدرات میں قریب ہی میری موت مقدر ہے تو اپنے فضل سے اس وقت تک زندہ رکھ کہ اس مہینہ کی مجھے تنخواہ مل جائے۔اور میں اس مقدس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں تنخواہ ملنے پر آپ لودھیانہ روانہ ہوگئے اور حضرت اقدس علیہ السلام میں باریابی حاصل کی اس وقت چند احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے جن میں ایک بزرگ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی بھی تھے آپ نے حضرت مسیح موعود کی بیعت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔( الحکم 21؍اکتوبر 1934ء )

زیارت اور بیعت

حضرت حکیم انوار حسین صاحب شاہ آبادی ابن مولوی ظہوری صاحب نے1889ء میں لد ھیا نہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی اور بعد ازاں براہین احمدیہ پڑھ کر اور خط و کتابت سے 1894ءیا 1895ءمیں بیعت کی۔ (روزنامہ الفضل ربوہ 24؍ اگست 1999ء )

پڑھتے ہی

حضرت حکیم مولوی وزیر الدین صاحب میں مکیریاں ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے آپ کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ اور’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں دونوں جگہ 313 اصحاب میں شامل فرمایا۔آپ حضور علیہ السلام کے دعوی مسیحیت سے بہت پہلے سے حضور علیہ السلام کے معتقد تھے۔اور براہین احمدیہ پڑھتے ہیں بیعت کی درخواست کر چکے تھےلیکن اس وقت حضور علیہ السلام کو بیعت لینے کا حکم نہیں ملا تھا۔(البدر 30؍ ستمبر 1999ء)

براہین احمدیہ کا حوالہ

حضرت محمد حسین صاحب ٹیلر ماسٹر بیان کرتے ہیں کہ مجھے بچپن سے کشتی دیکھنے کا شوق تھا۔ایک دن کشتی دیکھ کر آیا۔ایک گھر میں کوئی مہمان لاڑکانے سے آیا ہوا تھا۔اس سے کہا گیا کہ وہاں کے کوئی حالات سناؤ۔اس مہمان نے کہا کہ وہاں پر ایک مولوی نے تقریر کی ہے کہ زیادہ تعلیم پڑھنے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے۔قادیان میں مرزا صاحب نے کہا ہے کہ میں خدا ہوں۔میں نے کہا کہ حوالہ دو۔اس مہمان نے کہا براہین احمدیہ میں ہے۔ ایک احمدی کو تلاش کیا گیا وہ محمد حیات تھے وہ چنیوٹ کے رہنے والے تھے۔ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس براہین احمدیہ ہے۔محمد حیات صاحب نے کہا ہے کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا خدا میرے میں ہے اور میں خدا میں ہوں میں نے اس مہمان سے کہا کہ یہ تو معمول کی بات ہے۔جو شخص شیطانی خیالات کا حامل ہو اسے مجسم شیطان کہہ دیا جاتا ہے جو رحمانی خیالات کا حامل ہو اسے رحمانی کہہ دیا جاتا ہے اس شخص نے کہا کہ لو بھائی یہ بھی مرزائی ہو گیا۔میں نے کہا کہ مرزائی تو بہت اچھی چیز ہے۔روئی دار ہوتی ہے۔اگر کسی کو نمونیا ہو جائے تو اس کے گلے میں پہنا دیتے ہیں۔میں اپنی دکان پر آگیا۔رات کو خواب میں دیکھا کہ امام مہدی آگیا ہے۔میں قادیان کے لیے روانہ ہوا۔رات کوئی گیارہ بجے کا وقت تھا جب میں بٹالے پہنچا۔قیام کی کوئی جگہ نہ تھی۔حیران پریشان مسافر خانے کے برآمدے میں کھڑا تھا ایک آدمی اندر سے نکلا اس نے پوچھا کہاں جانا ہے۔میں نے کہا جانا تو میں نے سکھر ہے مگر اب قادیان جاتا ہوں۔وہ مجھے ایک احمدی حسین بخش کے گھر لے گیا۔صبح قادیان روانہ ہونے لگا لیکن میزبان نے اصرار کیا کہ جب تک آپ کھانا کھا لیں آپ کو جانے نہ دوں گا۔وہ بازار گئے اور سبزی وغیرہ لائے اور پکا کر روٹی کھلائی۔یکہ پر بٹھایا اور کہا قادی کی سواری ہے۔یکہ والے سے پوچھا کرایہ کیا لو گے۔یکہ والے نے کہا آڑھائی آنا کرایہ ہے۔ پہلے دو سواری بیٹھی تھیں۔ تیسرا میں ہوگیا۔ایک آدمی جس کی بہت لمبی داڑھی تھی وہ بھی بیٹھا تھا۔اس نے پوچھا کس جگہ جانا ہے۔میں نے کہا حضرت امام مہدی کی زیارت کو جا رہا ہوں۔اس لمبی داڑھی والے نے کہا پتہ نہیں لوگ کیوں آتے ہیں۔ ان کو کیا ہو گیا ہے۔میں نے استغفار کیا۔قادیان پہنچے تو وہ آگے تھا اور میں پیچھے۔وہ مرزا گل محمد کے احاطے کی طرف مڑ گیا۔میں وہاں کھڑا تھا ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کہاں جانا ہے۔میں نے بتایا اور پھر پوچھا یہ جو شخص مجھ سے آگے تھا یہ کون ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ مرزا امام الدین ہے۔میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے تو حضرت مولوی صاحب نے میرا بازو پکڑ کر کہا جو آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہی آگے بڑھتے ہیں۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور اپنے بچپن کے حالات سناتا رہا۔حضور علیہ السلام میرے حالات سنتے رہے۔میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیے دعا کی درخواست کی۔اخبار بدر بھی لگوایا۔کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی حاصل کیں۔واپس گیا تو میرا بھائی ان کتب کو ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا کہ ان کتب میں جادو بھرا ہے۔جو بھی ان کو ہاتھ لگائے گا وہ مرزائی ہو جائے گا۔(روزنامہ الفضل ربوہ اگست2000ء)

دل کی کھڑکیاں کھل گئیں

محترم خواجہ کمال الدین صاحب( متوفی 28؍ دسمبر 1932ء )کی بیعت کے پر کیف واقعہ سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی زبردست اعجازی قوتوں اور کرشمہ سازیوں کی ایک تاریخی اور علمی جھلک خوب نمایاں ہوتی ہے۔ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں۔

خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم لاہور کے رہنے والے تھے بی اے ایل ایل بی تھے۔نئی روشنی کے تعلیم یافتہ تھے اس لیے دماغ میں دنیا کی ترقیات کی تمناؤں میں مذہب کو کہیں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔مثل ہے جوانی دیوانی خواجہ کمال الدین صاحب پر اس دیوانی کا بھی اثر تھا۔ یہاں تک کہ آزاد روی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔کچھ تو مشن کالج کے مشہور پادری پرنسپل ڈاکٹر یوانگ اور ان کے ہم مشربوں کا اثر اورکچھ طبیعت کی معقول پسندی نے یہ خیال دماغ پر مستولی کردیا کہ جب دنیا ہی مقصود خاطر ہے اور مذہب ایک لغویت ہے تو پھر کیوں نہ عیسائی مذہب اختیار کیا جائے جس کے پیروؤں کی وجاہت و حکومت اور جس کی سوسائٹی کا تعیش و تنعم آج اپنی نظیر نہیں رکھتا۔جب پادری یوانگ اور دوسرے پادریوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اور بھی ڈورے ڈالنے شروع کر دیے اور اب یہ عالم ہوا کہ ڈاکٹر یوانگ اور پادریوں کی دعوتیں خواجہ صاحب کے گھر ہوتی تھیں۔ اور خواجہ کمال الدین صاحب دن رات ان کے ہاں مدعو رہتے تھے۔اور بائبل کے تبلیغی جلسوں اور محفلوں میں عیسائیت کی تائید کرنا خواجہ کمال الدین کا کام تھا جہاں کوئی اور متنازعہ امر درمیان میں آیا اور کسی نے پادریوں پر اعتراض کیا اور ڈاکٹریوانگ نے خواجہ صاحب کو مخاطب کیا اور یہ فورا ًتصدیق و تائید کے لئے کھڑے ہوگئے۔اب یہ ہوا کہ باقاعدہ بپتسمہ لینے کی تیاریاں ہونے لگیں۔

ادھر جناب الٰہی کی رحمت نے دستگیری کی تیاری شروع کر دی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود کی کتاب براہین احمدیہ خواجہ صاحب کے ہاتھ پڑ گئی یہ کتاب کس طرح ان تک پہنچی مجھے علم نہیں مگر کتاب پہنچی اور خواجہ صاحب نے پڑھی خدا جانے کیا اثر قلب پر پڑا دنیا ہیچ نظر آنے لگی اور خدا کی معرفت کی روشنی کے لئے دل کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ خواجہ صاحب جس آ گ کے گڑھے میں گرنے کی تیاریاں کر رہے تھے وہ اب صاف عیاں نظر آنے لگا۔اپنے انجام کا سوچ کر کانپ اٹھے اور اپنی بد اعتقادی اور بداعمالیوں سے توبہ کی پادری یوانگ کی محفل میں جو آج جانا ہوا تو وہ حسب معمول اپنی تبلیغی مجلس میں عیسائیت کو پیش کرکے خواجہ صاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ کیوں خواجہ صاحب میں نے ٹھیک کہا ؟خواجہ صاحب نے بیٹھے بیٹھے اس خیال کی ایسی تردید کی کہ پادری حیران رہ گیا۔جلدی سے کہنے لگا۔خیر خیر خواجہ صاحب !معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پادری نے اس کے فوراً بعد مجلس برخاست کر دی اور علیحدہ جاکر خواجہ صاحب سے اس کا سبب پوچھا کہ آج آپ نے عجیب طرح کے خیالات کا اظہار کیا خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ میرا مذہب اب تک فقط دنیا طلبی تھا اور اس کے لیے اس عیسائیت سے بڑھ کر مجھے کوئی مذہب نظر نہیں آیا تھا اس لئے میں عیسائی ہونے کے لئے تیار تھا۔لیکن میں نے ایک مرد خدا کی کتاب پڑھی ہے اس سے مجھے دنیا ہیچ نظر آنے لگی ہے اور اس کتاب نے مجھ پر واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام کے سوا آج کوئی مذہب مذہب کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہےکیوں کہ صرف وہی ایک مذہب ہے جو خدا تک آج بھی بندہ کو پہنچاتا ہے اور یہی مذہب کی غرض و غایت ہو سکتی ہے۔بس میں اس کتاب کو جس کا نام براہین احمدیہ ہے پڑھ کر نئے سرے سے مسلمان ہوا ہوں اور یہ وہ اسلام ہے جو ماں باپ کے گھر سے نہیں بلکہ علم و حکمت کے در سے مجھے ملا ہے اس لیے میرے دل میں گھر کر گیا ہے۔

براہین احمدیہ اور حضرت مرزا غلام احمد کا نام نامی کفر کے لیے موت کی گھنٹی تھی پادری اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور ان کا یہ شکار ان کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن بایں ہمہ ابھی خواجہ صاحب کے دل میں طرح طرح کے وساوس موجزن تھے اور بد ا عمالیوں اور بگڑی ہوئی عادتوں کو چھوڑنا خواجہ صاحب کے لیے آسان کام نہ تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیان سے ملتان تشریف لے جا رہے تھے۔امرتسر کے اسٹیشن پر خواجہ صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلاف معمول خواجہ صاحب کو زور سے سینے سے لگایا اور خواجہ صاحب کی بیعت بھی لے لی یہ غالباً 1893ء کا واقعہ ہے۔

خواجہ کمال الدین صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سینے سے لگتے ہی میرے دل کو ایک عجیب ٹھنڈک اور سکون حاصل ہوا اور وساوس تو سینے سے یوں دھل گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں اور میرا دل یقین اور معرفت کی لذت سے بھر گیا اور ہر ایک بری بات سے یک قلم نفرت ہوگئی اور وہ ٹھنڈک تو مہینوں مجھے قلب میں محسوس ہوتی رہی اور عبادت کا وہ ذوق و شوق پیدا ہو گیا کہ شب بیداری تہجد اور نمازوں میں خشوع و خضوع کا وہ عالم ہوا کہ کسی طرح ان چیزوں سے سیری نہ ہوتی تھی غرض کہ تقویٰ اور عبادت کا ایسا رنگ غالب ہوا کہ ہم نشینوں کو حیرت ہوگی صحیح راستے پر لگنے سے دماغ کے فطری جوہر بھی کھلنے لگے۔(تذکرہ انصار احمدیہ حصہ اول صفحہ 48 ناشر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)

میری کتاب پڑھو

محترم مرزا سردار محمد صاحب نے 1953ء میں احمدیت قبول کی آپ فدائی احمدی تھے۔اپنی ساری برادری میں سے آپ اکیلے خوابوں کے ذریعے احمدی ہوئے۔آپ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ شخص خواب میں آئے جو فرمارہے تھے ’’مرزا سردار محمد مجھے پہچانو‘‘ میں ہی امام وقت مہدی و مسیح موعود ہوں اور میری یہ کتاب (براہین احمدیہ کی طرف اشارہ کیا )پڑھو ۔آپ ان دنوں لیہ شہر میں مقیم تھے۔آپ نے اس خواب کا ذکر وہاں کے اسٹیشن ماسٹر صاحب جو کہ احمدی تھے سے کیا۔اور اسٹیشن ماسٹر صاحب سے دریافت کیا آپ کے مرزا صاحب اس حلیہ کے ہیں اسٹیشن ماسٹر صاحب نے اس بات کی تائید کی اور آپ نے براہین احمدیہ کے بارے میں دریافت کیا اور پڑھنے کے لئے اسٹیشن ماسٹر صاحب سے مانگی۔اسی طرح آپ کی خوابوں کا اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے مطالعہ کا سلسلہ جاری رہا۔اور آخر 1953ء میں آپ نے احمدیت قبول کرلی۔(روزنامہ الفضل ربوہ 24؍دسمبر 2001ء صفحہ 5 )

حقانیت روشن ہوگئی

بھارت کے مولانا عبدالرحیم صاحب شہید اپنی قبول احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔1980ء میں الہ آباد بورڈ سے عربی ادب میں فضیلت کی سند حاصل کی 1981 میں دارالعلوم دیوبند سے حدیث کا دور مکمل کیا اور دوبارہ دارالعلوم دیوبند سے حدیث کا دور مکمل کیا۔پھر بنگال کے مختلف مدارس میں درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا اور 1990ءسے 1995ء تک صدر مدرس وفاق الحدیث کے عہدہ پر قائم رہے پھر پنجاب آئے تو پہلے پنجاب میں احمدیت کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے اور پھر ہماچل پردیش و ہریانہ میں بھی احمدی مبلغین کا تعاقب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔اس وقت حسد و عناد میں مخالفین احمدیت کی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔کہ اچانک نفس لوامہ نے ابھرنا شروع کیا۔اور پھر عقل سلیم کے تقاضے پر احمدی کتب کا مطالعہ کرنے کی خواہش بھی پیدا ہوئی۔

بہت تلاش کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دو تصانیف براہین احمدیہ اورحقیقۃ الوحی دستیاب ہوئیں تو ان کے مطالعہ سے حقانیت ان پر روشن ہو گئی چنانچہ 1997ءمیں پورے انشراح سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل گئی۔(الفضل انٹرنیشنل لندن 13؍اپریل 2001ء)

حجت پوری ہوگئی

محترم مولوی عزیزالرحمن منگلاصاحب چک منگلا کے رہنے والے تھے۔جو ریلوے اسٹیشن سو بھاگہ ضلع سرگودھا کے عین مشرق میں دو میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔عرصہ ہوا ایک جید عالم اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل پیر منور الدین صاحب (ساکن بھوچھال کلاں ضلع جہلم)اس گاؤں میں رہائش پذیر ہو گئے۔اور وہاں ایک مدرسہ جاری کر دیا جس میں اردگرد کے طلباء نے کافی تعداد میں داخل ہوکر تحصیل علم کیا۔محترم مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلانے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد مذکورہ مدرسہ میں داخل ہوکر ابتدائی طور پر عربی علوم کی تحصیل کی۔بعد ازاں ایک مشہور عالم مولوی نصیر الدین ساکن چکڑالہ پھر مکرم مولوی حبیب الرحمن صاحب ساکن کھلانٹ ضلع ہزارہ سے صرف و نحو، فقہ وکتب حدیث پڑھیں۔محترم مولوی صاحب موصوف کو احمدیت کا تعارف اس طرح ہوا کہ ان کے استاد مکرم پیر منور الدین صاحب ایک دفعہ لاہور تشریف لےگئے۔ وہاں انہوں نے علماء سے ملنے کا پروگرام بنایا۔اس سلسلہ میں وہ مکرم مولوی محمد علی صاحب امیر انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور کے پاس بھی احمدیہ بلڈنگ تشریف لےگئے۔وہاں ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کے متعلق بات چیت ہوئی۔ڈاکٹر مرزا یعقوب بیک صاحب نے ان کو کافی تعداد میں کتب اپنی گرہ سے خرید کر پیش کیں۔ واپس آکر مکرم پیر صاحب نے ان کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔محترم مولوی عزیز الرحمن صاحب چونکہ ان کی لائبریری کے منتظم تھے اس لیے ان کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا موقع ملا۔آپ نے اپنے مطبوعہ سوانح عمری میں تحریر فرمایا ہے: ’’عام طور پر میں ایک کتاب پڑھتا جاتا تھا اور پیر صاحب لیٹے لیٹے سنتے جاتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ براہین احمدیہ کے پہلے حصہ سے لے کر 1899ءتک کی تمام کتابیں ہم نے خوب مطالعہ کر لیں ان کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہم بہت نیک خیالات رکھتے تھے اور اس بار ہ میں ہم دوسرے علماء سے مذاکرے کرتے رہتے تھے۔

ہوتے ہوتے پیر صاحب کے تمام مریدوں کے عقائد پختہ ہو گئےکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نیک انسان ہیں لیکن ہمیں ان کی بیعت کی ضرورت نہیں۔ اور حضرت مرزا صاحب کو نیک بزرگ مانتے ہوئے ہمیں اپنی پیری مریدی کا سلسلہ قائم رکھنا چاہیے۔ایک مرید کی دعوت پر پیر منور الدین صاحب سلانوالی تشریف گئے۔ وہاں تقسیم ملک کے بعد کافی مہاجر آباد ہوچکے تھے اور وہ لوگ ہمارے عقائد سے واقف ہو چکے تھے۔انہوں نے ہمیں مرزائی مشہور کردیا۔اور ہمارے ساتھ مناظرہ کی طرح ڈالی۔پیر منور بھی جوشیلے آدمی تھے انہوں نے لکھ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب اپنے تمام دعاوی میں سچے ہیں۔ اس پر مناظرہ رکھا گیا۔ انہوں نے راتوں رات مولوی بلا لیے۔ہمیں نہ اس قسم کے مناظروں کا پتہ۔نہ پورے دلائل کا علم۔ بہرحال دوسرے دن عبداللہ معمار امرتسری ان کی طرف سے مناظر مقرر ہوا۔اور خاکسار عزیز الرحمن پیر صاحب کی طرف سے مناظر مقرر ہوا۔مجھے کہیں سے احمدیہ پاکٹ بک بھی مل گئی۔ویسے بھی وفات مسیح کے دلائل ایک کاپی پر جمع کر رکھے تھے۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے مناظرہ بہت اچھا رہا۔اور یہ بھی عجیب قسم کا مناظرہ تھا نہ احمدی نہ لاہوری نہ قادیانی اور وفات مسیح اور صداقت حضرت مرزا صاحب پر ہم لوگ مناظرہ کر رہے ہیں۔لیکن اصل میں خدا تعالیٰ ہمیں ٹریننگ دے رہا تھا کہ تم نے احمدی بن کر دعوت الی اللہ کرنی ہے۔ ابھی سے تیاری اور مشق کر لو۔

انہی ایام میں ربوہ مرکز احمدیت جب ہمارے علاقہ میں آباد ہونا شروع ہوا اور سرگودھا شہر میں بھی کافی احمدی احباب آنا شروع ہوئے تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تصنیفات اکٹھی کرنی شروع کیں۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم پڑھی۔حقیقۃ الوحی پڑھی۔نبوت کا مسئلہ حل ہوگیا۔ان دنوں میں نے مسئلہ مصلح موعود۔مسئلہ خلافت پر لٹریچر پڑھا۔خدا تعالیٰ نے مجھ پر حق واضح کردیا کہ خلافت برحق۔ اور حضرت مرزا صاحب کی تحریرات کی روشنی میں مصلح موعود میرا پیارا محمود ہے۔

اس کے بعد میرا اور میرے استاد پیر صاحب کا اختلاف شروع ہوا۔پیر صاحب اسی عقیدہ پر جم گئے تھے مرزا صاحب نبی نہیں اور نہ ہی خلافت کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیعت کی ضرورت ہے۔اور خاکسار ان مسائل کی تہہ تک پہنچ گیا۔اب میں اعتقادی احمدی ہو چکا تھا۔لیکن پیر صاحب کو چھوڑنا بھی بہت مشکل تھا۔کیونکہ ان کے ہم پر بہت سے احسانات تھے اور ان کا رعب بھی اتنا تھا کہ ان کو چھوڑنا کارے دارد تھا۔لیکن لٹریچر کے ذریعہ سے اب حق واضح ہوچکا تھا۔میں ایک دفعہ لاہور گیا وہاں جودھامل بلڈنگ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ 1947ء کی ہجرت کے بعد رہائش پذیر تھے۔ شام کی نماز میں نے حضرت مصلح موعود کی اقتداء میں ادا کی اور مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب نے میرا تعارف حضرت مصلح موعود سے کروایا۔نماز کے بعد ان دنوں حضور نفسیات پر کچھ لیکچر دیا کرتے تھے اور کافی دوست جمع ہو جایا کرتے تھے۔حضور رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اور حضور کے طرز گفتگو نے مجھے کچھ ایسا گرویدہ کیا کہ میں رونے لگ گیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے علاقہ پوچھا اور تعلیم پوچھی میں نے سب کچھ بتایا۔لیکن اس ملاقات اور حضور کی نگاہ نے مجھے اپنا مطیع بنا لیا۔اب میں نے علیحدگی میں پیر صاحب سے بات چیت بہت مؤدبانہ انداز میں شروع کی اور اپنے دلائل دینے شروع کیے کہ خدا کے مامور کے مقابلہ میں آپ کو اپنی گدی چھوڑ دینی چاہیے اور بیعت میں شامل ہونا چاہیے۔لیکن یہ قدم پیر صاحب کے لئے اٹھانا بہت ہی مشکل تھا۔اور ہمیں پیر صاحب کا چھوڑنا بہت مشکل تھا۔اسی کشمکش میں 1950ءمیں میں نے حج کرنے کا ارادہ کیا۔اور اس سفر میں میری ایک غرض یہ تھی کہ اس معاملہ کے متعلق مقامات مقدسہ پر جاکر دعا کروں گا مجھے بیس دن کراچی ٹھہرنا پڑا کیوں کہ ہمارا جہاز لیٹ ہو گیا تھا۔میں جمعہ کی نماز احمد یہ ہال کراچی میں جاکر پڑھتا۔اور رات دن سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کرتا۔مجھے یاد ہے کہ دعوت الامیر اور ذکر الٰہی میں نے وہاں ہی کسی احمدی دکاندار سے خریدی تھیں اور سفر حج پر ساتھ لے گیا۔ہاں مرقاۃالیقین بھی ہر وقت میں اپنے پاس رکھتا تھا۔اور اس کا ہر وقت مطالعہ کرتا رہتا تھا۔سن رکھا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر ڈالتے وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔لہٰذا میں نے دو دعائیں مانگیں۔

1۔خدایا عمر بھر جو دعا مانگو ںوہ قبول فرمانا 2۔جماعت احمدیہ قادیان میں شامل ہونا اگر تیری رضا کا موجب ہے تو مجھے ضرور داخل فرمانا۔یوں تو بیت اللہ۔مدینہ منورہ۔منیٰ۔ میدان عرفات وغیرہ تمام مقامات مقدسہ پر دعائیں کیں۔ لیکن یوم عرفہ یعنی حج کے دن تو خصوصاً دعاؤں کا موقع ملا۔عرفات کے میدان میں تقریباً میں آٹھ نو بجے پہنچ گیا تھا۔دوپہر کے بعد ظہر و عصر جمع کرکے احرام کی حالت میں ایک مشکیزہ پانی کا کندھے پر ڈالے اور کاپی دعاؤں کی ساتھ لیے ایک چھتری لے کر جبل رحمت پر چڑھ گیا۔جہاں حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تھا۔خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے اس مقام پر حج کے دن کھڑے ہوکر قرآنی دعاؤں اور احادیثی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنے خدا سے یوں مخاطب ہوا۔

مولا کریم میں گناہ گار پاکستان سے تیرے اس متبرک مقام پر اس لئے آیا ہوں کہ میرے گناہ بخش اور اگر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تیرا سچا مسیح موعود ہےاور اس کی جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے تو مجھے اس کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما۔اےمیرے مالک اگر قیامت کے روز تو مجھ سے سوال کرے گا کہ تو نے مسیح موعود کو کیوں نہ مانا۔تو اس کا ذمہ دار اب تو ہوگا۔میں روتے گرتے پڑتے تیرے در پر پہنچ گیا ہوں۔اب آئندہ کا راستہ تو کھول۔جو حالت دعا اور حالت گریاں اس وقت مجھ پر طاری ہوئی وہ مجھے ساری عمر نہیں بھولے گی۔۔واپس آ کر دو سال متواتر پیر صاحب سے بحث ومکالمہ ہوتا رہا۔

اور اس عرصہ میں مجھے کئی خوابیں بھی آئیں۔جن کو میں نوٹ کر لیتا۔اور میری عقیدت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے روز بروز بڑھتی گئی۔آخر میں نے حتمی فیصلہ کرلیا۔اور خدا تعالیٰ نے میرے اندر قوت بھردی کہ خواہ اب پیر صاحب ناراض ہو ں اب خدا تعالیٰ نے عقلی،علمی، روحانی طور پر مجھ پر حجت پوری کردی ہے اب اگر مداہنت سے کام لوں تو شاید سلب ایمان کا معاملہ نہ ہو جائے۔پس ٫1954کے جلسہ سالانہ پر یہ خاکسار حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور دستی بیعت سے مشرف ہوا۔اور میرے ساتھ رائے اللہ بخش صاحب ولد احمد منگلا نے بھی بیعت کی۔اور بعد میں خاکسار کے ذریعہ سے پیر منور الدین کے تمام مرید سوائے چند ایک کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے داخل سلسلہ حقہ احمدیہ ہوگئے۔‘‘ (قبول احمدیت کی داستان صفحہ4 تا 27از عزیزالرحمان منگلا صاحب )

تعلیم کے دوران

مکرم میجر ریٹائر ڈعبدالحمید صاحب سابق مربی انگلستان امریکہ اور جاپان کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک معزز راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔جون 1932ء میں گارڈن کالج راولپنڈی میں تعلیم پانے کے دوران براہین احمدیہ کا مطالعہ کرکے احمدیت کی آغوش میں آئے ان کے والد صاحب نے ابتدا میں ان سے سخت رویہ اختیار کیا مگر بالآخر محترم میجر صاحب کی دعوت الی اللہ رنگ لے آئی اور 1934ءمیں ان کے والد صاحب بھی اس سلسلہ میں داخل ہوگئے۔(روزنامہ الفضل ربوہ 8؍اکتوبر 1997ء صفحہ 4)

براہین احمدیہ جلد 5کی پیشگوئی

محترم چودھری شاہ دین صاحب چٹھہ صاحب ایک عالم تھے اور اُٹھنا بیٹھنا بھی اُس وقت کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ تھا۔ ایک روز وہ ایک عرضی لکھوانے سیالکوٹ کچہری میں گئے تو ایک احمدی عرضی نویس کی میز پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ جلد 5 پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے اُس کتاب کو دیکھنا شروع کیا۔ اس شعر پر نظر پڑی کہ ’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی بحال زار‘‘۔ اُن دنوں ہندوستان کے اخبارات میں کثرت میں یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ زارِ روس پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔ یہ پیشگوئی پُوری ہوتے دیکھ کر آپ کے دل پر بہت اثر ہوا اور اُسی وقت بیعت کا خط لکھ دیا۔ یہ 1918ء کی بات ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل 9؍ مارچ 2021ءصفحہ 10)

الغرض یہ محض ایک کتاب نہیں صور اسرافیل تھا جس نے مردوں کو جگا دیا ایک پیغام تھا جس نے بے سمت لوگوں کو منزل دکھائی بجلی کا کڑکا تھا جس نے گمراہوں کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیا ایک شور قیامت تھا جس نے خفتگان کو خواب ہستی سے بیدار کر دیا اس نے سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچا اور اللہ اور رسول ﷺ کا والہ و شیدا بنا دیا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button