اختلافی مسائل

کیا ’بروز‘ ایک غیر اسلامی اصطلاح ہے؟

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا۔ آپ علیہ السلام اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھااور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کرکے بھیجا ایسا ہی اُس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا۔ سو میں ان معنوں کرکے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی۔ مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا۔ اور اس کا خلیفہ اور صدق اوررا ستبازی کو اختیار کرنے والا۔ اور مہدی ایک لقب ہے جوحضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتًا ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل۔ سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے سو میں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں بروز عیسیٰ وبروز محمدؐ۔ ‘‘(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 27تا28)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نام رکھنے کی حکمت بہت آسان فہم انداز میں بیان فرمائی ہے۔ غیر احمدی علماء اس میں اور اس طرح کی دیگر عبارات میں یہ اعتراض نکالتے ہیں کہ لفظ ’بروز‘ غیر اسلامی ہے۔ کبھی اس کو ہندو کے عقیدہ تناسخ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جس کے مطابق ایک روح دوبارہ دنیا میں آتی ہے۔ حالانکہ پوری عبارت کو غور سے پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے۔تناسخ کے عقیدہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کئی کتب میں ہندوؤں کے اس عقیدہ کو رد فرما چکے ہیں۔

بروز کے حوالے سے یہ کہنا کہ یہ ایک غیر اسلامی تصور ہے یہ بھی درست نہیں ہے۔ کئی مسلم علماء اپنی کتب میں بروز کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703ء تا 1762ء)ہیں جو برصغیر پاک و ہند میں عہدِ مغلیہ کے مشہور عالم دین، محدث اور مصنف تھے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کا پہلا فارسی ترجمہ کیاہے۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتابیں علم تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ اور تصوف پر ہیں۔ ان عالمانہ کتابوں کی وجہ سے وہ امام غزالی، ابن حزم اور ابن تیمیہ کی طرح تاریخ اسلام کے سب سے بڑے عالموں اور مصنفوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اوراپنی صدی کے مجدد سمجھے جاتے ہیں۔

حضرت شاہ صاحب اپنی کتاب تفہیماتِ الٰہیہ میں بروز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’وَالْبُرُوْزُ عَلٰی ضَرْبَیْنِ حَقِیْقِیّ وَمَجَازِیّ‘‘(تفہیمات الٰہیہ جزو ثانی تفہیم نمبر 228، صفحہ نمبر197مطبوعہ مدینہ برقی پریس۔ بجنور 1936ء )یعنیبروز کی دو اقسام ہیں ایک حقیقی اور دوسرا مجازی۔

پھر حقیقی بروز کے متعلق لکھتےہیں کہ ’’وَاَمَّا الْحَقِیْقِی فَعَلٰی ضُرُوْب…وَتَارَۃ اُخْرٰی بِاَن تشتبک بِحَقِیْقَۃٍ رَجُل مِنْ آلِہ اَوِ الْمُتَوَسِّلِیْنَ اِلَیْہِ کَمَا وَقَعَ لِنَبِیِّنَاﷺ بِالنِّسْبَۃِ اِلٰیٰ ظُہُوْرِ الْمَھْدِی ‘‘(تفہیمات الٰہیہ جزو ثانی تفہیم نمبر 228، صفحہ نمبر197، 198مطبوعہ مدینہ برقی پریس۔ بجنور 1936ء )حقیقی بروز کی کئی اقسام ہیں …کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہوجاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبیﷺ کی مہدی سے تعلق میں اس طرح بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی۔ یعنی مہدی آنحضرتﷺ کا حقیقی بروز ہے۔

پھر اپنی کتاب انفاس العارفین میں اپنے والد صاحب کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’فرمایا کہ حضرت سید الرسل علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو میں [والد صاحب ] نے صورتِ واقعی میں دیکھا۔ میری طرف متوجہ ہوئے۔ محض توجہ گرامی سے میں مقاماتِ اولیاء کو عبور کر گیا اور وہ تمام مقامات مجھ پر بخوبی منکشف ہو گئے، حتٰی کہ میں اس مقام تک جا پہنچا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کوئی ولی اس سے آگے جا ہی نہیں سکتا۔ میں نے عرض کی کہ اس فقیر کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ جس محال (ناممکن)کی طرف متوجہ ہوں، وہ امکان کی صورت قبول کر لیتا ہے، کچھ مشکل نہیں کہ استعداد نہ ہونے کے باوجود بھی اس مقصود کا چہرہ مجھ پر جلوہ نمائی کرے۔ پس آنحضرتﷺ میری روح کو اپنی روح کے سائے میں لے کر مقام صدیقیت سے بھی عبور فرما گئے، ولایت کا انتہائی مقام ہے …۔

کاتب الحروف نے حضرت والد ماجد کی روح کو آنحضرتﷺ کی روح مبارک کے سائے (ضمن)میں لینے کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یوں محسوس ہوتا تھا ،گویا میرا وجود آنحضرتﷺ کے وجود سے مل کر ایک ہوگیا، خارج میں وجود کی کوئی الگ حیثیت نہیں تھی، بجز اس کے کہ میرا علم مجھے اپنا شعور دلا رہا تھا۔ ‘‘(انفاس العارفین از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مترجم پیر سید محمد فاروق القادری ایم اے صفحہ 114تا115، ناشر: فرید بک سٹال اردو بازار لاہور )

اسی کتاب انفاس العارفین کے حصہ دوم میں شیخ ابوالرضا محمد کے حالات کے ضمن میں درج فرمایا کہ ’’فرمایا: حضرت پیغمبرﷺ کو میں نے خواب میں دیکھا، جیسے مجھے اپنی ذاتِ مبارک کے ساتھ اس انداز سے قرب واتصال بخشاکہ جیسے ہم متحد الوجود ہوگئے ہیں اور اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کا عین پایا۔ کسی نے اس وقت آنحضرتﷺ سے کوئی سوال کیا، تو آپ نے میری طرف اشارہ فرمایا، میں نے اسے وضاحت سے جواب دیا۔ بعد میں آپ مجھ سے جد ا ہوگئے۔‘‘ (انفاس العارفین از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مترجم پیر سید محمد فاروق القادری ایم اے صفحہ 203 ناشر: فرید بک سٹال اردو بازار لاہور )

’’وَاَعْظَمُ الْاَنْبِیَاء شَانًا مَنْ لَّہ نَوْع آخَر مِنَ الْبَعْثۃ اَیْضًا وَذٰلِکَ اَن یَّکُوْنَ مُرَاد اللّٰہِ تعالیٰ فِیْہ اَن یَّکُوْنَ سَبَباً لِخُرُوج النَّاسِ مِنَ الظُّلَماتِ اِلی النُّورِ، وَاَن یَّکُونَ قَومُہ خَیْرَ اُمۃ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ فَیَکُون بَعْثہ یَتَناول بَعْثًا آخر‘‘(حجۃ اللّٰہ البالغۃ جلد اول باب حقیقۃ النبوۃ وخواصھا صفحہ 156، ناشر دارالجیل بیروت 2005ء)یعنی شان میں سب سے بڑا نبی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہوگی اور وہ اس طرح ہے کہ مراد اللہ تعالیٰ کی دوسری بعثت میں یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو لہٰذا اس نبی کی پہلی بعثت دوسری بعثت کو بھی لیے ہوئے ہوگی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنے وجود کو رسول کریمﷺ سے مشابہ ہونے، کامل اتصال پکڑنے یا ان کے بروز ہونے کا ذکر فرماتے ہیں تو غیر احمدی علماء ان عبارات کو قابلِ اعتراض ٹھہراتے ہیں حالانکہ اسی مضمون کی حامل عبارات ان کے اپنے بزرگوں کی کتب میں موجود ہوتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کو حق بات سمجھنے اور کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(مرسلہ: ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button