اختلافی مسائل

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی

آیت وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (النساء :۱۵۸) کی تصدیق میں تاریخی اور واقعاتی شہادتیں اس بات کے ثبوت میں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی

(آیت مذکورہ کی تفسیر بیان کردہ فائیو والیم شارٹ کمنٹری کے متعلقہ حصہ کا اردو ترجمہ)

یہود و نصاریٰ حضرت مسیح علیہ السلام پر بعض ایسے اعتراضات کرتے ہیں جن کا تدارک صرف قرآن کریم نے فرمایا ہے۔ یہود حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش اور آپؑ کے صلیب دیے جانے کو آپؑ کی نبوت کے دعویٰ کے منافی قرار دیتے ہیں جبکہ اکثر مسیحی بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر وفات کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کو ان دونوں اعتراضات سے بَری قرار دیتا ہے۔ ذیل میں سورة النساء آیت ۱۵۸ کی تفسیر کا ترجمہ فائیو والیم کمنٹری مرتبہ حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ سے احباب کے استفادے کے لیے پیش ہے۔(ادارہ)

قرآن حضرت عیسیٰؑ کا محض صلیب پر لٹکائے جانے کی نفی نہیں کرتا بلکہ صلیب پر وفات پانے کا انکار کرتا ہے

مَا قَتَلُوْهُ (انہوں نے اسے قتل نہیں کیا)۔ قتلہ کا مطلب ہے کہ اس نے اسے تلواریا پتھریا زہریا کسی اور ذریعے سے مارا۔

مَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا (انہوں نے اس قیاس کو یقین میں نہ بدلا) عربی زبان کا ایک مخصوص محاورہ ہے۔ عرب کہتے ہیں کہ قَتَلَ الشیء خبرا(لغوی مطلب ہے کہ اس نے کسی چیز کو علم کے یقین اور درست تجزیہ سے مارا) یعنی اس نے کسی چیز کا مکمل اور بھرپور علم حاصل کیا تاکہ کسی قسم کے ممکنہ شک کو زائل کیا جا سکے۔ چنانچہ الفاظ مَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا کا مطلب ہو گا کہ اس بارے میں ان کا علم مکمل اور جامع نہیں تھا، یا انہیں اس بات کا یقینی علم نہیں تھا کہ وہ قتل کر دیا گیا ہے، یا انہوں نے اسے (اپنے گمان کو) یقین میں نہیں بدلایعنی انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا اور نہ انہوں نے اسے یقینی بنایا کہ آیا حضرت عیسیٰؑ واقعی صلیب پر فوت ہوئے ہیں یا نہیں۔ اس صورتحال میں لفظ قَتَلُوْهُ کی ضمیر اسم ظن (گمان) کی طرف جائے گی جو اس سے معاً پہلے آیا ہے۔(لین، اقرب، مفردات اور لسان)

سادہ…اس کا مطلب ہوگا کہ حضرت عیسیٰؑ کی صلیب پر موت کے بارے میں ان کا علم یقینی اور جامع نہیں تھا کہ انہیں یقین کا رتبہ حاصل ہوتا۔ اس محاورے کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یقیناً اسے قتل نہیں کیا یا انہوں نے یقینی طور پر اسے قتل نہیں کیا یعنی انہوں نے اس طرز پر آپؑ کو صلیب نہ دی جس سے انہیں یقین ہو جاتا کہ واقعی آپؑ سے جان نکل گئی ہے۔

مَا صَلَبُوْهُ (اسے صلیب نہ دی)۔ لفظ صَلَبُوْا مادہ صلب سے نکلا ہے۔ کہتے ہیں کہ صَلَبَ الشَّیْءَیعنی اس نے اس چیز کو جلا دیا۔ صَلَبَ الْعِظَامَ کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے ہڈیوں سے گودا نکالا۔ صَلَبَ اللِّصَّکا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے چور کو صلیب دی یعنی اس نے اسے مخصوص معروف طریق کے مطابق مارا (لین اور اقرب)۔ صلیب کے عمل میں ایک آدمی کو صلیب کی طرز پر بنائے گئے لکڑی کے ایک چوکھٹے پر کیلوں کے ساتھ لٹکا کرکھانے پینے کے بغیر وہاں رکھا جاتا، اس طرح وہ درد، بھوک، تھکاوٹ اور غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ مر جاتا۔

شُبِّهَ لَهُمْ (وہ انہیں ایک مصلوب شخص کی طرح دکھایا گیا)۔ شبھہ ایاہ کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے فلاں کو فلاں کی طرح بنایا یا ا س نے فلاں کو فلاں کی مانند بنایا۔ شُبِّہ علیہ الامر کا مطلب ہوتا ہے کہ معاملہ اس کے لیے مشتبہ، غیرواضح اور مشکوک ہو گیا۔ شبہ علیہ الامر اس نے (اسے کسی اور چیز کی طرح بنا کر) معاملہ اس کے لیے مشکوک بنا دیا؛ اس نے فلاں چیز کو اس کے لیے مشتبہ، غیر واضح اور مشکوک بنا دیا(لین اور اقرب)۔

یہ اور اس سے پہلی آیت یہود کے حضرت عیسیٰؑ کے خلاف دو بڑے اعتراضات کا ذکر کرتی ہیں۔(۱)آپ کی مزعومہ ناجائز ولادت اور (۲) صلیب پر آپ کی فرضی موت جو کہ یہودی شریعت کے مطابق ایک لعنتی موت تھی(استثناء ۲۱:۲۳)۔ یہ الفاظ کہ ‘‘ىقىناً ہم نے مسىح عىسى ابنِ مرىم کو جو اللہ کا رسول تھا قتل کر دىا ہے’’ از راہِ طنز اور طعن و تشنیع کہے گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہم نے عیسیٰؑ کو جو خود کو مسیح اور اللہ کا رسول کہتا تھاقتل کر دیا ہے‘‘۔ یہود کی دلیل یہ تھی کہ عیسیٰؑ صلیب پر مار دیے گئے ہیں اس لیے یہودی شریعت کے مطابق وہ ایک سچے نبی نہیں ہو سکتے۔ یہ استنباط ان کے مقدس صحیفوں پر مبنی تھا کیونکہ بائبل کے مطابق جو صلیب پر لٹکایا جائے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے اور یہ کہ جھوٹا نبی تباہ کیا جائے گا۔ بائبل کہتی ہے کہ ’’اُس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکتی نہ رہے۔ تم اسے اسی دن دفن کر دینا کیونکہ جسے پھانسی دی گئی وہ خدا کی طرف سے ملعون ہوتاہے۔ لہٰذا تم اس ملک کو ناپاک نہ کرنا جسے خداوند تمہارا خدا میراث کے طور پر تمہیں دے رہا ہے‘‘(استثناء ۲۱:۲۳)۔پھر لکھا ہے کہ’’میرا ہاتھ ان نبیوں پر جو بُطلان دیکھتے ہیں اور جھوٹی غیب دانی کرتے ہیں چلے گا‘‘(حزقیل ۱۴:۹)اور لکھا ہے کہ’’اس لیے خداوند یوں فرماتا ہے کہ وہ نبی جنکو میں نے نہیں بھیجا جو میرا نام لیکر نبوت کرتے اور کہتے ہیں کہ تلوار اور کال اس ملک میں نہ آئینگے وہ تلوار اور کال ہی سے ہلاک ہوں گے‘‘(یرمیاہ ۱۴:۱۵)۔

بائبل کی ان آیات کی وجہ سے یہودی دعوٰی کرتے تھے کہ چونکہ عیسیٰؑ صلیب پر مارے گئے ہیں اور ہلاک کیے گئےہیں اس لیے وہ خدا کے سچے نبی نہیں ہو سکتے بلکہ ایک جھوٹے دعویدار اور لعنتی تھے۔

حضرت عیسیٰؑ کی صلیب کے ذریعے مزعومہ موت کے الزام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ چونکہ صلیب کے عمل کے مکمل نہ ہونے اور حضرت عیسیٰؑ کے صلیب سے زندہ اتار لیے جانے سے اس الزام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن حضرت عیسیٰؑ کا محض صلیب پر لٹکائے جانے کی نفی نہیں کرتا بلکہ صلیب پر وفات پانے کا انکار کرتا ہے۔

یہود میں حضرت عیسیٰؑ کی مزعومہ صلیبی موت کے بارے میں دو مختلف مشہور نظریات پائے جاتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک پہلے حضرت عیسیٰؑ کو قتل کیا گیا اور بعد میں آپؑ کے جسم کو صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ دوسرے اس نظریہ کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ صلیب پر لٹکائے جانے کی وجہ سے مارے گئے۔ پہلے نظریہ کی نشاندہی اعمال ۵:۳۰ سے ہوتی ہے جہاں لکھا ہے کہ’’جسے تم نےقتل کر کے درخت پر لٹکا دیا تھا‘‘۔ (اردو بائبل میں تحریف کرتے ہوئے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’جسے تم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا‘‘) قرآن ان دونوں نظریات کی یہ کہتے ہوئے تردید کرتا ہے کہ’’اور وہ ىقىناً اسے قتل نہىں کر سکے اور نہ اسے صلىب دے (کر مار) سکے ‘‘ان الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم پہلے حضرت عیسیٰؑ کے کسی بھی رنگ میں قتل کیے جانے کی تردید کرتا ہے اور پھر صلیب پر لٹکا کر مارے جانے کی نفی کرتا ہے۔

لفظ شُبِّهَ مجہول کے صیغہ میں استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ کسی کی طرح دکھایا گیا یا کسی کی مانند بنایا گیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون تھا جو ایک ’’مصلوب کی طرح ‘‘بنا کر دکھایا گیا تھا۔ واضح ہے کہ یہ حضرت عیسیٰؑ تھے جنہیں صلیب پر مارنے یا قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس سے مراد کوئی اور نہیں ہو سکتا کیونکہ سیاق و سباق میں یقینی طور پر کسی اور آدمی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے دوسرے مفسرین کی طرف سے گھڑا جانے والا یہ نظریہ کہ یہودا یا کوئی اور شخص حضرت عیسیٰؑ کی طرح بنایا گیا اور پھرآپؑ کی جگہ پر اسے صلیب دے دی گئی سراسر نامعقول ہے۔ سیاق و سباق کو توڑ مروڑ کر بھی کسی دوسرے شخص کی گنجائش نہیں نکالی جا سکتی جس کا اس آیت میں سرے سے ذکر ہی نہیں۔

حضرت عیسیٰؑ پھرکس کے مشابہ بنائے گئے؟سیاق و سباق اس سوال کا واضح جواب دیتا ہے۔ یہودیوں نے آپ کو صلیب پر قتل نہیں کیابلکہ آپؑ ایک مصلوب کی طرح انہیں دکھائے گئے چنانچہ اس بنا پر انہوں نے غلطی سے آپؑ کو مردہ خیال کر لیا۔ اس لیے یہ حضرت عیسیؑ ہی تھے جنہیں ایک مصلوب کے مشابہ دکھایا گیا۔ یہ تشریح نہ صرف سیاق و سباق سے قطعی طور پر مطابقت رکھتی ہے بلکہ تاریخی حقائق سے بھی ایسا ہی ثابت ہوتا ہے۔

شُبِّهَ لَهُمْ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’معاملہ ان پر مبہم ہو گیا‘‘اور یہ تشریح بھی تاریخ سے ثابت شدہ ہے کیونکہ اگرچہ یہود نے یہ دعوٰی کیا کہ انہوں نے عیسیٰؑ کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا ہے لیکن انہیں اس کا یقین نہیں تھا اور حالات کے غیر واضح ہونے کی صورت میں یہ معاملہ یقینی طور پر ان کے لیے مبہم ہو گیا تھا۔ بائبل اور مستند تاریخی حقائق اس امرِ واقعہ کی تائید کرتے ہیں کہ یہودیوں کو خود اس بات کا یقین نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰؑ واقعی صلیب پر فوت ہوئے ہیں یا نہیں۔

اس آیت میں مذکور بیانات کی تصدیق بائبل میں بیان کیے گئے حقائق سے بھی ہوتی ہے:

(۱) خود حضرت عیسیٰؑ نےان الفاظ میں اپنے صلیب پر مارے جانے سے بچ جانے کی پیشگوئی کی تھی: ’’جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابنِ آدم تین رات دن زمین کے اندر رہےگا‘‘(متی ۱۲:۴۰) یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے اور زندہ ہی باہر آئے، چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کی اپنی پیشگوئی کے مطابق آپؑ نے زندہ ہی زمین کے اندر (یعنی مقبرہ میں ) داخل ہونا تھا اور اس سے زندہ ہی باہر آنا تھا۔

(۲) فیصلہ کرنے والا جج حضرت عیسیٰؑ کو معصوم سمجھتا تھا اور آپؑ سے ہمدرد ہونے کے ناطے آپ کی جان بچانے کے لیے فکر مند بھی تھا۔ (متی ۲۷:۱۷,۱۸؛ مرقس ۱۵:۹,۱۰,۱۴؛ لوقا۲۳:۴,۱۴,۱۵,۲۰,۲۲؛ یوحنا ۱۸:۳۸,۳۹)۔اس نے لازمی خفیہ طور پر آپ کو بچانے کی کوشش کی ہوگی یا کم ازکم دوسروں کی ایسی کسی کوشش کو کامیاب ضرور ہونے دیا ہوگا۔

(۳) پیلا طوس کی بیوی نے حضرت عیسیٰؑ کی بریت کے حوالے سے ایک خواب دیکھا تھا۔ ’’جب وہ تختِ عدالت پر بیٹھا تھا تو اس کی بیوی نے اسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سبب سے بہت دکھ اٹھایا ہے‘‘(متی۲۷:۱۹)۔ اس پیغام نے یقینی طور پر پیلا طوس کو متاثر کیا ہوگا اور اس کی بیوی نے بھی حضرت عیسیٰؑ کو بچانے کی بھرپور کوشش کی ہوگی۔

(۴) پیلا طوس نے حضرت عیسیٰؑ کے صلیب دیےجانے کا فیصلہ ایسی خوف کی حالت میں سنایا کہ اس نے یہ کہتے ہوئے حقیقتاً اپنے ہاتھ پانی سے دھوئے کہ وہ اس معصوم انسا ن کے خون سے بری الذمہ ہے۔ (متی۲۷:۲۴)

(۵) پیلا طوس سے جس قدر ہو سکتا تھااس نے حضرت عیسیٰؑ کی مدد کرنے کی کوشش کی اور سپاہیوں کے افسر نے بھی بظاہر پیلا طوس کی ہدایات پر حضرت عیسیٰؑ سے شفقت کا سلوک کیا۔ ذیل میں مذکور کچھ رعایتیں ہیں جو خصوصی طور پر حضرت عیسیٰؑ کو ہی دی گئیں۔ (الف): ہر مجرم نے اپنی صلیب خود اٹھائی جبکہ حضرت عیسیٰؑ کی صلیب کسی اور آدمی سے اٹھوائی گئی۔ (متی۲۷:۳۲؛ مرقس ۱۵:۲۱) (ب)عیسیٰؑ کو شراب یا مُر ملا سرکہ پلایا گیا جس کا مقصد آپؑ کے درد کے احساس کو کم کرنا تھا۔ دو چور جنہیں آپ کے ساتھ صلیب دی گئی انہیں یہ مشروب نہیں دیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس مشروب کا اثر کم ہونے لگتا اور حضرت عیسیٰؑ درد سے چلّاتے تو درد کے احساس کو کم کرنے کے لیے یہ مشروب آپؑ کو دوبارہ پلایا جاتا۔ (متی۲۷:۳۴, ۴۸؛ مرقس ۱۵:۲۳, ۳۶؛ یوحنا ۱۹:۲۹,۳۰)

(۶) سرکہ دیے جانے کے نتیجے میں جو بیہوشی طاری ہوئی اسے غلطی سے موت سمجھ لیا گیا۔ (یوحنا۱۹:۳۰)

(۷) حضرت عیسیٰؑ صلیب پر محض تین گھنٹے کے قریب رہے (یوحنا۱۹:۱۴ ؛متی۲۷:۴۶) اور مرقس کے نزدیک صرف چھ گھنٹوں کے لیے (مرقس ۱۵:۲۵, ۳۳)۔یہ دونوں دورانیے حضرت عیسیٰؑ جیسے جوان آدمی کو صلیب پر مارنے کےلیے کافی نہیں ہیں۔

(۸) جب یوسف آرمیتیا نے آکر عیسیٰؑ کی لاش مانگی تو ’’پیلا طوس نے تعجب کیاکہ وہ ایسا جلد مر گیا‘‘اور صوبہ دار کو بلا کر اس سے پوچھا کہ اس کو مرے ہوئے دیر ہوگئی ہے؟(مرقس۱۵:۴۴)

(۹) سپاہیوں نے حضرت عیسیٰؑ کی ٹانگیں نہیں توڑیں جبکہ دو مجرم جنہیں آپؑ کے ساتھ صلیب دی گئی تھی ان کی ٹانگیں توڑی گئیں۔ (یوحنا ۱۹:۳۲,۳۳)

(۱۰) حضرت عیسیٰؑ کو دوسرے دومجرموں کے ساتھ زمین میں دفن نہیں کیا گیا بلکہ آپ کو الگ سے ایک کشادہ مقبرہ میں رکھا گیا جوکہ ایک چٹان کھود کر بنایا گیا تھااور ایک ایسے باغ میں تھا جو ذاتی ملکیت تھی۔ (مرقس ۱۵:۴۶؛ یوحنا ۱۹:۴۱,۴۲)

(۱۱) یہود کو خود اس بات پر یقین نہیں تھا کہ عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں کیونکہ وہ پیلا طوس کے پاس گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ اس کی ٹانگیں توڑی جائیں۔ (یوحنا ۱۹:۳۱)

(۱۲) یہود کے دماغ میں یہ خیال کھٹک رہا تھا کہ عیسیٰؑ زندہ ہیں اور اپنے ہمدردوں کی مدد سے مقبرہ سے شایدنکل جائیں۔ انہیں عیسیٰؑ کی یہ پیشگوئی بھی یاد تھی کہ وہ انہیں یونسؑ نبی جیسا معجزہ دکھائیں گے اور زمین میں سے زندہ نکل آئیں گے، چنانچہ انہی خیالات کے باعث سردار کاہن اور فریسی جمع ہو کر پیلا طوس کے پاس آئے اور کہا کہ ’’خداوند ہمیں یاد ہے کہ اس دھوکے باز نے جیتے جی کہا تھا میں تین دن کے بعد جی اٹھوںگا۔ پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جائے‘‘۔ پیلاطوس نے انہیں اپنے طور پر انتظامات کرنے کا کہا۔ ’’پس وہ پہرے والوں کو ساتھ لےکر گئے اور پتھر پر مہر کرکے قبر کی نگہبانی کی‘‘۔(متی ۲۷:۶۲,۶۶)

(۱۳) پہرے اور پتھر پر مہر کرنے کے باوجود تیسرے دن کے طلوع ہونے سے قبل عیسیٰؑ مقبرہ سے جا چکے تھے کیونکہ جب مریم مگدلینی اور یعقوب کی ماں مریم مقبرہ دیکھنے آئیں اور انہوں نے پتھر کو ہٹا ہوا اور مقبرہ کو خالی پایا (متی ۲۸:۱-۶؛ مرقس ۱۶:۱-۶)۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پہرے پر مقرر آدمی بھی اس منصوبہ کا حصہ تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے ساتھیوں نے انہیں اعتماد میں لیا ہوا تھا۔

(۱۴) مقبرہ سے نکلنے کے بعد حضرت عیسیٰؑ چھپ کر ادھر ادھر جاتے تا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہود پھر سے آپ کو گرفتار کروا دیں۔(مرقس۱۶:۱۲؛یوحنا۲۰:۱۹,۲۶;۲۱:۴)

(۱۵) مریم مگدلینی اور دوسرے حواریوں نے عیسیٰؑ کو حقیقتاً جسمانی شکل میں دیکھا تھا۔ (مرقس ۱۶:۹,۱۲)

(۱۶) حضرت عیسیٰؑ نے انہیں اپنے زخم دکھائے تاکہ انہیں یقین کروا سکیں کہ وہ کوئی روح نہیں بلکہ گوشت اور خون سے بنا ہوا ایک انسان ہیں اور جو وجود وہ اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں یہ وہی جسمانی وجود ہے جسے صلیب پر لٹکایا گیا تھا۔ (لوقا۲۴:۳۹,۴۰؛یوحنا۲۰:۲۷)

(۱۷) مقبرہ سے نکلنے کے بعد حضرت عیسیٰؑ کو بھوک محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے حواریوں سے کھانا لے کر کھایا۔ (یوحنا۲۱:۵,۱۳؛لوقا ۲۴:۴۱, ۴۲, ۴۳)

مذکورہ بالا حوالہ جات دیگر کے علاوہ یہ بات بالبداہت ثابت کرتے ہیں کہ عیسیٰؑ صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور یہ کہ جب آپ صلیب سے اتارے گئے اور مقبرہ میں رکھے گئے تو اس وقت آپ زندہ تھےاور جیسا کہ آپ نے خود پیشگوئی کی تھی تیسرے دن علی الصباح اس میں سے زندہ باہر آگئے اور مزید برآں یہ کہ آپ مخفی طور پر اپنے حواریوں سے ملے اور انہیں یہ یقین دہانی کروائی کہ آپ فوت نہیں ہوئے۔

(۱۸) عیسیٰؑ نے یہ کہا تھا کہ’’اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں۔ مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا‘‘(یوحنا۱۰:۱۶) ان الفاظ میں آپ اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کی طرف نشاندہی کر رہے تھے جو افغانستان اور کشمیر وغیرہ کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔صلیب پر لعنتی موت سے معجزانہ نجات کے بعد انہی قبائل کی تلاش میں حضرت عیسیٰؑ مشرق کی طرف آئے تھے اور انہی کے درمیان کشمیر سری نگر محلہ خان یار میں مدفون ہیں۔ مستند تاریخی شہادتوں نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ سری نگر میں محلہ خان یار کے مقبرہ کا مقدس مکین کوئی اور نہیں بلکہ عیسیٰؑ ابنِ مریم ہیں۔ (فائیو والیم شارٹ کمنٹری جلد۲صفحہ ۷۲۵-۷۲۹)

(ترجمہ از: انتصار احمد۔استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button