اختلافی مسائلسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلاممتفرق مضامین

جدید تحقیق بابت پیش گوئی محمدی بیگم

(آصف محمود باسط)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی بابت احمد بیگ (جومخالفین کے لٹریچر میں محمدی بیگم کی پیش گوئی کے نام سے زیادہ مشہور ہے) کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے، ہمارے مخالف اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس پیش گوئی میں مذکور حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے متعلقہ افراد نے درحقیقت دینِ اسلام سے روگردانی کی تھی۔

 ذیل میں ہم اس پیش گوئی کامختصر پس منظر نیز حال ہی میں میسر آنے والے ثبوت پیش کرتے ہیں۔

سب جانتے ہیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی اکثر پیش گوئیاں تو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں مثلاً عیسائیوں اور ہندوؤں پردین ِ اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لیے تھیں، لیکن یہ خاص پیشگوئی اُن مسلمانوں کے لئے تھی جو اسلام سے اِس حد تک برگشتہ ہو چکے تھے کہ آریوں اور عیسائیوں کے ہم نوا بن گئے اور اِ ن دشمنان اسلام کے آلہ کار بن کر اسلام کی تعلیمات پربودے اعتراض کرنے اور بانی اسلام حضرت محمدؐ کی ذات والا صفات پر گستاخانہ حملے کرنے میں دیدہ و دانستہ معاون ومددگار بن چکے تھے۔

اس نوع کے مسلمانوں کے ایک گروہ کا، جن کو اِس زیرِ نظر پیش گوئی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وعید سے خبردار کیا گیا تھا، حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے آبائی خاندان سے تعلق تھا۔ یہ آپؑ کے چچازاد بھائی تھے، یعنی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین۔

اگرچہ ان کی وجۂ شہرت حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دین اسلام سے بالکل برگشتہ ہوچکے تھے۔ نبی کریمؐ کے خلاف دشنام طرازی، قرآن کریم کی بے حرمتی، حتیٰ کہ خدا تعالیٰ کی ذات اور وجود کا مذاق اڑانا اِن لوگوں کے معمول کا حصہ بن چکا تھا۔

مرزا احمد بیگ اور اس کی بیٹی محمدی بیگم کے بارے میں اس پیش گوئی کی تفصیل میں جانے سے پہلےیہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو خانگی معاملہ خیال کرتے ہوئے رازداری میں رکھنے کی پوری کوشش کی اور عام عوام کے سامنے نہیں لائے،آپ علیہ السلام نے اپنے اِن رشتہ داروں کو کئی مواقع پر زبانی اور تحریری طور پر بھی ان کی بے دینی اور خلاف شرع عادات و اطوار پر متنبہ کیا لیکن یہی مخاطب رشتہ دار لوگ ہی اس معاملے کو سب سے پہلے پبلک میں مشتہر کرنے والے بنے۔

یہ پیش گوئی متعدد واقعات کے رونما ہونے کے بعد سامنےآئی اور پھر اپنے حتمی مرحلے تک پہنچی، جسے اب عام طور پر محمدی بیگم کی پیش گوئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان الہامی پیش گوئیوں کا سلسلہ ایک نقطہ نظر سے سات سال (1885-1892) اور دوسرے نقطہ نظر سے تیئیس سال (1885-1908) پر محیط ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چچا زاد بھائی مرزا امام الدین بیگ پہلے اسلام سے بددل ہوا اور ارتداد اختیار کرلیا۔ یہ اِس قدر غیر معمولی بات لوگوں کو اُس وقت پتہ چلی جب اُس نے خود کو لال بیگیوں کے رہنما کے طور پر متعارف کروانا شروع کیا۔ یاد رہے کہ اس ذات کو ہندوؤں کے سب سے نچلے طبقے کے طور پر دیکھا جاتا تھا جن کا کام گندگی اور کوڑا اٹھاناہوتا ہے، جسے برصغیر کے معاشرہ میں عام طور پر چوہڑا کہا جاتا ہے۔

اس گروہ کو نہ صرف ہندو طبقاتی نظام کے سب سے نچلے درجے کے طور پر دیکھا جاتا تھا، بلکہ وہ ہندو ذاتوں کے چارمشہور درجوں میں بھی شامل نہیں تھے، جہاں چوتھا طبقہ اچھوتوں کا ہے۔ یوں اس طبقے کو انکے پیشہ اور نسب کے لحاظ سے چاروں ذاتوں سے باہر،ایک پانچویں اکائی کے طور پر دیکھا جاتا تھا اورعقیدہ کے لحاظ سے ہندو ہونے کے باوجود انھیں ہندوؤں میں سے نہیں مانا جاتا تھا۔

پس ان معروضی حالات کی وجہ سے ان لوگوں نے اپناایک الگ فرقہ بنالیا جہاں وہ اپنے ہی طبقے کے لیڈروں کی تعظیم کرتے تھے،اوراِن لیڈروں میں لال بیگ نامی ایک سنت کی تعظیم کرتے تھے اور اسی وجہ سے انہیں لال بیگیوں کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔ ان کی تعلیمات والمیکی (یا بالمیکی) جو ہندو مت کی منظوم مذہبی کتاب رامائن کے خالق تھے، سے منسوب کی جاتی تھیں۔ تاہم، اس گروہ نے اپنی تعلیمات ہندومت، سکھ مت اور اسلام کی عقائد سےاس قدر بگاڑ کراخذ کیں کہ یہ جماعت ان تینوں مذاہب کی سب سے زیادہ مسخ شدہ شکل بن کر سامنے آئی۔

 (لال بیگیوں کے عقائدو تعلیمات اور تعارف کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں:

 The Genealogies of Lal Beg, in The Legends of the Panjab by Captain RC Temple)

اصولی طور پر اس فرقے کے کچھ طبقوں کی تعلیمات پرمذکورہ بالا تین عقائد میں سے جس ایک کا غلبہ ہوا، اسے اس غالب پہلو والے مذہب کے تحت لیا گیا جیسا کہ ان لال بیگیوں میں ہمیشہ ہندوعنصر نمایاں اور غالب رہا۔

پس مرزا امام الدین ہندوؤں کے اس فرقے کے سرپرست رہنما بنے اور جیسا کہ حال ہی میں ملنے والے بعض دستاویزی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اولاً خود اس مسلک کا پیروکار بنا تھا۔

 ذیل میں مرزا امام الدین کی تصنیف کردہ ایک کتاب کے بعض حصے پیش ہیں، جو اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مرزا امام الدین کس طرح دین اسلام کو بالمیکی عقیدے کے ساتھ ملا کر بدنام اور مسخ کر تے پھر رہے تھے۔

اس کتاب کانام ’’ دیدحق ‘‘ ہے اور اس میں لال بیگیوں کے لئے تفصیلی ہدایات ہیں کہ ان کی کیا تعلیمات ہیں جن پر ان کو عمل کرنا چاہیے۔ اس کتا ب کے سر ورق پر درج ہے کہ ’’تالیف میرزا امام الدین، معروف بہ مولائی ہدایت کنندہ قوم لال بیگیاں‘‘

کتاب کا پیش لفظ لکھنے والے کا نام تو درج نہیں، مگر معلوم ہو تا ہے کہ کسی لال بیگی کی تحریر ہے۔ اس پیش لفظ میں درج ہے کہ

’’ہزار ہا شکر اُس خداوند کریم کا درگاہ میں کہ اس زمانہ مبارک میں ہمارے پیر روشن ضمیر بالمیک صاحب کے آئین دین کی جو ہم لوگوں کی غفلت اور کم توجہی سے گم ہورہا تھا اور اُن کی ہدائیت کا چراغ بالکل گُل ہوگیا تھا۔ اب پھر ہمارے سوئے ہوئے طالع جاگے اور ہماری بہتری نے کمال خوبصورتی سے جلوہ ظہور کا دکھلایا یعنی مولائی مرزا امام الدین صاحب رئیس قاضیاں ضلع گورداسپور ہادی طریق و حدیث نے جو اس زمانہ میں عارف یکتا اور سالک باصفا ہیں۔ از سر نو بالمیک صاحب کے طریق اور دین کو کمای سعی اور کوشش سے تازہ اور روشن کر دکھلایا۔۔۔۔‘‘ (دید حق ، صفحہ :5)

یہ لال بیگی اس پیش لفظ میں مرزا امام الدین کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے بتاتا ہے کہ امام الدین نے بالمیک عقیدے کو قائم کرنے کے لیے کیا کیا کچھ کیا ہے، اس نے کتنا خرچ کیا ہے، فرقہ کے لوگوں دیکھ بھال کرتے ہوئے ان سے شفقت کا سلوک کیا ہے،نیزامام الدین نے بالمیکی عقائد کے احیائے نو کے لیے ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے۔(دیدِ حق، ص 5)

اسی طرح بتایا کہ مستقبل کے منصوبوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام الدین قادیان میں بسنے والے اپنے پیروکاروں، یعنی لال بیگیوں کے لیے ایک بالمیک مندر کی تعمیر کا خواہش مندہے۔

مرزا امام الدین کے اپنے الفاظ میں،اس کتاب کے مندرجات میں لال بیگیوں کے لیے بعض واضح ہدایات ہیں، یعنی ان پیروکاروں کو کیا کرنا اورکن امور سے بچنا چاہیئے۔(ایضاً ص 7 تا 9)

آگے چل کر مرزا امام الدین اپنے ماننے والوں کو ان کی عبادت کی طرف متوجہ کرتاہےاور عبادت کے انوکھے طریق سکھاتے ہوئے بتاتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں اوروہ خاص کلمات/ منترپڑھیں،اور امام الدین یہ منتر/ کلمات سکھانے سے پہلے واضح الفاظ میں لکھتا ہے کہ:

’’ان الفاظ کو خدا کے الفاظ خیال کرو‘‘ (ایضاً،ص 18)

اسی طرح ایک اور کتاب بھی میسر آئی ہے جو امام الدین ہی کی تحریر ہے۔ کتاب کا عنوان ہے ’’گُلِ شگفت‘‘ اور سرورق پر جابجا لکھا ہے: ’’بالمیک کافی، بالمیک شافی، بالمیک معافی‘‘۔

یہ کتاب بھی شروع سے آخر تک تمام مذاہب کو باطل قراردیتے ہوئے بالمیکی خدا کی بالادستی ثابت کرنے کے لیے وقف ہے۔ لال بیگیوں کو بتایا گیا ہے کہ عیسیٰ صاحب خدا کے بیٹے تھے اور محمد صاحب (ﷺ) خدا کے دوست۔ نیز بالمیکی عبادت کے لیے مرزا امام الدین نے منتر بھی سکھائے ہیں اور ان منتروں کو جپنے کا طریقہ بھی۔

الغرض یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ جدی شاخ حقیقی ایمان کی روشنی سے منہ موڑتے ہوئے، صریح لغویات میں پڑی ہوئی تھی اورمرزا امام الدین کے زیرقیادت اس خاندان والوں کے سامنے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات اور مذہبِ اسلام کی مقدس تعلیمات کا کوئی احترام باقی نہیں رہاتھا۔پس یہی وہ حالات اور پس منظر تھا جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آسمان سے ملنے والی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کے لئے ایک انذاری پیش گوئی کی۔ اورامام الدین اور نظام الدین کے متعلق فرمایا:

’’ان اللہ رای ابناء عمی، و غیرھم من شعوب أبی و أمی المغمورین فی المھلکات، والمستغرقین فی السیئات من الرسوم القبیحة والعقائد الباطلة و البدعات،و رأھم منقادین لجذبات النفس و استیفاء الشھوات، والمنکرین لوجود اللہ ومن المفسدین۔۔۔ورای انھم یامرون بالمنکر والشرور۔۔۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ: 566-567)

(عربی سے ترجمہ) خدا تعاالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں( احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسومِ قبیحہ اور عقائدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر اور فسادی ہیں۔

مزید فرمایا کہ :

’’وکانوا یستھزءون باللہ و رسولہ ویقولون (قاتلھم اللہ)ان القرآن من مفتریات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) وکانوا من المرتدین‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5،صفحہ 568)

(عربی سے اردو)اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا استھزاء کیا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے  کہ (نعوذ باللہ) قرآن کریم تو محمد(ﷺ)کا افتراء ہے۔ اور یہ لوگ مرتدوں میں سے تھے۔۔۔

یوں یہ سلسلہ جاری تھا کہ ماہ اگست 1885ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان چچا زاد بھائیوں نے ایک ٹریکٹ شائع کیا جس میں انہوں نے آپؑ سے نشان نمائی کا مطالبہ کیا اور لکھا کہ جب تک ایسا خاص نشان ان کے خاندان کے لئے ظاہر نہ ہو وہ کسی بھی اور نشان کو قبول نہیں کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے سخت الحاح سے دعائیں کیں اورآپ پر درج ذیل وحی نازل ہوئی:

’’انی رأیت عصیانھم و طغیانھم فسوف أضربھم بأنواع الآفات أبیدھم من تحت السماوات و ستنظر ما أفعل بھم وکنا علی کل شی ء قادرین۔ انی أجعل نساءھم أرامل و أبناء ھم یتامی و بیوتھم خربة لیذوقوا طعم ما قالوا و ما کسبوا ولکن لا اھلکھم دفعة واحدة بل قلیلا قلیلا لعلھم یرجعون و یکونون من التوابین ان لعنتی نازلة علیھم و علی جدران بیوتھم و علی صغیر ھم و کبیرھم و نسائھم و رجالھم و نزیلھم الذی دخل ابوابھم۔ وکلھم کانوا ملعونین۔ الاالذین آمنوا و عملوا الصالحات و قطعوا تعلقھم منھم و بعدوا من مجالسھم فاولئک من المرحومین۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ : 569اور 570)

عربی سے اردو ترجمہ: ’’میں نے اُن کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے میں اُن پر طرح طرح کی آفات ڈال کر انہیں آسمان کے نیچے سے نابود کر دونگا۔ اور تم جلد دیکھو گے کہ میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں۔ میں اُن کی عورتوں کو بیوہ، اُن کے بچوں کو یتیم اوران کے گھروں کو ویران کردونگا۔ اور اِس طرح سے وہ اپنی باتوں کا اور اپنی کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے۔ لیکن میں انہیں یکدم ہلاک نہیں کرونگا۔ بلکہ تدریجا پکڑوں گا تاکہ انہیں رجوع اور توبہ کا موقع ملے۔ میری لعنت اُن پر۔ اُن کے گھروں پر، اُن کے چھوٹوں اور بڑوں پر، اُن کی عورتوں اور مردوں پر، اور اُن کے اُس مہمان پر جو اُن کے گھر میں داخل ہوگاپڑے گی اور اُن تمام پر لعنت برسے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ اور اُن کی مجالس سے دوری اختیار کریں۔ پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا۔‘‘

لیکن دنیا نے دیکھا کہ اس قدر واضح انذار کے باوجود یہ لوگ اپنے سابقہ طرز عمل سے باز نہ آئے اور اپنی بدعملیوں اور شرارتوں پر کمربستہ ہی رہے۔

امام الدین وغیرہ کی طرف سے شائع کردہ مذکورہ بالا اس گستاخانہ ٹریکٹ کے اسی مہینے یعنی اگست 1885ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی جس کا تذکرہ آپؑ یوں فرماتے ہیں:

’’مرزا امام الدین اور نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہواہے کہ اکتیس ماہ تک اُن پر ایک سخت مصیبت پڑے گی۔ یعنی ان کے اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہوجائے گا جس سے اُن کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا۔ آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو تئیس ساون سمت 1944 مطابق 5 اگست 1885ء ہے یہ واقعہ ظہور میں آئے گا۔‘‘حاشیہ: ’’چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر۔۔۔ سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 103)

اسی طرح آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1886ء کی اپنی ایک اوررویاء درج فرمائی، جس میں آپ ؑ نے مرزا نظام دین اور امام دین اور ان کی بہن کی والدہ جو محمدی بیگم کی نانی تھیں، کو تکلیف اور اذیت میں دیکھا۔ رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے کہا:

 ایتھا المرءة توبی توبی۔فان البلاء علی عقبک۔ ای علی بنتک وبنت بنتک۔۔۔

(تذکرہ، الہام 1886، صفحہ 108)

یاد رہے کہ اب تک کے منظرنامہ میں محمدی بیگم کا نام، ذکر کہیں ایک بار بھی نہیں آیا ہے۔ لیکن دوسری طرف اسی عرصہ میں مرزا نظام الدین اور امام الدین نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ کے دشمنوں بلکہ دینِ اسلام کے دشمنوں کے پاس جاکر ان سے گٹھ جوڑ کرلیا۔ ان لوگوں نے سخت معاند اسلام پنڈت لیکھرام سے رابطہ کیا، جو پورے ہندوستان میں پیغمبر اسلام کی توہین،قرآن مجید کی دشمنی، اپنی گندہ دہانی اوراسلام پر سوقیانہ حملے کرنے کی وجہ سے زبان زد عام تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے لیکھرام پر زور دیا کہ وہ حضرت مرزا صاحب کے نشان نمائی کے چیلنج کوقبول کرے، جو لیکھرام نے ایسا ہی کیا۔ (تاریخ احمدیت، جلد 1، صفحہ 317)

اس رسوائےزمانہ اور اسلام دشمن پنڈت کے ساتھ مرزا امام الدین کے باہمی تعلق اور تعاون کا اظہار اس ٹریکٹ سے بھی ہوتا ہے، جو مرزا امام الدین نے لکھا اور لیکھرام کے زیر اہتمام شائع ہوا۔

یہ خط  بعد میں لیکھرام کی کتاب ’’تکذیب براہینِ احمدیہ‘‘کے ضمیمہ میں خصوصی طور پر شامل اشاعت کیا گیا، (ضمیمہ کتاب ہذا، بابت خطوط و اشتہارات )اور مرزاامام الدین کا یہی ٹریکٹ ’’کلیات آریہ مسافر ‘‘میں دوبارہ شامل کیا گیا، اس مجموعہ میں پنڈت لیکھرام کی مکمل تصنیفات بشمول تکذیب براہین احمدیہ شائع کی گئی ہیں۔( دیکھو صفحہ 414-415)

اس خط پر ’’مرزا امام الدین رئیس قادیان برادر مرزا غلام احمد … بقلم خود ‘‘ اور تاریخ 13 اگست 1885ء درج ہے۔

اس ٹریکٹ کے مندرجات بتاتے ہیں کہ ان لوگوں نے مسلمانوں، ہندوؤں اور عیسائیوں سمیت ہر ایک کو دعوت عام دی کہ وہ حضرت مسیح موعود سے اپنی مرضی کا کوئی بھی نشان طلب کریں، اور ان لوگوں نے عوام الناس کو سراسر مضحکہ خیز اور غیر حقیقت پسندانہ طریق پر گمراہ کرتے ہوئے لکھا کہ سب لوگ اس نشان نمائی کے لئے اپنی مرضی اور پسند کے معیار طے کریں اور اگر مسیح موعود کا دکھایا گیا نشان آپ کے طے کردہ معیار پر پورا نہ اترے تو اسے فی الفور ردّ کر دیں۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ان نام نہاد مسلمان رشتہ داروں نے کس طرح اسلام دشمن ہندوؤں سے رابطہ قائم کیا اور اسلام کے خلاف ان سے ہاتھ ملایا۔ ان لوگوں نے اسلام، پیغمبر اسلامﷺ اور دینِ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ایک ٹریکٹ چھاپ کر اس کی خوب تشہیر کی۔ نیز ان لوگوں کے طرز عمل اور تحریر سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اِن کے خیالات ہندوؤں کے اسلام مخالف پروپیگنڈے سے بہت زیادہ متاثرہوچکے تھے جیسا کہ ہم امام الدین کی کتاب میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں نے ایک لڑکی کی اس کی والدہ کے کزن سے شادی کو حقیقی بھانجی اور حقیقی ماموں کی شادی قرار دیتے ہوئے اس کا استہزا کیااور بطور مثال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت زینبؓ سے شادی کو پیش کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شادی کے بارے میں یہ ایک ایسا اہم نکتہ ہے جسے ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

اب محمدی بیگم کہاں، کب اور کیوں اس منظر نامہ پر آتی ہیں؟

1888 ء میں مرزا احمد بیگ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ وہ ایک قانونی دستاویز پر دستخط کریں تاکہ زمین کا ایک مخصوص ٹکڑا، احمد بیگ وغیرہ کے نام سرکاری کاغذات میں منتقل کیا جا سکے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعااور استخارہ کے لیے کچھ وقت دینے کو کہا جیسا کہ آپؑ کا پہلے سے ہی طریق تھا کہ آپ اہم معاملات میں خدا تعالیٰ سے خیر اور رہنمائی طلب کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ یہ مرزااحمد بیگ محمدی بیگم کا والد اور امام الدین اور نظام الدین کی اس بہن کا شوہر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خواب میں نظر آئی تھی۔ وہ عورت سخت پریشانی اورتکلیف کی حالت میں دکھائی گئی تھی اورآپؑ نے اسے ایک ایسی آفت کے بارے میں خبردار کیا گیا جو اس کے خاندان کو ہلاک کرنے کے لئے آنے والی تھی۔

بعد دعا و استخارہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں احمد بیگ کی بیٹی محمدی بیگم کا ہاتھ مانگنے کا حکم دیا ہے۔

اس موقع پر بے اختیار ہمارے سامنے اسلام کے دورِ اول کی صحیح تاریخ کے وہ واقعات آنے لگتے ہیں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتینِ مبارکہ حضرت جویریہؓ، حضرت ام حبیبہؓ اور حضرت صفیہؓ سے شادی کرکے ان کے قبیلوں اور خاندانوں کے دل جیت لیے تھے اور یہ بھی کہ ابوسفیان جیسے دشمنوں کے دل اور یہودی قبیلے کے سردار حییی بن اخطب، اپنی بیٹیوں کی شادی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے کے بعد اسلام کے لیے نرم ہو گئے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پاک آقاومطاعﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا ہی کیا اور وہ بھی خدائی ہدایت پر۔

مرزااحمد بیگ نے فوراً اس تجویز کو ٹھکرا دیا، جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے انذار فرمایا کہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ اگر وہ اپنی بیٹی محمدی بیگم کانکاح کہیں اور کر ے تو اس نکاح کے تین سال کے اندراندر احمد بیگ کو موت آن پکڑے گی اور جس شخص سے بھی محمدی بیگم کی شادی ہوئی وہ بھی ڈھائی سال کے اندر اندر موت کا مزہ چکھ لے گا۔ (ایک پیش گوئی، پیش از وقوع کا اشتہار، مجموعہ اشتہارات، جلد اول صفحہ 136)

اس موقع پر احمد بیگ کسی اورپاس نہیں بلکہ سیدھے اسلام دشمن عیسائی اخبار ’’نور افشاں ‘‘کے پاس پہنچ گئے اور اپنی بیٹی کے بارے میں یہ نجی خط شائع کروادیا۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 287-288)

یوں اس اخبار کو اپنے زنگ آلود انجن کے لیے نیا ایندھن ہاتھ آگیا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر حقیقی بھانجی سے شادی کی اس تجویز کے متعلق ہر طرح کی زٹیل باتیں اور تمسخر سے بھرے کالم شائع کرنا شروع کردیے۔

یہاں ہم اپنے قارئین کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کا واقعہ دوبارہ یاد دلاتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف آئینہ کمالات اسلام میں اس پیش گوئی کا پس منظر واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس پیش گوئی کی بنیاد یہ نہیں تھی کہ خواہ نخواہ مرزا احمد بیگ کی بیٹی کی درخواست کی گئی تھی بلکہ یہ بنیاد تھی کہ یہ فریق مخالف جن میں سے مرزا حمد بیگ بھی ایک تھا اس عاجز کے قریبی رشتہ دار مگر دین کے سخت مخالف تھے اور ایک ان میں سے عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اللہ جلشانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتا تھا اور اپنا مذہب دہریہ رکھتا تھا اورنشان کے طلب کرنے کےلئے ایک اشتہار بھی جاری کرچکا تھا۔۔۔ اور صوم و صلوٰة اور عقائد اسلام پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 320)

لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ان حرماں نصیب افراد نے جہاں ایک طرف ہندوؤں کے ساتھ ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عیسائی مشنریوں کی گود میں جا بیٹھےاور ان دونوں گروہوں کا سب تاروپود اورروزی روٹی ہی دین ِاسلام اور اس کے مقدس بانیﷺ کا تمسخر اڑانے میں رکھا تھا۔ یوں اسلام مخالف ہندوؤں، سچائی کے دشمن عیسائیوں اوران بے ایمان مسلمانوں کا ایک ایسا گٹھ جوڑسامنے آیا جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر صبح و شام اسلام کے خلاف ہی پرسرِپیکار تھے۔

اب یہاں آگے بڑھنے سےقبل اس پیش گوئی کے الفاظ کی طرف واپس چلتے ہیں جو محمدی بیگم کانام اور تذکرہ آنے سے کہیں پہلے کی گئی تھی اور اوپردرج کی جاچکی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:

’’لیکن میں انہیں یکدم ہلاک نہیں کرونگا۔ بلکہ تدریجا پکڑوں گا تاکہ انہیں رجوع اور توبہ کا موقع ملے۔۔۔اور اُن تمام پر لعنت برسے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ اور اُن کی مجالس سے دوری اختیار کریں۔ پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا۔‘‘

یوں یہ پیش گوئی خالص اسلامی اصطلاح میں وعیدی پیش گوئی ٹھہری،جو اللہ تعالیٰ کے قانون اور فطرت کے اصولوں کے مطابق توبہ کی صورت میں بدل جایا کرتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے ان جدی بھائیوں سے آغاز سے تمام تر معاملات کی بنیاد ہی یہی توبہ اور اصلاح ہی تو تھی۔

تاہم، مرزا احمد بیگ نے اپریل 1892 ءمیں اپنی بیٹی محمدی بیگم کی شادی مرزا سلطان محمد بیگ سے کر دی اور جیسا کہ سب کو پہلے سے خبردار کیا گیا تھا،احمد بیگ کی اِسی سال میں یعنی اپنی بیٹی کے نکاح کے محض پانچ ماہ بعد،ماہ ستمبر میں وفات ہوگئی۔ یہاں تک یہ معاملہ بالکل واضح اور صاف ہے اور اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنوں اور غیروں نے بچشم خود دیکھ لیا کہ حضرت مرزا صاحب کی الہامی پیش گوئی کا پہلا حصہ من وعن پورا ہوگیا ہے۔

الغرض اس ناگہانی موت نے اس نے خاندان کے دلوں پر خوف کا بہت گہرا سایہ ڈال دیا۔ اگرچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور جماعت کو تو قبول نہیں کیا، لیکن یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور درخواست کی کہ کسی طرح ان کے خاندان کو پیشگوئی میں مذکور تباہی اور ہلاکت سے بچایا جائے۔ تب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کو یاد دلایا کہ اب حفاظت اور بچاؤ کا واحد راستہ توبہ اور اسلام اور اس کے مقدس بانیﷺ کی توہین سے باز رہنا ہے۔

(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 195، ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337)

گو آج ہمارے پاس اِن جدی اقارب کی اس خط و کتابت کی نقول یا کوئی اور دستاویزی ثبوت تو نہیں ہے، لیکن یہ واضح حقیقت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلسل اپنی تحریرات میں یہ امور کھل کر شائع کیے اور تب کوئی ایک شخص بھی اس خط و کتابت کی تردید کے لیے آگے نہیں آیا، پس یہ اس خوف کے کافی ثبوت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس نے اس خاندان کے افراد کو گہرا متاثر کیا تھا۔

مزید آگے بڑھتے ہیں تو احمد بیگ کی ہلاکت کے اڑھائی سال کے عرصے کے بعد مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ سلطان محمد کا انتقال کیوں نہیں ہوا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب یہی تھا کہ احمد بیگ کی موت نے اس پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اوراس میں محمدی بیگم کا شوہر سلطان محمدبھی شامل تھا اور یہ خاندان اسلام اور اس کے مقدس بانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی تضحیک سے رکا رہا ہے۔

راقم الحروف نے اپنی اس تحقیق کے دوران ان برسوں میں شائع ہونے والے اخبارات و رسائل کا بغور مطالعہ کیا ہےاور مجھے سلطان محمد کا شائع کردہ کوئی ایک بھی ایسا بیان نہیں ملا، جس میں انہوں نے حضرت اقدس مرزا صاحب کے اس کھلم کھلا اور انتہائی واضح دعوی کی اشارة بھی تردید کی ہو کہ ہم سب خاندان والوں پر کوئی خوف طاری نہیں ہو ا تھا اور نہ ہی ہم لوگ اس الہامی پیش گوئی کی ہیبت سے خوفزدہ ہوکر اپنے گزشتہ خلاف اسلام طرز عمل سے بازآئے ہیں۔

ایک اور یاد رکھنے لائق سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پیش گوئی کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور جگہ ہوا تو اس کا شوہر مر جائے گا اور بیوہ کی حیثیت سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں آئیں گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی سے پہلے محمدی بیگم کا بیوہ ہونا ضروری تھا۔

پس اس الہامی پیش گوئی کا وہ خوف اوراحمد بیگ کی موت کے بعد پیدا ہونے والاوہ رعب ہی تھا جس نے سلطان محمد کو اسلام کے خلاف گستاخی کرنے سے روکا اور سلطان محمد نے کبھی اس امر سے انکار بھی نہیں کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے متاثر نہیں ہوا تھا، یہی وہ امر ہے جس نے سلطان محمد کو الہامی پیش گوئی کے دوسرا شکار بننے سے بچائے رکھا بلکہ سلطان محمد کو پیش گوئی کی استثنائی شق سے فائدہ اٹھانے والا بنا یا۔ پس سلطان محمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی زندہ رہا اور اسی طرح محمدی بیگم نے بھی طویل عمر پائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں یعنی 1906ء میں اپنی کتاب ’’حقیقة الوحی‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آپؑ کی محمدی بیگم سے شادی جو کہ آسمانوں پر طے ہوئی تھی یا تو منسوخ کر دی گئی ہے یا پھر ملتوی کر دی گئی ہے۔

(تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 570)

یوں اسلام کے اِن کھلم کھلا مخالف دشمنوں اور اِن کے بھائی بندوں یعنی ہندوؤں اور عیسائیوں نے اِس عظیم الشان الہامی پیش گوئی کے دونوں پہلوؤں کوبچشم خود دیکھا کہ مرزا احمد بیگ کی موت ہوئی اور سلطان محمد نے توبہ کرلی اور سب لوگ زبان حال سے اس پیش گوئی کی صداقت کے گواہ بن گئے۔

قادیان سے شائع ہونے والے جماعت احمدیہ کے ترجمان رسالہ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ نے اپنے شمارہ (مطبوعہ مورخہ 5 مئی 1913 ء)میں سلطان محمد کے ایک دستی خط کا عکس شائع کیا جس میں سلطان محمد نے اقرار کیاکہ یہ پیش گوئی پوری ہو گئی ہے۔ خط میں لکھا تھا:

’’السلام علیکم۔ نوازش نامہ آپ کا پہنچا۔ یاد آوری کا مشکور ہوں۔

میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک۔ بزرگ۔ اسلام کا خدمت گزار۔ شریف النفس۔ خدایاد۔ پہلے بھی اور اب بھی خیال کرتا ہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کرسکا۔

نیار مند

سلطان محمد از انبالہ‘‘

اس ذاتی خط کا عکس شائع ہونے کے ایک پوری دہائی کے بعد، مخالف احمدیت مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار ’’ اہل حدیث ‘‘کے شمارہ 14 مارچ 1924ء میں سلطان محمد کی طرف منسوب بیانات شائع کیے جن کا مفہوم تھا کہ ہم پر کوئی خوف طاری نہیں ہوا، ہم نے کوئی توبہ نہیں کی، اور یہ دعویٰ کیاکہ مسیح موعود کی پیش گوئی کی صداقت سے متاثر نہیں رہے۔

یاد رہے کہ جماعت احمدیہ نے تو سلطان محمد کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط 1913 ءمیں شائع کردیا جس کی سلطان محمد یا اس کے خاندان نے کبھی تردید نہیں کی۔ جبکہ مذکورہ بالااخبار ’’اہل حدیث‘‘ سمیت تمام غیر احمدی اخبارات محض زبانی بیانات تک محدود رہے، کسی نے بھی جماعت احمدیہ کے شائع کردہ خط کی تردید میں کبھی کوئی قلمی/دستی خط شائع نہ کیا۔

لیکن اگرصرف بحث کی خاطر، شک کا فائدہ بھی ان تمام غیر احمدی اخبارات و رسائل کو دیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ سلطان محمد نے اپنے دستی خط کی تردید ایک دہائی بعد محض ایک زبانی بیان کی صورت میں شائع کروادی تھی تب بھی یہ حقیقت ایک ناقابل تردید دلیل کے طور پر قائم رہے گی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپؑ کی تمام شائع شدہ تحریروں اور کتابوں  کے مقابل پر سلطان محمد مکمل خاموش رہا۔

پس اپنے اس مضمون کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے ہم اپنے قارئین کے لیے مکرر لکھتے ہیں کہ جب سلطان محمد کبھی بھی اپنے سسرال والوں کی اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوا۔ وہ اس انذاری پیش گوئی کا شکار بننے سے بچا رہا اور یوں سلطان محمد نے اس عظیم الشان پیش گوئی کی استثنائی شق سے فائدہ اٹھا۔ اسی لیے محمدی بیگم کبھی بیوہ نہیں ہوئیں، اور یوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں داخل نہ ہوئیں۔

(اشتہار نصرت دین و قطع از اقارب مخالفین دین۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 237، ایڈیشن 2019ء، آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 325)

اسی طرح راقم الحروف اس پیش گوئی اور اس میں مذکور افراد کے متعلق مزید حقائق اور نیا مواد میسر آنے پر اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا رہے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج مرزاامام الدین کی اس کے عجیب و غریب مذہب پر کتب سامنے لائے ہیں، جس میں اسلام پر انتہائی بے شرمی سے حملے کئے گئے ہیں۔

لیکن اس دوران ہم اپنے قارئین پر یہ فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ کیا وہ لال بیگیوں کا ساتھ دینا چاہیں گے یا اس فتح نصیب جری اللہ علیہ الصلوة والسلام کی صفوں میں کھڑا ہونا پسند کریں گے جس نے خدا کے محبوب دین، دین محمدﷺ یعنی اسلام کا دفاع کیا اور اپنوں اور غیروں کے ہر نوع کے چھوٹے بڑے  حملوں سے بچایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام عليڪم ورحمةالله وبركاته
    بہت اعلٰی مضمون۔ روایتی انداز سے ہٹ کر ایک نئے طریقے سے لکھا ہے۔ اور جو نئی تحقیق پیش کی گئی یہ انشآء اللہ تعالٰی علم کلام میں بہت ممد ثابت ہوگی۔ اللہ تعالٰی مضمون نگار کے قلم میں مزید برکت دے آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button