اختلافی مسائل

کیا ابن عباسؓ کا قول متوفیک ممیتک معلق روایت ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے یہ خبر پاکر کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 402)جب اس بات کا اعلان کیا اور وفاتِ مسیحؑ عیسوی کے قطعی دلائل قرآن کریم و احادیثِ نبویہﷺ سے دیے تو علمائے وقت جن کے دلوں میں حیاتِ مسیح کا عقیدہ راسخ ہو چکا تھا آپؑ کی مخالفت پر آمادہ ہوگئے اور کفر کے فتاویٰ کا آغاز کردیا۔

انہی براہین میں سے جو کہ خدا تعالیٰ نے آپ پر عقیدہ حیاتِ مسیح کے رد میں کھولے ایک یہ دلیل بھی تھی کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ جو کہ علم حدیث میں ابن عباسؓ کے نام سے معروف ہیں، ان سے صحیح البخاری کتاب التفسیر، سورة المائدة میں زیر باب مَا جَعَلَ اللّٰه مِنْ بَحِيْرَةٍ وَلا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيْلَةٍ وَلَا حامٍ میں مذکور ہے کہ وَقَالَ ابنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ۔ یعنی ابن عباس کے مطابق مُتَوَفِّيكَ کے معنی مُمِيتُكَ ہیں۔ چنانچہ آپؑ نے اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں زیرِ عنوان افادات البخاری لکھا: ’’ پھر امام صاحب نے اسی مقام میں ایک اور کمال کیا ہے کہ اس معنی کے زیادہ پختہ کرنے کے لئے اسی صفحہ 665میں آیت یاعیسٰی انی متوفیک کے بحوالہ ابن عباس کے اسی کے مطابق تفسیر کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں وقال ابن عباس متوفّیک مُمیتک (دیکھو وہی صفحہ 665 بخاری)یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ یہ جو آیت قرآن کریم ہے کہ یاعیسٰی انّی متوفّیک اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دُوں گا۔ سو امام بخاری صاحب ابن عباس کا قول بطور تائید کے لائے ہیں تا معلوم ہو کہ صحابہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوگیاہے۔ اور پھر امام بخاری نے ایک اور کمال کیا ہے کہ اپنی صحیح کے صفحہ 531 میں مناقب ابن عباس میں لکھا ہے کہ خود ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنے سینہ سے لگا یا اوردعا کی کہ یا الٰہی اس کو حکمت بخش اس کو علم قرآن بخش چونکہ دُعا نبی کریم کی مستجاب ہے اس لئے ابن عباس کا یہ بیان کہ توفّی عیسٰی جو قرآن کریم میں آیا ہے اما تت عیسٰی اس سے مراد ہے یعنی عیسیٰ کو وفات دینا۔ یہ معنی آیت کریمہ کے جو ابن عباس نے کئے ہیں اس وجہ سے بھی قابل قبول ہیں کہ ابن عباس کے حق میں علم قرآن کی دعا مستجاب ہوچکی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 587)

لیکن علماء نے اس پر بھی نقطہ چینی کی کہ یہ تو محض امام بخاری کا موقف ہے نیز یہ معلق روایت ہے یعنی اس کی سند بیان نہیں کی گئی لہٰذا ہم ابن عباس کے اس قول کو کیوں تسلیم کریں؟ تو حضرت اقدسؑ نے متعدد مقامات پر اپنی تصنیفات میں اس اعتراض کا بھی جواب دیا۔ مگر تعصب کے مارے مخالفین آج بھی اسی اعتراض کو بار بار اٹھاتے ہیں۔

لیکن جب ہم اس قول کے متعلق شارحین صحیح بخاری کی جانب رجوع کرتے ہیں تو وہاں اس قول کی سند بھی موجود پاتے ہیں۔

چنانچہ معروف شارح بخاری (صاحبِ فتح الباری) امام احمدبن علی بن حجر عسقلانی (متوفی: 852ھ) کہتے ہیں: وقال ابْنُ عَبَّاسٍ’’مُتوَفِّيكَ: مُمِيتُكَ‘‘.قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: ثنا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ، ثنا مُعَاوِيَةُ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِهَذَا۔ (تغليق التعليق لابن حجر كتاب التفسيرسورة المائدة جلد 4 صفحہ 206 المکتب الاسلامی دارعمار-بيروت)ترجمہ: اور ابن عباسؓ نے کہا کہ مُتَوَفِّيْكَ کے معنی مُمِيتُكَ ہیں۔ (اس کی سند یوں ہے) ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا میرے باپ نے کہاکہ ہم سے بیان کیا ابو صالح نے کہا کہ ہم سے بیان کیا معاویہ نے کہا کہ ان سے علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس نے یہ بات بیان کی۔

نیز اس کی شرح میں شارح بخاری (صاحبِ عمدة القاری)امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی (متوفی 855ھ) بیان کرتے ہیں: وَقَالَ ابنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ: أَشَارَ بِهِ إِلَى قَوْله تَعَالَى: إِذا قَالَ اللّٰه يَا عِيسَى إِنِّي متوفيك ورافعك إليّ (آل عمرَان: 55) وَلٰكِنْ هٰذَا فِي سُورَة آل عمرَان، وَكَانَ الْمُنَاسب أَن يذكر هُنَاكَ، وَقَالَ بَعضهم: كَأَن بعض الروَاة ظَنّهَا من سُورَة الْمَائِدَة فكتبها فِيهَا وَقَالَ الْكرْمَانِي: ذكر هَذِه الْكَلِمَة هَاهُنَا وَإِن كَانَت من سُورَة آل عمرَان لمناسبة قَوْله تَعَالَى: فَلَمَّا توفيتني كنت أَنْت الرَّقِيب عَلَيْهِم(الْمَائِدَة: 117) وَكِلَاهُمَا من قصَّة عِيسَى عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، قلت: هَذَا بعيد لَا يخفى بعده، وَالَّذِي قَالَه بَعضهم أبعد مِنْهُ فَلْيتَأَمَّل، ثمَّ إِن تَعْلِيق ابْن عَبَّاس هٰذَا رَوَاهُ ابْن أبي حَاتِم عَن أَبِيه: حَدثنَا أَبُو صَالح حَدثنَا مُعَاوِيَة عَن عَليّ بن أبي طَلْحَة عَن ابْن عَبَّاس۔‘‘(عمدة القاری شرح صحیح البخاری بابُ: مَا جَعَلَ اللّٰه مِنْ بَحِيرَةٍ وَلا سَائِبَةٍ وَلا وَصِيلَةٍ وَلا حامٍجلد 18صفحہ 215 دار احياء التراث العربي-بيروت)ترجمہ: اور ابن عباسؓ نے کہا کہ مُتَوَفِّيكَ کے معنی مُمِيتُكَ ہیں: ( ابن عباسؓ ) نے اس بات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف اشارہ کیا ہے کہ إِذا قَالَ اللّٰه يَا عِيسَى إِنِّي متوفيك ورافعك إليّ لیکن یہ تو سورة آل عمران میں ہے، اور مناسب تھا کہ اس کا ذکر وہاں ہوتا، اور بعض نے کہا: کہ گویا بعض راویوں نے اسے سورة آل عمران میں گمان کیا تو اسے اس میں لکھ دیا۔ اور کرمانیؒ کہتے ہیں: یہ کلمہ یہاں مذکور ہےاور بے شک یہ سورة آل عمران میں سے ہے اللہ تعالیٰ کہ اس قول کی مناسبت کی وجہ سے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ اور یہ دونوں (باتیں ) حضرت عیسیٰ کے قصے سے متعلق ہی ہیں۔ میں ( بدر الدین عینی) کہتا ہوں: یہ دور کی بات ہےجو اس کے بعد مخفی نہیں رہتی، اور ان میں سے جن کا یہ قول ہے یہ اس سے بھی بعید ہے پس غور کرو، پھر جان لے کہ ابن عباس کی اس معلق روایت (کی سند) یہ ہے۔ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے بیان کیا (کہا) کہ ہم سے ابو صالح نے بیان کیا (کہا) کہ ہم سے معاویہ نے بیان کیا کہ ان سے علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس نے بیان کیا۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف لطیف تحفہ بغداد میں فرماتے ہیں: ’’کیا تو صحیح بخاری پر غور نہیں کرتا کہ کس طرح عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں آیت يَا عِيسَى إِنِّي متوفيك ورافعك کی تفسیر کی اور انہوں نے متوفیک (کے معنی) ممیتک کئے اور امام بخاری نے آیت إِنِّی مُتَوَفِّیکَ کو اسےاپنی جگہ سے دوسری جگہ لا کر (ابن عباس) کے اس قول کی صحت کی جانب اشارہ کیاہے اور جیسا کہ ماہرین پر یہ امر مخفی نہیں کہ امام بخاری اجتہاد اور اپنی رائے کے اظہار کے موقع پر یہی طریق اختیار کرتے ہیں۔

اے نیک بھائی! دیکھ کہ کس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں آیتوں کو غیر محل میں یکجا کرکے اور ان کا ایک دوسرے کو تقویت دینے کا اظہار کرکے اپنے مسلک کی جانب اشارہ کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ مسیح وفات پاگئے ہیں۔ پس توتدبر کر کیونکہ اللہ تدبرکرنے والوں کو پسند کرتاہے۔‘‘(تحفہ بغداد، روحانی خزائن جلد 7صفحہ 10تا 11اردو ترجمہ صفحہ 18 شائع کردہ نظارت نشرواشاعت قادیان)

الغرض حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ کے ساتھ جو دلائل وفاتِ مسیح ناصری پر دیے ان پر علمائے اسلام کے اعتراضات کا بھی آپؑ نے کافی و شافی جواب اپنی کتب میں ساتھ ساتھ دیا لیکن افسوس جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے وہ آج بھی ضد پر اڑے ہیں کہ یہ معلق روایت ہے۔

(مرسلہ: مبشر ظفر)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button