اختلافی مسائل

کیا امّت بزبانِ حال ایک نبی کی بعثت کی اقراری ہے؟!

خاکسار نےایک گذشتہ مضمون میں قرآن کریم کی چند آیات پیش کی تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب اور وجوہات بیان فرمائی ہیں جو رسولوں کی بعثت کا موجب ہوتی ہیں۔ ان میں ایک وجہ قوموں پر عذاب کا نازل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسول مبعوث ہونے سے پہلے عذاب نازل نہیں ہوتا۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا۔ (بنی اسرائیل:16) اور ہم ہرگز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں (اور حجت تمام کردیں )۔

عذاب سے پہلے رسول کی بعثت اس قوم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اتمام حجّت ہوتی ہے تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ اگر ان کی طرف رسول مبعوث کیا جاتا تو ہوسکتا ہے کہ وہ ایمان لے آتے اور عذاب سے بچ جاتے۔ وَلَوۡلَاۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُوۡا رَبَّنَا لَوۡلَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ (القصص: 48)اور مبادا انہیں کوئی مصیبت پہنچے بسبب اس کے جو اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو وہ کہیں کہ اے ہمارے ربّ! کیوں نہ تو نے ہماری طرف کوئی رسول بھیجا تاکہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور مومنوں میں سے ہوجاتے۔

اسی سُنّت اللہ کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے انذارو تبشیر کے ذریعہ قوم کو دعوت حق دی لیکن قوم نے اس کا انکار کیا اور پھر زلازل، طاعون اور دیگر زمینی و آسمانی آفات کی شکل میں پے در پے عذاب کی مورد بنتی رہی۔ حضورؑ فرماتے ہیں:

کیوں غضب بھڑکا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو!

ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن

عذاب کی حالت میں ہونے کےاعترافات

قوم پر یکے بعد دیگرے عذاب وارد ہونے کا یہ محض الزام نہیں ہے بلکہ علماء اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس وقت حالتِ عذاب میں ہیں۔ ایسے بہت سے اعترافات میں سے چند ایک اعترافات ’’مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری‘‘ کے مصداق پیش خدمت ہیں۔

’’کسی انسانی گروہ کو اس کی شامت اعمال کی بناء پر اللہ عزّوجلّ گوناگوں طریقوں سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ عذاب کی بدترین شکل کی طرف اشارہ سورۂ انعام کی آیت نمبر 65 کے ایک حصہ میں یوں کیا گیا ہے۔ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ۔ ’’ترجمہ یا تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس کی) لڑائی کا مزہ چکھا دے‘‘۔ (مترجم مولانا فتح محمد احب جا)اس فرمان الٰہی کی تفسیر میں علّامہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الازھری حفظ اللہ تحریر فرماتے ہیں ’’اس کے علاوہ سخت تر عذاب یہ ہے کہ آپس میں انتشار اور بے اتفاقی کی وباء پھوٹ پڑتی ہے۔ ایک قوم کے فرزند، ایک ملّت کے افراد مختلف ٹولیوں اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کہیں مذہب وجۂ فساد بن جاتا ہے اور کہیں سیاست باعث انتشار۔ اپنوں کی عزّت اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دینا بڑا کارنامہ تصوّر کیا جاتا ہے۔ اوروں کو رہنے دیجئے اپنے گھر کا حال دیکھئے۔ جب سے ہم نے صراط مستقیم سے انحراف کیا ہے ہم کن پستیوں میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ ایک خُدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک کعبہ پر ایمان رکھنے والے کس نفاق اور انتشار کا شکار ہیں۔‘‘ (تفسیر ضیاء القرآن جلد اوّل صفحہ566)…بدقسمتی سے پاکستان میں عذاب کی یہ گھڑی آچکی ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے چشم بینا دی ہے وہ اس لمحہ بہ لمحہ شدید تر ہوتے ہوئے عذاب کی ہولناکیوں کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے جہنمی شعلوں کی تپش کو اپنے دل دردمند میں محسوس کررہے ہیں۔‘‘(وحدت امت۔ مولانا محمد اسحاق۔ دیباچہ صفحہ5تا6)

’’حضرت ہزاروی نے کراچی کے حالات کو اللہ کا عذاب قرار دیتے ہوئے ان حالات سے نجات کے لئے بڑے دل سوز انداز میں دعا کی۔‘‘(حامد میر۔ کالم قلم کمان۔ جنگ 14؍جولائی2011ء)

سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے رکن صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے کہا ہے کہ طوفانی بارشیں، سیلاب، ڈینگی وائرس جیسے مسائل اللہ کے عذاب کی مختلف شکلیں ہیں جو حکمرانوں کی بداعمالیوں اور ملک میں جاری ظلم کے نظام اور احکاماتِ الٰہی سے روگردانی کا نتیجہ ہیں۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 15؍ستمبر2011ء)

’’اللہ نے قرآن پاک میں اپنے غیض و غضب کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ ان تینوں میں سے رسول اکرمﷺ نے سب سے کم ترین یہ بتائی کہ تمہیں آپس میں لڑا کر ایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر عذاب کا مزہ چکھایا جائے۔ یہ عذاب ہم پر برسوں سے مسلط ہے۔‘‘(اوریا مقبول جان۔ کالم حرف راز۔ روزنامہ ایکسپریس۔ 14؍جولائی2012ء)

’’حدیث میں آتا ہے کہ جب انسان میں امانت میں خیانت آجائے وہ لوگوں کے مال کھانا شروع کردے، رزیل لوگ حکمران بن جائیں اور عوام کے مال کی لوٹ مار شروع کردیں تو قوم پر تین عذاب مسلط ہوتے ہیں۔ ایک آسمانوں سے طوفان و بارش کے ذریعے ایک زلزلے کے ذریعے اور تیسرا آپس میں لڑائی کراکے ان کو ختم کرتے ہیں۔‘‘(مفتی نعیم۔ جنگ۔17؍اپریل2013ء)

’’شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جس معاشرے کی غالب اکثریت اللہ کی راہ چھوڑ دے اور وہ ندامت، شرمندگی اور توبہ کی طرف بھی نہ پلٹے تو وہاں اللہ اپنا عذاب بھیجتا ہے۔ مہنگائی، غربت، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، قتل و غارت گری، خونی رشتوں کا عدم احترام، رزق میں تنگی، کرپٹ حکمرانوں کا وجود اور ظالم، استحصالی اور کرپٹ نظام کے خلاف بے شعوری اللہ کے عذاب کی مختلف شکلیں ہیں۔‘‘(جنگ، 07؍اگست2013ء)

’’جب پورے معاشرے میں ظلم و ناانصافی پھیلی ہوئی ہو اور ایمان کے آخری درجے کے مطابق بھی دلوں میں سے گناہ کا احساس ختم ہوجائے تو قدرت کے عذاب سے کیونکر بچ سکتے ہیں۔‘‘(اُمّت، 08؍جون2014ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جہاں ان علماء نے مرض کی تشخیص اور اس کے اسباب جان لیے ہیں اسی طرح اس کے علاج کو بھی جان لیں اور امام الزمانؑ کو پہچان کر اس کے نسخۂ کیمیا کو استعمال کرکے صحت یاب ہوں۔ آمین!

(انصر رضا۔ واقفِ زندگی، کینیڈا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button