متفرق مضامین

قرآن مجید کی پاک تاثیرات (چوتھی قسط)

(عبدالرب انور محمود خان ۔ امریکہ)

سعید فطرت لوگوں کی توحید اور اسلام کی طرف رہنمائی کے دلچسپ و ایمان افروز واقعات

11

سورہ المائدہ آیات 82-84

ایک پادری توفیق ادریس کا قبول اسلام

وَ لَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ النَّبِیِّ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْھُمْ اَوْلِیَآ ئَ وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ o

ترجمہ:۔اور اگر وہ اللہ( پر) اور اس نبی( پر) اور اس پرایمان رکھتے جو اس کی طرف اتارا گیا تو ان( کافروں ) کو دوست نہ بناتے۔ لیکن ان میں سے بڑی تعداد فاسقوں کی ہے۔

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا۔ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاا لَّذِیْنَ قَالُوْا ٓ ا اِنَّا نَصٰرٰی۔ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُھْبَانًا وَّاَنَّھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ o

یقیناً تُو مومنوں سے دشمنی میں سب زیادہ سخت یہود کو پائے گا اور ان کو جنہوں نے شرک کیا۔ اور یقیناً تُو مومنوں سے محبت میں قریب تران لوگوں کو پائے گا جنہوں نے کہا کہ ہم نصرانی ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان میں سے کئی عبادت گزار اور رہبانیت اختیا رکرنے والے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ استکبار نہیں کرتے۔

وَ اذَا سَمِعُوْ ا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ o

اور جب وہ اسےسنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اتارا گیا تو تُو دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے۔ پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کر لے۔

ایک انگریز کیتھولک پادری جو ویٹیکن میں کام کرتا تھا سورۃ مائدہ کی آیات82-84 پڑھ کر اسلام کی طرف مائل ہوا اور لندن کی جامع مسجد میں قبول اسلام کیا۔امریکہ کے ایک ویڈیو پروگرام ’’ The Dean Show ‘‘میں اس نے بتایا کہ اپنے کام کے دوران ایک مرتبہ اس نے تعطیل کے لئے ملک مصر جانے کا قصد کیا۔مصر کے بارے میں اس کا تصور pyramid ،اونٹ اور ریت کے سوا کچھ نہیں تھا۔لیکن جب وہ پہنچا تو وہ ہکّا بکّا رہ گیا اور ایک ہفتہ اس کا قیام مصر کے لئے یاد گار بن گیا۔ ایک ہفتے کی رخصت کے بعد دوبارہ کام پر واپس آگیا۔مصر کے قیام میں وہ متعجب ہوا کہ مسلمان وہ نہیں جو پریس میں بتا یا جاتا ہے۔ یہ ایک گرم جوش اور محبت کرنے والی قوم ہے۔سادگی انتہا تک ہے۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی مساجد کی طرف رخ کرنا اور باقاعدگی سے فریضہ نماز ادا کرنا اس کے لئے انوکھی چیز تھی۔ وہاں کے طلباء بھی سب بہت مہذب اور علم دوست نظر آئے۔ ان کا روز مرہ کا معمول بہت سادہ تھا۔برطانیہ واپس آنے کے بعد اس نے دوبارہ درس وتدریس شروع کردی۔یہاں اس نے یہ نوٹ کیا کہ مسلمان طلباء بہت سنجیدہ اور علم سے محبت رکھنے والے ہیں۔تدریس کے دوران مذہب کی معلومات پر ایک لازمی کورس برطانیہ میں جاری ہے اور اس کورس کو پڑھانے کے لئے اسے مختلف مذاہب کے بارے میں معلومات جمع کرنی ہوتی تھیں۔با لخصوص بہت سارے عرب مہا جرین جو کہ مسلمان تھے ان سے گفت و شنید کرنی پڑتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک کلاس کے دوران میں قرآن کریم کی سورہ المائدہ آیت 84 پر پہنچا جس میں لکھا تھا :

’’ اور جب وہ اسے سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اتارا گیا تو ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے۔ پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کر لے ‘‘۔

اس آیت کوپڑھ کر تو فیق ادریس نے اپنے اوپر غور کیا تو دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ آیا ہے۔ یہ وہ واقعہ تھا جب قرآن کریم نے اس کے دل میں گھر کر لیااور وہ اپنی اس کیفیت پر حیران رہ گیا۔
انہی دنوں میں 11ستمبر کا ہو لناک واقعہ منظر عام پر آیا اور لوگ عمومی طورپرمسلمانوں سے ڈرنے لگے۔ برطانیہ میں بھی یہی کیفیت تھی اور اکثر برطانوی شہری اسلام کو دہشت گرد مذہب تصور کرنے لگے۔
اس نے لکھا کہ وہ چونکہ مسلمانوں کو برا ہ راست جانتا تھا اس لئے وہ حیرا ن تھا کہ کیوں چند سر پھرے غنڈوں کی شرمناک حرکت پر پورے مذہب کو نشانہ بنایا جارہاہے۔اور عیسائی دہشت گردوں کی حرکات پر عیسائیت پر کوئی آنچ نہیں آتی۔اس تذبذب میں وہ لندن کی جامع مسجد چلا گیا اور وہاں نماز با جماعت کو مشاہدہ کیا اور اس کے بعد ایک مشہور زمانہ گلو کار Cat Stevens کے پاس جا کر قبول اسلام کا طریقہ دریافت کیا اور نما زکے اختتام کے بعد اس کے پاس جا کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کا تفصیلی انٹر ویو Dean Show میں ریکارڈ کیا گیا جس کا لنک ذیل میں پیش ہے۔

(http://www.islamicity.org/forum/forum_posts.asp?TID=15118(

12

سورۃ الا نعام آیت 158

ٹو نئے ھا گن (ناروے ) Tonje Hagen

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْاَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْکِتٰبُ لَکُنَّآ اَھْدٰے مِنْھُمْ فَقَدْ جَآءَکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّ بِّکُمْ وَھُدًی وَّرَحمَۃٌ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَصَدَفَ عَنْھَا سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْئٓ الْعَذَابِ بِمَا کَا نُوْ یَصْدِفُوْنَ o

یا (یوں نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم یقینًا ان سے زیادہ ہدایت پاتے۔ سو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلی دلیل اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے پس ( یاد رکھو کہ) جس نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان( پر ایمان لانے) سے رک رہا اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا۔ ہم ضرور انہیں جو ہماری آیتوں( پر ایمان لانے) سے رک رہتے ہیں ان کے رک رہنے کی وجہ سے تکلیف دِہ عذاب کی سزا دیں گے۔
Tonje Hagen ایک نو جوان نارویجین خاتون ہیں جنہوں نے ایک کرسمس والے دن سب دنیا سے علیحدہ ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کی طرف گریہ و زاری سے رجوع کیا اور اپنی ہدایت چاہی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو درجہ بدر جہ اپنی طرف راہنمائی کی اور آخر میں قرآن کریم کی مندرجہ با لا آیات کو پڑھ کر انہوں نے بے اختیار لبیک کہا اور تشہد پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔

Understanding Quran کی ویب سائٹ پر ان کی بیان کردہ قبول اسلام کی داستان درج ہے جو انہوں نے خود رقم کی ہے۔ خاکسار نے اس ویب سائٹ سے رابطہ کیا تو انہوںنے ان کی تین حصص پر مبنی قبول اسلام کی کہانی بھجوادی۔ جس کا لنک اس کہانی کے آخر پر درج ہے۔اس میں ذکر ہے کہ

’’تلاش حق کا میرا سفر بائبل سے شروع ہوا۔میں نے ہر weekend پر متعدد گھنٹے صرف اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش پر صرف کئے۔جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھابائبل کے حتمی ہونے پر اعتبار کم سے کم ہوتا چلا گیا اور یہ بھی کہ کیا واقعی یہ خدا کا کلام ہےبھی یا نہیں ؟

ایک ماہ کی کوشش کے بعد قرآن کریم کا نارویجن زبان میں ترجمہ دستیاب ہو گیا جو کہ سب سے عمدہ خرید ثابت ہوا۔ میں نے سورۃ بقرۃ کی ابتدائی آیات پڑھیں اور میں سخت حیرت میں پڑگئی۔جہاں لکھا گیا تھاکہ یہ ایک کتاب ہے جس میں ذرا سا بھی شبہ نہیں۔ یہ ان کے لئے راہنما ہے جو اللہ تعالیٰ سے متعارف ہیں اور غیب پر ایمان لاتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔اور وہ جو تم پر نازل کیا گیا اس پر ایمان لاتے ہیں اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔یہ صحیح راستے پر ہیں جو خدا نے ان کو عطا کیا اور وہ یقیناًکامیاب ہیں۔ (2:2-5)

مجھے اس سے قبل بائبل کے ذریعے سے تھوڑا علم تھا مگر قرآن کا اسلوب بالکل واضح اور براہ راست اور اس قدر معلومات سے چند جملوں میں مجھے سمجھایا گیا۔ سبحان اللہ۔

میں نے مارچ کے مہینے میں ایک مختصر کورس Understanding Islam میں داخلہ لیا اور میرا اعتقاد درجہ بدرجہ بڑھتا گیا۔ اسکول اور کورس کے علاوہ میں مستقل قرآن کریم پڑھتی رہی۔

مجھے حضرت یوسف کی کہانی بہت پسند آئی بالخصوص 12:22 میں لکھا ہے کہ جب یوسف بلوغت پر پہنچے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم سے نوازا اور اس طرح ہم ان لوگوں پر انعام بھیجتے ہیں جو عمدہ اعمال بجا لاتے ہیں۔

میں نے اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں کیا کہ میں 18سا ل کی ہوں اور خدا نے اچانک اس قدر علم و دانائی اسلام کی عطا کی۔اس سے قبل میں اسلام سے بہت ڈرتی بھی تھی۔جب شروع شروع میں نیا نیا اسلام تعارف ہوا۔ لیکن اب میرے لئے اسلام سے دور چلے جانا ممکن نہ تھا بالخصوص سورۃ انعام کی آیت 158 جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

’’ یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر ہر کتاب اتاری جاتی تو ہم یقیناً ان سے زیادہ ہدایت پاتے سو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلی دلیل اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔ پس یاد رکھو جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے رکا رہا اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا ؟ ہم ضرور انہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لانے سے رکے رہتے ہیں ان کے رکے رہنے کی وجہ سے تکلیف دہ عذاب کی سزا دیںگے۔‘‘ (Quran 6:158 )

اس آیت کے بعد ایمان لانا لازمی امر تھا۔چنانچہ 17 جون2011ء کو میں نے کلمہ پڑھ کر اسلام لانے کا اعلان کر دیا۔الحمدللہ

میں نے کبھی رخ موڑ کر نہیں دیکھا ۔جتنا زیادہ میں علم حاصل کرتی ہوں اسی قدرزیادہ خوشی مجھے حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے لکھا میں اس بات کی شہادت دیتی ہوں کہ انسانی قلوب بلا شبہ یاد الہٰی میں سکون حاصل کرتے ہیں۔ (Quran :13:28 )

(http:understandquran.com/how-i-came-to-islam-part-i-html)

13

سورۃ یونس آیات 91تا 93

ڈاکٹر ماریس بقائی

وَ جَا وَزْنَا بِبَنِیْ اِسْرائیلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْ دُہٗ بَغْیًا وَّعَدْوًا۔ حَتّٰٓی اِذَآاَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ oآٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ oفَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً۔وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ o

اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے (پار) گزارا تو فرعون اور اس کی فوجوں نے سر کشی اور ظلم( کی راہ) سے ان کا پیچھا کیا۔ حتیٰ کہ جب غرق ہونے کی آ فت نے اسے (اور اس کی فوج کو) آ پکڑا تو اس نے کہا کہ مَیں ایمان لاتا ہوں کہ جس( مقتدر ہستی) پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور میں سچی فرمابرداری اختیار کرنے والوں میں سے ہوتا ہوں۔(ہم نے کہا) کیا( تُو) اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ پہلے تُو نے نافرمانی کی۔ اور تُو مفسدوں میں سے تھا۔پس ہم تیرے بدن (کے بقا) کے ذریعہ سے تجھے (ایک جزوی) نجات دیتے ہیں تا کہ جو لوگ تیرے پیچھے آنے والے ہیں ان کے لئے تُو ایک نشان ہو اور لوگوں میں سے بہت سے افراد ہمارے نشانوں سے بلا شبہ بے خبر ہیں۔

یہ آیات قرآنی انتہائی انوکھا اور دلچسپ واقعہ بیان کرتی ہیں جس میں فرعون مصر حضرت موسیٰ اور ان کی جماعت کا تعاقب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔ اور سارے مخالفینِ موسیٰ غرق ہو جاتے ہیں مگر فرعون مصرنے موت سے قبل یہ اعلان کیا کہ وہ موسیٰ کے خدا پر ایمان لایا۔ خدائے رحیم و کریم نے اس وقت کے ایمان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور یہ پیشگوئی کی کہ اگر چہ تم نزع کے وقت ایمان لائے لیکن ہم اسے قبول کرتے ہیں اور فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تا کہ آئندہ آنے والوں کے لئے پیغام عبرت ہو اور لوگ خدا تعالیٰ کے عذاب سے متنبہ رہیں۔

یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا ہے لیکن عہد نامہ قدیم بہت پہلے تحریر کیا گیا۔ یہ ایک پیشگوئی اس طور پر قرآن کریم نے بیان کی یعنی کہ فرعون مصر کی لاش محفوظ کی جائے گی۔صحف سابقہ میں کسی جگہ ایسا تذکرہ نہیں۔ 1898 ء میں اس پیشگوئی کا لفظاً لفظاً پورا ہونا قرآن کریم کی صداقت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔اور دنیا کو کوئی فرد ا س کا انکار نہیں کر سکتا جو بصیرت کی نظر رکھتا ہو۔

ذیل میں ایک فرانسیسی کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے ان آیات پر غور کیا اور برملا قبول اسلام کا اعلان کیا۔یہ عظیم شخصیت ڈاکٹرماریس بقائی ہیں جو کہ ایک فرانسیسی ڈاکٹر اور کامیاب سرجن تھے۔اس واقعہ کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

1981 ء میں فرانس کے جونئے صدربنے۔ ان سے مصر کے صدر انور سادات نے یہ درخواست کی کہ فرعون مصرکی ممی (mummy) پر تحقیق کی جائے۔ صدر فرانس نے یہ ممی مصر سے منگوائی اور جب وہ فرانس کے ہوائی اڈے پر پہنچی تو خود فرانس کے صدر ہوائی اڈے پر تشریف لے گئے۔صدر فرانس نے ڈاکٹروں کی ایک تحقیقاتی ٹیم تیار کی اور ماریس بقائی کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ابھی محققین اس تابوت کوکھول کر مزید عملی کارروائی میں مصروف تھے لیکن ڈاکٹر بقائی اس شش وپنج کا شکار تھے کہ یہ وفات کیسے ہوئی ؟

تحقیقی ٹیم نے مشاہدہ اور تجربات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لاش پر نمک کا پایا جانایہ بتلاتا ہے کہ یہ جسم سمندر میں ڈوبنے سے فوت ہوا۔ڈاکٹر ماریس اس سوال میں گم تھے کہ سمندر سے نکالے جانے کے بعد یہ ممی اب تک محفوظ کیسے رہ سکتی ہے جبکہ دیگر mummies محفوظ نہ رہ سکیں۔اس ممی کی عمر قریباً تین ہزار سال ہے اور یہ محفوظ ہے۔ ابھی یہ سوال زیر غور تھا کہ کسی نے انہیں بتا یا کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب میں اس کاذکر موجود ہے۔

ڈاکٹر ماریس نے بے چینی سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنی شروع کیں اوربنفس نفیس قرآن کریم کی ان مذکور آیات کا مطالعہ کیا اور اس حیرانگی کا اظہار کیا کہ فرعون مصر کی ممی 1898 میں منظر عام پر آئی۔اور قرآن کریم نے 1400 سال قبل اس کی حفاظت کا اعلان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ماریس بقائی نے اب عہد نامہ قدیم اور جدید کا مطالعہ شروع کیا۔Exodus 14:28 میں ان کو یہ عبارت ملی۔

"And the water returned, and covered the chariot and the horse men and all the host of Pharoah that came into the sea after them; they remained not so much as one of them "
(Exodus 14:28)
‘But overthrow Pharoah and his host in the red sea : for his mercy endureth for ever ” (Psalm 136:15 )

ان عبارتوں سے واضح ہے کہ فرعون مصر اپنی جملہ افواج کے ساتھ غرق ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دے دی۔ ڈاکٹر ماریس انتہائی حیران تھے کہ بائبل جو قرآن سے بہت قبل آئی اس میں فرعون کی لاش کی حفاظت کا کوئی ذکر نہیں اور قرآن کریم کے انتہائی واضح الفاظ میں فرعون مصر کی لاش کی حفاظت کی پیش گوئی کی جو 1898 میں پوری بھی ہو گئی۔

مندرجہ بالا قرآنی آیات کو پڑھ کر بے اختیار ڈاکٹر ماریس بقائی نے یہ اعلان کیا کہ ’میں قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا اقرار کرتا ہوں اور اسلا م قبو ل کرتا ہوں ‘۔

اس کے بعد انہوں نے ایک کتاب شائع کی جو کئی دہائیوں تک فرانس کی مشہور زمانہ تصنیف رہی اور کئی سرکاری انعامات کی وارث ہوئی۔اس کتاب کا نام یہ ہے :

” The Bible, Quran and Science "
” The Holy Scripture examined in the light of Modern Knowledege "

بالآخر انہوں نے اپنی تصنیف میں قرآن کریم کی یہ آیت حوالے کے طور پر پیش کی کہ ــ’’باطل نہ اس کے آگے جا سکتا ہے نہ اس کے پیچھے۔ بڑ ی حکمتوں والے اور بڑی تعریف والے خدا کی طرف سے وہ اترا ہے۔‘‘

اس طور پر ڈاکٹر ماریس نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اس آیت کے مطابق قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے کی گواہی بھی دے دی۔

ماخوذ: (اکرام اللہ سید کا مضمون)

Gateway of Islamic Knowledge
E-mail: islamicocassions@hotmail.com
("Bible, Quran and Science” by Dr. Maurice Bucaille)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button