سیرت صحابہ کرام ؓ

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ (سیرت و سوانح) (قسط دوم۔آخری)

(افتخار احمد پیر)

حضرت مسیحِ موعودؑ کے ساتھ آپؓ کی عقیدت و ارادت / آخری ملاقات

کچھ عرصہ بعد (نومبر ۱۸۸۴ء میں) اطلاع ملی کہ حضرت اقدسؑ دوسری شادی کے لیے دہلی تشریف لے جائیں گے اور فلاں وقت ریلوے سٹیشن لدھیانہ سے گاڑی گزرے گی۔ حضورؑ جب سٹیشن پر وارد ہوئے تو حضرت صوفی صاحبؓ نے ایک تھیلی جس میں کچھ رقم تھی آپؑ کی نظر کی۔ ( تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۲۴۴ ۔ ۲۴۵)

حضرت منشی صاحبؓ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں:’’والد صاحب اور لدھیانہ کے احباب پہلے سے سٹیشن پر جا پہنچے۔میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ تھا۔جتنی دیر گاڑی کھڑی رہی حضور پلیٹ فارم پر ٹھہرے رہے۔ حضور مع رفقاء شایددس پندرہ منٹ لدھیانہ پلیٹ فارم پر کھڑے رہے پھر گاڑی پر سوار ہوکر دہلی روانہ ہوگئے۔واپسی کے وقت پھر لدھیانہ سٹیشن پر گاڑی ٹھہری۔احباب سے ملاقات کی۔میرے والد صاحب نے پھلور کے دوٹکٹ پہلے سے لے لئے تھے۔میرے بھائی منظور محمد صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی گاڑی کے ڈبہ ّمیں سوار ہوگئے، میں ساتھ نہیں گیا۔پھلور لدھیانہ سے پانچ میل ہے اور انجن بد لتا ہے۔گاڑی نصف گھنٹہ وہاں ٹھہری۔یہ میرے والد صاحب کا دلی اخلاص تھا جو اس تھوڑے عرصہ کی ملاقات کو غنیمت سمجھا۔یہ والد صاحب کی حضرت صاحب سے آخری ملاقات تھی۔‘‘ ( روایاتِ صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد ۷ روایات حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

سفرِ حج

۱۸۸۵ء کے اوائل میں حضرت صوفی صاحبؓ نے حج پر جانے کے لیے حضرت مسیحِ موعودؑ سے اجازت مانگی۔ حضورؑ نے اجازت دے دی اور اپنے قلم مبارک سے انہیں ایک درد انگیز دعا بھی لکھ کر دی کہ میری طرف سےبلا تبدل و تغیر بیت اللہ میں کریں۔ وہ خط جو حضورؑ نے حضرت صوفی صاحبؓ کو حج پر جانے سے پہلے لکھا، اس کے مبارک الفاظ یہ ہیں:’’از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد،با اخویم مخدوم ومکرمی منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا۔اس عاجز کی غرض پہلے خط سے حج بیت اللہ کے بارے میں صرف اسی قدر تھی کہ سامان سفر میسر ہوناچاہئے۔ اب چونکہ خداتعالیٰ نے زاد راہ میسر کردیا اور عزم مصمم ہے اور ہرطرح سامان درست ہے۔ اس لئے اب یہ دعاکرتاہوں کہ خداوند کریم آپ سے یہ عمل قبول فرمائے اور آپ کایہ قصد موجب خوشنودی حضرت عزاسمہ ہو او رآپ خیروعافیت اورسلامتی سے جائیں اور خیروعافیت اور سلامتی سے بہ تحصیل مرضات اللہ واپس آویں۔اٰمین یا ربّ العالمین۔اور انشاء اللہ یہ عاجز آپ کے لئے بہت دعا کرے گا اور آپ کے پچیس روپے پہنچ گئے ہیں۔ آپ نے اس ناکارہ کی بہت مدد کی ہے اور خالصۃً للہ اپنے قول اور فعل اورخدمت سے حمایت اور نصرت کاحق بجالائے۔جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔ یہ عاجز یقین رکھتاہے کہ آپ کا یہ عمل بھی حج سے کم نہیں ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ دل تو آپ کی اس قدر جدائی سے محزون اور مغموم رہے گا لیکن آپ جس دولت اور سعادت کو حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اس نورِ عظیم پر نظر کرنے سے انشراح خاطر ہے۔ خداتعالیٰ آپ کاحافظ اور حامی رہے اور یہ سفر من کل الوجوہ مبارک کرے۔آمین

ا س عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباد اللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت وغربت کے ہاتھ بحضور دل اُٹھا کرگزارش کریں کہ

اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ، پُرخطا اور نالائق غلام احمد جوتیر ی زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ غرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیٔات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفورا ور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کرا اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین میں اُٹھا۔اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تونے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تونے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظلّ حمایت میں رکھ کر دین اور دنیا میں آپ ان کامتکفل اور متولی ہوجا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام نازل کر۔ آمین یارب العلمین۔

یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پرفرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدل وتغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں۔

۱۳۰۳ھ والسلام

خاکسار

غلام احمد

مکرر کہ خط ہذا بطور یادداشت اپنے پاس رکھیں۔ خط دیکھ کر بتمامتر حضور و رقتِ دل دعا کریں۔‘‘ ( مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۲۷ تا ۲۸)چنانچہ حضرت صوفی صاحبؓ نے حضورؑ کے ارشاد کی تعمیل میں یہ دعا بیت اللہ شریف میں بھی اور ۹؍ ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ (بمطابق۱۹؍ ستمبر ۱۸۸۵ء) میدان عرفات میں بھی پڑھی۔ (الفضل ۲؍دسمبر ۲۰۰۶ء صفحہ ۴)

آپؓ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’ مجھے وہ وقت یا د ہے کیونکہ مجھے بھی میرے والد صاحب اپنے ساتھ حج کو لے گئے تھے اور بیس کے قریب مرید بھی ساتھ تھے۔جن میں حضرت شہزادہ حاجی عبدالمجید صاحب مبلغ ایران اور خان صاحب محمد امیر خاں صاحب (جن کی تربت مقبرہ بہشتی میں ہے) اور قاضی زین العابدین صاحب احمدی سرہندی رحمۃ اللہ علیہم بھی شامل تھے۔بفضل خدا وہ وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ جب کہ۹ذوالحجہ ۱۳۰۲ ہجری کو میرے والد صاحب وہ خط ہاتھ میں لے کر عرفات کے میدان میں کھڑے ہوئے اور ہم سب خدام پیچھے کھڑے تھے۔والد صاحب نے فرمایا کہ میں حضرت صاحب کی دعا بلند آواز سے پڑھتا ہوں تم سب آمین کہتے جاؤ۔والد صاحب نے وہ سب دعا پڑھی اور ہم سب آمین کہتے گئے۔ ‘‘ ( روایاتِ صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد ۷ روایات حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

وفات

حضرت صوفی صاحبؓ حج سے واپسی پر راستہ میں بیمار ہو گئے اور لدھیانہ آکر ۱۳ دن زندہ رہے اور ۱۹؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۳ ھ (بمطابق ۲۷؍دسمبر ۱۸۸۵ء) کو وفات پا گئے اور لدھیانہ گورِ غریباں میں دفن ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ( انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ صفحہ ۸)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت اقدس نے منشی صاحب کی بخیروعافیت واپسی کے لئے دعا کی تھی۔اس دعا کی قبولیت تو ان کی مع الخیر واپسی سے ظاہر ہے اور یہی ثبوت ہے کہ دعا جواس خط میں درج ہے۔وہ بھی قبول ہوئی اور بعد کے واقعات اور حالات نے اس کی قبولیت کا مشاہدہ کرادیا۔ ‘‘ ( مکتوباتِ احمد جلد ۳ صفحہ ۲۹)

وفات پر حضرت مسیحِ موعودؑ کا تعزیت کے لیے لدھیانہ تشریف لانا

حضرت صوفی صاحبؓ کے صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’ والد صاحب کی وفات سے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لائے۔تھوڑی دیر قیام فرمایا۔والد صاحب مرحوم کی محبت اخلاص اور دینی خدمت کا ذکر فرماتے رہے۔ پھر حضور نے مع حاضرین دعا فرمائی۔حضور نے قرآن شریف کی یہ آیت وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا پڑھ کر فرمایاکہ ان دونوں بچوں پر مہربانی کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ان کا باپ صالح تھا۔ہم بھی اپنے باپ کے دو ہی لڑکے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر بھی فضل فرمائے۔آمین‘‘ ( روایاتِ صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد ۷ روایات حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

حضرت صوفی صاحبؓ کی ایک اور کرامت بوقتِ وفات

حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت قبلہ و کعبہ منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کو اللہ نے آپ کے دفن ہونے کی جگہ سے اطلاع بخشی۔ اس واسطے آپ نے اپنے محض مریدین کو حکم دیا کہ قبرستان میں فلانی جگہ پر ایک چار دیواری خطیرہ کی طرح بنوا دیں اور فرمایا کہ فوت ہو جانے کے بعد ہم کو اس چار دیواری کے اندر دفن کرنا۔ مریدوں نے پیر کے ارشاد کے مطابق چار دیواری کی بنیاد قائم کی اور عمارت شروع ہوئی جب لوگوں میں اس پیشگوئی کا چرچا ہوا اور لوگوں کی زبانوں پر اس پیشگوئی نے خوب شہرت پکڑی تو لودھیانہ کے ظاہری علماء نے جو صوفیائے کرام پر نقطہ چینی کے عادی ہوتے ہیں اور کفر کا فتویٰ دینا ان کی اقتضائے طبیعت ہوتی ہے حضرت منشی صاحب کے اس عمل پر یعنی حسب اعلامِ الٰہی اپنی قبر کی زمین کے حد بست کرنے پر کفر کا فتویٰ دیا اور کہا کہ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا اور کہاں دفن ہوگا۔ پس اس آیت کی رُو سے منشی صاحب کا اپنی قبر کے لئے چار دیواری بنوانی ایک ایسا عمل ہے جو قرآن کے صریح خلاف ہے۔ مولویوں کے اس فتویٰ سے اطلاع پانے کے بعد حضرت منشی صاحب موصوف نے مریدوں سے فرمایا کہ اچھا چار دیواری بنانے کو ملتوی کر دو۔ ہمیں مولویوں سے پرخاش اور شور و شعب کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ آپ کے فرمانے پر حد بست کی کارروائی موقوف کردی گئی اور اس پیشگوئی کا خیال رفتہ رفتہ سب کے دلوں سے نسیاً منسیاً ہو گیا۔ پھر سالہائے دراز کے بعد اپنی عمر کے آخری دنوں میں حضرت منشی صاحب حج بیت اللہ کے ارادہ پر مکہ شریف تشریف لے گئے۔ حج سے فارغ ہو کر جب لودھیانہ واپس اپنے گھر پر پہنچے تو انیس دن کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔ خدام نے آپ کا جنازہ قبرستان میں پہنچایا اور چونکہ سب کے دلوں سے اس بات کا خیال جاتا رہا تھا کہ آپ کی قبر کی زمین تو وہ ہے جہاں پر آپ نے بموجب اعلامِ الٰہی کے چار دیواری بنوا کر چھوڑ دی تھی۔ اس واسطے اس ذہول اور نسیان کی وجہ سے معہود جگہ کو چھوڑ کر ایک دوسری جگہ میں قبر کھود کر آپ کا جنازہ اس میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ جب نصف قبر سے زیادہ آپ کے جنازے پر اینٹیں چنی گئیں اس وقت بڑے زور سے بعض کے دل میں خیال آیا کہ یہ جگہ جس میں حضرت صاحب رکھے گئے ہیں آپ کی شان کے مناسب اور موزوں نہیں۔ اس لئے بعض نے یہی مناسب دیکھا کہ حضرت مرحوم و مغفور اسی جگہ مدفون ہوں جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی تھی یعنی وہی جگہ جہاں پر آپ نے چار دیواری کھچوائی تو تھی مگر علمائے ظواہر کے شور و غل برپا کرنے کی وجہ سے پھر اس خیال کو ترک کر دیا تھا لیکن بعضوں نے یہ کہا کہ اب جنازہ کو قبر میں سے نکالنا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کرنے میں جنازہ کی توہین ہے مگر بہت حیص بیص اور حجت اور تکرار اور قیل و قال کے بعد آخر یہی فیصلہ ہوا کہ آپ کو اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں خدا نے بتلایا تھا۔ چنانچہ آخر کار آپ اسی چار دیواری میں دفن ہوئے جس کا اللہ تعالیٰ نے پتہ بتا دیا تھا اور اس طرح خدا کی بات پوری ہوئی۔‘‘ ( الحکم ۷؍ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۲ ۔ ۳)

حضرت صوفی صاحبؓ تین سو تیرہ صحابہؓ میں سے تھے

حضرت صوفی صاحبؓ کا نام تین سو تیرہ صحابہ میں ۹۹ نمبر پر درج ہے۔اس قابلِ فخر گروہ کے متعلق حدیث نبویﷺ کے حوالہ سےحضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں:’’شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں۔ ’’دراربعین آمدہ است کہ خروج مہدی ازقریہ کدعہ باشد۔ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللّٰہ تعالٰی ویجمع اصحابہ من اقصَی البلاد علی عدّۃ اھل بدر بثلاث مائۃ وثلا ثۃ عشر رجلا ومعہ صحیفۃ مختومۃ (ای مطبوعۃ) فیھا عدد اصحابہ باسمائھم وبلادھم وخلالھمیعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا۔ اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا۔ یعنی تین سو تیرہ ۳۱۳ ہوں گے۔ اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں۔ لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سوتیرہ۳۱۳ نام درج کرچکا ہوں اور اب دو بارہ اتمام حجت کے لئے تین سوتیرہ۳۱۳ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہریک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی۔ اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔‘‘ ( ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲۴ ۔ ۳۲۵)

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ۱۸۸۴ء میں حضرت مسیحِ موعودؑ کے پہلے سفر لدھیانہ کے دوران منشی صاحبؓ نے حضورؑ سے بیعت لینے کی درخواست کی تھی لیکن حضورؑ نے یہ فرما کر انکار کر دیا کہ لَسْتُ بِمَأمُور۔ (الحکم ۷؍مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۲) جس وقت بیعت کا حکم ملامنشی صاحب کی وفات ہو چکی تھی۔لیکن ظاہری بیعت نہ کرنے کے باوجود حضورؑ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے آپؓ کا نام اپنے ۳۱۳ اصحابؓ اور متبعین میں شامل کیا۔حضورؑ فرماتے ہیں:’’حبی فی اللہ منشی احمد جان صاحب مرحوم۔ اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پُردرد قصہ مجھے لکھنا پڑا۔ کہ اب یہ ہمارا پیارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے اورخداوند کریم ورحیم نے بہشت بریں کی طرف بلا لیا۔ اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ وَ اِنَّا بِفَرَاقِہِ لَمَحْزُوْنُوْنَ۔ حاجی صاحب مغفور و مرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور اُن کے مُریدوں میں آثار رُشد وسعادت و اتباع سُنّت نمایاں ہیں۔ اگرچہ حضرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پا چکے لیکن یہ امراُن کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اِس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے درحقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا۔ چنانچہ انہوں نے اس میں سیرت صالحین پر اپنا توبہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اورلکھا کہ میں آپ کی للّہی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میری زندگی کا نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہوگیا ہوں۔ اور پھر کسر نفسی کے طورپر اپنے گذشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقّت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا۔ اس دوست کا وہ آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہے اب تک موجود ہے مگر افسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھر اس مخدوم پر بیماری کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دور افتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اور خبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادر آدمی تھے۔ بعض نافہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسر شان ہے لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پروا نہیں اور نہ مریدوں کی حاجت۔ آپ کا صاحبزادہ کلاں حاجی افتخاراحمد صاحب آپ کے قدم پر اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رُشد وصلاح و تقویٰ اُن کے چہرہ پر ظاہرہیں۔ وہ باوجود متوکّلانہ گذارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل وجان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں خدائے تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے۔‘‘ ( ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۶۸۔۵۲۹)

مریدوں کے چھوڑ جانے کا خوف آپؓ کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکا

حضرت مسیحِ موعودؑ حضرت صوفی صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:’’حبی فی اللہ حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کہ مؤلف کتاب طب روحانی نیز بودند بکمال محبت و اخلاص بدیں عاجز ارادتے پیدا کردند و بعض مریدان نا اہل در ایشاں چیز ہا گفتند کہ بدیں مشیخت و شہرت کجا افتاد چون اوشان را از آن کلمات اطلاعے شد معتقدان خود را در مجلسی جمع کردند و گفتند کہ حقیقت اینست کہ ماچیزے دیدم کہ شما نمے بینیدپس اگر از من قطع تعلق میخواہید بسیار خوب است مرا خود پروائے این تعلق ہانماندہ ازین سخن شان بعض مریدان اہل دل بگریستند و اخلاصے پیدا کردند کہ پیش زاں نیز نمے داشتند و مرا وقت ملاقات گفتند کہ عجب کاریست کہ مرا افتادہ کہ من قصد مصمم کردہ بودم کہ اگر مرامے گذارند من ایشانرا گزارم لیکن امر برعکس آں پدید آمدہ و قسم خوردند کہ اکنوں بآن خدمتہا پیش مے آیند کہ قبل زین ازان نشانے نبود این بزرگ مرحوم چون بعد از مراجعت حج وفات کردند اعزہ و وابستگان خود را بار بار ہمین نصیحت نمودند کہ بدین عاجز تعلق ہائے ارادت داشتہ باشیدو وقت عزیمت حج مرانوشتند کہ مرا حسرتہاست کہ من زمان شمارا بسیار کمتر یافتم و عمرے گرد این و آن برباد رفت و فرزندان وہمہ مردان و زنان کہ اعزہ شان بودند بوصیت شاں عمل کردند و خود را درسلک بیعت این عاجز کشیدند چنانچہ از روزگارے دراز فرزندان آن بزرگ سکونت لدھیانہ راترک کردہ اند و مع عیال خود نزدمن در قادیان می مانند۔‘‘

( سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۹۲ ۔ ۹۳)

ترجمہ:حبی فی اللہ حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی نے جو کتاب طب روحانی کے مؤلف بھی تھے کمال محبت و اخلاص کے ساتھ اس عاجز سے تعلق ارادت قائم کیا تو آپ کے بعض نا اہل مریدوں نے اس بارے میں کہا کہ آپ کی بزرگی اور شہرت کہاں گئی۔ جب آپ کو ان باتوں کی اطلاع ملی تو اپنے مریدو ں کو ایک مجلس میں جمع کیا اور کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے کچھ ایسا دیکھ لیا ہے جو تم نہیں دیکھ رہے۔ اگر تم مجھ سے قطع تعلق کرنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔ اب مجھے خود ان تعلقات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ کے بعض مخلص مرید رو پڑے اور ان میں وہ عقیدت پیدا ہو گئی جو اس سے پہلے موجود نہ تھی اور آپ نے مجھے ملاقات کے وقت بتایا کہ عجیب بات ہے کہ میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر وہ سب مجھے چھوڑ دیں گے تو میں بھی ان کو چھوڑ دوں گا۔ لیکن معاملہ الٹا ہو گیا اور انہوں نے قسم کھائی کہ اب ایسی خدمت کریں گے کہ جس کا اس سے قبل نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس بزرگ مرحوم نے حج سے لوٹنے کے بعد جب وفات پائی تو وفات سے قبل اپنے عزیز و اقارب کو بار بار یہی نصیحت فرمائی کہ اس عاجز سے تعلق ارادت بنائے رکھنا اور بوقت ارادۂ حج مجھے لکھا کہ مجھے حسرت ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ بہت کم وقت گزارا ہے اور میری عمر اِدھر اُدھر کے معاملات میں ضائع ہو گئی اور آپ کی اولاد اور آپ کے خاندان کے تمام مردوں اور عورتوں نے آپ کی وصیت پر عمل کیا اور خود کو اس عاجز کی بیعت سے منسلک کر لیا۔ چنانچہ ایک لمبے عرصے سے اس بزرگ کی اولاد نے لدھیانہ کی رہائش کو ترک کر دیا ہے اور اپنے اہل و عیال سمیت میرے نزدیک قادیان میں رہ رہے ہیں۔

آپؓ کے صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’میرے والد صاحب کو بھی اس بات سے ڈرایا گیا تھا کہ آپ کے مرید آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ مگر میرے والد صاحب نہ ڈرے نہ ہٹے اور جواب دیا کہ خواہ میرے سارے مرید مجھے چھوڑ کر چلے جائیں، میں راستی اور صداقت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ مگر یہ تو صرف شیطانی ڈراوا تھا اِنَّ الشَّیْطَانَ یُخَوِّفُ اَوْلِیَاءَہٗ (تحقیق شیطان ڈرایا کرتا ہے اپنے دوستوں کو) میرے والد صاحب نے مانا اور علی الاعلان مانا۔ مخالفین کا مقابلہ کیا۔ مباحثہ کیا۔ اشتہار شائع کیا۔ مریدوں نے تو کیا بھاگنا تھا اللہ تعالیٰ نے اور ترقی دے دی۔ مریدی، پیری، آمدنی اور زیادہ ہوگئی۔ یہاں تک کہ حج بیت اللہ کو تشریف لے گئے۔ زائد روپیہ بمبئی سے گھر کو واپس کر دیا۔ آخر کار مرض الموت میں جب چارپائی پر لیٹے رہتے تھے، فرماتے تھے کہ دائیں طرف کروٹ لیتا ہوں تو روپوں کا ڈھیر ہے۔ بائیں طرف کروٹ لیتا ہوں تو روپے پڑے ہیں۔ اس زمانہ میں نوٹوں کا رواج بہت کم تھا۔ لوگ آتے اور اِدھر اُدھر روپے رکھتے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بشارت پوری کی کہ وَمَن يَتَّقِ للّٰهَ يَجْعَل لَّهٗ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔انہوں نے تقویٰ کیا۔ خدا سے ڈرے۔ باوجود مخالفت کے حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کو قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ ‘‘ (انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ صفحہ ۲۵۲ ۔ ۲۵۳)

آپؓ کا توکّل علی اللہ

حضرت صوفی صاحبؓ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’ہمارے گھر میں خرچ نہ تھا۔ میرے والد صاحب نے میری والدہ صاحبہ سے پوچھا آٹا ہے؟ کہا نہیں۔ دال ہے۔ جواب نفی میں ملا۔ ایندھن ہے۔ وہی جواب تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا دو روپے تھے۔ فرمانے لگے اس میں تو اتنی چیزیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ میں ان دو روپوں کی تجارت کرتا ہوں۔ وہ دو روپے کسی غریب کو دے کر نماز پڑھنے مسجد چلے گئے۔ راستہ میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دیئے۔ واپس آ کر فرمایا لو میں تجارت کر آیا ہوں اب سب چیزیں منگوالو۔‘‘ ( انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ صفحہ۲۲۱ تا ۲۲۲)

آپؓ کی خداداد فراست

حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحبؓ نے حضرت صوفی صاحبؓ کے متعلق تحریر کیا کہ’’حضرت منشی صاحب ممدوح ان برگزیدہ بزرگوں میں سے تھے جن کی فراست کے متعلق نبی کریم ﷺ نے اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ فرمایا۔چنانچہ جب سرسید احمد خان صاحب شہر میں آئے اور ان کے متعلق ٹون ہال میں ایک جلسہ ہوا۔اس جلسہ میں بہت لوگ جمع ہوئے اور ایک ہزار روپے سے زیادہ چندہ سرسید کے واسطے فراہم کیا گیا جو تھیلی میں داخل کر کے میز پر رکھ دیا گیا۔تھیلی کو سر پر رکھ کر سرسید نے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کچھ تقریر بھی کی جو اس وقت یاد نہیں۔ اس جلسہ میں قبلہ و کعبہ حضرت منشی صاحب موصوف بھی تشریف لے گئےاور میں بھی آپ کے ساتھ شریک جلسہ ہوا۔ جب جلسہ برخواست ہوا تو واپس آتے ہوئے پیر و مرشد صاحب نے فرمایا کہ ہم کو اس شخص کے دل سے بجز ظلمت اور تاریکی کے اور کچھ بھی نظر نہ آیا۔سبحان اللہ حضرت موصوف کی فراست سرسید کے متعلق کیسی صحیح اور درست نکلی جس سے آپ کی فراست کی خوبی پر مہر لگ جاتی ہے۔‘‘ ( الحکم ۱۴؍ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۹)

جموں کے مہاراجہ کا حضرت صوفی صاحبؓ کو دعا کے لیےکہنا

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں:’’ میری پہلی شادی جہاں ہوئی وہ مفتی ہمارے شہر کے بڑے معزز و مکرم تھے۔ ایک دن میری بیوی کو کسی نے کہا ’’چبارہ دی اٹ وہنی وچ جا لگی۔ (یعنی جو اینٹ چوبارہ میں لگنی چاہیے تھی وہ گندی نالی میں لگا دی گئی ہے۔)‘‘ مگر کہنے والے نے جھوٹ کہا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے فضل کئے۔ پھر ہمیں ایسے موقع پر ناطہ دیا کہ تم تعجب کرو۔ جموں کا رئیس بیمار تھا۔ اس نے بہت دوائیں کیں۔ کچھ فائدہ نہ ہوا تو فقرا ءکی طرف متوجہ ہوا۔ جب ہندو فقراء سے فائدہ نہ ہوا تو مسلمان فقراءکی طرف توجہ کی اور ان سب فقرا ءکو بڑا روپیہ دیا۔ ایک میرا دوست جو اس روپے کے خرچ کا آفیسر تھا اس نے ذکر کیا کہ تین لاکھ تو خرچ ہو چکا۔ اب ایک فقیر سنا ہے جسے بلانے کے لئے آدمی گیا اور اس کے لئے اتنے ہزار روپے تھے مگر اس کا خط آیا۔ اس میں لکھا تھا میرا کام تو دعا کرنا ہے۔ دعا جیسی لدھیانہ میں ہو سکتی ہے ویسی ہی کشمیر میں۔ دونوں جگہ کا خدا ایک ہے۔ وہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں ایک بات ہے۔ اگر آپ کا رعایا سے اچھا سلوک نہیں تو اس کے افراد بد دعائیں دے رہے ہوں گے تو میں ایک دعا کرنے والا کیا کر سکتا ہوں۔ باقی رہے روپے، سو جب آپ نے فقیر سمجھا ہے تو پھر غنی نہیں ہو سکتا۔ اس آفیسر نے کہا کہ میں نے نہ ایسا آدمی ہندوؤں میں دیکھا ہے نہ مسلمانوں میں۔ میں نے کہا سردار صاحب! ایسے آدمیوں کے ساتھ رشتہ ہو تو پھر کیا بات ہے۔ سنو! عبدالحی کی ماں اسی بزرگ (حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ) کی بیٹی ہے۔ خدا تعالیٰ میری خواہشیں تو یوں پوری کرتا ہے۔ اب میں غیر کا محتاج بنوں تو یہ عدل نہیں۔ ‘‘ ( حیاتِ نور باب ہشتم صفحہ ۶۲۷ ۔ ۶۲۸ / حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ ۵۰۷ َ ۵۰۸)

آپؓ کی صوفیانہ شاعری

حضرت منشی صاحبؓ صوفیانہ طرز پر شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ حضرت صوفی صاحبؓ کے اس ذوق کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:’’حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ…[کو] نعت گوئی کا بھی ایک خاص شوق تھا۔ شریرؔ تخلص کرتے تھے۔ ایک شعر اس وقت یاد آگیا۔

نبی کی نعت لکھیں گے شریرؔ اک اور بھی ہم تو

بڑی راتیں ہیں جاڑوں کی بھلا کرتے ہیں کیا بیٹھے‘‘

(حیاتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۱۴۳ ۔ ۱۴۴ حاشیہ در حاشیہ)

آپؓ کے صاحبزادےحضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:

’’طلبِ خدا کا شوق سب شوقوں سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ میرے والد صاحب نے اس زمانہ طلب میں ایک دعائیہ مناجات بھی لکھی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں:

بہت جا سر کو پٹکا دردِ غم سے

بہت جا خاک چھانی غمِ الم سے

بہت جا داغ سینہ کے دکھائے

بہت جا اشک رو رو کے بہائے

مگر سمجھ میں بن نہ پایا

کوئی ایساجو مطلب میرا بر لائے خدایا

سو اب محروم ہو کر سب جگہ سے

گرا ہوں سر نگوں میں در پہ تیرے

تیرے بن کون پکڑے ہاتھ میرا

تیرے بن کون دیوے ساتھ میرا

مگر مشکل ہے مطلب میرے دل کا

سو روشن تجھ پہ ہے سب حال میرا

فقط اک عشق تیرا چاہتا ہوں

تجھے تجھ سے خدایا چاہتا ہوں‘‘

( انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ صفحہ ۲۳۰)

دار البیعت لدھیانہ

حضرت صوفی صاحبؓ کا گھر دار البیعت لدھیانہ کے نام سے موسوم ہے۔ اس متبرک مقام کا شمار شعائر اللہ میں ہوتا ہے۔ یہی وہ مکان ہے جسے حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے پہلی بیعت اور جماعت احمدیہ کی تاسیس کے لیے انتخاب فرمایا اور یہیں پر آپؑ نے اپنی کتاب ’’ازالۂ اوہام‘‘ تصنیف فرمائی۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲ تا ۸ جنوری ۱۹۹۸ء صفحہ ۱۴)دار البیعت کے جانب جنوب حضرت صوفی صاحبؓ کا رہائشی مکان تھا اور جس جگہ بیعت لی گئی وہ آپؓ کا جاری کردہ لنگر خانہ تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں:’’[بیعت کا خدائی حکم ملنے کے بعد] حضرت خلیفہ اوّلؓ نے جب آپؑ [یعنی حضرت مسیحِ موعودؑ] سے بیعت لینے کی درخواست کی تو آپؑ نے فرمایایہاں نہیں بیعت لی جائے گی۔ (یعنی قادیان میں نہیں لی جائے گی) پھر لدھیانہ میں بیعت لی۔‘‘ ( رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰۶ ۔ ۱۰۷ / خطباتِ مسرور جلد ۱۳ صفحہ ۴۵۴)

چنانچہ ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو پہلی بیعت کے لیے حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے گھر واقع محلّہ جدید لدھیانہ کا انتخاب کیا گیا اور پہلی بیعت حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفہ اوّلؓ نے کی۔ پہلے روز ۴۰ افراد نے بیعت کی۔بیعت کے لیے ایک رجسٹر تیار کیا گیا جس پر ’’بیعتِ توبہ برائے حصولِ تقویٰ و طہارت‘‘ لکھا گیا جس میں بیعت کنندہ کا نام ولدیت سکونت وغیرہ لکھی جاتی۔ حضورؑ ایک کوٹھری میں چلے گئے اور فرما گئے کہ ایک ایک آدمی بیعت کے لیے آوے۔ ابتدا میں بیعت کا یہی طریق تھا۔ بعد ازاں جب لوگوں کی آمد زیادہ ہو گئی تو خطوں کے ذریعہ بھی اور کھلی بیعت بھی لی جانے لگی۔ بیعت اولیٰ کے بعد حضرت منشی صاحبؓ کے ورثاء نے لنگر خانہ کے حصہ کو مسجد بنا دیا۔ ( روزنامہ الفضل لندن۱۱؍اگست ۲۰۲۰ء مضمون در بارہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

جب حضرت صوفی صاحبؓ کے دونوں صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ اور حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ ہجرت کر کے قادیان آگئے تو ورثاء کی حیثیت سے رہائشی مکان کو فروخت کر دیا اور لنگر خانہ والا حصہ صدر انجمن احمدیہ کو وصیّت میں دے دیا۔ صدر انجمن احمدیہ نے یہ زمین لدھیانہ کی مقامی جماعت کے سپرد کر دی۔ اس وقت یہ کچا مکان تھا۔۱۹۱۶ء میں اس کی پرانی شکل میں تبدیلی کر کے جانب شمال ایک لمبا اور پختہ اور ہوا دار کمرہ تیار کروایا گیا اور صحن میں ایک چبوترہ اور ایک محراب بنا کر نماز کے لئے جگہ مخصوص کر دی گئی۔۱۹۳۹ء میں نماز کی جگہ پر ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تعمیر کر دی گئی۔ بجلی کے قمقمے نصب کیے گئے۔ صحن میں نلکا نصب ہوا اور غسل خانہ اور جائے ضرورت تیار کی گئی۔ ایک لمبے کمرے کو دو میں تبدیل کر کے مشرقی کمرہ میں احمدیہ لائبریری قائم کی گئی۔ اسی کمرہ کی مشرقی دیوار کے جنوبی کونے کے پہلو میں وہ مقدّس جگہ ہے جہاں حضرت مسیحِ موعودؑ نے بیٹھ کر پہلی بیعت لی تھی۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد یہ مکان ایک غیر مسلم کے قبضہ میں چلا گیا۔ انہوں نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی۔ آخر ان سے یہ تاریخی عمارت خالی کروالی گئی اور مورخہ ۱۵؍ فروری ۲۰۰۶ء سے اسے افرادِ جماعت کے لیے کھول دیا گیا۔ ( ملخص از تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۳۸۰ /ریویو آف ریلیجنز اردو جون، جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۲۶ تا ۳۹ /قادیان مصنفہ محمد حمید کوثر صاحب صفحہ ۷۹ ۔۸۰)

شادی و اولاد

حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کی شادی حضرت قمر جان صاحبہؓ سے ہوئی۔ آپ شاہ شجاع کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ہجرت کر کے قادیان میں سکونت اختیار کر لی۔ آپ ؓنے ۳/۱ کی شرح سے وصیّت کی ہوئی تھی۔ آپؓ کا وصیّت نمبر ۱۲۰ تھا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میری والدہ بہت نیک اور نیکوں کی اولاد تھیں۔ (انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ صفحہ۶)حضرت قمر جان صاحبہؓ نے ۱۳؍جنوری ۱۹۱۶ء کو قادیان میں ۷۰ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صوفی صاحبؓ کو ان کے بطن سے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔

(۱) حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحبؓ

(۲)حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحبؓ

(۳)حضرت صاحبزادی محترمہ صغریٰ بیگم صاحبہؓ

(۴)حضرت صاحبزادی محترمہ غفور بیگم صاحبہؓ

(۵)حضرت صاحبزادی محترمہ مختار بیگم صاحبہؓ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button