سیرت صحابہ کرام ؓ

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ (سیرت و سوانح) (قسط اول)

(افتخار احمد پیر)

صوفی احمد جان صاحب تو ایک ولی اللہ تھے۔ ان کی ایک دور بین نظر تھی جنہوں نے دیکھ لیا کہ حضرت مسیحِ موعودؑ ہی مسیحِ موعود ہیں۔ چاہے دعویٰ ہے یا نہیں

تعارف

حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ مرحوم و مغفور ایک بڑے نیک صوفی با صفا، ولی اللہ اور سجادہ نشین تھے۔ آپ کے عقیدت مندوں کا حلقہ نہ صرف لدھیانہ بلکہ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا اور ان کے روحانی کمالات اور توجہ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ لدھیانہ کے بڑے بڑے علماء اور افاضل مثلاً مولوی محمد علی صاحب لدھیانوی آپ کے ارادت مندوں میں شامل تھے۔ لدھیانہ کے علماء نے آپؓ کو مجمع فیوض سبحانی، منبع علوم روحانی، قدوۃ الواصلین، زبدۃ المحقّقین، صوفی باصفا، زاہد اتقیٰ، فیاض زمان، مسیحائے دوراں جیسے خطابات دے رکھے تھے۔ (تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۱۷۳)آپؓ نے غرباء کی شکم سیری کے لیے اپنے گھر کے ایک حصہ میں لنگر خانہ بھی کھول رکھا تھا۔ (روزنامہ الفضل لندن۱۱؍اگست ۲۰۲۰ء مضمون در بارہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ آپؓ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ ایک مشہور و معروف صاحبِ ارشاد صوفی تھے…عام طور پر وہ ایسے صوفیوں میں سے نہ تھے جو مختلف قسم کی بِدعات اور منہیات شرعیہ میں مبتلا ہو کر اسے بھی اپنے تصوّف و کمال کا ایک شعبہ قرار دیتے رہتے ہیں بلکہ وہ ایک باعمل متبع سنّت بزرگ تھے اور اہل بدعت سے ہمیشہ متنفر رہتے تھے اور احکام شرعیہ کی پابندی اور ان پر عمل ضروری سمجھتے تھے۔‘‘ (حیاتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۱۴۲ تا ۱۴۳، حاشیہ درحاشیہ)

آپؓ حضرت مسیحِ موعودؑ کے ان اوّلین عشاق میں سے تھے جنہوں نے اپنے کثیر ارادت مندوں اور عقیدت مندوں کی پروا نہ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ کے دامن سے وابستگی اختیار کر لی اور شاہی پر غلامی کو ترجیح دی۔ حضورؑ کو بھی آپؓ سے دلی محبت و الفت تھی جس کا ذکر بار ہا آپؓ کی وفات کے بعد فرمایا۔ حضورؑ نے آپؓ کو اپنی تحریرات میں صوفی اور منشی کے نام سے ملقب کیا۔ حضرت اقدسؑ حضرت صوفی صاحبؓ کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی مرحوم اس عاجز کے اول درجہ کے معتقدین میں سے تھے اور اُن کے تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور گھر کے لوگ غرض تمام کنبہ ان کا اس عاجز کی بیعت میں داخل ہوچکا ہے۔‘‘ ( ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۵) حضرت اقدسؑ نے ایک مکتوب بنام حضرت خلیفہ اوّلؓ مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۸۸۸ء کو لکھا جس وقت حضرت خلیفہ اوّلؓ کے رشتہ کی تجویز حضرت صوفی صاحبؓ کی صاحبزادی حضرت محترمہ صغریٰ بیگم صاحبہ سے چل رہی تھی۔ اس میں حضرت منشی صاحبؓ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضورؑ نے تحریر فرمایا کہ ’’اب میں تھوڑا سا حال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوں منشی صاحب مرحوم اصل میں متوطن دہلی کے تھے۔ شاید ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لودہانہ آ کر آباد ہوئے۔ کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی نہایت بزرگوار، خوبصورت، خوب سیرت، صاف باطن، متقی، باخدا اور متوکل آدمی تھے۔ مجھ سے اس قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثر ان کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسر شان ہے۔ مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے۔ اس پر بعض نالائق خلیفے ان کے منحرف بھی ہوگئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا اخیر تک نبھاہا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی۔ جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزق خداداد سے مجھے بھیجتے رہے اور میرے نام کی اشاعت کے لئے بدل و جان ساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی اور جیسا کہ انہوں نے اپنے ذمہ مقدر کر رکھا تھا جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے اور ایک بڑا لمبا دردناک خط لکھا جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا اور حج سے آتے وقت راہ میں ہی بیمار ہوگئے اور گھر آتے ہی فوت ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت و خوش تقریری و وجاہت کے جو خدا داد انہیں حاصل تھی، مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لئے ان میں تعصب نہیں تھا۔ میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا۔ غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر آئے ہیں۔‘‘ ( مکتوباتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۵۵ تا ۵۶)

اللہ تعالیٰ نے حضرت منشی صاحبؓ اور آپؓ کی اولاد کو کئی ازلی ابدی سعادتوں سے نوازا۔ آپؓ کی صاحبزادی حضرت محترمہ صغریٰ بیگم صاحبہؓ کا نکاح حضرت مسیحِ موعودؑ کی تجویز پرحضرت خلیفہ اوّلؓ سے ہوا اور انہی کے بطن سے آپؓ کی نواسی حضرت صاحبزادی امۃ الحی بیگم صاحبہؓ حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آئیں۔ اس کے علاوہ آپؓ کی ایک پوتی حضرت صاحبزادی صالحہ بیگم صاحبہؓ کی شادی حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ سے ہوئی اور اس رشتہ کی تجویز کی بنیاد حضرت مسیحِ موعودؑ اور حضرت امّاں جانؓ کی رؤیا صالحہ تھی۔ ( تاریخِ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۴۴۷)

حضرت صوفی صاحبؓ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیحِ موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ سجادہ نشینوں میں سے جس نے سب سے پہلے مجھے مانا وہ میرے والد صاحب تھے۔‘‘ (انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓصفحہ ۲۵۱)

اگرچہ حضرت صوفی صاحبؓ کو ظاہری بیعت کا موقع نہ مل سکا لیکن حضورؑ نے آپؓ کا نام اپنے صحابہ خاص ۳۱۳ میں شامل کیا۔ ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدسؑ نے پہلی بیعت کے لیے حضرت صوفی صاحبؓ کے مکان کو شرف بخشااور پہلی بیعت کا شرف حضرت صوفی صاحبؓ کے داماد حضرت حکیم مولوی نورالدّین صاحبؓ خلیفہ اوّل کو حاصل ہوا اور عورتوں میں پہلی بیعت کی سعادت بھی آپؓ کی بیٹی اور حضرت خلیفہ اوّلؓ کی زوجہ حضرت صاحبزادی صغریٰ بیگم صاحبہؓ کو نصیب ہوئی۔ (تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۳۸۲)

دار البیعت – وہ بابرکت گھر جہاں پہلی بیعت ہوئی

ابتدائی حالات

حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کا آبائی وطن دہلی تھا۔ آپؓ کے آبا و اجداد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔بچپن میں ہی راہِ خدا کا شوق تھا۔اس مقصد کے لیے آپ نے تجارت کی تین لاکھ کی دکان چھوڑ دی اور اعلیٰ درجہ کی امارت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ (الحکم ۷؍مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۲)دور دراز کے سفر کیے اور پھرتے پھراتے ایک بزرگ میاں الٰہی بخش کے پاس پہنچے اور اپنا مقصد بیان کیا۔ انہوں نے ایک اور بزرگ کا حوالہ دیا کہ ان کے پاس جاؤ۔ (انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓصفحہ۲۲۹)ان کے کہنے پر ضلع گورداسپور موضع رتّر چھتر میں حضرت امام علی شاہ نقشبندی کے پاس آکر مرید ہو گئے اور بارہ سال تک خدمت کی۔

٭…حاشیہ: رتّر چھتر کا ہی دوسرا نام مکان شریف ہے۔ حضرت سید حسین علی شاہؒ اپنے پیشوا حضرت خواجہ حاجی احمد نقشبندؒ سے اکتساب اور سلسلہ کی خلافت حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی وطن رتّر چھتر تشریف لائے اور ارشاد پر متمکن ہوئے تو اس علاقے کا نام مکان شریف مشہور ہو گیا اور اسی نسبت سے یہ سلسلۂ نقشبند موسوم ہے۔صوفیائے مکان شریف کے حالات زندگی پر ایک کتاب ’’ذکرِ مبارک مشایخِ سادات مکان شریف قدّس سرھم مؤلّفہ قائم الدین قانونگوئے پنشنر مرحوم مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ اقبال روڈ، سیالکوٹ‘‘ موجود ہے جس کے صفحہ ۱۹۹ پر حضرت سید امام علی شاہؒ کے خلفاء کے نام درج ہیں اور بارہویں نمبر پر حضرت صوفی احمد جان صاحب کا نام کچھ یوں درج ہے:

’’معدنِ انوارِ الٰہی، مخزنِ اسرارِ لامتناہی میاں احمد جان قدّس اللہ سرہ دہلوی‘‘

حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صوفی صاحبؓ کے اس دور کے مجاہدات کا ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا: ’’انہوں نے اپنی جوانی میں ۱۲ سال تک وہ چکّی جس میں بیل جوتا جاتا ہے اپنے پیر کی خدمت کرنے کے لئے چلائی اور ۱۲ سال تک اس کے لئے آٹا پیستے رہے۔ تب انہوں نے روحانیت کے سبق ان کو سکھائے۔‘‘ (خطباتِ محمود جلد ۲۵ صفحہ ۲۴ / خطباتِ مسرور جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۹ تا ۲۱۰)

اپنے مرشد سید امام علی شاہ صاحب کی طرف سے سلسلہ کی خلافت حاصل کرنے کے بعد لدھیانہ میں مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔بند گانِ خدا کا اس کثرت سے رجوع ہوا کہ بمبئی، کلکتہ، پشاور، لاہور، امرت سر، انبالہ، دہلی وغیرہ شہروں سے جان نثار مرید آپ کی بیعت میں داخل ہوگئے۔ (الحکم ۷؍مارچ ۱۹۲۰ءصفحہ ۲)حضرت صوفی صاحبؓ اپنے ابتدائی حالات کا ذکر خود ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’اس ناکارہ جہاں منشی احمد جان دہلوی ثم لدھیانوی بخشے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اور ڈھانکے عیبوں کو۔ آٹھ نو برس کی عمر سے طلب خدا اور یادِالٰہی کا شوق تھا۔ جہاں اس راہ کا مذکور ہوتا وہاں بیٹھتا اور جس جگہ کسی بزرگ کو سنتا وہاں جاتا خلوت و تنہائی میں گریہ و زاری کرتا اور جنابِ باری میں ملتجی ہوتا کہ یا ربّ العالمین سیدھی راہ دیکھا اور گمراہی سے بچا۔ نہ کاروبار میں دل لگتا نہ نکاح کرنے کو جی چاہتا حتیٰ کہ چالیس برس کی عمر تک عالمِ تجرید میں بزرگوں کی خدمت میں پہرہ کیا اور کاملوں کی خدمت بابرکت میں استفادہ کیا۔ چنانچہ بعد انتقال حضرت قبلہ عالم خواجہ سلیمان چشتی تونسوی قدس اللہ سرہ کے، مکان شریف رتر چھتر میں غوث حمدانی ظل سبحانی یزدانی حضرت امام ربانی سید امام علی شاہ سامری نقشبندی المجددی قدس سرہ کی خدمت بابرکت میں پہنچا اور بارہ چودہ برس تک خاک بوس آستان فیض ترجمان رہا۔ حضرت کی جناب سے اجازت نامہ عنایت ہوا اور طالبان خدا کی ہدایت واسطہ ارشاد فرمایا۔ چالیس برس کی عمر میں کدخدائی کی اور لدھیانہ رہنا اختیار کیا۔ صد ہا طالبان خدا کا رجوع ہوا۔ ہدایت کا راستہ جاری کیا۔ باوجود ناقابلیت کے اس وقت تک کہ ۱۲۹۰ھ میں بائیس برس کا عرصہ ہوا۔ لدھیانہ میں اسی ذوق و شوق میں طالبان خدا کے ساتھ بسر کرتا ہوں اور دعا مانگتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرا اور میرے متعلقوں اور دوستوں کا خاتمہ بخیر کرے اور اعلیٰ درجہ کو پہنچاوے اور صالحوں کے ساتھ مارے اور حشر کرے اور بخشے اور گناہ معاف کرے۔‘‘ (طبِ روحانی مصنفہ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ صفحہ ۲ تا۴)

جیسا کہ اس تحریر میں حضرت صوفی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت یعنی ۱۲۹۰ھ (۱۸۷۳ء) میں آپ ۲۲ سال سے لدھیانہ میں مقیم ہیں اوراس سے قبل ۴۰ سال کی عمر تک مختلف بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض صحبت حاصل کرتے رہے۔اس لحاظ سے حضرت صوفی صاحبؓ کی عمر ۱۸۷۳ء میں ۶۲سال (۴۰+۲۲) بنتی ہے۔اور سن وفات ۱۸۸۵ء ہے۔ اس لحاظ سے سن پیدائش ۱۸۱۱ء، لدھیانہ میں آپ کا ورود ۱۸۵۱ءاور عمر بوقت وفات ۷۴سال بنتی ہے۔

روحانی شجرۂ نسب

حضرت صوفی صاحبؓ اپنی کتاب طبِ روحانی میں اپنا روحانی سلسلۂ نسب بطریق نقشبندیہ مجددیہ مکان شریفیہ ایک فارسی منظوم کلام میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

’’خالقا بہر حبیب۱ خویش و شاہان حمیدبو بکر۲ سلمان۳ و قاسم۴ جعفر۵ و ہم بایزید۶

بو الحسن۷ پس بو علی۸ ویوسف۹ عبد الخالق۱۰ ہمو ز طفیل عارف۱۱ و محمود۱۲ باجود و کزہم علی۱۳ و بابا سماسی۱۴ و ہم سید امیر۱۵نقشبند پاک۱۶ و یعقوب۱۷ و عبید اللہ پیر۱۸

زاہد۱۹ و درویش۲۰ و امکنگی۲۱ و باقی با صمد۲۲خواجہ ام شیخ احمد۲۳ معصوم۲۴ ونیز عبدالاحد۲۵زو حنیف۲۶ و پس زکی مطہری۲۷ و رازدان۲۸ہم محمد۲۹ حاجی احمد۳۰ شہ حسین جانجان۳۱وز طفیل وقت و قرۃ العینِ نبیرہنمائے ہادیان خواجہ امام ابن العلی۳۲بعد ازان خاکسار و خاکِ پاہست احمد جان۳۳ بر ایشان فدااوّل احمد آخر احمد حامئے این خاندانحق کند رحمت طفیل او بجملہ داخلان‘‘ ( طبِ روحانی مصنفہ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ صفحہ ۲۳ / ماہنامہ انصار اللہ جولائی ۱۹۹۷ء)

اس کے مطابق حضرت منشی صاحبؓ کا شجرۂ نسب سلسلہ روحانی اس طرح بنے گا؛

۱۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ۲۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ ۳۔ حضرت سلمان فارسیؓ۴۔ حضرت امام قاسم بن محمد بن ابی بکر ؒ۵۔حضرت امام جعفر صادقؒ۶۔ حضرت خواجہ با یزید بسطامی ؒ۷۔ حضرت شیخ ابو الحسن خرقانیؒ۸۔ حضرت شیخ ابو علی فارمدی ؒ۹۔حضرت خواجہ یوسف ہمدانی ؒ۱۰۔ حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی ؒ۱۱۔حضرت خواجہ عارف ریوگری ؒ۱۲۔ حضرت خواجہ محمود انجیر فغنویؒ ۱۳۔حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتَنی ؒ۱۴۔ حضرت خواجہ محمد بابا سماسی ؒ۱۵۔حضرت خواجہ سید امیر کلال ؒ۱۶۔ حضرت خواجہ سید بہاؤ الدین نقشبند ؒ۱۷۔ حضرت خواجہ یعقوب چرخی ؒ۱۸۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرارؒ۱۹۔حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی ؒ۲۰۔ حضرت خواجہ درویش محمد۲۱۔ حضرت خواجہ محمد امَکنگی ؒ۲۲۔ حضرت خواجہ محمد باقی باللہؒ۲۳۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ۲۴۔ حضرت خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی ؒ۲۵۔ حضرت خواجہ عبد الاحد ؒ۲۶۔ حضرت خواجہ محمد حنیفؒ۲۷۔حضرت خواجہ محمد زکی ؒ۲۸۔ حضرت خواجہ شیخ محمد رازدان ابو المساکین ؒ۲۹۔ حضرت خواجہ محمد زمان صدیقی ؒ۳۰۔ حضرت خواجہ شیخ حاجی احمدؒ۳۱۔ حضرت سید حسین علی شاہ ؒ۳۲۔ حضرت سید امام علی شاہ ؒ۳۳۔ حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانویؓ

حضرت مسیحِ موعودؑ سے شناسائی

آپ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:’’میرے والد صاحب کو حضرت صاحب کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہوئے تھے۔انہوں نے جب ان تین حصوں کو پڑھا۔اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کی عقیدت وارادت آپ کے دل میں مستحکم ہو گئی۔ اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع ہوئی۔والد صاحب کی ارادت سے آپ کے اہل وعیال اور مریدین بھی زمرۂ معتقدین میں شامل ہوگئے۔ اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کامجدد ہونے کا دعویٰ تھا۔‘‘ (روایاتِ صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد ۷ روایات حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

حضرت مسیحِ موعودؑ کے دعویٰ کی تبلیغ اور مالی خدمت

حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں: ’’میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کے اس دعویٰ (مجدّدیت) کو قبول کرکے اپنے دوستوں اور واقف اور ناواقفوں میں بڑی سرگرمی کے ساتھ اشاعت شروع کی اور ایک طویل اشتہار بھی چھاپا۔جس کی نقل زمانہ حال میں اخبار الفضل میں شائع ہوچکی ہے۔میرے والد صاحب نے علاوہ تبلیغی اشاعت کے خود اور اپنے مریدوں سے مالی خدمت میں بھی حصہ لیا۔ان کی زندگی کا آخری زمانہ اسی خدمت میں گزراکہ جس قدر ہوسکے چندہ دیں اور اشاعت کریں۔‘‘ (روایاتِ صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد ۷ روایات حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

اشتہار واجب الاظہار

حضرت صوفی صاحبؓ نے ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ (اس اشتہار کی نقل اخبار الفضل ۲۳؍جون ۱۹۳۱ء میں شائع ہو چکی ہے۔) کے نام سے نہایت والہانہ انداز میں ایک مفصل اشتہار ہزاروں کی تعداد میں شائع کیاجس میں حضرت مسیحِ موعودؑ اور براہینِ احمدیہ کے متعلق بڑے پر شوکت اور دلآویز الفاظ میں اپنے تاثرات سپردِ قلم کیے۔ آپؓ نے اس میں براہینِ احمدیہ پر اپنا ریویو ان الفاظ میں تحریر فرمایا: ’’یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے۔ اور عیسائی۔ آریہ۔ نیچریہ۔ ہنود۔ اور برہمو سماج وغیرہ جمیع مذاہب مخالف اسلام کو ازروئے تحقیق رد کرتی ہے۔ حضرت مصنف نے دس۱۰ ہزار روپیہ کا اشتہار دیا ہے۔ کہ اگر کوئی مخالف یا مکذب اسلام تمام دلائل یا نصف یا خمس تک بھی رد کر دے۔ تو مصنف صاحب اپنی جائداد دس ہزار روپے کی اس کے نام منتقل کر دیں گے۔ چنانچہ یہ اشتہار براہین احمدیہ کے حصہ اول میں مندرج ہے۔ یہ کتاب مشرکین اور مخالفین اسلام کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑتی ہے۔ اور اہل اسلام کے اعتقادات کو ایسی قوت بخشتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہےکہ ایمان اور اسلام کیا نعمت عظمیٰ ہے۔ اور قرآن شریف کیا دولت ہے۔ اور دین محمدیؐ کیا صداقت ہے۔ اور آیات قرآن مجید جن کا اس کتاب میں اپنے اپنے موقعوں پر حوالہ دیا گیا ہے۔ ۲۰ سپارہ کے قریب ہیں۔ منکروں کو معتقد اور سست اعتقادوں کو چست اور غافلوں کو آگاہ مومنوں کو عارف کامل بناتی ہے اور اعتقادات قویہ اسلامیہ کی جڑ قائم کرتی ہے۔ اور جو وساوس مخالف پھیلاتے ہیں۔ ان کو نیست و نابود کرتی ہے۔‘‘

حضرت اقدسؑ کی تائید میں آپؓ نے تحریر فرمایا: ’’ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہؐ اور اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولانامیرزا غلام احمدؐ صاحب دام فیوضہ ہیں۔ جو ہر طرح سے دعویٔ اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لئے موجود ہیں۔ جناب موصوف عامی علماء اور فقرا میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملہم اور مخاطب الٰہی ہیں۔ صدہا سچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رؤیا صالحہ اور امر الٰہی اور اشارات و بشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان۔ عربی۔ فارسی۔ اردو وغیرہ میں جو مصنف صاحب کو بہ تشریح تمام ہوئے ہیں۔ مشرح و مفصل اس کتاب میں درج ہیں۔ اور بعض الہامات زبان انگریزی میں بھی ہوئے ہیں۔ حالانکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں پڑھا۔ چنانچہ صدہا مخالفین اسلام کی گواہی سے ثابت کرکے کتاب میں درج کئے گئے ہیں۔ جن سے بخوبی صداقت پائی جاتی ہے اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مصنف صاحب بے شک امر الٰہی سے اس کتاب کو لکھ رہے ہیں۔ اور صاف ظاہر ہوتا ہے۔ بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ فِیْمَا اَعْلَمُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ اْلاُمَّۃِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔ (رواہ ابو داؤد)جس کے معنی یہ ہیں۔ کہ ہرصدی کے شروع میں ایک مجدد منجانب اللہ پیدا ہوتا ہے۔ تو تمام مذاہب باطلہ کے ظلمات کو دور کرتا ہے اور دین محمدیؐ کو منور اور روشن کرتا ہے۔ ہزار ہا آدمی ہدایت پاتے ہیں۔ اور دین اسلام ترو تازہ ہو جاتا ہے۔ مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدّد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد امت محمدیہ میں سے ہیں۔ اور دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اسی کی تائید میں ہے۔‘‘

حضورؑ کے ذکرِ خیر میں آپؓ مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’اے ناظرین میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوںکہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد وقت اور طالبان سلوک کے واسطے کبریت احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکران اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ بالغہ ہیں۔یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ اور حجت الٰہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالم تاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہےکہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات ضلالت سے نکالےاور جھوٹوں پر حجت قائم کرے۔ تاکہ حق و باطل چھٹ جائےاور خبیث و طیب میں فرق بین ظاہر ہو جائے۔ اور کھوٹا کھرا پرکھا جائے۔‘‘

حضرت مسیحِ موعودؑ کے دعویٔ مسیحیت کے متعلق آپؓ کی پیشگوئی

جو اشتہار حضرت منشی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ کے مجدد ہونے کی تائید میں شائع کیا اس میں حضرت منشی صاحبؓ موصوف نے ایک یہ شعر بھی لکھ دیا

سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لئے

حالانکہ ابھی حضرت مسیحِ موعودؑ نے مسیحِ موعود ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔ یہ شعر قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں حضرت منشی صاحبؓ مرحوم کی طرف سے شائع ہوا۔ اس اشتہار کے شائع ہو جانے کے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعودؑ کو مرتبہ مسیحائی پر ممتاز فرمایا۔ اس پیشگوئی کے پورا ہو جانے سے حضرت منشی صاحبؓ ممدوح کی کھلی کھلی کرامت ثابت ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت صوفی صاحبؓ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے انہیں دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہؤا تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اُنہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لئے

یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحبِ کشف تھے اور خداتعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے۔‘‘ ( خطباتِ محمود جلد ۱۷ صفحہ ۱۰۲ تا ۱۰۳)

اسی حقیقت سے آشنا ہونے کے باعث حضرت منشی صاحب موصوف نے اپنی اولاد کو بوقت وفات ایک نصیحت بھی کی۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’منشی احمد جان صاحب لدھیانہ والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دعویٰ سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ مگر ان کی روحانی بینائی اتنی تیز تھی کہ انہوں نے دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو لکھا کہ

ہم مریضوں کی ہے تم ہی پہ نظر

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

انہوں نے اپنی اولاد کو مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میں تو اب مر رہا ہوں مگر اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ مرزا صاحب نے ضرور ایک دعویٰ کرنا ہے اور میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ مرزا صاحب کو قبول کر لینا۔ غرض اس پایہ کے وہ روحانی آدمی تھے۔‘‘ ( خطباتِ محمود جلد ۲۵ صفحہ ۲۳)

حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت صوفی صاحبؓکا ذکرِ خیر کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’صوفی احمد جان صاحب تو ایک ولی اللہ تھے۔ ان کی ایک دور بین نظر تھی جنہوں نے دیکھ لیا کہ حضرت مسیحِ موعودؑ ہی مسیحِ موعود ہیں۔ چاہے دعویٰ ہے یا نہیں۔‘‘ ( خطبات مسرور جلد ۱۳ صفحہ ۴۵۳)

حضرت صوفی صاحبؓ صدیقیت کے مقام پر فائز تھے

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی یہ صفت بیان فرماتا ہےکہ وہ أَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر اثر کو قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو وہ شیطان کا اثر ہی قبول کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول کرتے ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی رد کر دیتے ہیں۔ بلکہ مؤمن کے اندر دونوں باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ان میں سے ایک کو اپنے اندر پیدا کر کے انسان نیک نہیں بن سکتا۔ اور نہ ہی ایک سے تقویٰ قائم رہ سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ کامل انسان میں یہ دونوں باتیں پائی جائیں۔ اس میں یہ بھی طاقت ہو کہ خواہ کتنی ہی تکلیف دہ بات ہو پھر بھی غلط اثر کو قبول نہ کرے اور یہ بھی چاہیے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں پھر بھی اچھی چیز کے اثر کو رد نہ کریں۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا کہ أَشِدَّآءُ عَلَى االْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب و دین کے خلاف ہو تو چاہیے کہ مؤمن ایک ایسی چٹان کی مانند ہو جس پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کر سکتی لیکن جہاں تقویٰ کا معاملہ ہو، وہاں ایسا معلوم ہو کہ وہ قبل از وقت ہی جھک رہا تھا۔نیکی کا سوال تو بعد میں پیدا ہوا۔اس کے قبول کرنے کا میلان اس کے اندر پہلے ہی موجود تھا اس درجہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس دیئے سے تشبیہ دی ہے جو قریب ہے کہ آگ کے بغیر ہی جل پڑے۔ یہی مقام ہے کہ جب انسان اسے ہر قسم کی ملونی سے پاک کر دیتا ہے تو اسی کو صدّیقیت کہتے ہیں۔ صدّیق اور مصدّق میں یہی فرق ہوتا ہے۔ مصدّق تو بعد میں آکر کہتا ہے کہ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں مگر صدیق میں اس کے قبول کرنے کا میلان پہلے ہی موجود ہوتا ہے۔ یوں تو سب صحابہ مصدّق تھے۔ لیکن صدّیقیت میں ابوبکرؓ سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ ہمارے زمانہ میں بھی صوفی احمد جان صاحب جو پیر منظور احمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد اور حضرت خلیفہ اوّل کے خسر تھے، صدّیقیت کا مقام حاصل کئے ہوئے تھے۔ ابھی حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ بھی نہ کیا تھا کہ انہوں نے آپ کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر تھا۔

ہم مریضوں کی ہے تم ہی پہ نظر

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

ابھی حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نہیں سمجھے تھے کہ میں مسیحِ موعود ہوں مگر انہوں نے کہا کہ آپ ایسا دعویٰ کریں ہم آپ کو ماننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہی صدّیقیت کا مقام ہے۔ ‘‘ ( خطباتِ محمود جلد ۱۴ صفحہ ۲۷۹ تا ۲۸۰)

براہینِ احمدیہ کی اشاعت کے بعد بیعت لینا چھوڑ دی

حضرت میاں محمد ظہورالدین صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت منشی احمد جان صاحب وہ بزرگ ہستی ہیں کہ جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ابتدائی حالات کو ہی دیکھ کر لوگوں کی بیعت لینا چھوڑ دی تھی اور جو کوئی آتا اس کو آپ فرمایا کرتے تھے کہ اب جس کو یاد الٰہی کا شوق ہو وہ قادیان مرزا غلام احمد صاحب کے پاس جائے۔ ہم تو اَن ہوند کے تھے (جب کوئی نہیں تھا تو ہم تھے)۔ ہم مخلوق خدا کو ایک ایک قطرہ دیا کرتے تھے مگر یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ایسا عالی ہمت پیدا ہوا ہے کہ اس نے تو چشمہ پر سے پتھر ہی اٹھا دیا۔ اب جس کا جی چاہے سیر ہو کر پئےاور ساتھ ہی یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک میں فرمایا کرتے تھے۔

ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر

تم مسیحا بنو خدا کے لئے‘‘

( خطباتِ مسرور جلد ۱۰ صفحہ ۷۵۹۔۷۶۰ / روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد ۱۱ روایات میاں محمد ظہورالدین صاحبؓ)آپ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’میرے والد صاحب کو حضرت صاحب سے بہت ارادت و اعتقاد تھا۔ اس زمانے میں حضرت صاحب کا مجددی دعویٰ تھا جس کو قبول کیا اور یہی تبلیغ کرتے تھے کہ امام زمان دنیا میں ظاہر ہو گیا ہے ان پر ایمان اور یقین لاؤ اور اگر کوئی مرید ہونے کے لئے آتا تو کہتے کہ سورج نکل آیا ہےاب تاروں کی ضرورت نہیںجاؤ حضرت صاحب کی بیعت کرو حالانکہ حضرت صاحب کو ابھی بیعت لینے کا منجانب اللہ حکم نہیں ہوا تھا۔ بیعت تو کر لیتے مگر فرماتے یہی تھے کہ ان کی بیعت کرو‘‘ ( انعاماتِ خداوند کریم مصنفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ صفحہ ۷)

حضرت مسیح موعودؑ کی ابتدائی زیارت

براہینِ احمدیہ کی اشاعت کے بعد لدھیانہ میں حضورؑ کے عقیدت مندوں کی ایک خاصی تعداد قائم ہو گئی۔انہوں نے بار بار اس دلی تمنا کا اظہار کیا کہ حضورؑ لدھیانہ تشریف لائیں۔چنانچہ ان کی خواہش پر حضورؑ ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ تشریف لے گئے۔یہی وہ موقع تھا جب حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کو حضورؑ کی پہلی زیارت نصیب ہوئی۔لدھیانہ میں حضرت صوفی صاحبؓ کے مریدوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ انہیں آپ نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کی خصوصی اطلاع دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ کثیر تعداد میں سٹیشن پر حاضر ہوں اور خود بھی حضرت صوفی صاحبؓ اپنے دونوں فرزندان حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ اور حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ سمیت لدھیانہ سٹیشن پرحضورؑ کے استقبال کے لیے پہنچ گئے۔ حضرت صوفی صاحبؓ نے اپنی فراست کی بنا پر اپنے مریدوں کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ احادیث میں اس زمانہ کے مامور کا حلیہ موجود ہے اس لیے اگرچہ میں نے حضرت کی پہلے کبھی زیارت نہیں کی میں آپ کو از خود پہچان لوں گا۔چنانچہ آپ کے فرزند حضرت پیر افتخار احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’حضورؑ جب گاڑی سے اترے بغیر بتائے والد صاحب نے فرمایا کہ وہ یہ ہیں۔‘‘ حضرت صوفی صاحبؓ دن کا اکثر حصہ حضور کے پاس گزارتے تھے۔ حضرت صوفی صاحبؓ خود ایک روحانی جماعت کے پیشوا تھےلیکن وہ حضرت اقدس کی مجلس میں نہایت اخلاص و ارادت کے ساتھ دوزانو ہو کر با ادب بیٹھتے اور عقیدت مند مریدوں کی طرح آپ کے کلمات طیبات سنتے اور فیض اٹھاتے۔ ( ملخص از تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۲۳۱ تا ۲۳۶ /روایاتِ صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد ۷ روایات حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ)

علمِ توجہ کا ملکہ اور اس سے توبہ

حضرت صوفی صاحبؓ علم توجہ میں کمال مہارت رکھتے تھے۔آپ نے بارہ سال کی محنت شاقہ سے اس علم کو حاصل کیا۔ اس سلسلہ میں منشی صاحب نے ایک معرکہ آرا کتاب ’’طبِ روحانی‘‘ بھی تصنیف فرمائی جس کے پڑھنے سے بذریعہ خیالی قوّت اور توجہ کے انسان سلب امراض کر سکتا ہے اور بغیر دوا دارو کے محض قلبی تاثیر سے بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔اس تصنیف کی وجہ سے لدھیانہ والوں نے انہیں مسیحِ دوراں کے خطابات دے رکھے تھے۔ ( تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۲۳۶)

حضرت مسیحِ موعودؑ آپؓ کی کتاب ’طبِ روحانی‘ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ کتاب حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم کی تالیفات میں سے ہے۔ حاجی صاحب موصوف نے اس کتاب میں اس علم مخفی سلب امراض اور توجہ کو مبسوط طور پر بیان کیا ہے جس کو حال کے مشائخ اور پیرزادے اور سجادہ نشین پوشیدہ طور پر اپنے خاص خاص خلیفوں کو سکھلایا کرتے تھے اور ایک عظیم الشان کرامت خیال کی جاتی تھی اور جس کی طلب میں اب بھی بعض مولوی صاحبان دور دور کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے محض للہ عام و خاص کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو منگوا کر ضرور ہی مطالعہ کریں کہ یہ بھی منجملہ ان علوم کے ہے جو انبیاء پر فائض ہوئے تھے بلکہ حضرت مسیح کے معجزات تو اسی علم کے سرچشمہ میں سے تھے۔کتاب کی قیمت ایک روپیہ ہے صاحبزادہ افتخار احمد صاحب جو لدھیانہ محلہ جدید میں رہتے ہیں۔ ان کی خدمت میں خط و کتابت کرنے سے قیمتاً مل سکتی ہے۔‘‘ ( نشانِ آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۱۱)

لیکن اچانک آپ ؓ نے اس علم سے توبہ کر لی اور اپنی زندگی بھر کی کمائی کو خیرباد کہہ دیا۔حضرت مصلحِ موعودؓ نےاس واقعہ کا کچھ یوں تذکرہ فرمایا: ’’علمِ توجہ کیا ہے؟ وہ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین وآسمان کو بدل دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف براہین احمدیہ لکھی تھی کہ اس کی صوفیاء و علماء میں بہت شُہرت ہوئی۔ پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اُس زمانہ کے نہایت ہی خدارسیدہ بزرگوں میں سے تھے۔ جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کردی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں۔ اتفاقاً اُنہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا۔ صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی۔ دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لارہے تھے کہ صوفی احمدجان صاحب بھی ساتھ چل پڑے۔ وہ رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور ماضی قریب میں رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقہ میں مشہور تھے۔ علاوہ زُہد و اِتقاء کے انہیں علمِ توجہ میں اِس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے۔ نماز کے بعد جب وہ سلام پھیرتے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی ماردیتے جس سے بہت سے مرید اچھے ہوجاتے۔ صوفی احمد جان صاحب نے ان کی بارہ سال شاگردی کی اور وہ ان سے چکی پسواتے رہے۔ راستہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رترچھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اِس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آرہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں تو وہ ابھی گِرجائے اور تڑپنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے اور اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پرنشان بناتے ہوئے فرمایا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی جب آپ پر خاص جوش کی حالت ہوتی تو آہستگی سے اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے جس طرح کوئی چیز کُرید کر نکالنی ہو) صوفی صاحب! اگر وہ گِرجائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اُس کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے اورخداتعالیٰ نے اُن کو دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی اُن پر محویت کا عالَم طاری ہوگیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے توبہ کرتا ہوں مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ دُنیوی بات ہے دینی بات نہیں۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ چنانچہ کوئی ہندو اور عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید اسے اسلام کا جزو سمجھ کر نہ کرے ہاں دُنیوی علم سمجھ کر کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍فروری ۱۹۳۶ء مطبوعہ خطباتِ محمود جلد ۱۷ صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۳)

نہ صرف یہ بلکہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب طب روحانی کو مرتے دم تک اٹھا کر نہ دیکھا۔ حضرت صوفی صاحبؓ نے طبِ روحانی میں اعلان کیا تھا کہ اس سلسلے میں ’نجاتِ جاودانی‘ اور ’کمالات انسانی‘ کے نام پر دو مزید حصے بھی شائع ہوں گے اور عملاً ان کا مسودہ بھی تیار تھا لیکن اس کے بعد آپ نے وہ مسودہ لے کر چاک کرڈالا۔ بعض لوگوں نے جو طب روحانی سے بےحد متاثر تھے بڑے اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ وہ چیرا پھاڑا ہوا مسودہ بھیج دیں تا اسی کو مرتب کر کے معلوم ہو سکے کہ کیا لکھا ہے لیکن آپ نے جواب دیا کہ ’’آں قدح شکست و آں ساقی نماند‘‘ پنجاب میں ایک آفتاب نکلا ہے جس کے سامنے ستارے رہبری نہیں کر سکتے اس آفتاب کا نام مرزا غلام احمد ہے انہوں نے ایک کتاب ’براہین احمدیہ‘ لکھی ہے اسے منگوا کر پڑھو۔ (تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۲۳۶)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں: ’’منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور مشہور صوفی لودھیانوی کے ذکر خیر میں حضرت حکیم الامت (حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل) نے عرض کیا کہ انہوں نے طب روحانی کے سلسلہ میں اور بھی دو تین جلدیں لکھنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن حضور کے دعویٰ کو سن کر اُنہوں نے اس طریق کو چھوڑ دیا اور اسے محض کھیل تماشہ قرار دیا۔ جس سے مجھے ان کے ساتھ بڑی محبت ہو گئی۔‘‘ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۲۵ / الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۱)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button