سیرت صحابہ کرام ؓ

سیرت حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ (قسط دوم۔آخری)

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

ایک دلگداز واقعہ

حضرت بھائی جی نےمسیح پاک علیہ السلام کے لطف و احسان کا دلربا نقشہ اس ایک فقرہ میں بیان کیا ہے کہ’’عطا و سخا میں حضور ایک ابرِ بہار تھے‘‘یہ ابر بہار اپنے پیاروں پر کیسے برستا تھا اور پھر برستا چلا جاتا تھا اس کا تذکرہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔آپؓ نے فرمایا:’’سردی کا موسم تھا اور بستر میرا ہلکا۔اول اول تو گزر ہو جاتی رہی مگر جب سردی بڑھ گئی۔دوسری طرف دالان میں گچ کا پلستر ہوا تو کمرہ زیادہ ٹھنڈا ہو گیا۔ایک رات کا ذ کر ہے کہ سردی کی شدت کے باعث مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔کروٹ لے لے کر یا بیٹھے رات گزاری۔پچھلا پہر تھا۔ کوئی دو بجے کا وقت ہوگا۔جب تھک کر میں لیٹ گیا۔ابھی چند ہی منٹ ہوئے کہ کھڑکی کھلی اور سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام دالان میں داخل ہوئے۔مگر میں خلاف معمول کھڑا ہو کر سلام عرض کرنے کی بجائے سکڑا چارپائی پر پڑارہا۔پہلے عمومًامیں کھڑکی کھلنے کی آہٹ پاتے ہی ہوشیار ہو کر اٹھ کھڑا ہوا کرتا تھا۔آج غیر معمولی کوتاہی کی وجہ سے حضور کو توجہ ہوئی اور آپ نے میری چارپائی کے قریب ہو کر مجھے غور سے دیکھا اور آہستگی سے اپنی پوستین جو میری چارپائی کے اوپر کھونٹی پر لٹک رہی تھی اتار کر میرے اوپر ڈال دی۔میں مگن پڑا رہا۔ہلا جلا نہ بولا۔حضور تشریف لے گئے۔میں گرم ہوتے ہی گہری نیند سو گیا اور پھر صبح کی اذان ہی سے جاگا۔وضو کیا اور نماز کے لئے مسجد کو جانے کے لئے تیار تھاکہ حضرت اقدس صبح کی نماز کے واسطے اسی کھڑکی سے تشریف لے آئے۔میں نے سلام عرض کیا۔حضور علیہ السلام مسکراتے ہوئےمیری طرف بڑھے اور فرمایا:’’میاں عبدالرحمٰن آپ نے تکلف کر کے تکلیف اٹھائی۔بستر کم تھا تو کیوں ہمیں اطلاع نہ دی؟ شرط موت کی لگانا اور رنگ اجنبیت کا رکھنا ٹھیک نہیں۔دو چار روز کی بات ہوتو اجنبیت انسان نباہ سکتا ہے۔مگر عمر کی بازی لگا کر تکلف میں پڑے رہنا باعث تکلیف ہوتا ہے۔جب آپ نے گھر بار چھوڑا۔ماں باپ چھوڑے۔وطن اور قبیلہ چھوڑ کر ہمارے پاس آ گئے تو آپ کی ضروریات ہمارے ذمہ ہیں۔مگر جب تک ہمیں اطلاع نہ ہو ہم معذور ہیں۔کیا کر سکتے ہیں؟

میں نے ندامت سے گردن ڈال دی،سر جھکا لیا اور مجسم صورت ِسوال بن کر رہ گیا۔صبح کی نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی حضرت نے حافظ حاجی حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو یاد فرمایا۔وہ حاضر ہوئے،حکم دیا کہ میاں عبدالرحمٰن کے پاس بستر نہیں۔ان کو آج ہی بستر تیار کرا دیں۔ان کو ساتھ لے جائیں جیسا پسند کریں ویسا ہی بنوا دیں۔معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پہننے کے کپڑےبھی کم ہیں،ایک دو جوڑے بھی حسب ضرورت بنوا دیں۔حکم کا ملنا تھا کہ حضرت حکیم صاحب نے مجھے بازو سے پکڑ لیا،اور ساتھ ساتھ لئے پھرے۔موسم سرما کی وجہ سے دکان کے کھلنے میں دیر تھی،خاص آدمی بھیج کر لالہ سکھ رام کو بلوایا۔دکان کھلوائی اور لگے مجھے کپڑے پسند کرانے۔عمر بھر میں میرے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ میرے لباس اور بستر کا بننا میری پسند و مرضی پر رکھا گیا۔اس سے قبل ماں باپ اپنی مرضی و پسند کا بنواتےاور پہناتے تھے اس لئے مجھے اپنی پسند و مرضی کا کوئی علم ہی نہ تھا۔حضرت حکیم صاحب کو حکم تھا۔اور اسی کی وہ تعمیل کرنا چاہتے تھے۔کئی کپڑے میرے سامنے لائے گئے اور ہر بار مجھ سے پوچھا گیا۔مگر میں نے ایک ہی چپ سادھ رکھی تھی۔بار بار کے تقاضوں سے کچھ یاد آ کر میرا دل بھرآیا اور میں زارو قطار رونے لگا۔یہ حال دیکھ کر حضرت حکیم صاحب موصوف نے مجبور ہو کر خود ہی بہترین کپڑے،بہترین بستر کا انتظام کر کے فوری تیاری کی تاکید کر دی۔اور میری دلجوئی کرتے ہوئے واپس ساتھ لے آئے۔شام سے پہلے نہایت اچھا بستر تیار ہو کر آ گیا۔جو رات کو حضرت نے بھی دیکھا اور بہت خوش ہوئے۔کپڑے بھی دوسرے تیسرے دن مل گئے۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن1992ء،جلد9،صفحہ238-239)

اعجاز مسیحائی کا فیضان

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک جلی عنوان آپ کی مسیح پاک علیہ السلام سے محبت،عشق اور عقیدت ہے۔یہ قلبی تعلق ایک عجیب شان کے ساتھ آپ کی ساری زندگی پر محیط نظر آتا ہے۔حضرت بھائی جی کا احسان ہے ساری جماعت پر کہ آپ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی جو ارفع شان دیکھی اور محسوس کی اور جس طرح آپ کی قوت قدسیہ سے فیضیاب ہوئے ان سب تجربات اور مشاہدات کا بہت ہی دلکش اور ایمان افروز تذکرہ ہمیشہ کے لیےمحفوظ کر دیا۔آپ کےیہ بیانات معرفت کا ایک خزانہ ہیں تکلف اور تصنع سے پاک،یہ کلمات ایسے مؤثر اور دلوں میں اترنے والے ہیں کہ صداقت اور حق گوئی بے اختیار جھلکتی اور دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے۔آپ نے فرمایا:’’یہ سچ ہے کہ بچپن میں میرے دل میں تخم اسلام کاشت کر دیا گیا تھا۔لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہےکہ اس کی آبیاری،روحانی باغبانی آخری زمانہ کے نبی کے ہاتھوں نہ ہوتی تو یہ بیل منڈھے نہ چڑھتی۔اگر یہ نوحِ زماں نا خدا بن کر مجھے نہ بچا لیتا تو میری کشتیٔ ایمان جو بحر نا پیدا کنار کی طوفانی موجوں کے بھنور میں پڑی ٹھوکریں کھاتی تھی ہرگز کنارے نہ لگتی۔میرے ایمان میں حلاوت پیدا ہوئی تو اسی مرد خدا نما کے انفاسِ طیبہ کے طفیل سے۔اور مجھے روحانی زندگی ملی تو محض اور محض اسی وجود با جود کے روحانی نفخ اور دم مسیحائی کی بدولت۔ورنہ حق یہ ہےکہ میں بھی ایک رسمی مسلمان ہو کر آخر کفر میں جذب ہو گیا ہوتا۔کیونکہ اس وقت زندہ ایمان اور کہیں تھا ہی نہیں۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 81)پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’اس انسانِ کامل کے اوصافِ حمیدہ اور کمالاتِ روحانیہ کا بیان ہزاروں صفحات اور عمر نوح چاہتا ہے۔میں کون اور میری بساط کیا کہ ان کا بیان کروں۔وہ سرا سر رحم اور مجسمۂ رحمت،وہ پیکر حلم،خدا کی رحمت و حلم کا نمونہ،اپنے خالق و مالک کی محبت میں کھویا ہوا اور اس کے رنگ میں ایسا رنگا گیا کہ خود مظہر صفات الٰہیہ ہو گیا تھا۔ہر قسم کی حسن و خوبی اس پر ختم تھی۔مہربانی میں ہر مادر مہربان سے اور شفقت میں ہر شفیق باپ سے وہ کہیں بڑھا ہوا تھا۔اتنا کہ مہربان سے مہربان مائیں اور شفیق سے شفیق باپ اس کی مہربانی اور شفقت نے لاکھوں انسانوں کی یاد سے اتار دیئے۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء جلد9،صفحہ 82)

قادیان کا دلگداز ذکر

محبت اور عشق کے اندازبھی کیانرالے ہوتے ہیں۔ حضرت بھائی جی جب اپنے حالات ِزندگی لکھتے ہوئے اس مرحلہ پر آئے جب آپ کو بادل نخواستہ اپنے والد صاحب کے ساتھ قادیان سے رخصت ہو کر ان کے ساتھ جانا پڑا اور آپ کا یکہ خاکروبوں کے پنڈورہ تک آن پہنچا تو قادیان اور شاہِ قادیان کی محبت نے آ پ کے قلم کو تھام لیا۔آپ کا بیان اس جگہ پر رک گیا اور رکا رہا حتٰی کہ دو سال گزر گئے۔دو سال کے وقفہ کے بعد جب آپ نے سلسلہ ٔ تحریر کو دوبارہ شروع کیا تو لکھا کہ’’ میرے آقا،میرےہادی و رہنما کی قوت قدسی و جذب اور حضور پر نور کے اخلاقِ کریمانہ اور فیض روحانی نے میرے دل کی لوح پر وہ کچھ لکھ د یا جو پھر نہ مٹا۔اور خدا کرے کہ کبھی نہ مٹے۔اور ایسا ہوا کہ میں دنیا کی بادشاہی پر اس کے در کی گدائی کو عزت یقین کرنے لگا۔اور یہی وجہ ہے کہ اس سے جدائی میرے واسطے ایک بھیانک موت نظر آ رہی تھی۔اس وجہ سے دو سال ہوئے یکے کو خاکروبوں کے پنڈورہ پر کھڑے کئے ہوئے ہوں اور دل اس حق نما وجود اور اس کی مقدس بستی سے نکلنا پسند نہیں کرتا۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء، جلد9،صفحہ 82)کتنا حسن ہے اس بیان میں اور کتنی صداقت ہے اس اندازِکلام میں۔حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی سیرت کے بیان کا یہ والہانہ انداز خود حضرت بھائی جی کی سیرت کا ایک دلکش پہلو ہے۔ ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا: ’’میں بچہ تھا جب خدا مجھے قادیان میں لایا۔اب ساٹھ سالہ بڈھا ہوں۔1895ء سے ان ایام تک مجھے بانی ٔسلسلہ عالیہ احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام،حضور کے خاندان کی غلامی کا شرف حاصل ہے…اسی پر میں پلا پوسا۔جوان ہوا اور اب بڈھا ہوں۔ بوجہ بچپن کے عمومًا اندرون خانہ بھی خدمات کا موقع ملا۔مجلسی حالات کا بھی مشاہدہ و مطالعہ کرنے کی عزت ملی اور سفروں میں بھی شرف رفاقت و ہم رکابی نصیب ہوا۔

میں چشم دید گواہ ہوں ۔میں چشم بصیرت سے کہتا ہوں کہ اس کے وجود کے طفیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر ایمان لایا۔اور میں نے اس کے طفیل اپنے والدین،اپنے عزیز و اقارب،اپنے رشتہ دار،اپنا مذہب اپنا وطن چھوڑ دیا۔میں نے اس سے بڑھ کر اس زمانے میں کسی کو راستباز نہ پایا۔اس سے بڑھ کر کوئی خاکسار نہ دیکھا اور اس سے بڑھ کر کوئی حلیم نہ پایا اور نہ اس سے بڑھ کر دنیا سے کسی کو بیزار دیکھا۔

ایسا مقدس اور پاک باز انسان حضور پر نور کے بعد میں نے نہیں دیکھا۔حضور کے اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ کی تشریح و تفصیل کسی ضخیم کتاب کو چاہتی ہے۔باپ سے زیادہ شفیق اور ماں سے زیادہ مہربان،ایک دو چند گنا نہیں بلکہ لاکھوں گنا زیادہ۔رحم کے لحاظ سے سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے خلق کا نمونہ اور حلم کے لحاظ سے ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام کی مثال …وہ کامل انسان خدا نہ تھا مگر خدا نما ضرور تھا۔اس کی مجلس خدا نما اور صحبت روح پرور تھی۔کتنا ہی رنج و غم میں ڈوبا ہوا انسان جب اس کی مجلس میں پہنچتا یا اس کے چہرہ مبارک کو دیکھ پاتا ۔سارے غم غلط ہو جاتے،دنیا و مافیہا کو بھول کر آستانہ الوہیت کی طرف کھینچنے لگتا تھا…ہفتے مہینے اور سال بھی تمام ہو جائیں۔مگر اس ہمارے یوسف کے حسن و جمال کی باتیں ختم ہونے میں نہ آویں گی۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء جلد9صفحہ 342)

مسیح پاک علیہ السلام سے بے پناہ محبت اور عشق

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ کی سیرت کے بیان میں ان کا یہ وصف خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ نے مسیح دوراں علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اخلاق حسنہ کو بہت قریب سے اور انتہائی محبت کی بہت باریک نظر سے مشاہدہ کیا اور رہتی دنیا تک کے عشاق کی خاطر اس کو پوری پوری احتیاط اور ذمہ داری سے محفوظ کر دیا۔آپ کی بیان کردہ روایات اور آپ کے مشاہدات اور تجربات کا بیان سینکڑوں صفحات پر محیط ہے جو اصحاب احمد کی جلد نہم میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس کتاب کے مطالعہ کے دوران جس بات نے بار ہا متاثر کیا اور ہر بار دل سے دعا نکلی،وہ آپ کا دلکش اندازِ بیان ہے۔معین اور ٹھیک ٹھیک قیمتی معلومات کو محفوظ کرتے ہوئےآپ کے طرز کلام میں ایسی روانی اور جامعیت پائی جاتی ہے کہ واقعات کے سب پہلو خوب روشن ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔

ان روایات کو پڑھتے ہوئے بسا اوقات یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہم خود اس مجلس میں جا پہنچے ہیں اور یہ سب واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔منظر کشی کا یہ کمال اور اپنے مشاہدات کو پوری تفصیل اور احتیاط سے ضبط تحریر میں لانا حضرت بھائی جی کی سیرت کا ایک نمایاں عنوان ہے۔

قادیان میں آپ نے کیا پایا؟

آپ 1895ءمیں قادیان تشریف لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔آپ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب میں پہلی بار قادیان آیا تو میں اس خیال پر تھاکہ قادیان جا کر اظہار اسلام کروں گا اور اس فقیر مرد بزرگ کے سامنے نذرنیاز پیش کر کے واپس چلا آؤں گا۔مگر جب اللہ کریم نے اس نورانی چہرہ اور صاحبِ نورِ نبوت و رسالت کے قدموں میں لا ڈالا۔صبح کی سیر،شام کا دربار۔اور ظہر و عصر کی مجلس و صحبت میسر آئی، تو وہ پہلا خیال دل سے دھل گیا۔اور میں دنیا جہان سے بے نیاز ہو کر اس در کا ہو گیا۔دھونی مار کر بیٹھا اور خدا نے ایسا فضل فرمایا کہ اس در کی گدائی دنیا جہان کی دولت و ثروت سے ہزار گنا بہتر نظر آئی۔اور خدا کا فضل ہوا کہ آخر میں اسی در کا ہو گیا۔یہیں پرورش پائی۔ اور اسی دروازہ سے اسلام سیکھا اور دولت ایمان پائی۔الحمدللہ۔‘‘(اصحاب احمدایڈیشن 1992ء جلد9صفحہ 64)نور اسلام سے منور ہونے کے بعد حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے قدموں سے دوری آپ کو ہر گز گوارہ نہ تھی۔1903ءسے 1907ء کا درمیانی چار سال کا عرصہ آپ کو راجپوتانہ میں گزارنا پڑا۔اپنے آقا کے ارشاد کی تعمیل میں چلےتو گئے لیکن ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔چاہتے تھے کہ اڑ کر اپنے آقا کے قدموں میں جا پہنچیں۔اس بے چین تمنا کا اظہار کیا تو حضور علیہ السلام کا ارشاد پہنچا:’’ میاں عبدالرحمٰن،ہماری خوشی چاہتے ہو تو وہیں بیٹھے رہو۔‘‘اور اپنے آقا کی خوشی کا بھوکا، عبدالرحمٰن،اسی جگہ بیٹھا رہا۔اللہ تعالیٰ نے اس جذبۂ اطاعت کو اس طرح نوازا کہ دسمبر 1907ء میں آپ کی قادیان واپسی ہوئی اور مسیح پاک علیہ السلام کے وصال تک کا سارا عرصہ پھر آپ کے قدموں میں گزارنے کا موقع ملا۔آخری سفر لاہور میں ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا اور زندگی کی آخری گھڑیوں میں اپنے محبوب آقا کی خدمت اور قربت کی سعادت حاصل کی۔کتنی خوش بختی ہے اس مخلص غلام کی کہ وصال سے چند لمحے پہلے بھی حضور نے آپ کو یاد فرمایا۔وصال کے بعد جن مخلصین نے مسیح پاک علیہ السلام کو غسل دینے کی سعادت پائی ان میں آپ بھی شامل تھے۔اور دیکھو کہ اس فدائی اور پروانہ ٔشمع رسالت کا انجام کیسا شاندار ہوا۔وہ جسے زندگی میں اپنے آقا سے ایک لمحہ کی جدائی اور دوری گوارا نہ تھی وہ 1961ءمیں فوت ہوا تو قادیان سے سینکڑوں میل دور،پاکستان میں تھا لیکن خاص تصرف الٰہی سے آخری آرام گاہ ملی تو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں۔اور جگہ بھی وہ ملی جو قطعہ ٔخاص صحابہ میں مسیح پاک علیہ السلام کے مزار مقدس سے سب سے زیادہ قریب ہے۔اللہ تعالیٰ کا عجیب لطف و کرم ہے کہ جس غلام نے در مسیحا کی دربانی کا شرف پایا وہ آج بھی بہشتی مقبرہ قادیان میں مزار مقدس کی چار دیواری کے عین سامنے اس کی دربانی کرتا نظر آتا ہے۔آقا بھی محو ِخواب ہے اور غلام بھی،لیکن دربانی کا سلسلہ ہمیشہ کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے!

غیر معمولی حالات میں قادیان میں آپ کی تدفین سے مسیح پاک علیہ السلام کے منہ سے نکلی ہوئی یہ بات بھی بڑی شان سے پوری ہوئی کہ’’ہمارا ہے تو آ جائے گا۔‘‘

آپ کی تاریخی خدمات

تاریخی واقعات کےچشم دید کوائف کو محفوظ کرنے کے سلسلہ میں حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ نے بہت امتیازی شان کے ساتھ گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔آپ کے یہ تفصیلی مضامین اور روایات تاریخ احمدیت کا حصہ ہیں اور شاہد رویت کے طور پر آپ کے بیانات و معلومات کا انمول خزانہ ہیں۔سب امور کا تذکرہ اس جگہ ممکن نہیں لیکن اس ذکر کے بغیر یہ مضمون تشنہ رہے گا کہ قادیان کی تاریخ، ہنری مارٹن کلارک والے اقدامِ قتل کے مقدمہ،جلسۂ اعظم مذاہب لاہور،خطبہ الہامیہ کے آسمانی نشان اورمسیح پاک علیہ السلام کے وصال اورجنازہ کے بارےمیں جس تفصیل اور باریک نظر سے آپ نے واقعات بیان فرمائے ہیں وہ بے مثال ہیں۔اسی طرح خلافت ثانیہ میں مختلف مناظرات،عدالتی مقدمات،جماعتی تقریبات اور تاریخی واقعات کی جو تفصیل آپ نے محفوظ فرمائی ہے وہ آپ کی لیاقت،خدمت دین کی لگن اور قابل رشک قوت حافظہ پر شاہد ناطق ہے۔1924ءکے سفر یورپ کی طویل،جامع اور مستند روداد آپ کی ایک ایسی خدمت ہے جو ہمیشہ یاد گار رہے گی۔

سیرت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بارےمیں حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ نے جو قیمتی روایات بیان فرمائی ہیں ان میں سے بطور نمونہ صرف ایک روایت کا اس جگہ ذکر کرتا ہوں۔آپ نے بیان فرمایا کہ’’جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے آخری سفر میں لاہور تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ قربِ و فات کے الہامات ہو رہے تھے ۔تو ان دنوں میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر ایک خاص قسم کی ربودگی اور نورانی کیفیت طاری رہتی تھی۔ان ایام میں حضور علیہ السلام ہر روز شام کے وقت ایک قسم کی بند گاڑی میں جو فٹن کہلاتی تھی،ہواخوری کے لیے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضور علیہ السلام کے حرم اور بعض بچے بھی ساتھ ہوتے تھے۔جس دن صبح کے وقت حضور علیہ السلام کی وفات مقدر تھی اس سے پہلی شام جب حضور علیہ السلام فٹن میں بیٹھ کر سیر کے لیےتشریف لے جانے لگے تو بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ اس وقت حضور علیہ السلام نے مجھے خصوصیت کے ساتھ فرمایا :’’میاں عبدالرحمٰن اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے،وہ ہمیں صرف اتنی دور تک لے جائے کہ ہم اسی روپیہ کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں۔‘‘ چنانچہ حضور علیہ السلام تھوڑی سی ہوا خوری کے بعد گھر واپس تشریف لے آئے اور اگلے دن صبح اپنے مولیٰ اور محبوبِ ازلی کے حضور حاضر ہو گئے۔

اطاعت کے بے مثال نمونے

مرشدوں اور مذہبی راہنماؤں کی اطاعت تو ان کے پیروکار ہمیشہ کرتے ہیں لیکن جس انداز اور والہیت سے حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ نے مسیح پاک علیہ السلام کی اطاعت کا نمونہ دکھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔دن ہو یا رات ہو،ہر وقت خدمت پر کمر بستہ رہتےاور اشارہ ملتے ہی یہ جا اور وہ جا کی کیفیت ہوا کرتی تھی۔ اپنے ذاتی حالات کو اس راہ میں کبھی حائل نہ ہونے دیتے۔خدمت کی بجا آوری کے لیے ہمہ وقت پابہ رکاب رہتے۔

1897ءکی بات ہے حضرت مسیح پاک علیہ السلام ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے سلسلہ میں بٹالہ میں مقیم تھے۔رات عشاءکی نماز کے بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا:’’میاں عبدالرحمٰن!آج ہم تو یہیں ٹھہریں گے کیونکہ کل پھر مقدمہ کی سماعت ہوگی۔بہتر ہے آپ قادیان جا کر خیر خیریت پہنچا دیں تا کہ وہ لوگ گھبرائیں نہیں۔‘‘

فدا کار عاشق کی شان دیکھئے۔آپ فرماتے ہیں کہ ’’حکم ملتے ہی میں نے سلام عرض کیا ۔دست بوسی کا شرف ملا او ر میں سفر کو کاٹتا،زمین کو لپیٹتا ہوا،گویا اڑ کر ہی قادیان پہنچ گیا۔اور تمام روئیداد تفصیلًا عرض کر کے تسلی و اطمینان دلایا۔‘‘

1903ءمیں کرم دین والے مقدمہ کے دوران مسیح پاک علیہ السلام نے مغرب کی نماز کے بعد قادیان میں ذکر فرمایا کہ کل ہمیں گورداسپور میں منشی کرم علی صاحب کی گواہی کی ضرورت ہے۔معلوم ہوا کہ وہ تو گوجرانوالہ گئے ہوئے ہیں۔ مسیح پاک علیہ السلام کی خواہش اور ضرورت کا علم پاتے ہی حضرت بھائی جی فوراً مستعد ہو گئے۔اسی وقت اٹھے اور تعمیل ارشاد میں نکل کھڑے ہوئے۔رات اندھیری تھی۔پیدل دوڑتے بھاگتے ڈیڑھ گھنٹہ میں بٹالہ پہنچے۔یکہ پر ساری رات سفر کر کے امرتسر پہنچے۔گاڑی سے گوجرانوالہ گئے اور منشی کرم علی صاحب کو بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر الٹے پاؤں واپس ہوئے اور عین وقت پر دونوں گورداسپور میں حضرت اقدس علیہ السلام کے قدموں میں حاضر ہو گئے!ایسے واقعات کئی بار ہوئے اور متعدد بار حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت ملی کہ انہوں نے ارشاد پاتے ہی راتوں رات اس کی تعمیل کر دی۔ایسے ہی مواقع پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام اکثر بطور شکرگزاری یہ فرمایا کرتے تھے:’’خدا کا کتنا فضل ہے کہ ہمیں ہر قسم کے آدمی عطا فرما رکھے ہیں۔‘‘

فدا کاری کے ان نمونوں میں یہ بات اور بھی حسن پیدا کر دیتی ہے کہ اطاعت امام اور تعمیل ارشاد کی راہ میں ذاتی حالات کو کبھی حائل نہ ہونے دیتے۔گھریلو مجبوریوں کی کوئی بھی صورت ہوتی لیکن تعمیل ارشاد کو ہر دوسری بات پر فوقیت دیتے۔ایک بار آپ کے گھر میں زچگی کا موقع تھا۔کسی وقت بھی بچہ کی ولادت متوقع تھی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیغام ملا کہ ایک ضروری کام کے لیے لاہور جانے کی ضرورت ہے۔پیغام ملتے ہی روانہ ہو گئے اور گھریلو حالات کا اشارۃً بھی ذکر نہ کیا۔روانگی کے چند گھنٹوں بعد بیٹے کی ولادت ہوئی۔

ایک اور موقع پر ان کی اہلیہ ایک آپریشن کی وجہ سے گھر میں بے ہوش پڑی تھیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سےکسی جگہ جانے کی ہدایت موصول ہوئی۔ارشاد ملتے ہی آپ سوئے منزل روانہ ہو گئے اور اہلیہ کی علالت کی وجہ سے معذرت یا تاخیر کرنا گوارا نہ کیا۔یہ باتیں کہنی آسان ہیں لیکن کرنی مشکل ہیں۔ان کے لیے عبدالرحمٰن قادیانی جیسا دل اور حوصلہ چاہیے۔

اختتامیہ

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صا حب قادیانی رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اس مختصر تذکرہ میں ہمارے لیےبے شمار اسباق ہیں۔یہ حالات نمونہ ہیں ان اعلیٰ اخلاق کا جو ہمارے اسلاف کا طرّہ امتیاز تھے۔یہ اندازِ زندگی ہے ان پاک باز لوگوں کاجو مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے پاک صاف کیےگئے اور جنہوں نے آپ کی روحانی قوّتِ قدسیہ کے طفیل اپنی زندگیوں میں ایک پاکیزہ روحانی انقلاب برپا کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جو دنیا کی نظر میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے تھے خدا کی جناب میں قبولیت کے لائق ٹھہرے اور آسمان احمدیت پر روشن ستارے بن کر جلوہ افروز ہوئے۔

صحابہ کرامؓ کی یہ روشن مثالیں تابعین،تبع تابعین اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مستقل دعوت ِعمل کا حکم رکھتی ہیں۔ان کی مبارک زندگیوں میں ہمارے لیےسبق ہے استقامت کا،قربانی کا اورفدائیت کا۔ ہمارے لیے نمونہ ہےخدمت کا،خلوص و وفا کا اور شکرگزاری کا۔ ہمارے لیے نصیحت ہے اس بات کی کہ ہم بھی اپنے آپ کو لا شیئ محض یقین کرتے ہوئے امام ِوقت کے قدموں میں ڈال دیں اور گوش بر آواز آقا بن کر اپنے آپ کو کلیۃً خدمت دین کے لیےوقف کر دیں۔اگر ہم ایسا کر دکھائیں گے تو یقین رکھیں کہ ہمارا قادر و توانا اور زندہ خدا آج ہمیں بھی اسی طرح بے پایاں فضلوں سے نوازے گا جس طرح اس کے نہ ختم ہونے والے فضلوں کی بارش ہمارے اسلاف پر برستی رہی ۔اللہ کرے کہ ہم صحابہ کرام کے نمونہ پر چلنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر ہمیشہ ہم پر پڑتی رہے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button