متفرق مضامین

قرآن مجید کی پاک تاثیرات (پانچویں قسط)

(سعید فطرت لوگوں کی توحید اور اسلام کی طرف رہنمائی کے دلچسپ و ایمان افروز واقعات)

14

سوۃ یوسف آیت 4

آدم کلویک مع فیملی- لورپول برطانیہ

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَ ا الْقُرْاٰنَ۔ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ ا لْغٰفِلِیْنَ m
ترجمہ :ہم تیرے پاس (ہر امر کو)بہترین طور پر بیان کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے اس قرآن کو تیری طرف (حقائق پر مشتمل)وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اور اس سے پہلے تُو ان (حقائق ) سے بے خبرلوگوں میں شامل تھا۔

’’ بالقرآن ‘‘ ایک پروگرام ہے جس میں فھد اکنوانی نے نومبایعین اسلام کے قبول اسلام کے واقعات Youtube پر ریکارڈ کئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک31 سالہ نوجوان آدم کا ہے جو قرآن کریم میں بیان فرمودہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف مائل ہوئے اور بالآخر شیفیلڈ کی اسلامی مسجد میں تشہد پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔اس کہانی کے آخیر میں اس ریکارڈنگ کا لنک درج ہے۔

(https://www.youtube.com/watch?v=foxHe2894&t=611s)

15

سورۃ الحجر آیت نمبر 10

ڈاکٹر جمال الدین زارا بوزو کا قبول اسلام

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo

ترجمہ :یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے او ر ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

سورۃ الحجر کی آیت نمبر10 وہ امتیازی آیت ہے جو ساری الہامی کتابوں میں ممتاز اہمیت کی حامل ہے۔اور قرآن کریم کے رہتی دنیا تک محفوظ رہنے کی ضامن ہے۔متعدد اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات نے جب قرآن کریم پر تدبر کیا تو حفاظت قرآن کی اس شان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ان میں سے کچھ نے تبصرے کئے اور کچھ ایسے خوش قسمت بھی تھے کہ وہ اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔ معاندین اسلام میں سر فہرست سر ولیم میور ہیں جنہوں نے لکھا :

ـ ’’ انتہائی ٹھوس اندازے کے مطابق ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہر آیت اصلی ہے اور اس میں کبھی کوئی ردّ وبدل نہیں ہوا۔ یہ محمدکی اصل تحریر ہے۔‘‘

’’مکرر تحریر ہے کہ قرآن کریم کے بیان میں اندرونی و بیرونی ہر دو حفاظتی تدابیر مہیاہیں۔ یہی وہ اصل عبارت ہے جو محمدؐ نے خود استعمال کی اور سب کے سامنے پیش کی۔ ‘‘ (انٹروڈکشن لائف آف محمد )

پروفیسر نولڈیکی جوکہ ایک جرمن دانشور ہیں لکھتے ہیں :

’’ معمولی کتابت کی غلطیوں کے سوا حضرت عثمان ؓ کے زمانے کا قرآن بالکل اصلی ہے جو کہ ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے۔ یورپین مستشرقین کی تمام کا رروائیاں اس کو نقل ثابت کرنے میں ناکام ہوگئیں۔‘‘

( انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا )

پروفیسر نکلسن عربوں کی علمی تاریخ (Literary History Of Arabs ) میں لکھتے ہیں :

’’ ہمارے پاس ایسا مواد قرآن کریم میں موجود ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور اس کا کوئی مثل نہیں۔جس سے اسلام کی ابتدائی ترقی معلوم ہو سکتی ہے۔اس قسم کا مواد کسی اور مذہب مثلاً بدھ ازم یا عیسائیت میں نہیں ملتا یا کسی اور قدیمی مذہب میں بھی نہیں ملتا۔

ذیل میں ڈاکٹر جمال الدین زارابوزو کے قبول اسلام کی داستان درج ہے جو ان کی تحریر کردہ کتاب ’’ معجزاتی قرآن‘‘ میں سے لی گئی ہے۔سورۃ الحجر کی آیت 10 سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کیا اور پھر پورے قرآن کا غور سے مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کا خلاصہ اپنی اس کتاب میں درج کیا جو اس وقت آن لائن دستیاب ہے۔

ڈاکٹر زارابوزو نے تلاش حق کے لئے کچھ بنیادی اصول وضع کئے اور ان اصولوں پر بیشتر مذاہب کو پرکھا اور تحقیق کے بعد اسلام قبول کیا۔

پہلا اصول انہوں نے یہ وضع کیا کہ ’’کوئی مذہب الٰہی مذہب ہے تو اس کی کتاب خدا کی طرف سے ہونی چاہئے۔اور یہی نہیں بلکہ وہ تعلیمات اس شکل میں جس میں وہ اتاری گئیں محفوظ بھی ہونی ضروری ہیں۔ ‘‘
اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اس اصول کی منطق بہت واضح ہے۔ اصل وحی خدا کی طرف سے آئی مگر اس میں انسانوں نے تحریف کردی تو وہ اصل کلام نہیں رہا بلکہ اس میں انسانی آلائش شامل ہو گئی۔اور یہ خدا کاخالص مذہب نہ رہا۔اگرچہ یہ امر بالبداہت ظاہر ہے مگر یہ تعجب ہے کہ بے شمار افردا نے اس اصول کی طرف توجہ نہیں کی اور آنکھیں بند کرکے اس کی پیروی کر رہے ہیںجو کہ تا ریخی لحاظ سے ثابت ہی نہیں۔

قرآن کا پہلا معجزہ یہی ہے کہ نہ صرف اس کا کلام الٰہی ہونا ثابت ہے بلکہ وہ ہمیشہ محفوظ ہے۔ باب 4میں وہ لکھتے ہیں ’’قرآن کریم میں درج ہے کہ ہم نے اس کونازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘ ( 15:10) یہ میرے لئے بہت دلچسپ امر تھا کیونکہ قرآن میں دوسرے مقامات پر یہ حوالہ ملتا ہے کہ گزشتہ اقوام نے اپنی کتب کو مکمل طور پر محفوظ نہ رکھا۔یہ ایک بہت زور دار اور جرأ ت مندانہ قول ہے اور یہ ایک پیش گوئی کے رنگ میں ہے … یہ پیش گوئیاں میرے لئے بہت اہم ہیں۔اگر یہ پیش گوئیا ں پوری ہو جاتی ہیں تو وہ ایک نشان ہیں۔قرآن کریم کی تاریخ بہت عمدگی سے لکھی گئی اور محفوظ ہے۔قرآن کو بہت احتیاط سے محفوظ رکھا گیا ہے۔وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ ذکر ہے اور کتاب ہے۔ان دونوں ذرائع سے معجزانہ طور پر قرآن محفوظ رہا ہے۔ (صفحہ 18)

وہ مزید لکھتے ہیں ’’ قرآن کی عبارات نہ صرف لکھی گئی ہیں بلکہ ان کو یاد کر لیا گیا ہے۔ بے شمار اصحاب کو قرآن زبانی یاد تھا۔ انہوں نے اس ڈر سے یاد کرلیاکہ گزشتہ صحیفوں کے ساتھ کیا وقوع میں آیا۔ قرآن کریم آج تک یاد کیا جارہا ہے۔ خود قرآن کریم کہتا ہے کہ ’’ ہم نے قرآن کوسمجھنے میں آسان اور یاد کرنے میں بھی آسان بنایا ہے۔‘‘ (54:17)

آج تک کروڑوں انسانوں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے۔ اگر…دنیا کی تمام کتب جل کر خاکستر ہو جائیں، قرآن کریم پھر بھی محفوظ رہے گا۔مسلمان ا س کو اپنے حافظے کی بنا پر دوبارہ رقم کر لیں گے۔ آنحضور( ﷺ) کی وفات کے کچھ عرصہ بعد قرآن کی عبارات کو جمع کیا گیا اور اس کے فوراً بعد اس کی مستند کاپیاں مختلف علاقوں میں بھجوائی گئیں تاکہ ان کے اصل ہونے کا امتحان ہو سکے۔آج بھی ساری دنیا میں سفر کرلیں اور کسی جگہ سے قرآن کا ایک نسخہ لیں تو یہ معلوم ہو گا کہ ایک ہی عبارت ہے۔ بلکہ قرآن کی زبان بھی محفوظ ہے اور ایک ہی زبان ہے جو عرف عام ہے۔‘‘

("The Miraculous Quran” pages 18-21 An online book)

16

سورۃ النحل آیت 98 اور سورۃ الاحزاب آیت 36

اِیون رِڈلی کا قبول اسلام

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثیٰ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْ ا یَعْمَلُوْن o(النحل98:)

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ والْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآ ئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰ کِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرۃً وَّ اَجْرًا عَظیْمًا m(الاحزاب36:)

ترجمہ:مرد یا عورت جو بھی نیکیاں بجا لائے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اسے ہم یقیناً ایک حیات طیبہ کی صورت میں زندہ کر دیں گے اور انہیں ضرور ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔

یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اورفرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کئے ہوئے ہیں۔

ایون رڈلی ایک انگریز نامور صحافی ہیں جنہوں نے افغانستان کا سفر اختیار کیا اور ایک مُلّا کے دیے ہوئے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور قرآن کریم میں پیش فرمودہ تمام آیات جوخواتین کے بارے میں ہیں ان کا بغور مطالعہ کیا اور ان سے بے حد متاثر ہوکر افغانستان میں قید سے رہائی کے بعد واپس برطانیہ آکر اسلام قبول کر لیا۔جن متعدد ویب سائٹس میں ان کی بیان کردہ کہانی پیش کی گئی ہے وہ درجنوں کے قریب ہیں۔ ان کو BBC کی طرف سے امریکہ (نیو یارک) 9/11 کے ہولناک حادثہ کو کور کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔جونہی وہ نیو یارک پہنچیں ان کو فون آیا کہ نیو یارک کے بجائے وہ فوری براستہ پاکستان افغانستان جائیں۔ پاکستان سے انہوں نے ایک shuttlecock برقعہ پہن کر بارڈر کراس کیااور کابل پہنچ گئیں۔ وہاں ایک چھوٹا سا حادثہ ہوا اور وہ یہ کہ برقعے کے اندر انہوں نے کیمرہ رکھا ہوا تھا جو اتفاق سے گر گیا اور طالبان کو نظر آگیا۔انہوں نے وہاں کے بڑے مُلّا کے پاس لے جاکر ان کی ملاقات کروائی۔انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ برطانیہ کی جاسوس ہیں اور یہاں جاسوسی کی غرض سے بھیجی گئی ہیں۔ اس بنا پر ان کو نظر بند کر دیا گیا۔وہاں اس مُلّا نے ان کو اسلام کی دعوت دی مگر انہوں نے بات ٹال دی اور یہ کہا کہ انہیںصحیح فیصلہ کرنے کے لئےوقت چاہئے۔مُلّا نے ان پر کوئی ظلم نہ کیا اور عزت سے پیش آئے۔

اس دوران اس خاتون نے قرآن کریم میں سب سے پہلے جملہ آیات کا مطالعہ کیا جو عورتوں کے بارے میں تھیں۔انہوں نے قرآن کریم کے اس بیان کو نہایت عمدہ قرار دیا اور قرآنی تعلیمات دربارہ خواتین پڑھ کر وہ دل سے مسلمان ہو گئیں۔

گیارہ دن کے بعد وہ برطانیہ آگئیں اور وہاں مسجد میں جا کر اسلام قبول کرنے کا اظہارکیا۔ اس پر امام نے ان کو سمجھایا کہ ابھی آپ کے ذہن پر اس قید و بند کا اثر ہے۔ابھی مزید مطالعہ کریں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے قرآن کریم کی جملہ آیات جو خواتین کے بارے میں تھیں ان کا بغور مطالعہ کیا ہے اور ان سب کو میں نہایت عمدہ اور درست سمجھتی ہوں۔ قرآن کریم نے عورتوں کے بارے میں نہایت متوازن تعلیم دی ہے اور جو ہمیں بتایا گیا تھا وہ جھوٹ اور افتراء کے سوا کچھ نہیں۔قرآن کریم نے عورت کاصحیح مقام پیش کیا ہے۔جتنے اعتراضات قرآن کریم پر کئے جاتے ہیںوہ سب نہ صرف جھوٹ بلکہ ایک بہتان ہے۔

انہوںنے تشہد پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ اب وہ اسلام کی نہ صرف علمبردار ہیں بلکہ انہوں نے ایک blog شروع کیا ہے جس میں وہ اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتی ہیں۔ Facebookپر بھی ان کے کالم او ر نقطۂ نظر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے کئی ممالک کے دورے کئے اور ہر جگہ اپنی قبول اسلام کی داستان سے حاضرین کے دلوں کو گرمایا۔ یہ سارے پروگرام Youtubeپر دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔

(The Islamic Bulletin Volume 20 no.26, page 10-13. ww.youtube.com/watch?v=s INC ivBcQ)

17

سورۃ مریم رکوع نمبر 1-2

مصطفیٰ ڈیوس کا قبول اسلام

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کٓھٰیٰعٓصٓ۔ ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا
اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰ تٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا
وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکاً اَیْنَ مَاکُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ
وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا
وَّ بَرَّا بِوَا لِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّا رًا شَقِیًّا
وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ
اُبْعَثُ حَیَّا

میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے پرھتا ہوں
اے عالم و صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے۔ اس سورۃ میں تیرے رب کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی۔

اس وقت کہ جب اس نے اپنے رب کو آہستہ آواز سے پکارا۔

یہ سن کر ابن مریم نے کہا میںاللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب بخشی اور مجھے نبی بنایا۔
اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کا تاکیدی حکم دیا ہے جب تک میں زندہ ہوں۔

اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا
اور جس دن میں پیدا ہوا تھا اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہوئی تھی اور جب میں مروں گا اور جب مجھے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

یہ کہانی مصطفی ڈیوس کی ہے جنہوں نے 1996ء میں 17 رمضان کو شمالی کیلے فورنیا (امریکہ )کی مسجد میں اسلام قبول کیا۔ان کو بھی اسلام سے رغبت قرآن کریم پڑھ کر ہوئی اور قرآن میں سب سے پہلے انہوں نے سورۃ مریم پڑھی۔ مصطفی ایک دفعہ بائبل خریدنے کے لئے ایک کتاب گھر گئے اور شیلف پر رکھی ہوئی کتاب ’محمد‘ کی سوانح عمری جو مارٹن لنکس کی تحریر کردہ ہے پڑھنی شروع کی۔ اس میں متعدد عربی اسماء کا ذکر تھا جن سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی مگر اس میں قرآن کریم کا ذکر بھی تھا۔

جب انہوں نے قرآن کریم کھولا تو سب سے پہلے ان کے سامنے سورۃ مریم کے صفحات تھے۔ چنانچہ انہوں نے سورۃ مریم کو پڑھنا شروع کیا اور مکمل سورت کا مطالعہ کر لیا۔جب وہ اختتام پر پہنچے تو وہ خوشی اور غم کے جذبات سے معمور تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پورا بیان پڑھ لینے کے بعد وہ کتب فروش کی دکان پر ہی رونے لگ گئے۔ اور اس سورت نے ان کے د ل پر گہرا اثر چھوڑا۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش ،آپ کے مقام وغیرہ کی بابت جان کروہ لکھتے ہیں ’’ بغیر وجہ معلوم ہوئے کہ کیوں یہ اثر ہو اکہ میں دکان میں ہی رونے لگ گیا۔چنانچہ میں نے قرآن کریم کا یہ نسخہ خریدا تا کہ میں تفصیل سے پڑھ سکوں۔ میں جذبات پربالکل قابو نہ رکھ سکا۔ یہ بھی بھول گیا کہ میں بائبل خریدنے یہاں آیا تھا۔

اگلے دن جمعرات کو میری ملاقات سینیگال کے ایک مسلمان سے ہوئی جو اپنی دکان پر ایک گاہک کے ساتھ مصروف تھے۔انہوں نے بڑے تپاک سے مجھ سے بات چیت کی اور پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں ؟ کیونکہ میں مسلمان نظر آتا ہوں۔ میں نے اس کو بتا یا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ ابھی میں نے قرآن کریم خریدا ہے۔ وہ بہت خوش ہوا اور بار بار مجھ سے معانقہ کرتا اور یہ کہتاکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

ایک اور مسلمان سے بھی میری بات چیت ہوئی جس نے ان کو گھر آنے اور جمعہ کے روز مسجد جانے کی دعوت دی۔ جب میں مسجد گیا تو وہاں کسی اور مسلمان نے ارکان اسلام اور شہادت کا تعارف کرایا۔اور مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ میں نے وہیںکلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔‘‘

قرآن کریم پڑھ کر وہ دل سے مسلمان ہو چکے تھے۔لوگوں کی دعوت پر انہوں نے اقرار باللسان بھی کرلیااور رمضان 1996 ءکو داخل اسلام ہوئے۔

(https://islamconverts.wordpress.com/2012/07/14/mustafa-davis-embraced-islam-after-reading-surah-maryam-mary/)

18

سورۃ طہٰ آیت 99

دانیال بینیشی (یُو کے )

اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًاo

ترجمہ:تمہارا معبود تو صرف اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے۔
دانیال بینیشی ایک 26 سالہ پولیس آفیسر ہیں جو برطانیہ کے شہر Bristol میں مقیم ہیں اور اسی شہر کی یونیورسٹی میں اسلام کا تعارف یونیورسٹی کے طلباء کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے سیرت النبی ﷺپر کتب کا مطالعہ کیا۔ قریب کی مسجد میں تعارف کے طور پر گئے۔متعدد کتب کے مطالعہ کے بعد ایک کتاب توحید کے بارے میں پڑھی۔اس کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا۔ وہ کہتے ہیںاس میں سے پہلے جس آیت پر میری نظر پڑی وہ سورۃ طہٰ کی آیت 99 تھی۔ کہتے ہیں کہ میں بچپن سے صمیم قلب سے واحد خدا کا شیدائی تھا۔ اس آیت کو پڑھ کر مجھے اسلام سے بے حد محبت ہو گئی اور میں نے نماز کے سجدوں میں شہادت محسوس کی اور وحدانیت میرے قلب و دماغ پر چھاگئی۔ چند دنوں کے بعد میں نے مسجد میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔
یہ کہانی Youtube میں شیخ الکندانی فہد نے ریکارڈکی ہے۔اس پولیس آفیسر نے عربی سیکھی اور انتہائی خوش الحانی سے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ نے میرے دل میں انتہائی گہرا اثر پیدا کیا اور میں اکثر اس کا ورد کرتاہوں اور مجھے انتہائی عزیز ہے۔ وہ کثرت سے قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ انہوں نے پولیس اکیڈمی میں تین شرائط کے ساتھ ملازمت قبول کی۔

1) وہ جمعہ جامع مسجد میں پڑھیں گے۔

2 )پانچ نمازوں کا دوران ڈیوٹی اہتمام کریں گے۔

3) اور شعار اسلامی ڈاڑھی پابندی سے رکھیں گے۔

اس وقت وہ تبلیغ اسلام میں سرگرم ہیں اور بیشتر وقت تبلیغ اسلام کرتے ہیں۔ شیخ فہد الکندانی نے ان کا جو انٹرویو لیا وہ Youtube پر موجود ہے۔

(http://www.youtube.com/watch?v=VLLpgTWUIqw)

19

سورۃ الانبیاء آیت 31

Denialle Lo Duca کا قبول اسلام

اَوَلَمْ یَرَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْٓ ا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَلْاَرْضَ کَا نَتَارَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَo

ترجمہ:کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے،پس ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہرزندہ چیز کو زندہ کیا ہے۔پس کیا وہ ایمان نہیں لاتے ؟

قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ کائنات خدا تعالیٰ کا فعل۔ معمولی عقل والا انسان بھی یہ یقین رکھے گا کہ خالق حقیقی کے کلام اور کام میں ایک مطابقت متوقع ہے اور جب بھی کائنات میں جاری انسانی سلسلہ تحقیق کسی حقیقت کو روشن کرتا ہے اور ایک عارف باللہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر میں اس کا ذکر کر چکا ہوتا ہے تو متلاشیان حق فوری طور پر کلام اللہ کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور بے اختیار ان کی زبانوں پر جا ری ہو جاتا ہے کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے اس حقیقت کو اپنے اس شعر میں کیا خوب فرمایا ہے۔

قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے

بے اس کے معرفت کا چمن نا تمام ہے

موجودہ زیر نظر تحقیق میں یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ایک کثیر تعداد ان علم و دانش کے ستونوں کی ہے جو کہ دنیائے علم کے ستارے سمجھے جاتے ہیں۔ جب انہوں نے اپنی آنکھوں سےخداکے کلام او رکائنات کی مطابقت کو مشاہدہ کیا تو بے اختیار وہ کلمہ شہادت پڑھنے پر از خود مجبور ہو گئے۔اور بلا مبالغہ سب نے یہ اعتراف کیا کہ نا ممکن ہے کہ ہم اس مشاہدے کے منکر ہو سکیں۔ اگرچہ دنیا کے بعض افراد نے ان کا مذاق اڑایا۔ بعض نے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا مگر ان علمائے نے قرآن کریم کی ایک آیت کی مزید تصدیق کر دی۔
اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآء

یعنی حقیقی علماء خشیت الٰہی کے اعلیٰ مقام پرفائز ہیں۔

مندرجہ بالا سورۃ الانبیاء کی آیت 31 میںتخلیق کائنات کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ کس طرح زمین و آسمان ایک گٹھڑی کی طرح بند تھے۔اللہ تعالیٰ نے اسے کھول دیا اور مزید یہ کہ دنیا کی ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا۔یہ دونوں حقائق جو پندرہ صدیوں پہلے قرآن کریم نے بیان کئےاب سائنسی دنیا بے نقاب کر چکی ہے ۔
اس آیت کو پڑھ کر ایک کیتھولک خاتون جو بے دین ہو چکی تھیں اور تلاش حق میں مصروف تھیں Ms. Danialle Lo Duca فوراً مسلمان ہو گئیں۔وہ قبول حق کی خود نوشت بیان میں یوں رقم طراز ہیں:

’’مجھے خوب یاد ہے کہ ایک شام میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھی تھی اور قرآن کریم پڑھنے میں مصروف تھی کہ یہ آیت 21:31 میرے سامنے آئی کہ ’’کیا کفار نے نہیںدیکھاکہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے۔پس ہم نے ان کو کھول دیااور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو زندہ کیا ہے۔ پس کیا وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘

میرا دماغ ایک دم کھل گیا اور میں نے اس آیت کو پڑھا۔ یہ تو Big Bang کا منظر تھا۔ ایک مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت۔اور یہ فقرہ کہ ہرزندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا یہ وہ حقیقت نہیں جو سائنس دانوں نے ابھی دریافت کی ہے۔ میں بالکل حیران رہ گئی۔ یہ میری زندگی کا سب سے زیادہ جلوہ افروز معمہ تھا۔ مزید برآں یہ اپنی ذات میں ڈرانے والا بھی تھا۔

میں نے مزید غور اورمزید مطالعہ کیا اورتحقیق کی اور متعدد کتب کامطالعہ کیا۔ Pratt انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری میں بے شمار کتب کے ڈھیر کے سامنے بیٹھی تھی۔ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ،جب میں نے یہ سمجھ لیا کہ میں سچائی کے سامنے ہوں اور یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ سچ جو اس سے قبل مجھے معلوم نہ تھا اب یہ سوال ذہن میں آیا کہ اب کیا ؟

میرے پاس اب صرف دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ میں اپنی اس تحقیق کا انکار کر دوں جو مجھے ملی ہے۔دوسرا راستہ اس حقیقت کو قبول کر لینے کا تھا۔ چنانچہ میں نے اس حقیقت اور سچائی کو پا لیا اور اس کے بجز کو ئی چارہ نہ تھا۔‘‘

source://muslimobserver.com/i-was-graced-to-accept-islam/

Danielle La Duca ایک تیسری نسل کی امریکن خاتون ہیں جو اگرچہ catholic خاندان میں پیدا ہوئیں لیکن عملی طور پر بے دین ہو گئی تھیں۔ اچانک قرآن کریم کے مطالعہ نے ان کی زندگی بدل دی اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔Pratt Institute سے انہوں نے BFA کیا۔ وہ اپنے شوہر اور پانچ بچوں کے ساتھ رہتی ہیں اور ہمہ تن خدمت اسلام میںمصروف رہتی ہیں۔

(http://aboutislam.net/reading-islam/how-did-i-end-up-muslim/)

20

سورۃ المومنون آیات 13تا 15

ڈاکٹر تیجائٹ تیجاسن آف تھائی لینڈ

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنِ oثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ oثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا۔ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَo

ترجمہ:اور یقیناً ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا۔اور پھر ہم نے اسے نطفہ کے طور پر ٹھہر نے کی ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔پھر ہم نے اس نطفے کو ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کو مضغہ (یعنی گوشت کے مشابہ جما ہوا خون ) بنادیا۔پھر اس مضغہ کو ہڈیاں بنا دیا۔پھر ہم نے اسے ایک نئی خلقت کی صورت میں پروان چڑھا یا۔پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو سب تخلیق کرنے والوں سے بہتر ہے۔

سورۃ المومنون کی ان آیات میں انسانی پیدائش کے چھ مدارج کا ذکر کیا ہے جو ماں کے پیٹ میں نشوونماکے دوران گزرتے ہیں۔اس ضمن میں سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کی ارشاد فرمودہ یہ مختلف حالتیں خوردبین کے ذریعے مشاہدہ کی جاسکتی ہیں۔یہ تحقیقات تفصیلی طور پر کی گئیں اور ان تجربات کے نتائج ایک میڈیکل کانفرنس میں 1983 میں پیش کئے گئے۔تھائی لینڈ کے ڈاکٹر تیجائٹ تیجاسن نے اس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ تمام مدارج جو قرآن کریم نے 1400 سال پہلے پیش کئے ، آج ہم تجرباتی طور پر ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔چونکہ محمدؐ تو اُمّی تھے اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ ان کا ذریعۂ علم خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔

کہتے ہیں کہ میری تین سال کی تحقیق کا یہی خلاصہ ہے اور سٹیج پر انہوں نے تمام سامعین کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام قبول کر لیا۔ یہ چیانگ مائی یو نیورسٹی میں شعبہAnatomyکے صدر تھے اور تھائی لینڈ سے اس کا نفرنس میں شامل ہونے آئے تھے۔

(https://www.youtube.com/watch?
v=c4dZotwh8kA)

21

سورۃ نور آیت 41

ڈاکٹر فلپ گرینیر

اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَآ اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍo
ترجمہ:یا (ان کے اعمال )اندھیروں کی طرح ہیںجو گہرے سمندر میںہوں۔جس کو موج کے اوپر ایک اور موج نے ڈھانپ رکھا ہوا اور اس کے اوپر بادل ہوں۔ یہ ایسے اندھیرے ہیں کہ ان میں سے بعض بعض پر چھائے ہوئے ہیں۔جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی دیکھ نہیں سکتا اور وہ جس کے لئے اللہ نے کوئی نور نہ بنایا ہو تو اس کے حصے میں کوئی نور نہیں۔

سورۃنور کی اس ا ٓیت میں منکرین رسالت اور منکرین خدا کی قلبی کیفیت کو ایک تشبیہ سے سمجھایا گیا ہے۔ جس طرح سطح سمندر کے نیچے درجہ بدرجہ تاریکی بڑھتی ہے یہاں تک کہ ایک فاصلہ پر تیر اک اپنا ہاتھ بھی دیکھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کو جن کو خدا اپنی روشنی سے نہیں نوازتا وہ اسی طرح کی گہری ظلمت کا شکار ہوتے ہیں۔اس آیت سے دو آیات قبل اللہ تعالیٰ آسمانی نور کو بھی ایک عظیم تمثیل سے سمجھاتا ہے۔

قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے متعدد افراد نے اس آیت کا خصوصی ذکر کیا ہے اور اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربات کو ان آیات کی تصدیق کے لئے پیش کیا ہے۔ ہمارے مطالعے اور تحقیق کے مطابق کم از کم دوافراد ایسے ہیںجنہوں نے اس آیت کے مضمون کو حقیقت حال کے مطابق پاکر قرآن کریم کی صداقت کا اعلان کردیا۔ ان دونوں کی کہانیاں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔ بعض قارئین ایسے بھی ہیں کہ گو انہوں نے اسلام قبول نہ کیا مگر قرآنی صداقت کی تصدیق کی۔

یہ دو مسلمان ہونے والے حضرات مختلف ممالک اور مختلف زمانوں کے نامور افراد ہیں۔ ان میں فرانس کے ڈاکٹر فلپ گرینئر ہیں جو مرچنٹ نیوی کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ماہر تیراک ہیں اور ایک امریکن میرین شامل ہیں۔

پہلی کہانی

۹…یہ کہانی فرانسیسی ڈاکٹر فلپ گرینئر (Dr. Phillip Grenier)کی ہے جو فرانس میں ایک مشہور میڈیکل ڈاکٹر تھے اور گہرے سمندوں میں diving بھی کیا کرتے تھے۔یہ فرانس کے سب سے پہلے مسلمان پا رلیمانی رکن رہے ہیں۔Scuba Diving ان کا کام کے علاوہ مشغلہ تھا۔اور وہ اکثر سمندر کی گہرائیوں میں اتر جاتے تھے۔ اسی طرح ایک دن لمبی diving کے بعد وہ سمندر سے باہر آئے اور سستانے کے لئے باہر ٹہلنے لگے۔ قریب کی ایک دکان میں گئے اور ویسے ہی مختلف کتب دیکھنے لگے۔ جو نہی آپ نے ایک کتاب کھولی تو سورۃ نور کی آیت 41نظروں کے سامنے تھی۔ایسا لگا کہ ان کی نظریں وہیں ٹک گئیں اور وہ اس کو بغور پڑھنے لگے۔سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں پھیلے ہوئے گھپ اندھیرے کا جو نقشہ وہ روز مشاہدہ کرتے تھے اس کی من وعن تصویر اس عبارت میں کھنچی ہوئی تھی۔ وہ بہت حیران ہوئے اور دکان کے مالک سے پوچھا یہ کتاب کس نے لکھی ہے ؟ اس نے کہا غالباً اس کا مصنف ’ محمد‘ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا محمد (ﷺ) scuba diver تھے ؟ اس نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔اور قریبی مسلمان کی دکان پر جا کر پوچھا۔ جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔اس پر بے اختیار ہو کر ان کے منہ سے نکلا کہ یہ لکھنے والا سچا ہے اور کچھ دنوں بعد الجیریا جا کر مسلمان ہو گئے۔

ایک مسلمان محمد مصری کو جب اس کہانی کا علم ہوا تو اس نے براہ راست ڈاکٹر Grenier سے ملنے اور ان سے گفتگو کا فیصلہ کیا۔ وہ اس چھوٹے سے شہر میں جہاں ڈاکٹر صاحب اپنی کلینک کرتے تھے پہنچ گئے اور ان سے تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹر ویو ایک اردو کتاب ’’محمد ﷺ غیروں کی نظر میں ‘‘ میں شائع ہوا۔اسی کتاب سے اس انٹرویو کے کچھ حصے پیش کئے جا رہے ہیں۔

’’ میں بہت جلد ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا۔ اس کی پیشانی پر محبت اور خوش اخلاقی کے معصوم ستارے چمک رہے تھے۔ وہ مجھے بڑی گرم جوشی سے ملا۔ایسی گرم جوشی سے جس سے اخوت اسلامیہ کا نام زندہ ہے۔وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکا تو میں نے پو چھا :

ڈاکٹر صاحب! آپ کے مشرف بہ اسلام ہو نے کے کیااسباب ہیں ؟

ڈاکٹر گرینئر نے جواب دیا ’قرآن پاک کی صرف ایک آیت ‘‘ ۔یہ کہا اور خاموش ہو گیا۔

تو کیا آپ نے کسی مسلمان عالم سے قرآن پڑھا ؟ اور اس ایک آیت نے آپ پر اثر کیا؟میں نے پوچھا۔

نہیں ! میں نے کسی مسلمان سے اب تک ملاقات نہیں کی : ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا۔

پھر قرآن کی تفسیر پڑھی ؟ میں نے پو چھا۔

تفسیر بھی نہیں پڑھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا۔

تو پھر یہ واقعہ کیونکر گزرا؟

ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ’’ میری جوانی سمندروں میں گزری ہے۔ مجھے سمندری بحری سفروں کا اس قدر شوق دامن گیر تھا کہ گویا میں ایک آبی مخلوق ہوں۔ میں اپنے دن اور رات پانی اور آسمان میں بسر کرتا اور اس قدرمسرور تھا کہ میری زندگی کا مقصد ہی یہی ہے۔

انہی ایام میں قرآن کریم کے فرانسیسی ترجمہ کا ایک نسخہ جو موسیو قاری کے قلم سے تھا مجھے دستیاب ہوا۔میں نے اسے کھولا تو سورۃ نور کی ایک آیت میرے سامنے تھی جس میں ایک سمندری نظارے کی کیفیت بیا ن کی گئی تھی۔ میں نے اس آ یت کو نہایت دلچسپی سے پڑھا۔ اس آیت میں کسی گمراہ شخص کے متعلق ایک نہایت عجیب تمثیل بیان کی گئی تھی۔ آیت میں لکھا تھا کہ گمراہ شخص حالت انکار میں اس طرح دیوانہ وار ہاتھ پیر مارتا ہے جیسے ایک شخص اندھیری رات میں جب کہ بادل چھائے ہوں سمندر کی لہروں کے نیچے ہاتھ پائوں مارتا ہو۔

ڈاکٹر گرینئر نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا کہ اس کا دل تمثیل کی عزت سے لبریز تھا۔اور اس کے انداز بیان سے ظاہر ہو تا تھا کہ اس کے نزدیک اس تمثیل کی عمدگی اور دلنشینی صداقت اسلام کی ایک بہت کافی دلیل ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے بیان سے میرا دل مطمئن نہ تھا۔ میں نے پو چھا ’’ ڈاکٹر صاحب اس کے بعد کیا واقعہ پیش آیا ؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا آیت یہ تھی ’’ ان کی مثال بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیروں کی سی ہے۔ اس طرح کہ سمندر کو لہر نے ڈھا نپا ہے۔ لہر کے اوپر لہر اس کے اوپر بادل ہے۔یعنی اندھیرے پر اندھیرا۔اس حال میں ایک شخص تہ دریا میں اپنا ہاتھ نکالے تو توقع نہیں کہ اس کو دیکھ لے۔ جس کو خدا نور نہ دے اس کے لئے کوئی روشنی نہیں۔

جب میں نے یہ آیت پڑھی تو میرا دل تمثیل کی عمدگی اور انداز بیان کی واقعیت سے بے حد متاثر ہوا اور اس خیال کے باوجود بھی مجھے حیرت تھی او ر رسول ﷺ کے اس کمال کا اعتراف تھا کہ انہوں نے گمراہوں کی آوارگی اور ان کی جد و جہد کی بے حاصلی کو کیسے مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے۔ گویا کہ وہ خود رات کی سیاہی، بادلوں کی تاریکی اور موجوں کے طوفان میں ایک جہاز پر کھڑے ہیں اور ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بے حواسی کو دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوںکہ سمندری خطرات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اس طرح گنتی کے چند لفظوں میں ایسی جامعیت کے ساتھ دریا کی صحیح کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔

لیکن اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ محمد ﷺ محض اُمیّ تھے۔انہوں نے زندگی بھر کبھی سمندر نہیں دیکھا۔اس انکشاف کے بعد میرا دل روشن ہو گیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ محمد ﷺ کی آواز نہیں بلکہ اس خدا کی آواز ہے جو رات کی تاریکی میں ہر ڈوبنے والے کی بے حاصلی کو دیکھ رہا ہو تا ہے۔میں نے قرآن کو ایک ہاتھ میں لیا اور ان آیتوں پر بڑی احتیاط سے غور کرنے لگا اور چند دنوں میں مسلمان ہو گیا۔‘‘
ایک فرانسیسی میگزین Saphire نے ڈاکٹر گرینئر کی تصویر الجیرین لباس میں شائع کی اور آپ کی زندگی کی جھلکیاں درج کیں اور زندگی کی مختصرتاریخ لکھی۔

Dr. Philippe Grenier First Muslim MP for France
Written by Amara Bamba
Tuesday, December 6, 2005
” Prior to December 20, 1896 no Muslim from Metropoliton France had been elected deputy of the Republic. French deputies were Christians, Jews, Athiests but none of them were Muslims. At that time, the religious beliefs of an MP were not a secondary endpoint. Philppe Grenier knew he did not back down either period.
Born August 18, 1865, Died March 25, 1944
Accepted Islam in 1894 in Bilda, Algeria
Elected as the first Muslim MP in France for two terms in 1894 and 1896 "
(Saphire News, December 6,2005)

ڈاکٹرگرینر 18اگست 1865 ء میں پیدا ہوئے۔ اور 25 مارچ 1944ء کو وفات پائی۔ وہ بہت قابل ،رحم دل اور ہمدردی مخلوق سے سرشار وجود تھے۔ انہوں نے 1894 ء میں اسلام قبول کیا۔ 29 سال کی عمر میں حج کیااور وہاں کا لباس اپنالیا۔یہ ملک فرانس کے سب سے پہلے پا رلیمنٹ کے مسلمان ممبر منتخب ہوئے۔ قرآن کریم کے ذریعے اسلام قبول کیا اور ساری زندگی اس کے دلدادہ رہے۔وہ اپنے شہر کے بزرگ کے طور پر مانے جاتے تھے۔اور سب ان کی عزت کرتے تھے۔

ایک مسلمان ویب سائٹ نے ڈاکٹر گرینئر کاایک بیان اس ضمن میں اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہے جو بہت دلچسپ ہے اور ڈاکٹر صاحب کی اندرونی قلبی کیفیت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ میں نے یعنی ( ڈاکٹر گرنیر )قرآن کریم کی جملہ آیات دربارہ طب ،صحت اور قدرتی sciences کی مطالعہ کی ہیں۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ قرآن کریم کی یہ جملہ آیا ت موجودہ تحقیقات اور علوم سے کمال مطابقت رکھتی ہیں۔میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ محمد ﷺ نے آج سے ایک ہزار سال قبل یہ علوم اس وقت دیئے جب ان کا نام و نشان بھی انسان کو معلوم نہیں تھا۔یہ سب دیکھ کر میں نے اسلام قبول کر لیا۔میں برملا کہتا ہوں کہ کوئی بھی موجودہ دور کا ماہرسائنس کا علم رکھتا ہو یا فنون لطیفہ کا ماہر ہو اگر قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کرے گا اور اس کے دل میں کوئی تعصب نہیں ہو گا تو وہ یقیناً اسلام قبول کر لے گا جس طرح میں نے کیا ‘‘

http://www.imamreza.net/engl/imamreza.php?id=4079
(Mohammad in the Eyes of Non Muslims, pages236-238 Lahore)

دوسری کہانی

۹…ڈاکٹر گیری ملر نے اپنی تصنیف "Amazing Quran” میں یہ کہانی درج کی ہے کہ ایک امریکن Marine کو ایک دفعہ قرآن کریم کے مطالعہ کا شوق ہوا۔اس نے ایک مسلمان سے قرآن حاصل کیا اور سورۃ نور کی آیت 41 پڑھ کر وہ اسی مسلمان کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ کیا ’محمد ‘ کشتی رانی کرتے تھے یا سمندر کی گہرائیوں میں تیراکی کے ماہر تھے ؟ جب اس کونفی میں جواب دیا گیا تو وہ اس آیت پر ششدر رہ گئے اور قرآن کریم کو کلام الٰہی قبول کر لیا کیونکہ یہ ایک ایسا حیرت انگیز بیان تھا اس کیفیت کا جو وہ سمندر ی طوفانوں میں عام طور پر مشاہدہ کرتا رہا جو قرآنی آیت کی حقیقی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ڈاکٹر گیری نے اس مرچنٹ میرین کا نام نہیں لکھا صرف کہانی درج کی ہے۔

(The Amazing Quran by Dr.Gary Miller pg. 4)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button