فضلِ خدا کا دیکھو! سامان آ گیا ہے پھر سے وہی مبارک، رمضان آ گیا ہے لایا ہے ساتھ اپنے، برکات کا خزینہ رُخصت ہوا جو ہم سے، مہمان آ گیا ہے جس کے لیے سجائی، جنّت خدا نے یارو! عرشِ بریں سے ربّ کا، اعلان آ گیا ہے بِالحق شروع ہوا تھا، اس میں نُزولِ فرقاں ہاں! خاتم الشّریعت، قرآن آ گیا ہے لَارَیب کھولے جاتے، جنت کے باب اِس میں پیارے نبی ﷺ کا بھی یہ ’فرمان‘ آ گیا ہے جو اَتقیاء ہیں پاتے اس سے ہی فیض سارے شیطان کو جکڑنے زندان آ گیا ہے رحمت ہے، مغفرت ہے اور آگ سے رہائی پاکوں پہ پھر خدا کا، احسان آ گیا ہے اَلْقَدْر کی گھڑی بھی آتی ہے اس میں اِک شب گویا کہ خود زمیں پہ رحمان آ گیا ہے تقویٰ و پارسائی ملتی ہے اس میں، گویا سُبوحیّت کو دینے سبحان آ گیا ہے وعدہ خدا کا ہے کہ جنّت عطا کروں گا برکت سے اِس کی تُم کو، پیمان آ گیا ہے توفیق کچھ عطا ہو، سرورؔ کو بھی خُدایا! اُس کو سمیٹ لوں جو فیضان آ گیا ہے (محمد ابراہیم سرورؔ۔ قادیان)