تعارف کتاب

اصلاح النظر (مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ)

(اواب سعد حیات)

کتب مینار۔ تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط 32)

عقائد اسلام کی بابت پنڈت کرپا رام جگرانوی کی نظری کمزوریوں اور غلط فہمیوں کی اصلاح کے لیے مدلل جواب

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ کے والد کانام محمد علی تھا۔ آپ کو لدھیانہ کے محلہ جدید میں مشہور و معروف صوفی اوراہل اللہ حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے جوار میں رہنے کا موقع ملا۔ آپ کے آباء کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء سے پرانا تعلق تھا۔ جب نومبر ۱۸۷۵ء میں آپ کی پیدائش ہوئی تو جنگی شاہ نامی ایک مجذوب نے قادیان میں ہی شیخ صاحب کے والد کو یہ خبر سنائی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ تیرا یہ بیٹا قادیان میں ہی رہے گا اور ایک اہل اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ہوگا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ خاص موقع شیخ صاحب کو دیا کہ وہ قادیان میں رہے اور اس خاص مرسل و مامور کے فدائیان میں شامل ہوئے۔

سنہ ۱۹۰۰ء کی بات ہے کہ ایک ٹریکٹ ’’عقائد اسلام پر عقلی نظر‘‘ پنڈت کرپا رام جگرانوی نے ایک ہزار کی تعداد میں طبع کرواکر شائع کروایاجس کی ایک کاپی حضرت حکیم الامت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں بھی کسی نے ارسال کردی۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ ٹریکٹ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کو جواب لکھنے کی غرض سے دیا تو آپ نے اس آریہ کی نظری کمزوریوں اور غلط فہمیوں کی اصلاح کے لیے مدلل جواب مرتب کرکے اس کا مسودہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو دکھایا،نیز بتایا کہ اس قیمتی کتاب اصلاح النظر میں درج باتوں کا زیادہ ترحصہ حضرت حکیم الامت کے فرمودات یا آپؓ کی تصنیفات سے ملاحظہ شدہ ہیں۔

یہ کتاب ستمبر ۱۹۰۰ء کی تحریر کردہ ہے اور انوار احمدیہ پریس قادیان سے۳۷۵؍کی تعداد میں شائع کی گئی۔

مصنف کتاب ہٰذا نے آغاز میں بتایا کہ مسلمانوں کی اپنی غفلت اور اپنی پاک کتاب قرآن کریم کی علمی اور عملی خدمت میں سستی ہی نے دیگر مذاہب والوں کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ اسلام کے مقدس اور پاک اصولوں پر نکتہ چینی کر سکیں۔ان معترضین نے ناواقف لوگوں کو مغالطہ دینے کی خاطر بدنما پیرایوں اور صورتوں میں انبار کے انبار لٹریچر تیارکرکے اس کو مفت تقسیم کیا ہے حالانکہ اسلامی عقائد کی معقولیت میں ذرہ بھی شک و شبہ نہیں ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ نے معترض کے الفاظ ’’عقائد اسلام پر عقلی نظر‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ عقائد اسلامی کا جائزہ لینے کے لیے معترض نے عقل کو معیار بنایاہے حالانکہ عقل بجائے خود ایک ایسی قوت ہے کہ جب تک تجربہ صحیحہ، تاریخ صحیح اور الہام صحیح اس کے ساتھ نہ ہوں کوئی صحیح فیصلہ نہیں کرسکتی۔

نیز لکھا کہ معترض کی کتاب کا مطالعہ بتارہا ہے کہ وہ عقائد اسلام کی معقولیت پر بحث کرنے کی بجائے نفس مضمون کو چھوڑ کر فِیْ کُلِّ وَادٍ یَھِیْمُوْن کا مصداق ہورہا ہے۔ مثلا ًاسلام کا پہلا اصل اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ایک ہے۔ معترض کو چاہیے تھا کہ اس اصل پر عقلی بحث لاتے کہ یہ صحیح نہیں ہے اور قرآن کریم کے دلائل کو توڑتےلیکن معلوم پڑتا ہے کہ معترض نے تو اپنے ٹریکٹ کا نام رکھنے میں ہی بڑی غلطی کھائی ہے ۔

اس کتاب میں مصنف نے معترض کے شبہ کے ازالہ میں قرآن کریم کی تعلیم کی وجہ سے دنیا میں پھیلنے والے عقیدہ توحید باری تعالیٰ پر روشنی ڈالی ہے اور دیگر مذاہب میں موجود عناصر پرستی، بت پرستی اور دیگر اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے معترض کی تحریر کے سقم اور کتاب میں درج کردہ خلاف حقائق و واقعہ امورکے نمونے درج کیے ہیں۔

کتاب میں صفحہ ۱۱ سے ۱۶ تک سورۃ البقرۃ کی آیت اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃ کی درست تشریح کرکے معترض کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔

صفحہ ۱۷ سے ۲۲ تک آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دینے اور ابلیس کے سجدہ نہ کرنے پر وساوس کا ازالہ کیا ہے۔

صفحہ ۲۲ پر مسلمانوں میں غلام علی ، غلام رسول وغیرہ نام رکھنے پر اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اور اثنائے کلام صفحہ ۲۵ پر وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ پر طعن اور طنز کرنے پرمعترض پنڈت کی علمی کمزوری واضح کی ہے۔

صفحہ ۲۶ پر پنڈت کے اعتراض کہ ملائکہ سے خدمات لینا اور متفرق کام ان کے سپرد کرنا شرک میں داخل ہے کا جواب دیا گیا ہے۔ اور بتایا کہ ’’ہمارا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں، نہ فرشتوں کی، نہ آفتاب کی، نہ ماہتاب اور ستاروں کی۔ لیکن خداتعالیٰ نے اپنا قانون قدرت جو ہم پر ظاہر کیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قدرتوں کا اظہار توسط سے ہوتا ہے اور اس میں مصلحت اور سر یہ ہے کہ تا انسان میں علوم حقہ اور حکمت کی روشنی پھیلے اگر اسباب کا توسط درمیان میں نہ ہوتا تو نہ دنیا میں علم ہیئت ہوتا نہ طبعی نہ طبابت نہ علم نباتات اور نہ علم الہوا اور علم البرق کے وہ کرشمے ظاہر ہوتے جو آج ہورہے ہیں۔ اگر وسائط کا ہونا شرک ہے تو کیا یہ غلط ہے جو دیانندی آریہ کہتے ہیں کہ اگنی ، وایو، سورج انگرہ کی وساطت سے وید جیسا کلام الٰہی لوگوں کو پہنچا؟‘‘

کتاب کے آخری صفحہ پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب مصنف کتاب نے معترض کی زہر آلود باتوں اور اعتراضوں کا حقائق اور دلائل سے جواب لکھ کر فیصلہ پبلک پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ طرفین کے معیار اور مواد کا ملاحظہ کرکے خود سچ اور جھوٹ میں فیصلہ کرلیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button