از مرکز

عید کی حقیقی خوشی کیسے حاصل ہو۔ (خلاصہ خطبہ عیدالفطر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

(نمائندگان الفضل انٹرنیشنل، اسلام آباد، ٹلفورڈ، ۱۰؍اپریل ۲۰۲۴ء) امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج مورخہ یکم شوال ۱۴۴۵ھ بمطابق ۱۰؍اپریل ۲۰۲۴ء بروز بدھ مسجد مبارک اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں نمازِعید پڑھائی اور معرکہ آرا خطبۂ عید الفطر ارشاد فرمایا۔ برطانیہ بھر کے مختلف شہروں نیز بعض دیگر ممالک سے بھی احمدی احباب اپنے پیارے امام کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ گیارہ بج کرایک منٹ پر مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز عید کی امامت کروائی۔ حضورِ انور نے سنت نبیﷺ کی پیروی میں پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ جبکہ دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمائی۔

گیارہ بج کر تیرہ منٹ پر حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کا تحفہ عنایت فرما کر خطبۂ عید کا آغاز فرمایا۔

خلاصہ خطبہ

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللّہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللّہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم عید منا رہے ہیں۔ اللّہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ایک اور عید دیکھیں۔ عید کی حقیقی خوشی تو ہمیں اس وقت پہنچ سکتی ہے جب ہم اللّہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے اس کے انعاموں سے فیض پانے والے ہوں۔ رمضان کے دوران سینکڑوں لوگوں نے مجھے یہ بات لکھی کہ ہم رمضان میں وہ عمل کریں جن سے خدا راضی ہو جائے۔ اس کے لیے ہر احمدی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کوشش بھی کی ہوگی۔ اللّہ تعالیٰ ان سب کوششوں کو قبول فرمائے آمین۔ اللّہ تعالیٰ ہم پر اتنا مہربان ہے کہ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے کے لیے مختلف مواقع فراہم کرتا رہتا ہے۔ رمضان کا مہینہ ان میں سے ایک ہے۔ اس میں رحمت کا عشرہ بھی ہے، پھر مغفرت کا عشرہ ہے اور پھر آگ سے نجات کا عشرہ بھی ہے۔ پس اللّہ تعالیٰ تو اس طرح انعام دینے والا ہے۔ اگر ہم رمضان سے فیض نہ اٹھائیں تو یہ ہماری کمزوری ہے۔ پس آج ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ جو حالات اللّہ تعالیٰ نے ہماری بہتری کے لیے ایک خاص ماحول مہیا فرما کر میسر فرمائے تھے اور ہر ایک نے ان سے فیض اٹھانے کی کوشش کی تھی، جس میں حقوق اللّہ بھی تھے، حقوق العباد کی ادائیگی بھی تھی اور اپنے نفس کی اصلاح بھی تھی، اسے ہم نے اب جاری رکھنا ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے صرف رمضان المبارک میں دس دن کے لیے رحمت کے دروازے نہیں کھولے تھے۔ بلکہ اس نے اس رحمت کو پھر مغفرت پانے کا ذریعہ بنا دیا تھا۔ رحمت کیا چیز ہے؟ اس کا مطلب ہے انتہائی رحم اور انتہائی ہمدردی کا جذبہ۔ انتہائی نرمی کا سلوک۔ غلطیوں کو معاف کرنا اور ان سے صرفِ نظر کرنا۔ یہ ہے رحمت۔پس ایسی رحمت کو پانے کی خواہش ہر انسان کی ہوگی اور جب یہ خواہش ہے تو پھر اپنی زندگیوں کو بھی ہمیں ایسے ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ ہم مغفرت کے دروازے میں داخل ہوجائیں۔ یہ سب تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم ہمیشہ اللّہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کریں۔ جب یہ کوشش ہوگی تب ہی انسان آگ سے بچ سکتا ہے۔ شیطان تو ہمیں دنیا و آخرت کی آگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے اعمال ایسے بجا لانے ہوں گے جن سے خدا راضی ہو۔ نیکیوں کے ذریعے اپنے اعمال کو سجانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ آج کل جو دنیا کے حالات ہیں اس پر تو ہمیں خاص طور پر اللّٰہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اس سے قرب کا تعلق استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل ہر طرح کی آگ نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ ایسے میں خدائے ذوالعجائب سے پیار کی بہت ضرورت ہے۔عید پر صرف عید کی خوشیوں میں مصروف نہ ہو جائیں بلکہ آج بھی ذکرِ الٰہی اور استغفار کی طرف بہت توجہ کریں۔ آج ہم یہاں عید منا رہے ہیں مگر ایسے لوگ بھی ہیں جن پر شیطانوں نے زمین تنگ کی ہوئی ہے۔ جن کو رہنے کو چھت تو کیا کھانے کو روٹی بھی میسر نہیں۔ پس ایسے میں نہ صرف خود اللّہ تعالیٰ کے شکر گزار بنیں بلکہ ان محروموں کو بھی دعا میں یاد رکھیں۔ آج کی نیکیوں میں یہ بھی سرِ فہرست نیکی ہے کہ ایسے فلاحی اداروں کی مدد کی جائے جو ان جنگ زدہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسے محروموں کی مدد کرکے جو ان کے چہروں پر خوشی دیکھ کر تسکین ہوتی ہے وہی عید کی حقیقی خوشی ہے۔ حضرت خلیفۃ المیسح الاول فرماتے ہیں کہ جس طرح اللّہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحم کرتا اور شفقت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتا ہے تم بھی اس کی مخلوق کے ساتھ سچی محبت اور حقیقی شفقت کرو۔ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللّہ تعالیٰ ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم اللّہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے حقوق اللّہ کے ساتھ حقوق العباد ادا نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دور جارہے ہوں گے اور اگر یہ کریں گے تو ہماری مغفرت کے سامان بھی ہورہے ہوں گے اور ہم شیطان کے چنگل سے نکل کر اپنے آپ کو آگ سے بھی محفوظ کر رہے ہوں گے اور یہی وہ حقیقی عید ہے جو ایک مومن چاہتا ہے۔تقویٰ کا ایک اہم جزو حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی عید کھانے پینے اور خوشیاں منانے کا نام نہیں ہے بلکہ تقویٰ پر چلتے ہوئے حقوق اللّہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا نام ہے۔ یہ مقام جس کو حاصل ہوجائے اور جو اس مقام کے حصول کے لیے کوشش کرے وہی حقیقی عید سے فیض پاسکتا ہے۔اللّہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’’اور جو بھی ایمان لایا اور نیک عمل کیے تو اس کے لیے جزا کے طور پر بھلائی ہی بھلائی ہے اور ہم ضرور اس کے لیے آسانی کا فیصلہ کریں گے۔‘‘ جس کے لیے اللّہ تعالیٰ آسانی کا فیصلہ کردے تو اسے اور کیا چاہیے۔ لیکن ایمان میں مضبوطی اور نیک اعمال اللّہ تعالیٰ نے شرط رکھی ہے۔ پس آج ہمیں یہ مقام حاصل کرنے کا عہد اور دعا کرنی چاہیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حقیقی نیکی کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان ہو کیونکہ مجازی حکام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پسِ پردہ کسی کا کیا فعل ہے۔۔۔ پس درستی اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا ہونا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میں اس کی نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اس کے سینے کے بھیدوں کا شاہد ہو پس یہ بات ہر مومن کے دل میں ہمیشہ ہونی چاہیے کہ خدا میری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے۔ جب یہ کیفیت ہو تو انسان خدا کی پناہ میں آتا ہے مگر یاد رہے کہ اس کے حصول کے لیے مستقل استغفار کی ضرورت ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اس فیض کو پھر کبھی ختم نہیں ہونے دے گی جو مستقل عید کا سامان کرتی ہے۔

نیکی کیا چیز ہے اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا۔ یاد رکھو کہ نیکی کیا چیز ہے۔ شیطان ہر ایک راہ میں لوگوں کی راہزنی کرتا اور انہیں بھٹکاتا ہے۔۔۔ اگر رکابی جس میں تازہ اور لذیذ کھانا رکھا ہے، کھانا شروع نہیں کیا اگر فقیر کی صدا پر نکال دیتا ہے تو یہ نیکی ہے۔ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ دنیا میں بھوک کا کیا حال ہے۔ سوڈان میں بچے اپنے کپڑے بیچ کر ایک وقت کی روٹی کھا رہے ہیں۔ فلسطین میں کہتے ہیں کہ جتنی کیلوریز چاہیے ہوتی ہیں اس کا دسواں حصہ بھی انہیں میسر نہیں ہے۔ یہ ان کا حال ہے جنہیں کھانا مل رہا ہے جو بھوکے مر رہے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ پس ایسے میں عید کی خوشیاں منانے میں غریبوں کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہی حقیقی عید ہے۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے پس یہ امر ذہن نشین کرلو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ نص صریح ہے کہ لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون۔ جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہیں کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہوسکتے ہو۔پھر آپ علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ انسان کے لیے دو باتیں ضروری ہیں بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے۔ نیکی کے دو پہلو ہیں ایک ترکِ شر دوسرا افاضہ خیر۔ ترکِ شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا جب تک اس کے ساتھ افاضہ خیر نہ ہو یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں جب خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان ہو اور ان کا علم ہو۔ جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا دوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے۔بعض لوگ باہر تو بڑے اچھے اخلاق دکھاتے ہیں مگر گھروں میں ان کے فساد ہورہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات ان کے اچھے اعمال کو ضائع کر دیتی ہے۔ اس لیے بیوی اور اس کے رشتے داروں کا خیال رکھنا، اپنے رحمی رشتے داروں کا خیال رکھنا، اپنے دوستوں کا خیال رکھنا، اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا، یہ بہت ضروری ہے۔ اس بارے میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بڑی نصیحت فرمائی ہے۔اللّہ تعالیٰ کی تو دلوں پر نظر ہے۔ اگر اس طرح نیک اعمال بجا لائیں گے تو رمضان کی حقیقی برکات سے مستفید ہونے والے بنیں گے اور عید کی حقیقی خوشیاں پانے والے بنیں گے۔ اللّہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے ایمان میں مضبوط ہوں اور وہ اعمال حسنہ ہم سے سرزد ہوتے چلے جائیں جو اللّہ تعالیٰ کے فضل اور قرب کو کھینچنے والے ہوں۔ آپ سب کو عید مبارک ہو۔ دنیا میں بسنے والے تمام احمدیوں کو عید مبارک ہو۔ دعا میں پاکستان کے احمدیوں کو یاد رکھیں۔ اسیران راہ مولیٰ کو یاد رکھیں۔ پاکستان کے احمدی مسلسل ابتلا و امتحان سے گزر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اللّہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کو بچائے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ جلد ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے آمین۔ اسیران کی جلد رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔ یمن کے اسیران کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔ کافی مشکل میں ہیں وہ لوگ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں احمدیت کی وجہ سے، یا کسی بھی وجہ سے مشکلات میں گھرے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں اور ہر مظلوم اور معصوم کے لیے دعا کریں۔ شہدائے احمدیت کے خاندانوں کے لیے دعا کریں۔ بورکینا فاسو کے شہداء اور ان کے لواحقین کو بھی خاص طور پر یاد رکھیں۔ آج کل پھر دشمن کی بورکینا فاسو کے احمدیوں پر نظر ہے۔ خاص طور پر ڈوری کے علاقے میں جہاں ہمارے آٹھ شہید ہوئے تھے، وہاں دوبارہ مشکوک لوگ دیکھے گئے ہیں۔ رمضان میں مالی قربانی کرنے والوں کے لیے بھی دعا کریں۔ امت مسلمہ کے لیے دعا کریں اللّہ تعالیٰ ان کے افتراق کو دور فرمائے۔ اللّہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی عید کی خوشیاں عطا کرے۔ دنیا کے ظالم حکمرانوں کا جلد خاتمہ کرے اور انصاف پسند راہ نما دنیا کوملیں۔ آمین

خطبہ ثانیہ کے اختتام پر گیارہ بج کر ۴۹؍ منٹ پر حضورِ انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور ایک مرتبہ پھر عید مبارک کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعد ازاں حضورپُرنور نے اسلام آباد میں اُن مقامات کا راؤنڈ فرمایا جہاں پر عید ادا کی گئی تھی اور احباب و خواتین و بچگان نے اپنے پیارے امام ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دیدار کرنے کی سعادت پائی۔ آج کے روز اسلام آباد میں 3300 سے زائد احباب و خواتین نے حضور انور کی اقتدا میں نماز عید ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔

ادارہ الفضل کی جانب سے امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ، تمام افراد جماعتہائے احمدیہ عالمگیراور امّتِ مسلمہ کوعید مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب امام کے ارشاد پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ عید حقیقی اور دائمی خوشیاں لانے والی ہو۔ آمین

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍ اپریل ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button