سیرت النبی ﷺمتفرق مضامین

بیوت/حجرات ازواج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

(’ن۔ الف۔ رفیق‘)

رسول مقبول ﷺ کے مکانات دنیاوی بادشاہوں کی طرح سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھروں سے مزین نہیں تھے بلکہ وہ بھی اپنی ذات میں سادگی کی ایک منہ بولتی تصویر تھے اور کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے

قرآن کریم اور صحاح ستہ میں رسول اللہﷺ کی ازواج کے گھروں کے لیے درج ذیل الفاظ استعمال ہوئےہیں۔

۱۔حجرہ، ۲۔بيت، ۳۔دار، ۴۔منزل، ۵۔ مسکن

ان الفاظ کے لغوی معانی درج ذیل ہیں:

حجرہ کے لغوی معانی:۱۔گھر کی زیریں منزل میں واقع کمرہ،۲۔جانوروں کا باڑہ،۳۔ کمرہ، گھر کا ایک حصہ (المعجم الوسيط، زیر لفظ حجرہ)

بیت کے لغوی معانی: ۱۔رہنے کی جگہ(المعجم الوسيط، زیر لفظ بیت)۲۔قبر، ۳۔بزرگی، عزت(الرائد، زیر لفظ بیت )

دار کے لغوی معانی:۱۔رہنے کی جگہ، ۲۔شہر، ملک۳۔قبیلہ( معجم الوسيط، زیر لفظ الدار )

منزل کے لغوی معانی: ۱۔ اترنے کی جگہ ،۲۔ گھر(الرائد)

مسکن کے لغوی معانی: مسکن:گھر (الرائد، زیر لفظ مسکن)

بيوت النبیﷺکا ذکر قرآن کریم میں

۱۔وَقَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی (سورۃ الاحزاب:۳۴) (اے نبی کی بیویو!)اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کرو۔

۲۔ وَاذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالۡحِکۡمَۃِ (الاحزاب :۳۵)اور یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے۔

۳۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰٮہُ ۙ وَلٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَلَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَاللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ وَاِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَقُلُوۡبِہِنَّ(الاحزاب:۵۴) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے مگر اس طرح نہیں کہ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے ہو لیکن (کھانا تیار ہونے پر) جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہو اور جب تم کھاچکو تو منتشر ہوجاؤ اور وہاں (بیٹھے) باتوں میں نہ لگے رہو۔ یہ (چیز) یقیناً نبی کے لئے تکلیف دہ ہے مگر وہ تم سے (اس کے اظہار پر) شرماتا ہے اور اللہ حق سے نہیں شرماتا۔ اور اگر تم اُن (ازواجِ نبی) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ (طرزِ عمل) ہے۔

۴۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ( الحجرات: ۵)یقیناً وہ لوگ جو تجھے گھروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں اکثر ان میں سے عقل نہیں رکھتے۔

ازواج نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے گھروں کا محل وقوع

رسول کریمﷺ ۱۱؍ہجری ربیع الاول کے مہینہ میں اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ آپﷺ نے نو بیویاں چھوڑیں اور ان میں سے ہر ایک کا الگ گھر تھا جس میں وہ رہائش پذیر تھیں۔ مورخین ازواج نبی کے گھروں میں سے صرف پانچ کے محل وقوع کا تعین کرنے میں متفق ہیں۔ یعنی حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن کے حجرات۔ ان کے علاوہ دیگر حجروں کے محل وقوع کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے۔

امام ابن حجر عسقلانی نے ان گھروں کے بارے میں ایک عمومی ذکر کیا ہے ان کی کوئی معین سمت بیان نہیں کی۔آپ اپنی کتاب فتح الباری میں تحریر کرتے ہیں:نبیﷺ کی ازواج کے گھر مسجد کے دروازوں کے ارد گرد تھے۔(فتح الباري لابن حجر العسقلاني جزء ٤ بَاب هَلْ يَخْرُجُ الْمُعْتَكِفُ لِحَوَائِجِهِ إِلَى بَابِ الْمَسْجِدِ)

لیکن بعض اور روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ گھر مسجد نبوی کے جنوبی، مشرقی اور شمالی جانب واقع تھے۔

علامہ ابن زبالہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ کے گھر (مسجد کے) قبلہ (جنوب)، مشرق اور شمال کی طرف پھیلے ہوئے تھے، ان میں سے کوئی بھی مسجد کے مغربی طرف نہیں تھا۔(اخبار المدينة لابن زباله صفحہ ۹۴-۹۳)

علامہ ابن نجار بیان کرتے ہیں:علماء سیر بیان لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حجرات مشرقی جانب سے شمال کی طرف اور قبلہ کے درمیان بنوائے، مغربی جانب نہیں بنوائے، یہ حجرات مسجد کی مغربی جانب کے علاوہ باقی ہر طرف پھیلے تھے، اور ان سب کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ (الدرة الثمينة في أخبار المدينة لابن النجار الجزء الاول صفحہ ٩٠، الباب الثاني عشر في ذكر مسجد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم وفضله، ذكر حجر أزواج النبي صلى اللّٰه عليه وسلم)

تاریخ

علامہ ابن نجار بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے اپنی مسجد تعمیر فرمائی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے بھی دو حجرے تعمیر فرمائے، ان حجروں کی تعمیر مسجد کی تعمیر کی طرز پر کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے فرمائی اور جب رسول اللہﷺ نے دیگر ازواج مطہرات سے عقد نکاح فرمایا تو ان ازواج مطہرات کے لیے الگ الگ حجرات تعمیر فرمائے اور یہ کل نو گھر تھے۔ بعض روایات سے یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے گھر مسجد نبوی کے قرب میں تھے۔ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیا عقد نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ بن نعمانؓ اپنا گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیتے۔(الدرة الثمينة في أخبار المدينة لابن النجار الجزء الاول صفحہ ٩٠، الباب الثاني عشر في ذكر مسجد النبي الله وفضله، ذكر حجر أزواج النبي )

علامہ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ محمد بن عمر نے بیان کیا:حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے گھر مسجد نبویﷺ کے قرب میں اور اس کے ارد گرد واقع تھے، جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نیا نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ بن نعمانؓ اپنا گھر آپﷺ کو پیش کر دیتے، یہاں تک کہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ کے سارے گھر ہی رسول اللہﷺ اور آپ کی ازواج کے گھر ہو گئے۔(الطبقات الكبرىٰ لابن سعد الجزء الثامن صفحہ ١٦٦، ذكرَ مَنَازِلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

بیوت ازواج نبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا مسجد میں شامل کیا جانا

۸۸ھ میں ولید بن عبد الملک نے امیر مدینہ حضرت عمر بن عبد العزیز کو خط لکھا جس میں اس نےانہیں مسجد نبویؐ کی توسیع اور ازواج مطہراتؓ کے گھروں کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ خلیفہ ولید بن عبد الملک نے ازواج مطہرات کے حجرات کو منہدم کر کے مسجد میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے، تو اس وقت ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔

عمران بن ابو انس بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت موجود تھا جب ولید بن عبد الملک کا خط پڑھا جارہا تھا جس میں ازواج نبیﷺ کے حجرات کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، میں نے انہیں (اہل مدینہ )کو اس دن سے بڑھ کر کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا۔(الطبقات الكبرىٰ لابن سعد الجزء الثامن، صفحہ ١٦٧ ذكر مَنَازِلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دن (یعنی جس دن حجرات گرائے گئے ) سعید بن مسیب کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم میں یہ چاہتا تھا کہ ان حجرات کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا، تا کہ اہل مدینہ اور باہر سے زیارت کے لیے آنے والے لوگ دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ میں کس قدر کم سے کم پر اکتفا فرمایا تھا۔ سو یہ چیز لوگوں کو مال و متاع کی کثرت پر فخر کرنے سے روکتی۔(الطبقات الكبرىٰ لابن سعد الجزء الثامن، صفحہ ۲۷ ا ذكر مَنَازِلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں:کاش کہ ان (حجرات ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا جاتا اور گرایا نہ جاتا، یہاں تک کہ لوگ عمارتیں بنانے میں کمی کرتے اور دیکھ لیتے کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا پسند کیا جبکہ دنیا کے خزائن کی چابیاں اس کے ہاتھ میں تھیں۔ (الطبقات الكبرىٰ لابن سعد، الجزء الثامن صفحہ ۱۲۷، ذكرُ مَنَازِلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم)

بیوت ازواج النبیؐ کا ر قبہ و وسعت

رسول کریمﷺ نے اپنے رہنے کے لیے کوئی عالی شان محل تعمیر نہیں کروائے، بلکہ کچی اینٹوں اور کھجورکی شاخوں سے بنے ہوئے مکان تھے جن کا رقبہ چند فٹ سے زیادہ نہ تھا۔

امام بخاری نے داؤد بن قیس سے روایت بیان کی ہےکہ میں نے ان حجروں کو دیکھا ہے۔ یہ کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے، بیرونی جانب سے انہیں بالوں کی ٹاٹ سے ڈھانپا ہوا تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ حجرہ کے دروازے سے گھر کے دروازے تک چوڑائی تقریباً چھ سات ہاتھ ہو گی۔ اور گھر کے اندرونی حصہ کے عرض کے متعلق میرا اندازہ ہے کہ وہ دس ہاتھ تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ اس کی اونچائی سات آٹھ ہاتھ کے قریب قریب تھی۔ ان حجروں کی چھتوں کی بلندی بھی بس اتنی ہی تھی کہ ایک آدمی انہیں ہاتھ لگا کر چھو سکتا تھا۔(الأدب المفرد لمحمد بن إسماعيل البخاري، صفحہ ۲۳۰ باب التطاول في البنيان)

امام حسن بصری بیان کرتے ہیں: میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں نبی صلیﷺ کی ازواج کے گھروں میں جایا کرتا تھا، اور میں ان کی چھت کو اپنے ہاتھ سے چھو لیتا تھا۔(الأدب المفرد بالتعليقات لمحمد بن إسماعيل البخاري باب التطاول في البنيان)

بیوت ازواج نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی فن تعمیر

رسول مقبولﷺ کے مکانات دنیاوی بادشاہوں کی طرح سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھروں سے مزین نہیں تھے بلکہ وہ بھی اپنی ذات میں سادگی کی ایک منہ بولتی تصویر تھے اور کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے۔

عبد اللہ بن یزید بدلی سے روایت ہے:جب امیر مدینہ حضرت عمر بن عبد العزیز، ولید بن عبد الملک کی خلافت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے گھروں کو منہدم کر رہے تھے اور انہیں مسجد میں شامل کر رہے تھے، اس وقت میں نے ان گھروں کو دیکھا وہ کچی اینٹوں کے بنے ہوئے تھے اور ان کے حجرے کھجور کے تنوں کے تھے جن پر مٹی کالیپ کیا ہوا تھا۔ میں نے انہیں گنا تو یہ نو گھر تھے، جن کے حجرے بھی تھے۔ اور میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر اور حجرہ کو بھی دیکھا جو کچی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ میں نے ان کے پوتے سے پوچھا؟ تو اس نے بیان کیا کہ جب رسول اللہﷺ غزوہ دومۃ الجندل کی طرف گئے، تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا حجرہ کچی اینٹوں سے بنوالیا، جب رسول اللہﷺ واپس تشریف لائے، تو اپنی بیویوں میں سے سب سے پہلے حضرت ام سلمہ کے گھر گئے۔ رسول اللہﷺ نے ان اینٹوں کی طرف دیکھا تو فرمایا: یہ کیسی تعمیر ہے ؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : اے اللہ کے رسولؐ!میں نے لوگوں کی نظروں سے حفاظت کے ارادہ سے ایسا کیا۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا : اے ام سلمہ بے شک سب سے بڑی چیز جس میں مسلمان کا مال ضائع ہوتا ہے وہ تعمیرات ہیں۔(الطبقات الكبرىٰ لابن سعد الجزء الثامن صفحہ ١٢٦ ذكر منازِلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

عطاء خراسانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حجرات دیکھے وہ کھجور کے تنوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں کے بنے ہوئے پردے تھے۔(الطبقات الكبرىٰ لابن سعد الجزء الثامن ذكر مَنَازِلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button