اچھی ہمسائیگی کا معیار کیا ہے؟
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
پھر ہمسایوں سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ اگر ہمسایوں کی حقیقت سمجھ کر پھر ان کے حق ادا کرنے کی انسان کوشش کرے تو دنیا سے فساد ہی ختم ہو جائے اور ایک مومن کے لیے حقیقی عید تو ہے ہی اس وقت جب دنیا سے فساد ختم ہو۔ ہمسائے کی کیا تعریف ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ سَو کوس تک بھی تمہارے ہمسائے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد7صفحہ 280) سو میل تک ارد گرد تمہارے جو لوگ ہیں وہ تمہارے ہمسائے ہیں۔ اس تعریف کے تحت کوئی ہمسائیگی سے باہر نہیں رہتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے پڑوسی تمہاری تعریف کریں تو تم اچھے پڑوسی ہو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الثناء الحسن حدیث نمبر 4222)
پس یہ اچھی ہمسائیگی کا معیار اور یہ وہ معیار ہے جس سے معاشرے میں محبت اور پیار قائم ہوتا ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ ہم مذہب ہے یا غیر مذہب والا ہے بلکہ بعض لوگ تو میں نے دیکھے ہیں کہ یہاں اپنے غیر مذہب ہمسایوں سے زیادہ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اپنے احمدیوں سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ یہ رنجشیں بھی عید کے حوالے سے ہمیں دُور کرنی چاہئیں۔
(خطبہ عیدالفطر فرمودہ ۲؍مئی ۲۰۲۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍جنوری۲۰۲۳ء)
اس آیت [(النساء: ۳۷)]میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں ،عزیزوں ، رشتہ داروں، اپنے جاننے والوں، ہمسایوں سے حسن سلوک کرو،ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طورپر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتاہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ۔اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا…تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گاجس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسر ے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق اسی جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔ اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت،اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے،اس پر عمل کر رہاہوگا۔آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ ستمبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍نومبر۲۰۰۳ء)