از افاضاتِ خلفائے احمدیتحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

روحانی فیض اٹھانے کے لیے رحمان خدا کی طرف توجہ اور اُس کا خوف ضروری ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍جنوری ۲۰۰۷ء)

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ وَخَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِۚ فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ وَّاَجۡرٍ کَرِیۡمٍ۔(یٰس:12)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر، مختلف حوالوں سے اپنی صفت رحمانیت کی شان بیان فرمائی ہے۔ جیساکہ مَیں پہلے بھی ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ رحمٰن کا کیا مطلب ہے، کیونکہ اس کو چار پانچ ہفتے گزر گئے ہیں اس لئے مختصراً دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمٰن سے مراد ایسی رحمت، مہربانی اور عنایت ہے جو ہمیشہ احسان کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی صفت کی وجہ سے بلا تمیز مذہب و قوم ہر انسان کو اپنے اس احسان سے فیض پہنچا رہا ہے بلکہ ہر جاندار اس سے فیض حاصل کر رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر یک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسبِ فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 450 حاشیہ نمبر 11)

آپؑ نے مزید کھول کر فرمایا کہ جاندار کی ضروریات اس کی فطرت کے مطابق جو بھی ہیں ان کو مہیا فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی مزید وضاحت ہو گئی۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ’’دوسری خوبی خداتعالیٰ کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضانِ عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورۂ فاتحہ میں الرحمٰن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رُو سے خداتعالیٰ کا نام رحمٰن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی۔ یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ، جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں۔ پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزارہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تاوہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں۔ پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی۔ ہاں انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے۔ اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدارحمٰن ہے۔‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 248-249)

پس یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور عطا فرمایا ہے، اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت رحمانیت کی وجہ سے اس کے آگے جھکے رہنے والا بنا رہنا چاہئے۔ لیکن عملاً انسان اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔ انسانوں کی اکثریت اپنے خدا کی پہچان سے بھٹکی ہوئی ہے۔ فیض اٹھاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ اپنی رحمانیت کے صدقے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے جو لوگوں کو بشارت بھی دیتے ہیں، ڈراتے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر نیک اعمال کی طرف راہنمائی بھی کرتے ہیں۔ اس کی عبادت کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔ لیکن اکثریت اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ اور پھر اس بات پر نبی اپنے دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں کہ قوم کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ اور سب سے زیادہ تنگی ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کی۔ جس پر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ(الشعراء:4) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لے گا کہ یہ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ پس آپؐ کا یہ احساس آپؐ کے اس مقام کی وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمۃ للعالمین بنا کے بھیجاتھا۔ اور یہ آپﷺ کی فطرت کا خاصہ تھا۔ بہرحال یہ رحمان خدا کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ دنیاوی ضرورتیں بھی بِن مانگے پوری کرتا ہے اور روحانی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ پھر اگر کوئی ان کی قدر نہ کرے، ان کو نہ پہچانے، ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو ایسے لوگ پھر خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ نبی کی تعلیم اور نبی کا درد ایسے لوگوں کے کسی کام نہیں آتا۔ پس روحانی فیض اٹھانے کے لئے رحمٰن خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری ہے۔ اسی لئے آپﷺ کی حالت دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ وَخَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ وَّاَجۡرٍ کَرِیۡمٍ (یٰس:12) تُو صرف اسے ڈرا سکتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرتا ہے اور رحمٰن سے غیب میں ڈرتا ہے۔ پس اسے ایک بڑی مغفرت کی اور معزز اجر کی خوشخبری دے دے۔

پس اللہ تعالیٰ جو رحمان ہے، اپنے بندے پر انعام و احسان کے لئے ہر وقت تیار ہے۔اس نے اپنے انعامات کے ساتھ خوبصورت تعلیم اور نصیحت بھی لوگوں کے سامنے رکھ دی اور فرمایا کہ تمہارے اوپر زبردستی کوئی نہیں اگر ان احسانوں کو یاد کرکے جو مَیں تم پر کرتا ہوں میری نصیحت پر عمل کرتے ہو، غیب میں بھی میرے پہ ایمان کامل ہے تو ان احسانوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں انعامات مزید بڑھیں گے، مزید خوشخبریاں ملیں گی جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر ڈھانپے رکھے گی اور اس سے تم اللہ تعالیٰ کے مزید قریب ہونے والے بنو گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button