احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مسجد اقصیٰ کی دوسری توسیع
مسجد اقصیٰ کی دوسری توسیع 1910ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی۔ اس وقت اصل مسجد کی عمارت کو اور صحن کو جنوبی جانب اس قدر بڑھا دیا گیا کہ وہ دوگنی سے بھی کچھ بڑی ہو گئی پہلی پرانی مسجد کے تین در تھے۔ اس توسیع کے ساتھ پانچ دروں کا مزید اضافہ ہوا۔اس کے سامنے ہی لکڑی کے ستونوں کا ایک برآمدہ بھی تعمیر ہوا جس کی چھت ٹین کی تھی۔بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ برآمدہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بنایا گیا تھا جس زمانہ میں منار ۃ المسیح کی تکمیل کا کام جاری تھا جو کہ 1914ء سے 1916ء کا درمیانی عرصہ بنتا ہے۔ (بحوالہ مرکزاحمدیت قادیان صفحہ55)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد کی توسیع کے وقت ہی مسجد کے پیچھے ایک حجرہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جس کی تعمیر میں قادیان کے لوگوں نے ’’وقارعمل‘‘ کے طورپر حصہ لیا۔ یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے خود بھی اپنے ہاتھ سے مٹی کی ٹوکریاں اٹھائیں۔اسی طرح مسجدکے نچلے حصہ میں تین کمرے تعمیرکیے گئے جوکہ قدرے ایک دوسرے سے بڑے ہیں۔( بحوالہ مرکزاحمدیت قادیان صفحہ56)
تیسری توسیع؛ بعہدمبارک خلافت ثانیہ
تیسری باقاعدہ توسیع تو حضرت مصلح موعودؓ کے عہد مبارک میں 1938ء میں ہی ہوئی لیکن اس سے قبل 1934ء میں مسجدکاوہ برآمدہ جوٹین کابناہواتھا۔اس کواتارکراس کی جگہ پختہ اینٹوں کابرآمدہ بنادیاگیااوران ٹین کی چادروں سے مسجدکی شمالی جانب جہاں وضوکرنے کی ٹونٹیاں لگی ہوئی تھیں چھت ڈال دی گئی۔ (بحوالہ مرکزاحمدیت قادیان صفحہ56)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں تیزی سے ترقی ہورہی تھی اور حضرت اقدس ؑکوہونے والاالہام وَسِّعْ مَکَانَکَ جماعتی تاریخ میں ہمیشہ سے اس طرح پوراہوتارہاہے کہ یوں لگتاہے کہ مہمانوں اور جماعتی ضرورتوں کے لیے کوئی مسجد،جلسہ گاہ یالنگرخانہ وغیرہ ادھرتعمیرختم نہیں ہوتی کہ وہی جگہ چھوٹی پڑنی شروع ہوجاتی ہے۔اورخدائی تقدیرگویاعملی رنگ میں گویاہورہی ہوتی ہے کہ وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْهَا إِنَّ اللّٰہَ لَغَفُورٌ رَّحِيْمٌ(النحل:19)
اوراب یہ توسیع شدہ مسجداقصیٰ بھی چھوٹی ہونی شروع ہوگئی تھی۔اس پرحضرت مصلح موعودؓ نے مسجدکی توسیع کے لیے مزیدجگہ خریدنے کا منصوبہ بنایا۔ مسجداقصیٰ شمالی جانب مزیدبڑھ نہیں سکتی تھی۔غربی جانب بھی قدرے دقت طلب منصوبہ ہوسکتاتھا۔اس لیے اس وقت کے محل وقوع کے اعتبارسے جنوبی جانب ہی ایک آسان پراجیکٹ ہو سکتاتھاگوکہ اس میں بھی رہائشی مکانات حائل تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جنوبی جانب کے تین مکان خریدفرمائے ان تین میں سے دوتوہندوؤں کی ملکیت تھے اور ایک مکرم سردارمحمدیوسف صاحب ایڈیٹراخبارنورکاتھا۔اوریوں یہ سارا رقبہ مسجدکی جنوبی جانب توسیع کے لیے استعمال کرلیاگیا۔ مسجدچونکہ اونچی تھی اورپہلے جہاں تک بنی ہوئی تھی ا س کے آگے گلی آجاتی تھی اس لیے مسجدکے صحن کوپہلے والے صحن کے برابرکرنے کے لیے نیچےکمرے بنائے گئے اورگلی پرچھت ڈال دی گئی جس طرح شمالی جانب ٹین کی چھت لگائی گئی تھی۔اس طرف بھی ایک حصہ تک ٹین کی چھت بنائی گئی تاکہ بارش اوردھوپ سے بچاجاسکے۔یہ توسیع 12؍اپریل 1938ء کوخداکے حضورعاجزانہ دعاؤں کے ساتھ شروع ہوئی۔چنانچہ اس کے متعلق الفضل میں شائع ہونے والی خبریہ ہے:’’قادیان 12؍اپریل، الحمدللہ مسجداقصیٰ کی توسیع جس کی دیرسے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔خداتعالیٰ کے فضل سے شروع کردی گئی ہے۔یہ توسیع مسجدکی جنوبی جانب ان مکانات کوگراکرکی گئی ہے۔ جوصدرانجمن احمدیہ نے اسی غرض سے خریدے تھے آج دس بجے صبح حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس نئے حصہ کی بنیادرکھی۔حضورسوانوبجے ہی تشریف لے آئے اورتوسیع مسجد کانقشہ ملاحظہ فرمانے کے بعد دیرتک حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ سے گفتگوفرماتے رہے۔ حضرت میرمحمداسحاق صاحب،جناب مولوی عبدالمغنی خان صاحب اورجنا ب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے۔مقامی احباب کثیرتعداد میں اس مبارک تقریب پرجمع تھے۔دس بجے کے قریب حضورنے مغربی کونہ میں خشت بنیادرکھی۔بنیادکے لئے چندچھوٹی اینٹیں جوحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانۂ مبارک کی تھیں اورمسجداقصیٰ کی چھت کی ایک برجی سے علیحدہ کی گئیں لائی گئیں۔بنیاد رکھنے کے وقت حضورکے ارشاد سے حافظ محمدرمضان صاحب نے بآوازبلند قرآن کریم کی وہ دعائیں بارباردہرائیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادرکھتے وقت اللہ تعالیٰ سے کیں۔اس کے بعد حضورنے مجمع سمیت لمبی دعافرمائی۔‘‘ (روزنامہ الفضل قادیان،جلد26نمبر85، 14؍اپریل 1938ء صفحہ 2 کالم نمبر1)
چوتھی توسیع؛بعہدمبارک خلافت خامسہ
اوراب خلافت خامسہ کے تاریخی دورمیں قادیان میں بھی متعددنئی عمارات، اور دفاتر بنانے کے ساتھ ساتھ پرانی عمارتوں کی توسیع اور بحالی کاکام بھی بہت وسیع پیمانے پراورانتہائی سرعت سے ہورہاہے۔جس میں مسجداقصیٰ کی خوبصورت اور عالی شان توسیع بھی شامل ہے۔
قادیان کے ان امورکی نگرانی ہمارے امام ہمام کی ہدایات کے تابع مکرم ومحترم فاتح احمد ڈاہری صاحب وکیل تعمیل وتنفیذ بھارت،نیپال،بھوٹان،فرماتے ہیں۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء
2008ء میں مسجداقصیٰ کی توسیع اس کی شرقی جانب اس طرح سے ہوئی کہ ڈپٹی شنکرداس کی حویلی سمیت شرقی جانب کی تعمیرات کوگراتے ہوئے تین منزلہ ایک خوبصورت عمارت تیارکرکے مسجداقصیٰ کے ساتھ شامل کردی گئی۔پانچویں
توسیع؛بعہدمبارک خلافت خامسہ
جون 2015ء میں ایک بار پھرمسجداقصیٰ کی توسیع کافیصلہ کیاگیا۔
مسجداقصیٰ کون سی مسجدہے ؟
مسجد مبارک ہی حضرت مسیح موعود ؑ کی مسجد اقصیٰ ہے
(حضرت میرمحمد اسماعیل صاحب کے قلم سے)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’مسجد اقصیٰ سےمراد مسیح موعود کی مسجد ہےجو قادیان میں واقع ہے۔ جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔ مبارکٌ ومبارِکٌ وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا۔ قرآن شریف کی آیت بارکنا حولہکے مطابق ہے۔‘‘(اشتہارمنارۃ المسیح 1900ء)
اس حوالہ سے قطعی طور پر ثابت ہےکہ مسجد اقصیٰ اس مسجد کا نام ہےجسےمسجد مبارک کہتےہیں۔ اور جس کی بابت اللہ تعالیٰ کی یہ وحی موجود ہے۔
(1)من دخلہ کان اٰمنًا
(2)مبارک ومبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ
(3)بیت الذکر
(4)فیہ برکات للناس
اس وقت اس ساری تحریرکا یہ مطلب ہےکہ کسی غلطی کی وجہ سےبڑی مسجد کوجسےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود نہیں بنوایا تھابلکہ حضورؑ کے والد صاحب مرحوم نے بنوایا تھا اور جس کی بابت کوئی الہام حضور نے بیان نہیں فرمایا۔ لوگ مسجد اقصیٰ کہنے لگ گئے اور پھر یوں ہوا کہ اس مسجد کی پیشانی پر بھی’’مسجد اقصیٰ ‘‘ کا نام حال میں لکھوادیا گیا۔ چونکہ یہ ایک تاریخی غلطی ہے اور آئندہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان اور آپ کی وحی کے صریح مخالف ہے اس لیے لازم ہے کہ مسجد اقصیٰ کا لفظ جامع مسجد کی پیشانی سے مٹادیاجائے تاکہ آئندہ آنے والوں کے لیے غلطی کا موجب نہ ہو۔
میری اس تجویز کے متعلق بعض اصحاب کا یہ خیال ہےکہ وہ مسجد بھی شعائر اللہ میں داخل ہے۔ میں مانتا ہوں بلکہ یہ بھی مانتا ہوں کہ قادیان کی ہراینٹ شعائر اللہ میں داخل ہے۔ اور دنیا کی ہر مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے۔ مگر شعائر میں بھی آپس میں فرق ہوتاہے۔ یہاں شعائر کا سوا ل نہیں بلکہ نام کے صحیح یا غلط ہونے کا سوا ل ہے۔ یعنی یہ کہ حضور علیہ السلا م نے کس مسجد کو مسجد اقصیٰ کہا ہے۔ بڑی مسجد کویا مسجد مبارک کو۔ آپ حضور علیہ السلام کی تحریر میں کہیں بھی اس مسجد کا نام مسجد اقصیٰ نہ پائیں گے بلکہ اسے ہمیشہ بڑی مسجد یا جامع مسجد کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ غرض اس کی اصلاح ضروری ہے۔
دوسرا خیال یہ پیش کیا گیاہے کہ آخر کچھ مدت کے بعد دونوں مسجدیں آپس میں مل جائیں گی۔ اس لئے کوئی حرج نہیں کہ یہ نام اسی طرح لگا رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ دونوں مسجدیں ہرگزہرگز نہیں ملیں گی۔ بلکہ ان کا ملانا خطرناک نتائج پید اکرے گا۔ وجہ یہ کہ بڑی مسجد مسجد مبارک کے مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس لئے دونوں کے ملانے کے بعد اس طرح کا نقشہ ہو جائے گا۔
پھر کیاہوگا؟ یہ ہوگا کہ امام اور نمازی سب بڑی مسجد کے قبلہ کی طرف والےحصہ میں نماز پڑھا کریں گے۔اور مسجد مبارک والا حصہ یابالکل خالی رہےگا یا صفوں، لوٹوں اور جوتیوں کے رکھنے کے لیےاستعما ل ہوگا۔کیونکہ وہ حصہ بالکل پیچھے اور جنوب مشرقی کونے میں ہوگا۔اور سوائے کثرت ہجوم یا جلسہ کے دنوں کے وہاں کوئی باجماعت نماز نہ ہوگی۔ اور خادم مسجد لوگوں کو بتایا کرے گا کہ یہاں سابق بیت الذکر یا مسجد مبارک ہوا کرتی تھی۔ پس خدا نہ کرے وہ دن آئے۔ کہ مسجد مبارک کو بڑی مسجد سے مدغم کیاجائے۔یا بلفظ دیگر مسجد مبارک کو مسجد مبارک رہنے سے ہی محروم کردیاجائے۔ہاں دونوں مسجدوں کی اپنےاپنے طورپرتوسیع ہو سکتی ہے۔
میرا اپنا عقیدہ تو یہ ہے کہ مسجد مبارک کا وہ حصہ جو حضور علیہ السلام نے خود بنایا ہے وہی ان انعامات کا مورد اوروہی برکات کا مرکز ہے۔ وہ حصہ جو 1906ء میں بعد میں شامل ہواباوجود اس کے کہ حضور نے اس میں نمازیں پڑھیں پھر بھی اس درجہ کو نہیں پہنچتا۔ جو اصلی حصہ کو حاصل ہے کیونکہ جب امن اور برکت کی وحی نازل ہوئی تھی تو وہ حصہ اس وقت موجود نہ تھا۔ اور اسے بعد میں انجمن نے چندہ کرکےبنایاتھا۔ نہ کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے۔
پس اصلی چیز بیت الذکرہے اور باقی حصّہ اس کی فرع۔ اور غالباً یہ ہماری غلطی ہو گی کہ سب حصوں کی عظمت کو برابر سمجھا جائے۔ یا دونوں مسجدوں کو یکساں خیال کرکےکسی کو کسی میں ملا کر وسیع کرلیاجائے۔ ہاں اگر ایسی وسعت کی ضرورت پڑےجس سے مسجد مبارک خطرہ میں ہوتو نئی جمعہ مسجد قادیان سےباہر بننی چاہیے۔ یا مسجد نور کو ہی حسب ضرورت بڑھایا جاسکتا ہے۔(الفضل قادیان جلد 24نمبر 69مورخہ19؍ستمبر 1936ء صفحہ 9-10)