حضرت مصلح موعود ؓسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سیرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام از تحریرات پسرِ موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

انسان کے گھر کے افراد، اُس کے بچے اس کی شخصیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ بچہ نہایت کُند ذہن ہو کوئی ماں باپ اپنے بچے سے اپنی اندرونی شخصیت کو چھپا نہیں سکتے خواہ وہ شخصیتیں لاکھ جعل اور فریب کے پردوں میں لپٹی ہوئی کیوں نہ ہوں۔ ذیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی زبانی اپنے والد محترم حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کے چند پہلو درج ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی سیرت و سوانح اور آپؑ کا ذکرِ خیر اگر اکٹھا کیا جائے تو یقیناً نوبت سینکڑوں صفحات تک پہنچے گی، یہاں ان ارشادات میں سے ایک انتخاب بطور برکت پیش کیا جاتا ہے جن سے ایک قاری کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ایک ذہین و فہیم بیٹا اپنے عظیم الشان والد کو گہرے اندرونی مشاہدہ کے بعد اور لمبے عرصہ پر پھیلے ہوئے ظاہر و باطن آثار کے مطالعہ کے نتیجہ میں مخلص، صادق القول اور حق پرست یقین کرتا تھا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

احمد علیہ السلام جو سلسلہ احمدیہ کے بانی تھے ، آپ کا پورا نام غلام احمد تھا اور آپ قادیان کے باشندے تھے۔ جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ میل امرت سر سے چوبیس میل اور لاہور سے ستاون میل جانب مشرق پر ایک قصبہ ہے۔

آپ کا خاندان اپنے علاقہ کا ایک معزز خاندان تھا۔اور اس کا سلسلہ نسب برلاس سے جو امیر تیمور کا چچا تھا ملتا تھا۔

آپ علیہ السلام اپنے والد کےعروج کے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ کیونکہ اس وقت ان کو جاگیر کے بعض مواضع اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی خدمت کی وجہ سے اچھی عظمت حاصل تھی۔ لیکن منشائے الہٰی یہ تھا کہ ایک ایسے رنگ میں پرورش پائیں جس میں آپؑ کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو ۔ اس لیے آپ کی پیدائش کے چند سال بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی سکھ حکومت پر زوال آگیا اور اس زوال کے ساتھ آپ کے والد صاحب بھی مختلف تفکرات میں مبتلا ہو گئے۔ اور آخر الحاق پنجاب کے موقع پر ان کی جائداد ضبط ہو گئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جاگیر واپس نہ لے سکے۔چنانچہ خود حضرت مرزا صاحبؑ اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لیے سعی کی ہے کہ اگر میں وہ سعی دین کے لیے کرتا تو آج شاید قطب وقت یا غوث وقت ہوتا۔اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔۔۔

عمر بگذشت و نماند است جز ایامے چند

بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند

بچپن میں عبادت الٰہی کا شوق

اس تحریر سے جو حضرت مرزا صاحب ؑ نے اپنے والد کی اس حالت کے متعلق لکھی ہے جس میں آپ کے زمانہ طفولیت اور جوانی کے وقت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی تھی کہ جس کی وجہ سے دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہی نہ ہونے پائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کی دنیاوی حالت اس وقت بھی ایسی تھی کہ وہ دنیاوی لحاظ سے معز ز و ممتاز کہلاتے تھے ۔ اور حکام ان کا ادب و لحاظ کرتے تھے ۔ لیکن پھر بھی ان کا دنیا کے پیچھے پڑنا اور اپنی ساری عمر اس کے حصول کے لیے خرچ کر دینا لیکن پھر بھی اس کا اس حد تک ان کوحاصل نہ ہونا جس حد تک کہ وہ اس پر خاندانی حق خیال کرتے تھے اس پاک دل کو جو اپنے اندر کسی قسم کی میل نہ رکھتا تھا یہ بتادینے کے لیے کافی تھا کہ دنیا روزے چند و آخرت با خداوند۔چنانچہ اس نے اپنی بچپن کی عمر سے اس سبق کو ایسا یاد کیا کہ اپنی وفات تک نہ بھلایا اور گو دنیا طرح طرح کے خوبصورت لباسوں میں اس کے سامنے آئی اور اس کو اپنے رستہ سے ہٹا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے کبھی اس طرف التفات نہ کی۔اور اس سے ایسی جدائی اختیار کی کہ پھر اس سے کبھی نہ ملا۔

غرض مرزا صاحب کو اپنی بچپن کی عمر سے ہی والد صاحب کی زندگی میں ایک ایسا تلخ نمونہ دیکھنے کا موقعہ ملا کہ دنیا سے آپ کی طبیعت سرد ہو گئی اور جب آپ بہت ہی بچے تھے تب بھی آپ کی تمام تر خواہشات رضائے الٰہی کے حصول میں ہی لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ آپ کے سوانح نویس شیخ یعقوب علی صاحب آپ کے بارہ میں ایک عجیب واقعہ جو آپ کی نہایت بچپن کی عمر کے متعلق ہے تحریر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہوگئی کہا کرتے تھے کہ

‘‘نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے’’۔

اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت بچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے ۔ اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا۔ اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سےآپ کے اندر پیدا ہو گئی تھی کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کا پورا کرنے والا خدا کو ہی سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اس پر موقوف جانتے تھے۔ نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی جاننا اور پھر ایسے گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بھی دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیاکی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لیے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو نہیں نکل سکتی۔

ملازمت اور پیروی مقدمات اور خدا تعالیٰ کی تائیدات

قریباً چار سال آپ سیالکوٹ میں ملازم رہے لیکن نہایت کراہت کے ساتھ۔ آخر والد صاحب کے لکھنے پر فورًا استعفیٰ دے کر واپس آگئے اور اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت ان کے زمینداری مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ لگتا تھا۔ چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اس لیے والد صاحب کا حکم تو نہ ٹالتے تھےلیکن اس کام میں آپ کا دل ہر گز نہ لگتا تھا۔چنانچہ ان دنوں کے آپ کو دیکھنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرے پر بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شاید فتح ہو گئی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار گئے ہیں۔ جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا منشائےالہٰی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہو گئی ہے یاد الہٰی میں رہنے کا موقعہ ملے گا۔

یہ زمانہ آپ کا عجیب کشمکش کا زمانہ تھا ۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ یا تو زمینداری کے کام میں مصروف ہوں یا کوئی ملازمت اختیار کریں اور آپ ان دونوں باتوں سے متنفر تھے۔

ان سفروں میں جو آپ کو ان دنوں مقدمات میں کرنے پڑتے آپ ایک وقت کی نماز بھی بے وقت نہ ہونے دیتے بلکہ اپنے اوقات پر نماز ادا کرتے بلکہ مقدمات کے وقت بھی نماز کو ضائع نہ ہونے دیتے۔

چنانچہ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ آپ ایک ضروری مقدمہ کے لیے جس کا اثر بہت سے مقدمات پر پڑتا تھا اور جس کے آپ کے حق میں ہو جانے کی صورت میں آپ کے بہت سے حقوق محفوظ ہو جاتے تھے ۔ عدالت میں تشریف لے گئے اس وقت کوئی ضروری مقدمہ پیش تھا اس میں دیر ہوئی اور نماز کا وقت آگیا ۔ جب آپ نے دیکھا کہ مجسٹریٹ تو اس مقدمہ میں مصروف ہے اور نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے تو آپ نے اس مقدمہ کو خدا کے حوالہ کیا اور خود ایک طرف جا کر وضو کیا اور درختوں کے سایہ تلے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ جب نماز شروع کر دی تو عدالت سے آپ کے نام پر آواز پڑی آپ آرام سے نماز پڑھتے رہے اور بالکل اس طرف توجہ نہ کی ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو یقین تھا کہ مقدمہ میں فریق مخالف کو ڈگری مل گئی ہو گی کیونکہ عدالت کا قاعدہ ہے کہ جب ایک فریق حاضر عدالت نہ ہو تو فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری دی جاتی ہے ۔ اسی خیال میں عدالت پہنچے ۔ چنانچہ جب عدالت میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔لیکن چونکہ فیصلہ عدالت معلوم کرنا ضروری تھا جا کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے جو ایک انگریز تھا کاغذات پر ہی فیصلہ کر دیا اور ڈگری آپ کے حق میں دی۔اور اس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی طرف سے وکالت کی۔

محنت اور جفا کشی کی عادت

باوجود اس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سست ہر گز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور پیادہ پا بیس پچیس کوس کا سفر طے کر کے منزل مقصود پر پہنچ جاتے بلکہ اکثر اوقات آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے تھے۔
اور یہ عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی۔ ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں اکثر روزانہ ہوا خوری کے لیے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے ۔ اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے۔ اور بڑھاپے سے پہلے آپ کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اٹھ کر سیر کے لیے چل پڑتے تھےاور وڈالہ تک پہنچ کر (جو بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریبا ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے )صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا۔

آپ کے والد کی وفات

آپ کی عمر تقریباً چالیس سال کی تھی۔جب کہ 1876ءمیں آپ کے والد صاحب یک دفعہ بیمار ہوئے اور گو ان کی بیماری چنداں خوفناک نہ تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نےبذریعہ الہام بتایا کہ
وَالسَّمَاءِ وَ الطَّارِقِ(تذکرہ صفحہ 24ایڈیشن چہارم)

یعنی رات کے آنے والے کی قسم تو کیا جانتا ہےکہ کیا ہے رات کو آنے والااور ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ اس الہام میں آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی ہے جو کہ بعد مغرب واقعہ ہوگی۔

الہامات میں سے یہ پہلا الہام ہے جو آپ کو ہوا اور اس الہام کے ذریعہ سے گویا خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ آپ کو بتایا کہ تیرا دنیاوی باپ فوت ہوتا ہےلیکن آج سے میں تیرا آسمانی باپ ہوتاہوں۔

آپ(حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا ۔ اور چونکہ ہماری معاش کا اکثر وجوہ انہی کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے ۔ اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے جو ان کی حیات سے مشروط تھی اس لیے یہ خیال گزرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا۔اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے۔ اور یہ ساراخیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل سے گزر گیا تب اسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس الہام الہٰی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے۔ جب مجھ کو الہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ تو میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔

تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوامل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے (انکی 1951ء میں وفات ہوئی ۔مرتب کنندہ) وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ انکو سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اسکو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے۔ اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لیے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جاوے۔

چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ تیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہے ۔

آپؑ کا مجاہدہ ایثار اور خدمت اسلام

انہی ایام میں آپ کو بتایا گیاکہ الٰہی انعامات حاصل کرنے کے لیے کچھ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ آپ کو روزے رکھنے چاہئیں۔ اس حکم کے ماتحت آپ نے متواتر چھ ماہ روزے رکھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کا کھانا جب گھر سے آتا تو آپ بعض غرباء میں تقسیم کر دیتے اور جب روزہ کھول کر گھر سے کھانا منگواتے تو وہاں سے صاف جواب ملتا۔ اور آپ صرف پانی پر یا اور کسی ایسی ہی چیز پر وقت گزار لیتے اور صبح پھر آٹھ پہرہ ہی روزہ رکھ لیتے غرض یہ زمانہ آپ کے لیے بڑے مجاہدات کا زمانہ تھا جسے آپ نے نہایت صبر و استقلال سے گزارا۔سخت سے سخت تکالیف کے ایام میں بھی اشارۃً اور کنایۃً کبھی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کی تحریک نہیں کی۔

نہ صرف روزوں کے دنوں میں بلکہ یوں بھی آپ کی ہمیشہ عادت تھی کہ ہمیشہ کھانا غرباء میں بانٹ دیتے تھے اور بعض دفعہ ایک چپاتی کا نصف جو ایک چھٹانک سے زیادہ نہیں ہوسکتا آپ کے لیے بچتا اور آپ اسی پر گزارہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ صرف چنے بھنوا کر کھا لیتے اور اپنا کھانا سب غرباء کو دے دیتے۔ چنانچہ کئی غریب آپ کے ساتھ رہتے تھے اور دونوں بھائیوں کی مجلسوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ایک بھائی کی مجلس میں سب کھاتے پیتے آدمی جمع ہوتے تھے اور دوسرے بھائی کی مجلس میں غریبوں اور محتاجوں کا ہجوم رہتا تھاجن کو وہ اپنی قلیل خوراک میں شریک کرتا تھا اور اپنی جان پر ان کو مقدم کر لیتا تھا۔

انہی ایام میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کوشش شروع کی اور مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ میں اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے جن کی وجہ سے آپ کا نام خود بخود گوشہ تنہائی سے نکل کر میدان شہرت میں آگیا لیکن آپ خود اس گوشہ تنہائی ہی میں تھے اور خود باہر کم نکلتے تھے ۔ بلکہ مسجد کے ایک حجرہ میں جو صرف 5×6 فٹ کے قریب لمبا اور چوڑا تھا رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی ملنے کے لیے آجاتا تو مسجد سے باہر نکل کر بیٹھ جاتے یا گھر میں آکر بیٹھے رہتے ۔ غرض اس زمانہ میں آپ کا نام تو باہر نکلنا شروع ہو ا لیکن آپ باہر نہ نکلے بلکہ اسی گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کرتے۔

ان مجاہدات کے دنوں میں آپ کو کثرت سے الہامات ہونے شروع ہو گئے اور بعض امور غیبیہ پر بھی اطلاع ملتی رہی۔جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے ۔اور آپ کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتے۔اور آپ کے دوست جن میں بعض ہندو اور سکھ بھی شامل تھے ان باتوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے۔ پہلے تو آپ نے صرف اخبارات میں مضامین دینے شروع کیے لیکن جب دیکھا کہ دُشمنان اسلام اپنے حملوں میں بڑھتے جاتے ہیں اور مسلمان ان حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا ہو رہے ہیں تو آپ کے دل میں غیرتِ اسلام نے جوش مارا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی کے ماتحت مامور ہو کر ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تحریر فرمائیں جس میں اسلام کی صداقت کے وہ اصول بیان کیے جائیں جن کے مقابلہ سے مخالفین عاجز ہوں اور آئندہ ان کو اسلام کے مقابلہ کی جرأت نہ ہو اور اگر وہ مقابلہ کریں تو ہر ایک مسلمان ان کے حملہ کو ردّ کر سکے۔چنانچہ اِس ارادہ کے ساتھ آپ نے وہ عظیم الشان کتاب لکھنی شروع کی جو براہین احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی نظیر کسی انسان کی تصانیف میں نہیں ملتی۔ جب ایک حصہ مضمون کا تیار ہو گیا تو اُس کی اشاعت کے لیے آپ نے مختلف جگہ پر تحریک کی اور بعض لوگوں کی امداد سے جو آپ کے مضامین کی وجہ سے پہلے ہی آپ کی لیاقت کے قائل تھے اُس کا پہلا حصہ جو صرف اشتہار کے طور پر تھا شائع کیا گیا۔اس حصہ کاشائع ہونا تھا کہ مُلک میں شور پڑ گیا اور گو پہلا حصہ صرف کتاب کا اشتہار تھا لیکن اس میں بھی صداقت کے ثابت کرنے کے لیے ایسے اصول بتائے گئے تھے کہ ہر ایک شخص جس نے اسے دیکھا اس کتاب کی عظمت کا قائل ہو گیا۔اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ اگر وہ خوبیاں جو آپ اسلام کی پیش کریں گے وہی کسی اور مذہب کا پیرو اپنے مذہب میں دکھا دے یا ان سے نصف بلکہ چوتھا حصہ ہی اپنے مذہب میں ثابت کر دے تو آپ اپنی سب جائیداد جس کی قیمت دس ہزار روپے کے قریب ہوگی اسے بطور انعام کے دیں گے (یہ ایک ہی موقع ہے جس میں آپ نے اپنی جائیداد سے اس وقت فائدہ اُٹھایا اور اسلام کی خوبیوں کے ثابت کرنے کے لیے بطور انعام مقرر کیا تا کہ مختلف مذاہب کے پیروکسی طرح میدانِ مقابلہ میں آجائیں اور اس طرح اسلام کی فتح ثابت ہو۔)یہ پہلا حصہ 1880ء میں شائع ہوا۔ پھر اس کتاب کا دوسرا حصہ 1881ء میں اور تیسرا حصہ 1882ء اور چوتھا 1884ء میں شائع ہوا۔ گو جس رنگ میں آپ کا ارداہ کتاب لکھنے کا تھا وہ درمیان میں ہی رہ گیا کیونکہ اس کتاب کی تحریر کے درمیان میں ہی آپ کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ آپ کے لیے اشاعت اسلام کی خدمت کسی اَور رنگ میں مقدّرہے لیکن جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا وہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کے دوست دشمن سب کو آپ کی قابلیت کا اقرار کرنا پڑا اور مخالفین اسلام پر ایسا رُعب پڑا کہ ان میں سے کوئی اس کتاب کا جواب نہ دے سکا ۔

سلمانوں کو اس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ وہ بِلا آپ کے دعویٰ کے آپ کو مجدد تسلیم کرنے لگے اور اس وقت کے بڑے بڑے علماء آپ کی لیاقت کا لوہا مان گئے ۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اس وقت تمام اہلِ حدیث وہابی فرقہ کے سربراہ تھے اور وہابی فرقہ میں ان کو خاص عزت حاصل تھی اور اسی وجہ سے گورنمنٹ کے ہاں بھی ان کو عزت تھی انہوں نے اس کتاب کی تعریف میں ایک لمبا آرٹیکل لکھا اور بڑے زور سے اس کی تائید کی اور لکھا کہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں ایسی کتاب کوئی نہیں لکھی گئی۔

کثرت الہام اور غیب کی خبریں اور آپؑ کے بھا ئی صاحب کی وفات

اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض الہامات بھی لکھے ہیں جن میںسے بعض کا بیان کر دینا یہاں مناسب ہوگا کیونکہ بعد کے واقعات سے ان کے غلط یا درست ہونے کا پتہ لگتا ہے:

‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔’’(تذکرہ صفحہ 104) ’’یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ۔ وَیَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔’’، ‘‘ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’(تذکرہ صفحہ10 ایڈیشن چہارم)

یہ وہ الہامات ہیں جو براہین احمدیہ 1884ء میں شائع کیے گئے تھے جبکہ آپ دنیا میں ایک کسمپرس آدمی کی حالت میں تھے لیکن اس کتاب کا نکلنا تھا کہ آپ کی شہرت ہندوستان میں دُور دُور تک پھیل گئی اور بہت لوگوںکی نظریں مصنف براہین احمدیہ کی طرف لگ گئیں کہ یہ اسلام کا کشتی بان ہوگا اور اسے دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا اور یہ خیال ان کا درست تھا لیکن خدا تعالیٰ اسے اور رنگ میں پورا کرنے والا تھا اور واقعات یہ ثابت کرنے والے تھے کہ جو لوگ ان دنوں اس پر جان فدا کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے وہی اس کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے اور ہر طرح اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور آپ کی قبولیت کسی انسانی امداد کے سہارے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے زبردست حملوں کے ذریعہ سے مقدّر تھی۔

1884ء میں آپ کے بھائی صاحب بھی فوت ہو گئے اور چونکہ وہ لاولد تھے اس لیے ان کے وارث بھی آپ ہی تھے لیکن اس وقت بھی آپ نے ان کی بیوہ کی دلدہی کے لیے جائیداد پر قبضہ نہ کیا اور ان کی درخواست پر نصف حصہ تو مرز اسلطان احمد صاحب کے نام پر لکھ دیا جنہیں آپ کی بھاوج نے رسمی طور پر متبنیٰ قرار دیا تھا آپ نے تنبیت کے سوال پر تو صاف لکھ دیا کہ اسلام میں جائز نہیں لیکن مرزاغلام قادر مرحوم کی بیوہ کی دلدہی اور خبر گیری کے لیے اپنی جائیداد کا نصف حصہ بخوشی خاطر دے دیا اور باقی نصف پر بھی خود قبضہ نہ کیا بلکہ مدت تک آپ کے رشتہ داروں ہی کے قبضہ میں رہا۔

خلقِ خدا کا رجوع ۔دوسری شادی ۔ اعلانِ دعویٰ حقہ

بھائی صاحب کی وفات کے ڈیڑھ سال بعد آپ نے الہامِ الٰہی کے ماتحت دوسری شادی دہلی میں کی۔ چونکہ براہین احمدیہ شائع ہو چکی تھی اب کوئی کوئی شخص آپ کو دیکھنے کے لیے آنے لگا تھا اور قادیان جو دنیا سے بالکل ایک کنارہ پر ہے مہینہ دو مہینہ کے بعد کسی نہ کسی مہمان کی قیام گاہ بن جاتی تھی۔ اور چونکہ لوگ براہین احمدیہ سے واقف ہوتے جاتے تھے آپ کی شہرت بڑھتی جاتی تھی ۔ اور یہ براہین احمدیہ ہی تھی جسے پڑھ کر وہ عظیم الشان انسان جس کی لیاقت اور علمیت کے دوست دشمن قائل تھے اور جس حلقہ میں وہ بیٹھتا تھا خواہ یوروپین کا ہو یا دیسیوں کا اپنی لیاقت کا سکہ ان سے منواتا تھا آپ کا عاشق و شَیدا ہو گیا اور باوجود خود ہزاروں کا معشوق ہونے کے آپ کا عاشق ہونا اس نے اپنا فخر سمجھا ۔ میری مُراد استاذی المکرم حضرت مولانا نورالدین ؓ صاحب سے ہے جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت جموں میں مہاراجہ صاحب کے خاص طبیب تھے۔ انہوں نے وہاں ہی براہین احمدیہ پڑھی اور ایسے فریفتہ ہوئے کہ تا دمِ مرگ حضرت صاحب ؑ کا دامن نہ چھوڑا۔

غرض براہین احمدیہ کا اثر رفتہ رفتہ شروع ہوا اور بعض لوگوں نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ بیعت لیں لیکن آپ نے بیعت لینے سے ہمیشہ انکار کیا اور یہی جواب دیا کہ ہمارے سب کام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ حتیٰ کہ 1888ء کا دسمبر آگیا جب کہ آپ کو الہام کے ذریعے لوگوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا اور پہلی بیعت 1889ء میں لدھیانہ کے مقام پر جہاں میاں احمد جان نامی ایک مخلص تھے ان کے مکان پر ہوئی اور سب سے پہلے حضرت مولانا مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور اس دن چالیس کے قریب آدمیوں نے بیعت کی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ کچھ لوگ بیعت میں شامل ہوتے رہے۔لیکن 1891ء میں ایک اور تغیر عظیم ہوا یعنی حضرت مرزا صاحب کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ حضرت مسیح ناصری ؑ جن کے دوبارہ آنے کے مسلمان اور مسیحی دونوں قائل ہیں فوت ہو چکے ہیں اور ایسے فوت ہوئے ہیں کہ پھر واپس نہیں آ سکیں گے اور یہ کہ مسیح ؑکی بعثت ِ ثانیہ سے مراد ایک ایساشخص ہے جو ان کی خُوبُو پر آوے اور وہ آپ ہی ہیں۔ جب اس بات پر آپ کو شرح صدر ہو گیا اور بار بار الہام سے آپ کو مجبور کیا گیا کہ آپ اس بات کا اعلان کریں تو آپ کو مجبورًا اس کام کے لیے اٹھنا پڑا۔ قادیان میں ہی آپ کو یہ الہام ہو اتھا۔ آپ نے گھر میں فرمایا کہ اب ایک ایسی بات میرے سپرد کی گئی ہے کہ اب اس سے سخت مخالفت ہوگی اس کے بعد آپ لدھیانہ چلے گئے اور مسیح موعودہونے کا اعلان 1891ء میں بذریعہ اِشتہار کیا گیا۔

زندہ خدا

اب اگر میں یہ کہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے ماننے والوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیا تو ایک غیر احمدی کہے گا یہ آپ کا دعویٰ ہے۔ اسے حضرت مرزا صاحب کو نہ ماننے والا کس طرح تسلیم کر سکتا ہے۔ اس وجہ سے میں ایسی باتوں کو چھوڑتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے موٹے موٹے کام بیان کرتا ہوں جو دوسروں کے لیے بھی قابل تسلیم ہوں۔

پہلا کام

پہلا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ہے کہ جس میں تمام نبی شریک ہیں کہ نبی خدا تعالیٰ کا ثبوت اس کی کامل صفات سے دیا کرتا ہے خدا تعالیٰ دنیا سے مخفی ہوتا ہے اور انبیاء اس کا ثبوت اس کی کامل صفات سے دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس وقت بھی خدا تعالیٰ دنیا کی نظروں سے مخفی ہو چکا تھا۔ اور ایسا مخفی ہو چکا تھا کہ حقیقی تعلق لوگوں کا اس سے بالکل نہ رہا تھا۔ خالق اور مالک کی حقیقت کا کوئی ثبوت نہ تھا بلکہ یہ صرف کتابوں میں لکھا رہ گیا تھا کہ خدا ہر ایک چیز کا خالق اور مالک ہے۔ جب مسلمانوں سے پوچھا جاتا کہ خدا کے خالق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ تو وہ کہتے قرآن میں لکھا ہے، یا کہتے کیا تم نہیں مانتے کہ خدا خالق ہے۔ اور اگر وہ خالق نہیں تو پھر اور کون ہے؟ ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے ذکر کو جو حقیقت میں مٹ گیا تھا اس کی کامل صفات کے ذریعہ قائم کیا اور نشانات کے ذریعہ اس کی صفات کو ثابت کیا۔ میں نے ابھی بتایا تھا کہ نشان اپنی ذات میں کام نہیں ہوتا، ہاں نشان کا نتیجہ کام ہوتا ہے۔ اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات پیش نہیں کر رہا بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ حضرت مرزاصاحب نے نشان دکھا کر خدا تعالیٰ کو کامل صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا۔ مثلاً حضرت صاحب کا ایک الہام ہے جو ابتدائی زمانہ کا ہے کہ:

‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا’’

یہ الہام حضرت مرزا صاحب نے اس وقت شائع کیا جب کہ آپ کو یہاں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے۔ میرے زمانہ میں ہمارے ایک رشتہ دار نے جو قریب کے گائوں کے رہنے والے ہیں بیعت کی اور بتایا کہ میں یہاں آیا کرتا تھا۔ آپ کے گھر بھی آیا کرتا تھا لیکن حضرت مرزاصاحب کو نہ جانتا تھا۔ حضرت مرزا صاحب کے والد کو جانتا تھا۔ تو حضرت صاحب ایسے گمنام انسان تھے کہ رشتہ دار بھی آپ کو نہ جانتے تھے۔ قادیان کے لوگ آپ کے واقف نہ تھے۔ ایسے زمانہ میں آپ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا:

‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا’’

دیکھو اس میں کیسی عظیم الشان خبر دی گئی ہے۔ کیا کوئی انسان کسی انسانی تدبیر سے ایسی خبر دے سکتا ہے۔ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماموریت سے پہلے ہوا۔ جس میں ایک تو یہ پیشگوئی تھی کہ آپ زندہ رہیں گے اور ماموریت کا دعویٰ کریں گے۔ دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ جب آپ دعویٰ کریں گے تو دنیا آپ کو رد ّکر دے گی۔ تیسری پیشگوئی یہ تھی کہ دنیا کوئی معمولی مخالفت نہ کرے گی بلکہ آپ پر ہر قسم کے حملے کیے جائیں گے۔ چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ خدا کی طرف سے وہ حملے رد کیے جائیں گے اور دنیا پر عذاب نازل ہوں گے۔ پانچویں پیشگوئی یہ تھی کہ آپ کی صداقت آخر ظاہر ہو جائے گی۔

یہ کوئی معمولی باتیں نہیں جو قبل از وقت اور اس وقت جب کہ ظاہری حالات بالکل خلاف تھے، بتلائی گئی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحت شروع سے ہی اتنی کمزور تھی کہ بعض دفعہ بیماری کے حملوں کے وقت ارد گرد بیٹھنے والوں نے سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں۔ مگر باوجود اس کے آپ کہتے ہیں وہ زمانہ آنے والا ہے جب ماموریت کا دعویٰ کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ لوگ مخالفت کریں گے۔ یہ بات بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ گوجرانوالہ کے ضلع کا ایک شخص جس نے ماموریت کا دعویٰ کیا اس کے کئی خط میرے پاس آتے رہے کہ آپ اگر مجھے سچا نہیں سمجھتے تو میرے خلاف کیوں نہیں لکھتے۔ اور ‘‘الفضل’’کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ بھی کچھ نہیں لکھتا۔موافق نہیں تو خلاف ہی لکھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ مخالفت بھی خدا ہی کی طرف سے کرائی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی اشاعت کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ایسا ہی کڑالویوں کے رسالہ پر کئی دفعہ اس کے ایڈیٹر کی طرف سے لکھا ہوا ملا کہ میرا جواب کیوں نہیں دیا جاتا۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام

غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد پانچ سات مدعی کھڑے ہوئے مثلاً ظہیرالدین،عبداللطیف،مولوی محمد یار، عبداللہ تیماپوری، نبی بخش۔ یہ تو اشتہاری نبی ہیں ان کے علاوہ چھوٹے موٹے اور بھی ہیں مگر ان کی مخالفت بھی نہیں ہوئی اور ان کو یہ بات بھی میسر نہ آئی۔ ان مدعیوں نے کھڑے ہو کر دکھا دیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مرزا صاحب کی لوگوں نے مخالفت کی اس لیے وہ سچے نہیں وہ غلطی پر ہیں۔ جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو تو مخالفت بھی نصیب نہیں ہوتی۔

پھر مخالفتیں زبانی حد تک بھی محدود رہتی ہیں۔ مگر حضرت مرزا صاحب کے متعلق خداتعالیٰ نے تیسری پیشگوئی یہ فرمائی کہ معمولی مخالفت نہ ہوگی۔ بلکہ ایسی ہوگی جس کو رد کرنے کے لیے خداتعالیٰ زور آور حملے کرے گا۔ یعنی ایک تو سخت حملے ہوں گے دوسرے کئی اقسام کے ہوں گے اور کئی جماعتوں کی طرف سے ہونگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دشمن بھی سخت حملے کریں گے اور کئی اقسام کے حملے کریں گے۔ جن کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کو بھی اس قسم کا جواب دینا پڑے گا۔ چنانچہ مخالفین نے آپ پر قسم قسم کے حملے کیے اور یہ حملے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک طرف گورنمنٹ آپ کو گرفتار کرنے کے لیے تلی بیٹھی تھی دوسری طرف پیر گدی نشین اور مولوی آپ کی مخالفت پر آمادہ اور آپ کی جان کے درپے تھے۔ عام مسلمانوں نے بھی کوئی کمی نہ کی اور آپ کے خلاف منصوبوں پر منصوبے کیے۔ ہندوئوں، سکھوں اور عیسائیوں اور باقی سب قوموں نے بھی ناخنوں تک زور لگایا کہ آپ کو تباہ کر دیں، آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ پر اتہام لگائے گئے، آپ کی عزت و آبرو، آپ کی دیانت اور امانت، آپ کے تقویٰ و طہارت پر حملے کیے گئے مگر سب ناکام رہے اور آپ کی عزت بڑھتی گئی۔ چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ ان حملوں کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے حملے ہونگے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جس نے جس رنگ میں آپ پر حملہ کیا تھا اسی رنگ میں وہ پکڑا گیا۔ پانچویں پیشگوئی جو آخری بات تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی صداقت ظاہر کر دے گا۔ اس کے ثبوت میں یہ جلسہ موجود ہے اس وقت تمام دنیا میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں۔ امریکہ میں موجود ہیں۔ یورپ میں موجود ہیں۔ افریقہ میں موجود ہیں۔ ایشیا کے ہر علاقہ میں موجود ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا کے چالیس کروڑ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اتنے امریکہ کے باشندے مسلمان نہیں ہوئے جتنے احمدیوں کی قلیل ترین جماعت کی کوششوں سے ہوئے ہیں۔ اس وقت ایک ایسے امریکن مسلمان کے مقابلہ میں سو احمدی امریکن ہیں۔ اسی طرح ہالینڈ میں جہاں دوسرے مسلمانوں کا بنایا ہوا ایک بھی مسلمان نہیں، احمدی مسلمان موجود ہیں۔ اور کئی ایسے ممالک ہیں جہاں احمدی باشندوں کی تعداد اس ملک کے مسلمانوں سے زیادہ ہے یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ اور زور آور حملوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ظاہر ہونے کا کتنا بڑا ثبوت ہے۔

ہندوستان میں ہی دیکھ لو۔ دوسروں کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کی کیسی کمزور حالت ہے مگر کتنی ترقی کر رہی ہے۔ کسی نے کہا ہے سوامی دیانند اور حسن بن صباح کے ماننے والوں نے بھی ترقی کی تھی۔ انہوں نے ترقی کی ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ کیا کمزوری کی حالت میں انہوں نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ایسی ترقی ہوگی اور اس ترقی کے دعویٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع بھی کیا تھا۔ اتفاقی طور پر ترقی ہو جانا اَور بات ہے اور دعویٰ کے بعد ترقی ہونا اور بات ہے۔ لارڈریڈنگ جو وائسرائے ہند رہ چکے ہیں، پہلے مزدور تھے جو ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گئے۔ مگر یہ اتفاقی باتیں ہوتی ہیں۔ صداقت کی علامت وہ ترقی ہوتی ہے جس کا پہلے سے دعویٰ کیا جائے اور پھر وہ دعویٰ پورا ہو جائے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
‘‘میں تیری تبلیغ کو (زمین) کے کناروں تک پہنچائوں گا’’

اب دیکھ لو کہ دنیا میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں اصل باشندوں میں سے دوسرے فرقوں کے مسلمان نہیں مگر احمدی ہیں۔ اس سے بڑھ کر دنیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ کے پہنچنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔
اسی طرح آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میری مخالفت مٹتی جائے گی اور قبولیت پھیلتی جائے گی۔ جب آپ نے اپنا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا تو خطرناک طور پر آپ کی مخالفت ہوئی مگر اس وقت آپ نے فرمایا:

وہ گھڑی آتی ہے جب عیسیٰ پکاریں گے مجھے
اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن

اس وقت سوائے دجال کے آپ کا کوئی نام نہ رکھا جاتا تھا۔ لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا کام اتنا تو نمایاں ہو چکا ہے کہ جو لوگ ابھی آپ کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے ان کا بھی بہت بڑا حصہ کہتا ہے کہ آپ کو دجال نہیں کہنا چاہیےآپ نے بھی اچھا کام کیا ہے۔

اسی طرح قادیان کی ترقی بھی بہت بڑا نشان ہے آخری جلسہ میں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہوا، اس میں سات سو آدمی کھانا کھانے والے تھے۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لیے نکلے تو اس لیے واپس چلے گئے کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے گرد اڑتی ہے۔ اب دیکھو اگر سات ہزار بھی جلسہ پر آئیں تو شور پڑ جائے کہ کیا ہو گیا ہے کیوں اتنے تھوڑے لوگ آئے ہیں۔ ہر سال آنے والوں میں زیادتی ہوتی ہے۔ پچھلے سال کی ستائیس تاریخ کی حاضری کی نسبت اس سال کی حاضری میں نو سو کی زیادتی ہے۔ گویا جتنے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ پر آئے تھے اس سے بہت زیادہ آدمیوں کی زیادتی ہر سال کے جلسہ کی حاضری میں ہو جاتی ہے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہزاروں پیشگوئیاں ہیں جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔

میں جلسہ کے موقع پر ہی ایک کتاب دیکھ رہا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ ‘‘سراج منیر’’ ایک کتاب ہم شائع کریں گے مگر اس کی اشاعت میں تعویق ہوگئی ہے کیونکہ اس کے لیے سو روپیہ کی ضرورت ہے۔ گویا وہ کتاب جو ایک سو روپیہ کے لیے اس وقت رکی رہی۔ مگر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بلکہ آپ کے خلیفہ نے کہا تو دو لاکھ بیاسی ہزار کے وعدے ہو گئے۔
غرض خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اس طرح اپنی صفات کے ثبوت دیے ہیں جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں کے ذریعہ سے دیتا چلا آیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا دوسرا کام

نبی کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کام کرنے والی جماعت پیدا کر جاتا ہے۔ ہماری جماعت کی کمزوری مالی لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دیکھو اور پھر اس کے مقابلہ میں اس کے کاموں کی وسعت کو دیکھو۔ کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے وہ کوئی اور قوم نہیں کر رہی۔ غیر احمدی اخباروں میں چھپتا رہتا ہے کہ کام کرنے والی ایک ہی جماعت ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے۔ روس، فرانس، ہالینڈ، آسٹریلیا، امریکہ، انگلینڈ وغیرہ ممالک میں۔

حضرت مسیح موعودؑ کا تیسرا کام

تیسرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق لوگوں کے خیالات میں جو فساد پڑ گیا تھا، اس کی آپ نے اصلاح کی ہے۔ مذہب میں سب سے بڑی ہستی خدا تعالیٰ کی ہستی ہے۔ مگر اس کی ذات کے متعلق مسلمانوں میں اور دوسرے مذہبوں میں اتنا اندھیر مچا ہوا تھا اور ایسی خلاف عقل باتیں بیان کی جاتی تھیں کہ ان کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف کسی کو توجہ ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس خرابی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دور کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدائی وعدوں کے موافق ایک بھر پور اور کامیاب زندگی بسر کی۔ لیکن ہر انسان محدودعمر لے کراس دنیا میں آتا ہے۔

الرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ

…آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ لاہور تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ہو گئی اور چونکہ ملنے والوں کا ایک تانتا رہتا تھا اس لیے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا۔آپ ؑ اسی حالت میں تھے کہ الہام ہوا ‘‘الرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ’’ یعنی کُوچ کرنے کا وقت آگیا پھر کوچ کرنے کا وقت آگیا۔ اس الہام پر لوگوں کو تشویش ہوئی لیکن فورًا قادیان سے ایک مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اُس کے متعلق سمجھا اور تسلی ہو گئی لیکن آپؑ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے ایک بہت بڑے شخص کی نسبت ہے وہ شخص اس سے مراد نہیں۔ اس الہام سے والدہ صاحبہ نے گھبرا کر ایک دن فرمایا کہ چلو واپس قادیان چلیں۔ آپؑ نے جواب دیا کہ اب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں۔ اب اگر خدا ہی لے جائے گا تو جا سکیں گے۔ مگر باوجود اِن الہامات اور بیماری کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس بیماری ہی میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں صُلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے آپ نے ایک لیکچر دینے کی تجویز فرمائی اور لیکچر لکھنا شروع کر دیا اور اس کا نام ‘‘پیغام صلح ’’رکھا۔ اس سے آپؑ کی طبیعت اور بھی کمزرو ہو گئی اور دستوں کی بیماری بڑھ گئی۔ جس دن یہ لیکچر ختم ہونا تھا اُس رات الہام ہوا :

‘‘مکن تکیہ برعمرناپائیدار’’

یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا۔ آپ نے اسی وقت یہ الہام گھر میں سُنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے ۔ دن کو لیکچر ختم ہوا اور چھپنے کے لیے دے دیا گیا ۔ رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ہو گیا۔ والدہ صاحبہ کو جگایا ۔ وہ اُٹھیں تو آپ کی حالت بہت کمزور تھی۔ انہوں نے گھبرا کر پُوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا وہی جو میں کہا کرتا تھا (یعنی بیماری ٔ موت) اس کے بعد پھر ایک اور دست آیا اس سے بہت ضعف ہو گیا فرمایا مولوی نورالدین صاحب کو بلوائو (مولوی صاحب جیسا کہ اُوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے) پھر فرمایا کہ محمود (مصنف رسالہ ھذا ) اور میر صاحب (آپ ؑ کے خسر ) کو جگائو۔ میری چارپائی آپ کی چارپائی سے تھوڑی ہی دُور تھی۔ مجھے جگایا گیا اُٹھ کر دیکھا تو آپ کو کرب بہت تھا ۔ ڈاکٹر بھی آگئے تھے انہوں نے علاج شروع کیا لیکن آرام نہ ہوا ۔ آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات دی گئیں۔ اس کے بعد آپؑ سو گئے۔ جب صُبح کا وقت ہوا اُٹھے، اُٹھ کر نماز پڑھی۔ گلا بالکل بیٹھ گیا تھا کچھ فرمانا چاہا لیکن بول نہ سکے ۔ اس پر قلم دوات طلب فرمائی لیکن لکھ بھی نہ سکے۔ قلم ہاتھ سے چُھٹ گئی۔ اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑی دیر تک غنودگی سی طاری ہو گئی اور قریباً ساڑھے دس بجے دن کے آپ کی رُوح پاک اس شہنشاہِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی ساری عمر صَرف کر دی تھی اِنَّا لِلّہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔بیماری کے وقت صرف ایک ہی لفظ آپ کی زبان ِمبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا۔
آپ کی وفات کی خبربجلی کی طرح تمام لاہور میں پھیل گئی ۔ مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دے دی گئیں اور اُسی روز شام یا دوسرے دن صبح کے اخبارات کے ذریعہ کل ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر مِل گئی جہاں وہ شرافت جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتائو کرتے تھے ہمیشہ یاد رہے گی وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں بھُلائی جا سکتی جس کا اظہار آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا۔ لاہور کی پبلک کا ایک گروہ نصف گھنٹہ کے اندر ہی اس مکان کے سامنے اکٹھا ہو گیا جس میں آپ کا جسدِ مبارک پڑا تھا اور خوشی کے گیت گا گا کر اپنی کورباطنی کا ثبوت دینے لگا۔بعضوں نے تو عجیب عجیب سوانگ بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا۔

آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کاحال اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعشِ مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کے قبول کرنے کو تیار تھے کہ اپنے حواس کو تو مختل مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دُشوار و ناگوار تھا کہ ان کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے۔پہلے مسیح کے حواریوں اور اس مسیح کے حواریوں کی اپنے مُرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششدر تھے۔ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور اِن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت کیونکر ہوا۔آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبیین ہو کرآیا تھا اُس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت سے بھرا ہوا شعر کہا تھاکہ ؎

کُنْتَ السّوادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِی عَلَیْکَ النَّاظِرُ
مَنْ شآء بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

ترجمہ : کہ‘‘ تو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی۔ اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرے ہمیں اس کی پرواہ نہیں کیونکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے۔’’

آج تیرہ سَو سال کے بعد اُس نبیؐ کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشم فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اسے پہچان لیا تھاان کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہو گئی اور ان کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ سال گزر چکے ہیں ان کا یہی حال ہے اور خواہ صدی بھی گزر جائے مگر وہ ان کو کبھی نہیں بھول سکتے جبکہ خدا تعالیٰ کا پیار ا رسول ان کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔

درد انسان کو بے تاب کر دیتا ہے اور میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر کرکے کہیں سے کہیں چلا گیا۔ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے اسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کر روانہ ہوئی اور آپ کا الہام پورا ہوا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا کہ ‘‘اُن کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں’’۔

بٹالہ پہنچ کر آ پ کا جنازہ فورًا قادیان پہنچایا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا قادیان کی موجودہ جماعت نے (جن میں کئی سَو قائم مقام باہر کی جماعتوں کا بھی شامل تھا) بالاتفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حاجی نورالدینؓ صاحب بھیروی کو تسلیم کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح الوصیت کی وہ شائع شدہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ جیسے آنحضرتﷺ کے بعد حضرت ابو بکر ؓکھڑے کیے گئے تھے میری جماعت کے لیے بھی خدا تعالیٰ اسی رنگ میں انتظام فرمائے گا۔ اس کے بعد خلیفۂ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا یااور دوپہر کے بعد آپ دفن کیے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ ‘‘ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق’’جو 1902ء میں ہوا اور مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھاپورا ہوا۔ کیونکہ 26؍مئی کو آپ فوت ہوئے اور 27؍ تاریخ کو آپ دفن کیے گئے اور اس الہام کے ساتھ ایک اَور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے معنی واضح کر دیے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا ‘‘وقت رسید’’یعنی تیری وفات کا وقت آ گیا ہے۔
آپ کی وفات پر انگریزی و دیسی ہندوستان کے سب اخبارات نے باوجود مخالفت کے اس بات کا اقرار کیا کہ اس زمانہ کے آپ ایک بہت بڑے شخص تھے۔

ماخوذ از:

• سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام(حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

• حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے(حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

(مرتبہ : حسیب احمد ۔ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button