امام الزماں آخری آخری یہ زمیں آخری یہ زماں آخری ، اور امام الزماں آخری آخریاہلِ حق کے لئے ہے یہ بات آخری ، اِک چمکتا نشاں آخری آخری تاجدارِ حرم کے پرستار ہیں ، عشق و مستی میں مخمور و سرشار ہیںمانتے ہیں اُسے خاتَم الانبیاء ، رحمتِ دو جہاں آخری آخری ایک ہی دُھن ہے اپنی کہ پیغامِ حق لے کے پہنچیں زمیں کے کناروں تلکنیک فطرت ہے جو بھی ضرور آئے گا ہم نے دے دی اذاں آخری آخری راہِ حق سے کبھی بھی ہٹیں گے نہیں ، عہد و پیماں سے اپنے پھریں گے نہیںجب ضرورت پڑی جاں لُٹا دیں گے ہم ، لکھ لو میرا بیاں آخری آخری ہم جو بے گھر ہُوئے تو کدھر جائیں گے، تیرے در سے اُٹھیں گے تو مر جائیں گےاے مسیح الزماں! برکتوں کا نشاں یہ ترا آستاں آخری آخری جس کو شک ہے وہ آ کر یہاں دیکھ لے، نُور ہی نُور ہے طُور ہی طُور ہےبھر گیا ہے یقیں سے دلِ مُضطرب، چَھٹ گیا ہے گُماں آخری آخری اِک زمانہ ہُوا دُکھ اُٹھائے ہُوئے ، پُھول دے کر اُنہیں سنگ کھائے ہُوئےہونے والا ہے مولیٰ کی تقدیر سے فیصلہ اب یہاں آخری آخری (حافظ فضل الرحمان بشیر۔ تنزانیہ)