خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 28؍ ستمبر2018ء

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دو جلیل القدر صحابہ حضرت عُمارہ بن حَزْم اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی سیرت سے بیان

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان پر عمل کیا وہ مسلمانوں میں سے ہو گیا اور جس نے ان میں سے ایک بھی چھوڑی تو باقی تین اسے کچھ فائدہ نہیں دیں گی۔

عبداللہ بن مسعودؓ جو غیر قریشی تھے اور قبیلہ ہُذَیْل سے تعلق رکھتے تھے ایک بہت غریب آدمی تھے اور عقبہ بن ابی معیط رئیس قریش کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے اور آپ کی صحبت سے بالآخر نہایت عالم و فاضل بن گئے۔

مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو علی الاعلان پڑھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہی تھے۔

’’یہ خدا کے دشمن میری نظر میں اتنے بے حقیقت کبھی نہ تھے جتنے اس وقت تھے جب وہ مجھے مار رہے تھے۔‘‘

جس شخص کی خوشی اس بات میں ہو کہ وہ قرآن کریم کو اس طرح تازگی سے پڑھے جس طرح وہ نازل کیا گیا تو اسے عبداللہ بن مسعودؓ سے قرآن شریف پڑھنا چاہئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے سب سے زیادہ قریب عبداللہ بن مسعودؓ ہیں۔

’’ عبداللہ کی نیکیوں کا پلڑا قیامت کے دن احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہو گا‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں ان چمکتے ستاروں کے اسوے اور طریق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28؍ ستمبر 2018ء بمطابق28؍تبوک 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

گزشتہ دورے سے پہلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جو جنگ بدر میں شریک ہوئے ان کے حالات و واقعات بیان کر رہا تھا۔ آج پھر یہی مضمون دوبارہ شروع ہو گا۔ آج جن صحابہ کا ذکر ہے ان میں سے ایک ہیں حضرت عُمارہ بن حَزْم۔ حضرت عُمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن ستر صحابہ میں شامل ہیں جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے۔ ان کے بھائی حضرت عَمْرو بن حَزْم اور حضرت مُعمْر بن حَزْم بھی صحابی تھے۔ غزوۂ بدر، غزوۂ احد سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ فتح مکہ کے دن بنو مالک بن نجار کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمارہ کی مؤاخات حضرت محرز بن نضلہ سے کروائی، ہجرت کے بعد ان کا بھائی بنایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو مرتدین کا فتنہ اٹھا اور انہوں نے جنگ شروع کی مسلمانوں کے ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں بھی حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ یہ شامل ہوئے اور جنگِ یمامہ میں ان کی شہادت ہوئی۔(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان صفحہ 182مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء) ان کی والدہ کا نام خالدہ بنت انس تھا۔(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 455مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) ابوبکر بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سَہْل کو سانپ نے کاٹ لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں حضرت عمارہ بن حزم کے پاس لے جاؤ تا کہ وہ دم کریں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو مرنے کے قریب ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عمارہ کے پاس لے جاؤ وہ دم کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ شفا دے گا۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 10 صفحہ 771 باب الرابع فیما علمہﷺ لاصحابہ من لدغۃ العقرب مطبوعہ 1995ء قاہرہ) یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آپ کو یہ دم سکھایا تھا اور دعا سکھائی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ حضرت عمارہ کے دَم کے محتاج تھے یا آپ نہیں کر سکتے تھے۔ لوگوں کو خاص طور پر بعض کاموں کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اور اس کے پیچھے بہرحال قوت قدسی اور برکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تھیں۔ سیرت ابن ہشام میںلکھا ہے کہ مسجد نبوی میں منافقین آیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر بعد میں ان کا تمسخر اڑاتے تھے، ان کے دین کا استہزاء کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ سامنے بھی ایسی باتیں کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن منافقین میں سے کچھ لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آپس میں سرگوشیاں کرتے دیکھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم دیا کہ ان کو مسجد سے نکال دو۔ پس وہ مسجد سے نکال دئیے گئے۔ حضرت ابو ایوب، عمر بن قیس کی طرف گئے جو بنو غنم بن مالک بن نجار میں سے تھا اور وہ جاہلیت کے زمانے میں ان کے بتوں کا نگران بھی تھا۔ انہوںنے اسے ٹانگ سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دیا۔ وہ کہتا جا رہا تھا کہ اے ابو ایوب! کیا تو مجھے بنو ثعلبہ کی مجلس سے نکالے گا؟ پھر آپ رافع بن ودیعہ کی طرف گئے اور وہ بھی بنو نجار میں سے تھا۔ اسے بھی اپنی چادر میں لپیٹا اور زور سے کھینچا اور ایک تھپڑ مار کے اس کو مسجد سے باہر نکال دیا۔ ابوایوب کہہ رہے تھے کہ اے خبیث منافق تجھ پر لعنت ہو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے دور چلا جا۔ حضرت عمارہ بن حزم، زید بن عمرو کی طرف گئے اور اس کی داڑھی سےاسے پکڑا اورگھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور مسجد سے باہر نکال دیا۔ پھر حضرت عمارہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر اتنے زور سے مارے کہ وہ گر گیا۔ اس نے کہا اے عمارہ! تو نے مجھے زخمی کر دیا ہے۔ اس پر حضرت عمارہ نے کہا کہ اے منافق! اللہ تجھے ہلاک کرے۔ جو عذاب اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے تیار کیا ہے وہ اس سے زیادہ شدید ہے۔ پس آئندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے قریب نہ آنا۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 246 باب من اسلم من احبار یہود نفاقا مطبوعہ دار ابن حزم 2009ء)

غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جا رہے تھے راستے میں ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قصویٰ گم ہو گئی۔ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈھونڈھنے کے لئے نکلے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمارہ بن حزم بھی تھے جو کہ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے تھے اور بدری صحابی تھے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، اور حضرت عمرو بن حزم کے بھائی تھے۔ بیان کرنے والے پھر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارہ کے ہودج میں زید بن صلت تھا، یعنی وہ ان لوگوں میں شامل تھا جو ان کی سواریوں وغیرہ پہ مقرر تھا، جو اونٹ کی سواری تھی اس پہ ہودج رکھنے والا تھا۔ وہ قبیلہ بنو قینقاع سے تعلق رکھتا تھا اور یہودی تھا۔ اونٹ کی سواری کے لئے بیٹھنے کی جو سیٹ ہوتی ہےاس کو رکھنے والے بعض لوگ مقرر تھے ۔ یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اور اس نے نفاق ظاہر کیا۔ زید جو مسلمان ہوا تھا لیکن دل میں منافقت تھی بڑا معصوم بن کے پوچھنے لگا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نبی ہیں اور وہ تمہیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتے ہیں جبکہ وہ خود نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی ہے۔اس وقت حضرت عمارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ یہ بات آپ تک بھی کسی طرح پہنچی یا اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً ایک شخص نے کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو تو بتاتا ہے کہ وہ نبی ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ تم لوگوں کو آسمان کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے جبکہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے۔ اس پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانتا ماسوائے اس کے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے۔ غیب کا علم تو میں نہیں جانتا، ہاں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے تو میں بتاتا ہوں۔ اور پھر آپ نے اس منافق کا منہ بند کرنے کے لئے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے خبر بھی دے دی پھر کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتایا ہے کہ وہ فلاں فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک گھاٹی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی مہار ایک درخت سے اٹک گئی ہے پس جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ پس صحابہ گئے اور اسے لے آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس منافق کا منہ بند کر نے کے لئے یہ بھی آپ کو نظارہ دکھا دیا کہ اونٹنی کہاں ہے اور کس جگہ کھڑی ہے۔

بیہقی اور ابونُعیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمارہ اپنے ہودج کی طرف گئے اور کہا اللہ کی قسم آج ایک عجیب بات ہوئی ہے۔ ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک شخص کی بات کے متعلق بتایا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا تھا۔ یہ واضح ہو گیا کہ جو منافق کی بات تھی اس کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو آگاہ فرمایا تھا اور وہ زید بن صلت کی بات تھی۔ حضرت عمارہ کے ہودج میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اللہ کی قسم زید نے آپ کے آنے سے پہلے وہ بات کی ہے جو آپ نے ابھی بتائی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ تو زید نے آپ کے آنے سے پہلے بالکل یہی بات تھی۔ اس پر حضرت عمارہ نے زید کو گردن سے دبوچ لیا اور اپنے ساتھیوں کو کہنے لگے کہ اے اللہ کے بندو! میرے ہودج میں ایک سانپ تھا اور میں اس کو اپنے ہودج سے باہر نکالنے سے بے خبر تھا اور زید کو مخاطب کر کے کہا کہ آئندہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زید نے بعد میں توبہ کر لی اور بعض کا خیال ہے کہ اسی طرح شرارتوں میں ملوث رہا حتٰی کہ مر گیا۔

(تاریخ الخمیس جلد 3 صفحہ 18 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء)

حضرت زیاد بن نُعیم حضرت عمارہ بن حزم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان پر عمل کیا وہ مسلمانوں میں سے ہو گیا اور جس نے ان میں سے ایک بھی چھوڑی تو باقی تین اسے کچھ فائدہ نہیں دیں گی۔ حضرت زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمارہ سے پوچھا کہ وہ چار باتیں کون سی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ نماز ہے، زکوٰۃ ہے، روزہ ہے اور حج ہے۔(اسد الغابہ جلد 4صفحہ 129مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ان چاروں باتوں پہ ایمان لانا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ نماز بھی فرض ہے۔ زکوٰۃ بھی جن پر فرض ہے ان پر ضروری ہے۔ روزہ بھی صحت کی حالت میں رکھنا ضروری ہے۔ اورحج بھی جن پر فرض ہے ضروری ہے،جو ادا کر سکتے ہیں یہ فریضہ ان کو ادا کرنا ضروری ہے۔ بہرحال ان چاروں باتوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب یہ باتیں اسد الغابہ میں لکھی ہوئی ہیں۔ یہی کتابیں ہیں، مسلمان خود ہی اپنے مسلمان ہونے کی تعریف بیان کرتے ہیں اور خود ہی ایسے بھی علماء پیدا ہو گئے ہیں جو کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور انہوں نے مسلمان ہونے کی اپنی اپنی تعریف بنائی ہوئی ہے۔

دوسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا آج وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ہیں۔ ان کی کنیت عبدالرحمٰن ہے۔ ان کا تعلق بنو ھُذَیل قبیلہ سے تھا اور ان کی والدہ کا نام اُمِّ عبد ہے۔ ان کی وفات 32ہجری میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مسعود بن غافل تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا شمار ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے ہوتا ہے۔ حضرت عمر کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید نے جب اسلام قبول کیا تو آپ بھی اسی وقت مسلمان ہوئے تھے(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 381-382، 387مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے قبل ہی ایمان لے آئے تھے،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 112مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) وہ جگہ جو مکہ میں مسلمانوں کے اکٹھے ہونے کے لئے بنائی گئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے والا چھٹا شخص تھا۔ اس وقت روئے زمین پر ہم چھ اشخاص کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں تھا۔ اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں سن تمیز کو جب پہنچ گیا، ایسی عمر کو جب پہنچ گیا جب صحیح پہچان بھی ہوتی ہے، اچھے برے کا فرق پتہ لگ جاتا ہے، بلوغت کی عمر ہوتی ہے۔ ایک دن عقبہ بن ابی مُعَیط کی بکریاں چرا رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت ابوبکر بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے تیرے پاس کچھ دودھ ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ہے مگر میں امین ہوں دے نہیں سکتا۔ بچپن سے ہی ان میں بڑی نیکی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بکری لے آؤ جو گابھن نہ ہو، ایسی بکری جو گابھن نہیںہے، دودھ نہیں دے رہی اسے لے آؤ۔ کہتے ہیں مَیں ایک جوان بکری آپ کے پاس لے گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاؤں باندھ دئیے، اس کے تھن پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور دعا کی یہاں تک کہ اس کا دودھ اتر آیا۔ پھر حضرت ابوبکر ایک برتن لے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اس کا دودھ دھویا اور حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ پیو۔ حضرت ابوبکر نے دودھ پیا۔ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور پھر آپ نے تھنوں پہ اپنا ہاتھ پھیرا اور کہا کہ سکڑ جاؤ اور وہ سکڑ گئے اور پہلے جیسے ہو گئے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے بھی اس کلام میں سے کچھ سکھا دیں جو آپ نے پڑھا ہے۔ اس پر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا تم سیکھے سکھائے نوجوان ہو۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ قرآن کریم کی ستّر سورتیں یاد کی ہیں، براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے یاد کی تھیں۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 382 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی سیرۃ خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود جو غیر قریشی تھے اور قبیلہ ہُذَیل سے تعلق رکھتے تھے ایک بہت غریب آدمی تھے اور عقبہ بن ابی معیط رئیس قریش کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے اور آپ کی صحبت سے بالآخر نہایت عالم و فاضل بن گئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد زیادہ تر انہی کے اقوال و اجتہادات پر مبنی ہے۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 124)

ان کے دینی علم کی فضیلت کے بارے میں یہ روایت ہے: حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ میںان سب میں سے کتاب اللہ کا خوب عالم ہوں۔ قرآن مجید میں کوئی سورۃ یا آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کب اتری اور کہاں اتری۔ ابووائل راوی کہتے ہیں کہ اس بیان کا کسی نے انکار نہیں کیا(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان صفحہ 107مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء) جب حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ بات کہی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار صحابہ سے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کی نصیحت فرمائی ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا نام سرفہرست ہے۔(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعودؓ حدیث 3760) دیباچہ تفسیر القرآن میں اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ چونکہ لوگوں میں حفظ قرآن کریم کا اشتیاق بہت تیز ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں۔ پھر ان کے ماتحت اور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے۔ ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں: عبداللہ بن مسعود، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب۔ ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری۔ کاموں کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعود ایک مزدور تھے، سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب مدینہ کے رؤسا میں سے تھے۔ گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قاری مقرر کر دئیے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خُذُواالْقُرْاٰنَ مِنْ اَرْبَعَۃٍ مِنْ عَبْدِاللہِ ابْنِ مَسْعُوْد وَسَالِمٍ وَ مَعَاذِ ابْنِ جَبَل وَ أُبَیْ بِن کَعْبٍ۔

جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں۔ عبداللہ بن مسعود، سالم، معاذ بن جبل اور اُبی بن کعب۔ حضرت مصلح موعودؓ بعد میں لکھتے ہیں کہ یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا یا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کرا لی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ عبداللہ بن مسعود نے ایک لفظ کو اَور طرح پڑھا تو حضرت عمر نے ان کو روکا اور کہا کہ اس طرح نہیں اس طرح پڑھنا چاہئے۔ اس پر عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ نہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سکھایا ہے۔ حضرت عمر اُن کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عبداللہ بن مسعود پڑھ کر سناؤ ۔ جب انہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ! مجھے تو آپ نے یہ لفظ اور رنگ میں سکھایا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے جس طرح تم پڑھ رہے ہو۔ تو حضرت مصلح موعودؓنے نتیجہ نکالا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر کا یہ سوال کہ مجھے آپ نے اس طرح پڑھایا ہے بتاتا ہے کہ حضرت عمر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے تھے۔

(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 427-428)

ایک روایت میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو علی الاعلان پڑھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود ہی تھے۔ چنانچہ یہ واقعہ اس طرح ملتا ہے کہ ایک دن صحابہ جمع تھے اور آپس میں کہہ رہے تھے کہ قریش نے قرآن کی بلند آواز تلاوت کبھی نہیں سنی۔ کیا کوئی شخص ان کو سنا سکتا ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ مَیں سنا سکتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کفار تمہیں تکلیف نہ پہنچائیں۔ تم تو مزدور آدمی ہو تا تمہارے بجائے کوئی اور با اثر شخص ہو کہ کفار اگر اسے مارنا بھی چاہیں گے تو اس کا قبیلہ اسے بچا لے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہنے لگے کہ اس کی فکر نہ کرو مجھے اللہ بچائے گا۔ عجیب جوش تھا ان صحابہ میں۔ دوسرے دن چاشت کے وقت صبح کو آپ نے مقام ابراہیم پہنچ کر بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ پڑھنا شروع کر دیا۔ قریش جو کہ اپنی مجالس میں بیٹھے تھے آپ کے اس عمل سے حیران ہوئے۔ بعض نے کہا یہ تو انہی عبارتوں میں سے پڑھ رہا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں۔ یہ سن کر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے منہ پر مارنا شروع کر دیا مگر آپ پڑھتے رہے اور جتنا پڑھنے کا ارادہ کیا تھا پڑھا۔ بعد میں جب حضرت عبداللہ بن مسعود اصحاب کے پاس واپس گئے تو آپ کے منہ پر طمانچوں کے نشان دیکھ کر صحابہ کہنے لگے کہ ہمیں اسی بات کا خطرہ تھا کہ تمہیں مار پڑے گی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ یہ خدا کے دشمن میری نظر میں اتنے بے حقیقت کبھی نہ تھے جتنے اس وقت تھے جب وہ مجھے مار رہے تھے۔ اگر تم چاہو تو میں کل بھی ایسا ہی کرنے کو تیار ہوں۔ صحابہ نے کہا نہیں اتنا ہی کافی ہے تم نے انہیں وہ چیز سنا دی ہے جسے وہ سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 383مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت عبداللہ بن مسعود کے اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرما دیا تھا کہ جب تم میری آواز سن لیا کرو اور گھر میں پردہ نہ پڑا ہو تو بلا اجازت اندر آ جایا کرو۔ گھر میں اگر پردہ گرا ہوا ہے تو پھر بغیر پوچھے نہیں آنا اور اگر پردہ اٹھا ہوا ہے، دروازہ کھلا ہے میری آواز سن لی ہے تم نے تو آجایا کرو تمہیں اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کوئی اس وقت، کوئی خواتین وغیرہ نہیں ہیں۔ آپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام کرتے تھے۔ آپ کو جوتی پہناتے۔ کہیں ساتھ جانے کی ضرورت ہوتی تو ساتھ جاتے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے تو آپ پردہ لے کر کھڑے رہتے۔ صحابہ میں آپ صاحب السواک کے لقب سے مشہور تھے۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 383مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک اور روایت کے مطابق آپ کو صاحب السواک، صاحب الوساد اور صاحب النعلین بھی کہا جاتا ہے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 113مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) عبداللہ بن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار، آپ کا بستر بچھانے والے، آپ کی مسواک اور نعلین وغیرہ رکھنے والے تھے۔ یہ جو عربی کے لفظ بولے گئے ہیں وہ یہ تھے کہ آپؐ کا بستر بچھانے والے تھے، مسواک کرواتے تھے، وضو کرواتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہانے کا انتظام کرتے تھے، آپ کا بستر بچھاتے تھے۔ بستر بچھانے والے کو صاحب السواد کہتے ہیں۔ اور آپ کی نعلین مبارک، جوتیاں رکھنے اور ٹھیک کرنے کا کام بھی کرتے تھے اس لئے صاحب النعلین بھی آپ کو کہا جاتا ہے۔ وضو کا پانی رکھنے والے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر میں ہوتے تو آپ ہی یہ کام کرتے۔

ابوملیح سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو حضرت عبداللہ بن مسعود پردہ کرتے تھے اور جب آپ سوتے تو آپ کو بیدار کرتے تھے۔ آپ کے ہمراہ سفرمیں مسلح ہو کر جاتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 113مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت ابوموسیٰ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم یمن سے نئے نئے پہلی دفعہ آئےتو یہی سمجھتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ ان کی اور ان کی والدہ کی آمد و رفت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت زیادہ تھی،(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 384 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) گھر میں آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ جتنا کام کرتے تھے اوروالدہ بھی آتی جاتی تھیں تو اس سے یہ کہتے ہیں کہ ہم جب نئے نئے مدینہ میں آئے تو ہم سمجھے کہ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود دونوں ہجرتوں میں شامل تھے ہجرت حبشہ میں بھی اور ہجرت مدینہ میں بھی۔ غزوۂ بدر، احد، خندق اور بیعت رضوان وغیرہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جنگ یرموک میں بھی شامل ہوئے۔ آپ ان صحابہ میں بھی شامل تھے جنہیں حضورؐ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 383 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

غزوہ بدر میں ابوجہل کو انجام تک پہنچانے میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بھی حصہ ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ بدر کے اختتام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی ہے جو ابوجہل کے بارے میں درست خبر لائے۔ عبداللہ بن مسعود گئے اور دیکھا کہ ابوجہل جنگ کے میدان میں شدید زخمی ہے اور جان کنی کی حالت میں پڑا ہے۔ اسے عفراء کے بیٹوں نے اس حالت میں پہنچایا تھا۔ حضرت ابن مسعود نے اس کی داڑھی سے پکڑ کر کہا کہ کیا تم ہی ابوجہل ہو؟ اس نے اس حالت میں بھی بڑے غرور سے جواب دیا۔ کیا کبھی مجھ سے بڑا سردار بھی تم نے مارا ہے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3962) پہلی روایت تو بخاری کی تھی اس کے بارے میں صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کی داڑھی کو پکڑ کر کہا کہ کیا تو ابوجہل ہے؟ اس پر ابوجہل نے کہا کیا تم نے آج سے پہلے میرے جیسا بڑا آدمی قتل کیا ہے؟ راوی کہتے ہیں ابوجہل نے کہا اے کاش کہ میں ایک کسان کے ہاتھوں سے قتل نہ ہوتا۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل ابی جھل حدیث 4662) مدینہ کے دو لڑکے تھے جنہوں نے قتل کیا تھا۔ اس کو اس حالت میں پہنچایا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی تفسیر کبیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ کس طرح دشمن حسد کی آگ میں ساری عمر جلتے رہےاور پھر مرتے ہوئے بھی اسی آگ میں جل رہے تھے۔ آپ لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ابوجہل ایک جگہ زخموں کی شدت کی وجہ سے کراہ رہاہے۔ میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا سناؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا مجھے اپنی موت کا کوئی غم نہیں، سپاہی آخر مرا ہی کرتے ہیں۔ مجھے تو یہ غم ہے کہ مدینہ کے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھوں سے مَیں مارا گیا۔ مر تو مَیں رہا ہوں تم صرف اتنا احسان کرو میرے پہ کہ تلوار سے میری گردن کاٹ دو تا کہ میری یہ تکلیف ختم ہو جائے۔ مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کیونکہ جرنیلوںکی گردن ہمیشہ لمبی کاٹی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں تیری اس آخری حسرت کو بھی کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا اور تھوڑی کے قریب سے تیری گردن کاٹوں گا۔چنانچہ انہوں نے تھوڑی کے قریب تلوار رکھ کراس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ دیکھویہ کتنی بڑی آگ تھی جو ابو جہل کو جلا کر راکھ کر رہی تھی کہ ساری عمر اس بات پر جلتا رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نقصان ہم پہنچانا چاہتے ہیں وہ پہنچا نہیں سکے۔ پھر مرنے لگا، موت کی جو حالت آئی تو اس وقت اس آگ میں جل رہا تھا کہ مدینہ کے دو ناتجربہ کار نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں مارا جا رہا ہے۔ اور پھر مرتے وقت اس نے جو آخری خواہش کی تھی وہ بھی پوری نہیں ہوئی اور تھوڑی کے پاس سے اس کی گردن کاٹی گئی ۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 461) غرضیکہ ہر قسم کی آگوں میں جلتا ہوا ہی وہ دنیا سے چلا گیا۔

جب حضرت عبداللہ بن مسعود ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت معاذ بن جبل کے ہاں آپ کا قیام تھا۔ بعض کے مطابق آپ حضرت سعد بن خیثمہ کے ہاں ٹھہرے تھے۔ مکہ میں آپ کی مؤاخات حضرت زبیر بن العوام سے ہوئی تھی جبکہ مدینہ میںآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذبن جبل کو آپ کا دینی بھائی بنایا۔ مدینہ کے ابتدائی ایام میں آپ کے مالی حالات اچھے نہیں تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مہاجرین کے لئے مسجد نبوی کے قریب رہائش کا کچھ انتظام کیا تو بنو زہرہ کے بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو اپنے ساتھ رکھنے میں کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ یہ مزدور آدمی ہے، غریب آدمی ہے، ہم لوگ بڑے آدمی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ نے اپنے اس غریب اور کمزور خادم کے لئے غیرت دکھاتے ہوئے فرمایا کہ کیا خدا نے مجھے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ تم لوگ یہ فرق رکھو۔ یاد رکھو خدا تعالیٰ اس قوم کو کبھی برکت عطا نہیں کرتا جس میں کمزور کو اس کا حق نہیں دیا جاتا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو مسجد کے قریب جگہ دی جبکہ بنو زہرہ کو مسجد کے پیچھے ایک کونے میں جگہ دی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 112-113مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(سیرت صحابہ رسول اللہﷺ از حافظ مظفر احمد صفحہ 275 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 2009ء) حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں ،خود ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے سورۃ نساء پڑھ کر سناؤ۔ عبداللہ بن مسعود اپنا خود واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سورۃ نساء پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کی کہ میں بھلا کیا آپ کو سناؤں یہ آپ ہی پر تو نازل ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پسند ہے کہ کوئی دوسرا شخص تلاوت کرے اور میں سنوں۔ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت پر پہنچا کہ فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلَآءِ شَہِیْدًا(النسائ42:)۔ پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے کہا بس کرو۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 384مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)،

(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقری للقاری حسبک حدیث 5050)

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق عرفات کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ اے امیر المومنین!(ان کی خلافت کے بعد کی بات ہے) مَیں کوفہ سے آیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بِنا دیکھے قرآن کی آیات کی املاء کرتا ہے۔ اس پر آپؓ نے غصہ کی حالت میں کہا کہ تیرا برا ہو ۔( عربوں کا انداز ہے۔) کون ہے وہ شخص؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ عبداللہ بن مسعود۔ یہ سن کر حضرت عمر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا یہاں تک کہ پہلی حالت میں واپس آ گئے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں اس کام کا عبداللہ بن مسعود سے زیادہ کسی اور کو حقدار نہیں سمجھتا۔(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 128 حدیث 175 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) وہ بغیر دیکھے قرآن کریم لکھ سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت حضرت ابوبکرؓ اور میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس سے گزرے۔ وہ نوافل ادا کر رہے تھے اور ان میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ قیام میں کھڑے تھے، تلاوت ہو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر آپ کی تلاوت سننے لگے۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رکوع میں گئے پھر سجدہ کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ اب جو مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے رخصت ہو گئے اور فرمایا کہ جس شخص کی خوشی اس بات میں ہو کہ وہ قرآن کریم کو اس طرح تازگی سے پڑھے جس طرح وہ نازل کیا گیا تو اسے عبداللہ بن مسعود سے قرآن شریف پڑھنا چاہئے۔ مسند احمد بن حنبل میں یہ روایت ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 156-157حدیث 265مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)

حضرت عبدالرحمٰن بن یزید یہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں ایسے شخص کا پتہ بتا دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے زیادہ قریب ہو، اس طریق پر چلنے والا ہو اور وہی کام کرنے والا ہو یا قریب ترین ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے تا کہ ہم اس سے علم حاصل کریں اور حدیثیں سنیں۔ تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش سے سب سے زیادہ قریب عبداللہ بن مسعود ہیں۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) ان کا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کے شوق و جذبہ کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عادات و خصائل اور سیرت و شمائل کے لحاظ سے آپ کے صحابہ میںسے قریب ترین کون ہے جس کا طریق ہم بھی اختیار کریں تو حضرت حذیفہ بیان فرماتے تھے کہ میرے علم کے مطابق چال ڈھال، گفتگو اور اخلاق و اطوار کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم فرماتے تھے کہ مجھے اپنی امّت کے لئے وہی باتیں پسند ہیں جو عبداللہ بن مسعود کو مرغوب ہیں۔یہ بخاری کی حدیث ہے۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعودؓ حدیث 3762)

حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان کے طریق، ان کے حسن سیرت اور ان کی میانہ روی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشبیہہ دی جاتی تھی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 114مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) حضرت عبداللہ بن مسعود کے بیٹے عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ جب رات کو لوگ سو جاتے تو وہ تہجد کے لئے اٹھتے۔ ایک رات میں نے انہیں صبح تک گنگناتے ہوئے سنا جیسے شہد کی مکھی گنگناتی ہے(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، یعنی دعا میں ہلکی ہلکی گنگناہٹ کے ساتھ دعائیں کر رہے تھے یا تلاوت کر رہے تھے۔

حضرت علی سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بغیر مشورے کے کسی کو امیر بناتا تو عبداللہ بن مسعود کو بناتا۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

پھر ایک جگہ حضرت علی کی یہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے، طبقات الکُبْرٰی میں لکھا ہے کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اگر میں مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کے علاوہ کسی اور کوامیر بناتا تو عبداللہ بن مسعود کو امیر بناتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد کبھی بھی چاشت کے وقت نہیں سویا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 114مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

عبداللہ بن مسعود اپنے بیوی بچوں سے محبت رکھتے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے تو کھنکھارتے اور بلند آواز سے کچھ بولتے تا کہ گھر کے لوگ باخبر ہو جائیں۔ آپ کی اہلیہ حضرت زینب بیان کرتی ہیں کہ ایک روز عبداللہ گھر داخل ہوئے اس وقت ایک بوڑھی عورت مجھے تعویذ پہنا رہی تھی۔ عورتوں کو عادت ہوتی ہے بعض دفعہ کہ تعویذ گنڈا بھی کر لیں شاید برکت حاصل کرنے کے لئے تو ان کو پتہ تھا کہ عبداللہ بن مسعود کو یہ چیز پسند نہیں ہے۔ کہتی ہیں مَیں نے انکے ڈر سے اسے اپنے پلنگ کے نیچے چھپا دیا، جہاں بیٹھ کر کر رہی تھی۔ آپ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور میرے گلے کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ یہ دھاگہ کیسا ہے جو تم نے گلے میں ڈالا ہوا ہے؟ مَیں نے کہا تعویذہے۔ انہوں نے اس کو توڑ کے اسی وقت پھینک دیا اور کہا کہ عبداللہ کا خاندان شرک سے بری ہے۔ پھر عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ تعویذ گنڈے شرک میں داخل ہیں۔ مَیں نے کہا یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ میری آنکھیں جوش کر آتی تھیں تو میں فلاں یہودی سے تعویذ لینے جایا کرتی تھی۔ بعض دفعہ میری آنکھوں میں تکلیف ہوا کرتی تھی، آنکھیں پھول جاتی تھیں، پانی نکلتا تھا تو میں تو یہودی سے اس کا تعویذ لیتی تھی اور اسکے تعویذ سے مجھے سکون ہو جاتا تھا۔ تو عبداللہ بن مسعود بولے کہ یہ سب شیطانی عمل ہے۔ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہی کافی ہے اور وہ دعا یہ ہے کہ اَذْھِبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ اِشْفِ وَاَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَائ اِلَّا شِفَاءُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔ اے لوگوں کے پروردگار میری تکلیف کو دور فرما تو شفا دے صرف تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا کارگر نہیں۔ ایسی شفا جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔

(سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 225مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

اب وہ لوگ جو پیروں فقیروں کے دروں پہ جاتے ہیں وہ لوگ جو سارا دن بھنگ اور چرس پی رہے ہوتےہیں، کبھی نمازیں بھی نہیں پڑھتے اور ان سے تعویذ گنڈا کرا کے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم صحت یاب ہو گئے یا ہم پہ بڑا فضل ہو گیا اور ہمیں اولاد مل گئی اور فلاں ہو گیا۔ یہ سب باتیں ان لوگوں کا جواب ہے۔

عبداللہ بن مسعود ایک دفعہ اپنے ایک دوست ابو عمیر سے ملنے گئے۔ اتفاق سے وہ موجود نہیں تھے تو انہوںنے ان کی بیوی کو سلام بھیجا اور پینے کے لئے پانی مانگا۔ گھر میں پینے کا پانی موجود نہیں تھا۔ انہوں نے ایک لونڈی کو کسی ہمسائے کے پاس بھیجا۔ اس سے پانی لینے گئی اور دیر تک واپس نہیںآئی۔ ابوعمیر کی بیوی نے اس کام کرنے والی لونڈی کو اس بات پر سخت سست کہا اور اس پر لعنت بھیجی۔ حضرت عبداللہ یہ سن کر پیاسے ہی واپس پلٹ گئے۔ دوسرے دن ابوعمیر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اتنی جلدی واپس چلے جانے کی وجہ پوچھی کہ تم پانی پئے بغیر ہی چلے گئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری بیوی نے جب خادمہ پر لعنت بھیجی تھی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آ گئی کہ جس پر لعنت بھیجی جاتی ہے اگر وہ بے قصور ہو تو لعنت بھیجنے والے پر واپس آ جاتی ہے۔ تو میں نے سوچا کہ خادمہ اگر بے قصور ہوئی تو میں بے وجہ اس لعنت کے واپس آنے کا باعث بنوں گا(سیر الصحابہ جلد 2صفحہ 223مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) اس لئے بہتر ہے کہ میں چلا جاؤں اور پانی نہ پیوں۔ تو خدا تعالیٰ کے خوف کا یہ حال تھا کہ کہیں شائبہ بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو سکتی ہے کسی وجہ سے تو یہ لوگ اس سے بچتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود دبلے جسم پتلے قد اور گندم گوں رنگ کے مالک تھے لیکن لباس بڑا اچھا پہنتےتھے۔ سفید کپڑا پہنتے خوشبو لگاتے تھے۔ حضرت طلحہ سے مروی ہے کہ آپ اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ116-117 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لئے عبداللہ بن مسعود کو ایک درخت پر چڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ آپ کی دبلی اور بظاہر کمزور پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسی مذاق کرنے لگے، بڑی کمزور سی دبلی پتلی ٹانگیں تھیں، ہنسی مذاق کرنے لگے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں ہنستے ہو؟ عبداللہ کی نیکیوں کا پلڑا قیامت کے دن احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہو گا۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت عبداللہ بن مسعود کے بال ایسے تھے جن کو وہ اپنے کانوں تک اٹھاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کے بال گردن تک پہنچتے تھے۔ جب آپ نماز پڑھتے تو انہیں کانوں کے پیچھے کر لیتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 117مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک دن حضرت عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں حضرت عبداللہ بن مسعود آئے۔ چونکہ وہ پست قد کے تھے اس لئے اور لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے ان میں چھپنے کے قریب ہو گئے۔ان کا قد چھوٹا تھا۔ دوسرے لوگ بہت لمبے لمبے قد کے بیٹھے ہوئے تھے یا اس طرح بیٹھے ہوں گے کہ بیٹھنے کی وجہ سے چھپ گئے۔ قریباً چھپنے والے تھے یا صحیح نظر نہیں طرح آ رہے تھے۔ حضرت عمر نے جب ان کو دیکھا تو مسکرانے لگے۔ پھر حضرت عمر نے آپ سے ہی باتیں کیں اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے۔ اس دوران حضرت عبداللہ کھڑے رہے، جب باتیں کر رہے تھے حضرت عمر سے تو حضرت عبداللہ کھڑے ہو گئے تا کہ چھپیں نہ اور باتیں کرتے رہیں۔ باتیں کرنے کے بعد جب حضرت عبداللہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت عمر نے آپ کو جاتے ہوئے دیکھا اور پیچھے سے دیکھتے رہےیہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ شخص علم سے بھرا ہوا ایک بڑا برتن ہے ۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت ابن مسعود کے علمی مقام یعنی عبداللہ بن مسعود کے علمی مقام اور مرتبہ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت معاذ بن جبل کی وفات کا وقت آیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ ہمیں کوئی نصیحت کریں تو انہوں نے فرمایا کہ علم اور ایمان کا ایک مقام ہے جو بھی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے۔ پھر علم اور ایمان سیکھنے کے لئے حضرت معاذ بن جبل نے جن چار عالم با عمل بزرگوں کے نام لئے ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا نام بھی تھا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 375حدیث 22455مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمر نے آپ کو اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بطور مربی بھیجا جبکہ حضرت عمار بن یاسر کو حاکم بنا کر بھیجا۔ ساتھ ہی اہل کوفہ کو یہ بھی لکھا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چنیدہ لوگ ہیں، بڑے خاص لوگ ہیں، اہل بدر میں سے ہیں تم لوگ ان کی پیروی کرو، ان کے احکام کی اطاعت کرو اور ان کی باتیں سنو، مَیں نے عبداللہ بن مسعودکے متعلق اپنی ذات پر تمہیں ترجیح دی ہے۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 385مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عبداللہ بن مسعود کی آخری بیماری تھی آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی شکایت ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا شکایت پوچھتے ہیں میرے سے تو پھر شکایت مجھے اپنے گناہوں کی ہے کہ میں نے اتنے گناہ کئے ہیں۔ پھر حضرت عثمان نے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ پروردگار کی رحمت چاہتا ہوں۔ حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کے لئے کوئی طبیب تجویز کر دوں، کوئی ڈاکٹر تجویز کر دوں جو آپ کا علاج وغیرہ کرے۔ انہوں نے پھر عرض کی طبیب نے ہی تو مجھے بیمار بنایا ہے۔ یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پہ میں راضی ہوں جو ہو رہا ہے۔ پھر حضرت عثمان نے کہا کہ کیا آپ کا وظیفہ مقرر کر دوں؟ تو کہنے لگے مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا۔ کہنے لگے کیا آپ کو میری لڑکیوں کے محتاج ہو جانے کا خدشہ ہے جو یہ بات کی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مَیں نے اپنی بیٹیوںکو حکم دے رکھا ہےکہ ہر شب سورۃ واقعہ پڑھ لیا کرو۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ جو بھی ہر روز رات کو سورۃ واقعہ پڑھ لیا کرے اسے کبھی فاقے کی مصیبت پیش نہ آئے گی۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386-387مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) یہ تھا توکل علی اللہ اور قناعت کی حالت ان چمکتے ستاروں کی۔

سلمیٰ بن تمام کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے ملاقات کی اور اپنی ایک خواب بیان کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے رات آپ کو خواب میںد یکھا ہے اور یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونچے منبر پر بیٹھے ہیں اور آپ اس منبر کے نیچے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ اے ابن مسعود میرے پاس آ جاؤ تم نے میرے بعد بڑی بے رغبتی اختیار کر لی ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے پوچھا کہ خدا کی قسم کیا تو نے یہ خواب دیکھا ہے؟ اس نے شخص نے کہا ہاں۔ پھر اس پر آپ نے فرمایا کہ کیا تو مدینہ سے میری نماز جنازہ پڑھنے آیا ہے؟ پھر اس کا مطلب ہے اب تو میرا وقت قریب ہی ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی وفات ہو گئی(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 386مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) لیکن وفات سے قبل حضرت عثمان کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا تو آپ کو کوفہ سے مدینہ بلوا لیا۔ کوفہ کے لوگوں نے آپ کو کوفہ ہی میں رکنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔شایدبیماری نہ تھی لیکن ویسے ہی حضرت عثمان نے ان کو بلا لیا تھا۔ بہرحال وہ تو صحت کی حالت میں لگ رہا تھا کہ جب اس شخص نے خواب سنائی۔ اس کے بعد پھر یہ واقعہ ہوا کہ حضرت عثمان نے ان کو کوفہ سے بلوا لیا باوجود اس کے کہ کوفہ کے لوگ یہی چاہتے تھے کہ آپ وہیں رکے رہیں اور یہ کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن آپ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت کا حکم اور ان کی اطاعت میرے لئے ضروری ہے۔ پھر آپ نے یہ بھی کہا کہ عنقریب کچھ فتنے ہوں گے اور میں نہیں چاہتا کہ فتنوں کا شروع کرنے والا مَیں ہوں۔ یہ کہہ کر خلیفہ وقت کے پاس چلے آئے۔ آپ کی وفات 32 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ حضرت عثمان نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 60 سال سے کچھ زیادہ تھی۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 387مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

ایک اور روایت کے مطابق وفات کے وقت آپ کی عمر 70 برس سے کچھ زائد تھی۔

(طبقات الکبریٰ مترجم از عبد اللہ العمادی حصہ سوم صفحہ 230 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

حضرت عبداللہ بن مسعود کی وفات پر حضرت ابو موسیٰ نے حضرت ابو مسعود سے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے بعد ایسی خوبیوں والا اور کوئی شخص پیچھے چھوڑا ہے؟ حضرت ابو مسعود کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جب ہمیں جانے کی اجازت نہ ہوتی اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود کو داخل ہونے کی اجازت ملتی تھی۔ اور جب ہم آپ کی مجلس سے غائب ہوتے اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود خدمت کی توفیق پاتے اور آپؐ کی صحبتوں سے فیضیاب ہوتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی اور شخص ان کی خوبیوں والا ہو۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 119مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عبداللہ بن مسعود سنت نبوی پر خوب کاربند تھے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابہ میںسے ایک صحابی روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے یعنی غروب آفتاب کے ساتھ ہی افطار کرتے ہیں اور نماز بھی غروب آفتاب کے فوراً بعد جلدی ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے صحابی یہ دونوں کام نسبتاً دیر سے کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ جلدی کون کرتا ہے تو انہیں بتایا گیا کہ عبداللہ بن مسعود ایسا کرتے ہیں تو حضرت عائشہ نے اس پر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دستور تھا جو عبداللہ بن مسعود کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 51حدیث 24716مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)

حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں اور روایات اور واقعات بھی ہیں جو انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان چمکتے ستاروں کے اسوے اور طریق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button