خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 21؍ستمبر2018ء

گزشتہ دنوں اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی اور بیلجیم میں شرکت کی توفیق دی ۔ دونوں جلسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بابرکت تھے۔

جرمنی کی جماعت میں اب جلسے کا نظام بہت حد تک منظم ہو چکا ہے۔ باہر سے مہمان وہاں بھی بہت آتے ہیں۔ ارد گرد کے مشرقی یورپ کے لوگوں کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے بھی جلسہ میں شامل ہونے کے لئے لوگ آتے ہیں۔ اس سال تو افریقہ کے بعض ممالک سے بھی لوگوں نے وہاں جلسہ میں شرکت کی اور ہمیشہ کی طرح، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جلسہ میں ہوتا ہے، باہر سے آنے والے مہمان آکر اچھا تاثر ہمارے جلسوں سے لیتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ جرمنی میں بھی بیلجیم میں بھی جو لوگ بھی جلسہ میں شامل ہوئے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا۔ جماعت کے بارے میں اپنے نیک اچھے تأثرات کا اظہار کیا۔

جرمنی اور بیلجیم کے جلسہ ہائے سالانہ سے متعلق مہمانوں اور شاملین کے نیک تأثرات کا روح پرور تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح

آج سے خدام الاحمدیہ یُوکے کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے میں تمام شامل ہونے والے خدام کو بھی یاددہانی کروا دیتا ہوں کہ اپنے رویّوں کو ایسا رکھیں جو علاقے کے لوگوں پر نیک اثر چھوڑنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اجتماع کو بھی بابرکت فرمائے۔

دونوں جلسوں میں کام کرنے والے کارکنان کا بھی میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق جلسہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کی خدمت کی۔ اسی طرح وہاں تمام شامل ہونے والے جو احمدی لوگ تھے ان کو بھی ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔

اسی طرح کارکنان کو بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت کا موقع دیا اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں کہ جو کمزوریاں اور کمیاں رہ گئی ہیں ان کے بارے میں خود سوچیں اور دیکھیں کہ ان کو آئندہ سالوں میں کس طرح بہتر کرنا ہے۔

بعض مہمانوں کے تأثرات پیش کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جلسہ کی برکات کا صرف احمدیوں پر اثر نہیں ہوتا بلکہ غیروں پر بھی اثر ہوتا ہے۔

مکرم سید حسنات احمد صاحب کینیڈا۔ مکرمہ مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب (مرحوم)
سابق مبلغ ہالینڈ اور انڈونیشیا۔ اور مکرم چوہدری خالد سیف اللہ صاحب نائب امیر جماعت آسٹریلیا کی وفات ۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21؍ ستمبر 2018ء بمطابق21؍تبوک 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

گزشتہ دنوں اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی اور بیلجیم میں شرکت کی توفیق دی اور جیسا کہ ایم ٹی اے دیکھنے والوں نے دنیا میں بھی دیکھا ہو گا، آپ نے بھی دیکھا ہو گا، دونوں جلسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بابرکت تھے۔ جرمنی میں جماعت بڑی ہے اور پھر سالہا سال سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوتے رہے پھر میں اس میں شامل ہو رہا ہوں۔ اس لحاظ سے جرمنی کی جماعت میں اب جلسے کا نظام بہت حد تک منظم ہو چکا ہے۔ باہر سے مہمان وہاں بھی بہت آتے ہیں۔ ارد گرد کے مشرقی یورپ کے لوگوں کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے بھی جلسہ میں شامل ہونے کے لئے لوگ آتے ہیں۔ اس سال تو افریقہ کے بعض ممالک سے بھی لوگوں نے وہاں جلسہ میں شرکت کی اور ہمیشہ کی طرح، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جلسہ میں ہوتا ہے، باہر سے آنے والے مہمان آکر اچھا تاثر ہمارے جلسوں سے لیتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ جرمنی میں بھی بیلجیم میں بھی جو لوگ بھی جلسہ میں شامل ہوئے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا۔ جماعت کے بارے میں اپنے نیک اچھے تأثرات کا اظہار کیا۔ جلسہ کے انتظامات اور جلسہ کے عمومی ماحول کی بڑی تعریف کی کہ ہمیں یہاں آ کر پتہ چلا ہے یا بعض لوگ جو پہلے آ چکے ہیں دوبارہ آئے انہوں نے اس بات کا اظہار کیاکہ آپ کے جلسوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور آجکل میڈیا جس طرح اسلام کے بارے میں دنیا کو غلط تصویر پیش کرتا ہے جو کہ انتہائی بھیانک تصویر ہے، اسلام کی حقیقی تعلیم اور سچے مسلمان کا عمل اس کے بالکل الٹ ہے۔ جلسہ میں شامل ہو کر یہ لوگ ہر کارکن اور ہر افسر بلکہ ہر احمدی کو بڑے غور سے دیکھتے ہیں کہ ان کے عمل کیا ہیں۔ تعلیم اگر اچھی بھی ہو لیکن اس تعلیم کو ماننے والوں کے عمل اچھے نہ ہوں تو پھر اس تعلیم کا نیک اثر قائم نہیں ہوتا۔ پس اس لحاظ سے جلسہ کے تمام رضاکار جیسا کہ پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کارکنان اور شاملین ایک خاموش تبلیغ میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ غیرمسلموں کے دماغوں سے اسلام کے بارے میں غلط تأثر اور تحفظات کو دور کر رہے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں سے نام نہاد علماء نے جو غلط پراپیگنڈا کر کے غلط فہمیاں پیدا کی ہوئی ہیں اسے دور کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگ تو ہمیں یہی کہتے ہیں ناں کہ احمدی نعوذ باللہ مسلمان نہیں ہیں، کلمہ نہیں پڑھتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے۔ آپ کے خاتم النبیین ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔ بلکہ یہاں تک بھی الزام ہے کہ ان کا قرآن کریم بھی علیحدہ ہے۔ لیکن بہت سارے مسلمان بھی جب احمدیوں سے ملیں اور جلسے کے ماحول کو دیکھیں تو یہ تمام غلط تاثرات دور ہو جاتے ہیں اور اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جرمنی میں آنے والوں مسلمانوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا۔ عرب ممالک سے بھی ہندوستان سے بھی پاکستان سے بھی دوسری جگہوں سے بھی۔ اسی طرح یہ شامل ہونے والے کام کرنے والے رضاکاروں کے کاموں کی بھی تعریف کرتے ہیں، ان کے رویّوں کی تعریف کرتے ہیں۔ بیلجیم کے جلسہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تمام چیزیں دیکھنے میں آئیں اور وہ جلسہ بھی بڑا بابرکت اور کامیاب جلسہ تھا۔ چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود اور اس بات کے باوجود کہ وہاں بیلجیم کے افراد جماعت سے زیادہ تعداد میں مہمان شامل ہو گئے تھے، جس کا مَیں نے پہلے ذکر بھی کیا تھا ان کی آخری تقریب میں، انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے سب کام سنبھالے۔ مَیں چودہ سال بعد ان کے جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ اس لحاظ سے ان کو فکر تھی۔ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو گھبراہٹ بھی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بڑے اچھے انتظامات کئے۔ وہاں بھی جو غیر مسلم آئے بیشک تھوڑے تھے انہوں نے جلسہ کے انتظامات اور جماعت کے کام کو عمومی طور پر جو جماعت وہاں کر رہی ہے بڑا سراہا اور جماعت کے کاموں اور امن قائم کرنے کی دنیا میں جو کوشش ہے اس کی عمومی تعریف کی۔ پس جماعت جہاں بھی ہو، جہاں کی بھی ہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیروں پر اپنا نیک اثر قائم کرتی ہے اور تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہے۔ پس ہر فرد جماعت کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر انہیں اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ ہمارا ہر اجتماع اور ہر جلسہ جس علاقے میں بھی ہو رہا ہو وہاں کے لوگوں پر ایک غیر معمولی اثر ڈالتا ہے۔ آج سے خدام الاحمدیہ یُوکے کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے میں تمام شامل ہونے والے خدام کو بھی یاددہانی کروا دیتا ہوں کہ اپنے رویّوں کو ایسا رکھیں جو علاقے کے لوگوں پر نیک اثر چھوڑنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اجتماع کو بھی بابرکت فرمائے اور موسم کی خرابی کی وجہ سے جو بعض ان کو پریشانیاں اور گھبراہٹ ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی دُور کرے اور سازگار موسم کر دے۔
اب دونوں جلسوں میں کام کرنے والے کارکنان کا بھی میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جرمنی میں بھی، بیلجیم میں بھی کہ انہوں نے اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق جلسہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کی خدمت کی۔ اسی طرح وہاں تمام شامل ہونے والے جو احمدی لوگ تھے ان کو بھی ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ مختلف طبقوں اور مزاجوں کے لوگ ہوتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ بیلجیم میں تو کام کرنے والے کارکنوں کی کمی بھی تھی لیکن اس کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا بڑے احسن رنگ میں انہوں نے اس لحاظ سے اپنے کام سرانجام دئیے۔ اسی طرح کارکنان کو بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت کا موقع دیا اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں کہ جو کمزوریاں اور کمیاں رہ گئی ہیں ان کے بارے میں خود سوچیں اور دیکھیں کہ ان کو آئندہ سالوں میں کس طرح بہتر کرنا ہے۔ خاص طور پر انتظامیہ کو، افسران کو، اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اپنی منصوبہ بندیوں کے جائزے لینے چاہئیں اور تمام کمزوریوں کو ایک لال کتاب جو بنی ہوئی ہے اس میں لکھیں تا کہ آئندہ یہ دہرائی نہ جائیں۔

جرمنی میں کام کرنے والے کارکنان کے بارے میں یہ شکایت آیا کرتی تھی کہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں ہوتی اور اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ ڈیوٹی دیتے ہوئے سخت رویہ ہوتا ہے۔ اس دفعہ عمومی طور پر اس بارے میں ان کی بھی اچھی رپورٹ ہے۔ آئندہ سالوں میں اسے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ایک غلطی کی طرف مَیں توجہ دلا دیتا ہوں اور وہ تھی مردانہ جلسہ میں ایک سیشن میں گھر کے حوالے سے ایک نظم پڑھی گئی تھی ۔ اس کو پڑھنے کا انداز غلط تھا۔ ہمارا سٹیج کوئی ڈراموں کا سٹیج نہیں ہے جہاں اس انداز میں نظمیں پڑھی جائیں۔ اپنی روایات کو ہمیشہ ہمیں سامنے رکھنا چاہئے اور اس قسم کے انداز نہیں اپنانے چاہئیں جو ہماری روایات سے مختلف ہوں۔ دوسرے جلسہ کے پروگرام بنانے والوں کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جلسہ کے سیشنز کے دوران جو نظمیں پڑھی جاتی ہیں وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کی نظمیں ہوں۔ باقی نظمیں نہ پڑھی جائیں۔ پس اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میں نے افسر جلسہ سالانہ کو بھی وہاں توجہ دلا دی تھی۔

اس کے بعد اب میں بعض مہمانوں کے تأثرات پیش کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جلسہ کی برکات کا صرف احمدیوں پر اثر نہیں ہوتا بلکہ غیروں پر بھی اثر ہوتا ہے۔

بوسنیا سے ایک غیر احمدی مسجد کے امام آئے ہوئے تھے۔ جلسہ میں شریک ہوئے۔ جلسہ سے قبل ایک تبلیغی نشست میں انہوں نے کہا کہ میں خود جماعت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں تا کہ ذاتی علم کی بنا پر جماعت کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکوں۔یہ بڑے کھلے دل کے امام ہیں۔ اسی بنا پر جلسہ میں شمولیت کی ان کو دعوت بھی دی گئی۔ پھر جلسہ پر کچھ وقت گزارنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ احمدیوںکے درمیان کچھ وقت گزارنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تم ہی وہ لوگ ہو جو کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی تبلیغ صحیح معنوں میں کر رہے ہو۔ جلسہ کی تمام کارروائی کو توجہ اور غور سے دیکھتے رہے۔ جلسہ کے بعد ان کو وفد کے باقی ممبران کے ساتھ جامعہ احمدیہ جرمنی بھی دکھایا گیا۔ انہوں نے جامعہ دیکھنے کے بعد کہا کہ افسوس کہ مسلمان دین اور دنیا کی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں۔ مگر ایک طرف جہاں جلسہ کے دوران میں نے دیکھا کہ امام جماعت احمدیہ نے دنیاوی علمی میدان میں نمایاں کام حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو سندات دیں اور احباب جماعت میں دنیاوی علم میں آگے بڑھنے کی روح کو فروغ دے رہے تھے۔ دوسری طرف جامعہ کی سیر کے بعد اس بات کا بھی ادراک ہو گیا کہ جماعت احمدیہ خلافت کی اقتدا میں کس طرح دینی علم کی اشاعت کے لئے منظم طریق پر کوشش کر رہی ہے اور کس قدر شاندار توازن کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھ رہی ہے اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس لانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اور اس کے بعد وہ مجھے بھی ملے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں ’براہین احمدیہ‘ اور ’تذکرۃ‘ پڑھنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا تذکرۃ پڑھنے کی بجائے آپ ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ اور ’دعوۃ الامیر‘ Invitation to Ahmadiyyat پڑھیں۔ اس سے آپ کو زیادہ تعارف حاصل ہو گا جماعت کے بارے میں بھی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے بارے میں بھی، حالات کے بارے میں بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم وعرفان کے بارے میں بھی، اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ تائیدات کے بارے میں بھی۔
پھر بوسنین وفد میں ایک خاتون معمرہ صاحبہ تھیں۔ کہتی ہیں کہ میں پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئی اور خلیفہ وقت سے ملاقات کی جلسہ کے ایام کس قدر سرعت سے گزر گئے ہمیں پتہ ہی نہیں لگا۔ کاش یہ ایام اور بھی لمبے ہو جاتے۔ میری خواہش ہے کہ ہر جلسہ میں شرکت کروں۔

ایک کمزور بینائی رکھنے والے مونٹی نیگرو سے تعلق رکھنے والے ایک شخص تھے۔ کہتے ہیں کہ میں کمزور بینائی رکھنے والا شخص ہوں مگر اس جلسہ میں شامل ہو کر میں نے سب کچھ دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس جلسہ سے روح کو سیراب کر کے واپس جا رہا ہوں۔ میں جس ملک یا علاقے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں دین اور مذہب سے لوگ بہت دور ہیں۔ اور روحانیت کیا چیز ہے؟ اس کی ہمیں کوئی خبر نہیں ہے۔ مگر جلسہ کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ خدا موجود ہے اور اس کی برکتیں یہاں امن اور سلامتی اور اطمینان قلب کی شکل میں نازل ہو رہی ہیں جس سے میں نے بھی حصہ لیا ہے۔

اس سال جلسہ جرمنی پر بلغاریہ کے 56 رکنی وفد نے شرکت کی۔ اس میں 31 غیر از جماعت مہمان تھے۔ ان کی مجھ سے ملاقات بھی ہوئی۔ وفد میں شامل ایک خاتون کریلکا(Kirilka) صاحبہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں کئی پروگراموں میں شامل ہوئی ہوں لیکن جماعت احمدیہ کے جلسہ میں روحانی ماحول تھا۔ بہت پُرسکون ماحول تھا جو اب رہتی زندگی تک سکون کا سامان ہے۔ لوگوںکے دلوں میں ہمارے لئے احترام اور محبت تھی۔ ان کی آنکھوں سے ان کے ایمان کا اندازہ ہوتا تھا کہ کیسے نیک لوگ ہیں۔ خلیفہ وقت کی تقاریر نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا۔ میں تقریر کے دوران روتی رہی اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ اب میری نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ اب باقی زندگی ان باتوں کی روشنی میں گزاروں۔ میں آپ کی شکرگزار ہوں کہ اس روحانی ماحول سے فائدہ اٹھانے کا مجھے موقع دیا۔

تو یہ لوگ جو احمدیت کو جانتے بھی نہیں یہ لوگ بھی یہاںآ کے اس ماحول سے اثر لیتے ہیں۔ ان کے لئے بھی یہ جلسہ بابرکت ہو جاتا ہے۔

ایک عیسائی خاتون کریسی میرا (Kracimira)صاحبہ کہتی ہیں مَیں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ جلسے میں شامل ہوئی ہوں۔ مَیں نے ایسی منظم مہمان نوازی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ والدین کا احترام، بچوں کی تربیت کے متعلق بہت کچھ سیکھا ہے اسے اب زندگی کا حصہ بناؤں گی۔ مرد حضرات جس طرح خواتین کا احترام کر رہے تھے یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ عیسائیت میں عورتوں کے لئے اتنا عزت اور احترام میں نے نہیں دیکھا اور شکریہ کے ساتھ آپ کے لئے دعاگو ہوں۔

پس یہ مردوں کے لئے بھی ایک سبق ہے کہ صرف جلسہ کے دنوں میں نہیں، ہمیشہ عورت کا یہ احترام ان کے دلوں میں رہنا چاہئے اس تعلیم کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔

ایک دوست مسلمان تھے محمد یوسف صاحب۔ جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں مَیں پہلی بار اس جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ جو باتیں جماعت کے خلاف سنی تھیں جلسہ کا ماحول دیکھ کر اب میرا دل ہر لحاظ سے صاف ہو گیا ہے۔ سب طرف بھلائی اور قرآن و حدیث کی تعلیم تھی اور محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ خاص طور پر خلیفہ وقت کی تقریروں کے دوران بڑا سکون ملا۔ جلسہ کے دوران ہی میں نے فیصلہ کیا کہ اب میںبھی احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔ میری کافی ذاتی مشکلات تھیں لیکن جب میں جلسہ میں شامل ہوا تو میری مشکلات خود بخود دور ہونا شروع ہو گئیں۔ اب میں جماعت کے پیغام کو آگے پھیلاؤں گا۔

پھر لیٹویا (Latvia) سے آنے والے وفد کے تاثرات ہیں۔ لیٹویا سے ایک میڈیکل کے سٹوڈنٹ آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونا میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ یہ جلسہ ان تمام لوگوں کا اجتماع ہے جو کہ مضبوط ایمان اور مطمئن روحوںکے مالک اور بھائی چارے والے پُرامن لوگ ہیں۔ میرے لئے یہ بات باعث حیرت تھی کہ کس طرح ہر کوئی محویت کے ساتھ تقاریر سننے اور اپنے کام میں مگن تھا اور اسی طرح بڑا اعزاز تھا کہ خلیفہ وقت سے بھی ملاقات میری ہوئی۔ انہوں نے جرمنی میں مہاجرین کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں پائے جانے والے خوف کے متعلق بات کی اور اس بات پہ مجھے خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ دنیا میں امن اور بھائی چارے کا پیغام دے رہی ہے اور جرمن معاشرے میں دوستانہ ہمسائیگی اور خدمت پر زور دے رہی ہے۔

لیٹویا میں ایک غیر احمدی پاکستانی ماسٹرز کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں گزشتہ ماہ ہی سٹڈی ویزا پر پاکستان سے لیٹویا آیا ہوں۔ مجھے بھی جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی جو کہ شش و پنج کے بعد میں نے قبول کر لی۔ جب میں جلسہ گاہ پہنچا تو وہاں انتظامیہ کو دیکھ کر میں بہت حیران ہوا کیونکہ وہاں بہت زیادہ لوگ تھے۔ انتظامیہ بڑی خوبصورتی اور سمجھداری سے سب کو سنبھال رہی تھی۔ جلسہ گاہ میں بہت سارے لوگ تھے جن میں کافی سارے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم مہمان تھے اور ان سب کو اس کے لئے دعوت دی گئی تھی تا کہ وہ دین اسلام کا آ کر خود مشاہدہ کریں۔ میں نے اتنا پیار، محبت، عزت، احترام اور مہمان نوازی کبھی اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی جتنی میں نے وہاں دیکھی اور مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ اس سے تمام غیر مسلموں پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔ دین اسلام کی طرف آنے کی ضرور کوشش کریں گے۔ میں کیونکہ احمدی نہیں ہوں اس لئے میرے دل میں بھی کچھ غلط فہمیاں تھیں جو ہر دوسرے فرقے والے مسلمانوں کے دل میں ہوتی ہیں۔ وہاں جب میں نے تقاریر سنیں اور وہاں پر لکھے ہوئے کلمات دیکھے اور نماز بھی پڑھی تو مجھے کوئی فرق نہیں لگا۔ یہی سب کچھ ہم بھی کرتے ہیں اور یہی سب کچھ احمدی بھی کررہے ہیں۔ ان کا کلمہ بھی وہی ہے۔ نماز بھی وہی ہے۔ قرآن بھی وہی ہے۔ سب سے زیادہ قابل غور بات ختم نبوت تھی جس پر میں اب سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ غور وفکر کروں کہ کیا میں اپنے فرقے کو سچا کہوں یا احمدی فرقے کو۔ سب سے بڑا فائدہ مجھے جلسے پر آنے کا یہی ہوا ہے کہ میں نے احمدی لوگوں میں بیٹھ کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے اور اب میں اپنے طور پر اچھی طرح دیکھوں گا کہ اسلام اصل میں کیا ہے اور ختم نبوت کیا ہے۔ مجھے خلیفہ وقت کی تقریر بہت پسند آئی خاص کر آخری دن والی۔ یہ چار دن میری زندگی کے بہت اچھے دن تھے۔ کہتے ہیں باقی مسلمان صرف باتیں کرتے ہیں اور نفرتیں پھیلاتے ہیں لیکن یہاں میں نے صرف محبت، عزت اور احترام دیکھا۔ میرے ساتھ کچھ غیر مسلم دوست بھی تھے۔ وہ مسلمانوں کے اس رویّے سے، اس عزت و احترام سے جو احمدیہ جماعت نے ان کو دیا بہت متاثر تھے۔ انتظامی ٹیم خواہ وہ کوئی بھی تھی ہر کسی نے بہت پیار محبت اور عزت و احترام سے بات کی اور گائیڈ کیا اور اتنے بڑے جلسہ کو اتنی خوبصورتی سے Manage کیا اور میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

پھر یونیورسٹی آف ایگریکلچر لیٹویا کے ایک سری لنکن لیکچرر جلسہ میںشامل ہوئے۔ کہتے ہیں سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے اس میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو مجھے تھوڑا خوف تھا کہیں اس تقریب پر کوئی دہشتگردی کا حملہ نہ ہو جائے۔ مگر جب میں نے اس جلسہ کی سیکیورٹی دیکھی تو میں نے محسوس کیا کوئی بھی اس پروگرام کو یا اس میں شریک کسی بھی فرد کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

بہرحال یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ خود انتظام کر رہا ہوتا ہے ہماری سیکیورٹی کیاہونی ہے۔
بہرحال کہتے ہیں میں اس پورے پروگرام کی سیکیورٹی کو بہت appreciate کرتا ہوں۔ باوجود اس کے کہ میرے بہت سے سری لنکن مسلمان دوست ہیں مگر ایک بدھ گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے یہ بدھ مت کے پیرو ہیں۔ مذہب اسلام کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں تھا۔ جلسہ نے مجھے حقیقی اسلام کے بارے میں تعلیم دی ہے اور دوسرے اسلامی گروپوں کے بارے میں بتایا ہے۔ اسی طرح احمدیہ فرقہ اور دوسرے گروپوں کے درمیان فرق واضح کیا ہے۔ اس تقریب سے جو بہترین چیز میں نے اخذ کی ہے وہ یہ ہے کہ احمدیہ جماعت ایک محبت کرنے والی جماعت ہے۔ میں اس کو بہت زیادہ سراہنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کی جماعت کی انتظامی صلاحیت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور یہ چیز واضح اشارہ دے رہی ہے کہ آپ لوگ دنیا کی درست سمت میں رہنمائی کر سکتے ہیں۔

لیٹویا سے ایک طالبہ گلوریہ صاحبہ پہلی مرتبہ آئیں اور کسی بھی اسلامی پروگرام میں پہلی دفعہ شرکت کی۔ کہتی ہیں مجھے سب کچھ بہت اچھا لگا کھانا پینا ہر چیز۔ لوگ بہت خوش اخلاق تھے۔ ڈیوٹی پر مامور لجنہ ہمیشہ مسکرا کر ملتی تھیں۔ لوگوں کو لجنہ سے ہی زیادہ شکایت تھی۔ یہ کہتی ہیں کہ ہمیشہ لجنہ مسکرا کر ملتی تھیں اور مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ سب چھوٹے بڑے ماحول کو صاف رکھنے میں کوشاں تھے۔ مجھے یہ بھی چیز اچھی لگی۔ میں نے اپنے آپ کو آرام دہ محسوس کیا۔ مجھے وہ نظارہ اچھی طرح یاد ہے جب میری نظر سکرین پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ مردانہ مارکی میں سب لوگوں نے ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ یہ بیعت کا ذکر کر رہی ہیں۔ اس کانفرنس میں شامل ہو کر اسلام کے بارے میں میرے خیالات بالکل تبدیل ہو گئے ہیں اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ابھی بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس دنیا کی بھلائی چاہتے ہیں۔

لیٹویا کے وفد میں شامل ایک اور لڑکی انستیسیا(Anastasia)صاحبہ ہیں۔ جو غیر مسلموں سے وہاں میں علیحدہ ایک خطاب کرتا ہوں اس کے بارے میں یہ کہتی ہیں کہ یہ مجھے بڑا پسند آیا۔ جو باتیں انہوںنے کیں بالکل درست تھیں۔ اور پھر کہتی ہیں کہ یہ خطاب سننے کے لئے کیونکہ عورتیں مرد ایک جگہ ہوتے ہیں، کوئی ہزار کے قریب مہمان تھے یہ مختلف قوموں کے۔ جرمن خاص طور پر چار سو پانچ سو کے قریب۔ کہتی ہیں اس خطاب کے لئے میں مردانہ جلسہ گاہ میں آئی تھی اور باقی وقت میںنے لجنہ کی مارکی میں گزارا ہے۔ مردوں کے درمیان بیٹھے مجھے شرم آ رہی تھی اور مجھے عجیب لگ رہا تھا کہ میرے سر پر دوپٹہ نہیں ہے۔
پس یہ بات ان لڑکیوں میں بھی اعتماد پیدا کرنے والی ہونی چاہئے جو یہ کہتی ہیں کہ یہاں آ کے ہمیں شرم آتی ہے کہ یا دوپٹہ اتار دیں یا سکارف اتار دیں۔ یہ عیسائی آ کے اس بات پہ شرمندہ ہو رہی ہے کہ میں مردوںمیں کیوں بیٹھی اور بغیر دوپٹے کے بیٹھی۔

کوسووو سے ایک وکیل صاحب اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں کہ جلسہ کے نظام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی خلافت کی اطاعت میں سرگرداں اپنا کام کر رہا ہے۔ یہ تمام اطاعت اس وجود کی محبت تھی جو خلیفہ وقت کی شکل میں جماعت احمدیہ کو نصیب ہے۔ اور مجھے کہتے ہیں خلیفہ وقت سے ملاقات کا موقع ملا۔ جماعت کا ہر فرد ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ کوسووو میں بھی اس طرح کے اجتماع وغیرہ ہوتے ہیں لیکن اس جلسہ میں شامل ہو کر ایک الگ ہی کیفیت انسان پر طاری ہوتی ہے کہ ہر رنگ و نسل کے لوگ اس جلسہ میں شامل ہیں اور ہر ایک کی ضرورت کے مطابق ان کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ یہ وکیل احمدی نہیں ہیں۔
کوسووو کے وفد میں ایک فزکس کے پروفیسر تھے آربر(Arber) صاحب وہ کہتے ہیں کہ یہ بات میرے لئے ناقابل یقین تھی کہ اتنے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور ان کی ضروریات کا پورا کیا جانا ممکن ہے۔ جلسہ میں شامل ہوکر تمام انتظامات کو بغور دیکھا کہ کس طرح ہر ایک چیز ایک نظام کے ساتھ چل رہی ہے اور ضروریات کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ہر ایک کام کے لئے ایک خادم مقرر تھا۔ لنگر میں جانے کا مجھے اتفاق ہوا۔ وہاں ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ وہ پچھلے بائیس سال سے پیاز چھیلنے کے لئے کام کر رہا ہے اور پچھلے بائیس سال سے اس کے پاس ایک ہی چھری ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ چھری بائیس سال سے میں نے اس لئے رکھی ہوئی ہے کہ خلیفۃ المسیح الرابع نے یہ چھری استعمال کی تھی اور اس پہ ہاتھ لگایا تھا۔ تو اس لحاظ سے اس کا ان پہ بڑا اچھا اثر ہوا ہے۔

جارجیا سے اڑتیس افراد پر مشتمل وفد جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوا۔ دو پادری صاحبان تھے۔ دو مفتی صاحبان تھے۔ شیعہ و سنی لیڈر تھے اور دیگر تیس غیر احمدی افراد تھے۔ اس وفد میں ایک غیر احمدی مسجد کے امام جمبول(Jambul) صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں جارجیا کی مسجد کا امام ہوں اور میں احمدیہ جماعت کی دعوت پر جرمنی آیا ہوں۔ میں نے اسلام کے بارے میں بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں جو میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ اور پھر میرے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا ایک جملہ مجھے یاد رہے گا کہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انسانیت کی مدد کریں۔ اسلام کا مذہب صرف اور صرف امن کا مذہب ہے۔ یہاں آ کر ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم معلوم ہوئی۔

اور ایک اور خاتون ہیں لیکو(Lako) صاحبہ۔ وہ کہتی ہیں جلسہ کے انتظامات کی وجہ سے ہر کارکن کا میں شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ پھر ایک اور ہیں ارما(Irma) صاحبہ یہ کہتی ہیں کہ آج عورتوں کے پروگرام میں شامل ہوئی ہوں اور مجھے حیرت تھی کہ عورتیں تمام پروگرام کیسے Manage کریں گی۔ یہ بہت حیران کُن تھا کہ سیکیورٹی چَیک بھی عورتیں خود کر رہی تھیں اور مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ میںآپ کی شکرگزار ہوں۔ اور پھر یہ کہتی ہیں مَیںنے عورتوں کا پروگرام بھی آج دیکھا اور یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ خلیفہ وقت اپنے ہاتھوں سے تعلیمی ایوارڈ عورتوں کو بھی دے رہے تھے۔

پھر جارجیا سے ایک اور صاحب بیان کرتے ہیں یہ بھی مسلمان ہیں کہ ایک مسلمان تنظیم کا چیئرمین ہوں۔ اس جلسہ میں شمولیت ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ میں نے یہاں پر روحانیت اور بھائی چارے کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا موقع تھا کہ ہم یہاں آئے اور مستفیض ہوئے۔

ایک اور دوست تھے محمد اکبر صاحب۔ یہ کہتے ہیں کہ بچپن سے سن رہے ہیں کہ کوئی مہدی آئے گا جو دنیا کو تبدیل کرے گا اور ہم اسی کے انتظار میں رہے۔ اب پہلی مرتبہ میں سن رہا ہوں کہ وہ مہدی جس کے ہم منتظر تھے وہ گزر بھی گیا اور اب اس کے خلفاء کا سلسلہ جاری ہے۔ مَیں اب جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کروں گا اور مجھے امید ہے کہ مجھے اطمینان حاصل ہو گا۔

پھر بشپ صاحب ہیں وہ یہاں بھی آئے تھے انہوںنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس جلسہ کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ وہی نیلے لباس میں جو بشپ صاحب تھے۔

ہنگری سے ایک پروٹسنٹ چرچ کے پادری جلسے پہ آئے تھے۔ یہ مذہبی کاموں کے علاوہ فلاحی کاموں میں بھی بڑے متحرک ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ میں تو عیسائی ہوں مگر آپ کے جلسہ پر جا کر مجھے ایمانی تازگی ملتی ہے اور میں تازہ دم ہو کر لوٹتا ہوں۔ یہ چارجنگ (Charging) سارا سال کے کام میں میری مددگار ہوتی ہے۔ پہلے بھی آ چکے ہیں۔ کہتے ہیں چارج ہو کر جاتا ہوں پھر سارا سال میرے کاموں میں مددگار ہوتی ہے۔ مربی صاحب کہتے ہیں موصوف کی وجہ سے نہ صرف ان کے گاؤں بلکہ ان کے تمام حلقہ احباب میں واقفیت ہوئی ہے اور جماعت کا پیغام پہنچانے کے ان کے ذریعہ سے بھی نئے رستے وہاں کھل رہے ہیں۔

ہنگری سے ایک صاحب وارگا(Varga) صاحب ریفیوجی کیمپ کے دفترمیں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ ایسا موقع ہے جیسا کہ انسان کسی عظیم الشان چیز کو دیکھے تو حیرانگی کے ساتھ ساتھ اندر سے کپکپی بھی طاری ہو جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جب آپ لوگ نعرے لگاتے تھے تو ایسالگتا تھا کہ ابھی امام حکم دے گا اور آپ لبیک کہتے ہوئے کچھ کر گزریں گے جیسا کہ حکم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ شروع شروع میں تو مجھے بڑا خوف محسوس ہوا۔ ہنگری میں ایسا مجمع تو دور کی بات سو لوگ بھی ہوں توایک گھنٹے میں ہی کوئی لڑائی ہو جاتی ہے لیکن ہزاروں افراد کا ایسا پُرامن مجمع میں نے آ ج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

ہنگری سے ایک ریفیوجی کیمپ کے مالی امور کی نگرانی کرنے والی ایلونہ(Illona) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ انہوں نے جلسہ کے انتظامات وغیرہ دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ جلسہ کا اتنا زیادہ خرچ کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ان کو جماعتی خدمت اور چندوں کے نظام کا بتایا گیا۔ اس بات پہ بڑی حیران ہوئیں۔ پھر کہتی ہیں کہ جلسہ ایک ایسی تقریب ہے جو انسان کو اندر سے دھو کر ہلکا پھلکا بنا دیتا ہے۔ اب یہ احمدی نہیں، مسلمان نہیں، کہہ رہی ہیں کہ اس تقریب میں شامل ہو کر لگتا ہے انسان اندر سے دھل گیا اور بڑا ہلکا پھلکا ہو گیا۔ جیسے شروع میں بچے کو نہانے سے خوف آتا ہے مگر وہ اس کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے ایسا ہی حال انسان کا جلسہ دیکھ کر ہوتا ہے۔ تو یہ میں نے کہا ناں کہ جلسہ غیروں پر بھی بڑا اثر ڈال رہا ہوتا ہے۔
ہنگری کے وفد میں یمن سے تعلق رکھنے والی ایک میڈیکل ڈاکٹر وفا صاحبہ ہیں۔ جلسہ میں شامل ہوئیں تو یہ بڑی پرجوش تھیں۔ دوسرے دن لجنہ سے جو خطاب تھا انہوں نے خواتین کی مارکی میں سنا۔ اس کے بعد مہمانوں سے جو میرا خطاب تھا وہ مردانہ ہال میں آ کر سنا تو کہنے لگی کہ میں لجنہ مارکی میں ہی خوش تھی مجھے واپس لجنہ کی طرف چھوڑنے کا انتظام کر دیں۔ جامعہ کے وزٹ کے دوران بڑے شوق سے لائبریری دیکھی، بنیادی اسلامی کتب دیکھیں۔ باہر آ کر کہنے لگی کہ ہر آیت برموقع اور برمحل ہے اور ساتھ ہی جامعہ کی عمارت پر تحریر آیت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دیکھیں کیسے بالکل صحیح جگہ پر لکھی ہوئی ہے۔ وہ آیت ہے ۔وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا۔

پھر مقدونیہ کا وفد کا ہے۔ جرمنی کے جلسہ میں مقدونیہ کے تراسی (83) افراد نے شرکت کی اور پچاس افراد ایک بس کے ذریعہ دو ہزار کلو میٹر کا سفر چونتیس گھنٹوں میں طے کر کے آئے جبکہ دیگر افراد دوسرے ذرائع استعمال کر کے شامل ہوئے۔ ان شامل ہونے والوں میں اکیس (21) احمدی تھے۔ انتیس (29) غیراحمدی مسلمان تھے۔ چودہ (14) عیسائی تھے۔ ان مہمانوں میں ایک بڑے شہر کے میئر بھی تھے۔ چار ٹی وی چینل کے چھ صحافی بھی شامل ہوئے۔ جلسہ کے تینوں دن جلسہ کے مناظر کی ریکارڈنگ کی۔ مختلف مہمانوں کے انٹرویو لئے اور انہوں نے کہا ہے اپنے اپنے ٹیلی ویژن کے لئے وہ ڈاکیو منٹری تیار کریں گے۔ جلسہ میں تین مسلمان پروفیسر بھی شامل ہوئے جو آپس میں دوست ہیں۔ ان میں سے ایک پروفیسر جو آئی ٹی کے پروفیسر ہیں جن کا نام جلادینی(Djeladini) صاحب ہے کہتے ہیں مَیں جلسہ سالانہ کی انتظامیہ اور مقدونیہ میں احمدی افراد کا ممنون ہوں جن کی دعوت پر میں جلسہ میں شامل ہوا۔ اس جگہ پر صحیح اسلامی تعلیمات کا ظہور ہو رہا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل میں نے جماعت احمدیہ اور ان کے خلفاء کے بارے میں پڑھ اور سن رکھا تھا اور بہت سی باتیں جماعت کے خلاف سنی تھیں لیکن یہاں آ کر ان سب کا جواب مل گیا۔ میں نے جماعت کے خلیفہ کو دیکھا۔ ان کی باتیں سنیں۔ ان سے بہت علم حاصل کیا۔ جو باتیں جماعت کے خلیفہ نے بیان کیں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ کی باتیں سن کر میرا پختہ ایمان ہے کہ تمام دنیا کے افراد اس پیغام اور راستے کو اختیار کر لیں گے جو اللہ جل شانہٗ کی طرف سے شروع ہوا ہے۔ میری طرف سے آپ کو سلام اور امن ملے۔

لتھوینیا سے پچاس افراد پر مشتمل وفد شامل ہوا۔ ان میں چالیس غیر از جماعت دوست تھے اور دس احمدی احباب تھے۔ ایک صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے میں جماعت کا ہی حصہ ہوں۔ یہ جلسہ ہمیں برابری، محبت اور دوسروں کی خدمت کرنے کا سبق دیتا ہے جس کا عملی مظاہرہ اس جلسہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

لتھوینیا سے تعلق رکھنے والے ایک جیرونی ماس(Jaronimas) صاحب ہیں وہ کہتے ہیں مَیں ایک مصنف ہوں اور یہاں اسلام کے بارے میں سیکھنے آیا ہوں۔ خدا کی وحدانیت کا درس جس انداز میں خلیفہ نے دیا ہے اس نے مجھ پہ بہت اثر کیا ۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا صرف عبادت ہی نہ کی جائے بلکہ خدا کو خوش کرنا مقصود ہونا چاہئے۔ اس بات نے میرا دل جیت لیا ہے۔ مَیں واپس جا کر جماعت کے بارے میں اخباروں میں کالم بھی لکھوں گا اور اپنے میگزین کا ایک پورا شمارہ صرف اس جماعت کے بارے میں شائع کروں گا۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ ایسا کرنے سے مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن میں حق کا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ میرا دل یہاں آ کر نہایت خوش اور مطمئن ہوا ہے اور میں آپ سب کے لئے اور جماعت کے لئے بہت نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔

تاجکستان سے ایک غیر از جماعت صاحب تھے رحیم صاحب۔ یہ سیاستدان بھی ہیں۔ یہ کہتے ہیں مجھے جلسہ میں پہلی دفعہ شامل ہونے کا موقع ملا اور جماعت احمدیہ کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تمام کارکنان کا جذبہ میرے لئے مثال ہے کہ کس طرح دن رات کام ہو رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے ملاقات میں مجھے میرے ذہن میں ابھرنے والے بہت سے سوالات کا جواب مل گیا ہے اور ان کے پاس بیٹھ کے لگتا ہے کہ آج وحدت اس جماعت کے پاس ہے۔ مسلمانوں کے آج کے دور میں حالات کے متعلق میرے سوال کا بہت جامع جواب دیا اور میں قائل ہو گیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ مستقبل میں تمام امت مسلمہ کو جمع کرسکتی ہے۔ مجھے یہ جماعت بہت سنجیدہ لگتی ہے۔ میں اس جلسہ اور خلیفہ کے ساتھ خوشگوار ملاقات کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

تاجکستان کی ایک یونیورسٹی کی لیکچرر ہیں وہ کہتی ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ کا جلسہ اور انتظام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مہمان نوازی اور تعاون کی مثال میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ جماعت احمدیہ کو یہاں بہت آزادی ہے اور خلیفہ وقت کا لجنہ سے خطاب آج کے مسائل کا حقیقی حل ہے۔ کاش ساری دنیا اس پر عمل کر سکے۔ مجھے امام جماعت سے ملاقات کا بھی موقع ملا۔ ان کو صحافت اور عصر حاضر کے مسائل پر کافی معلومات ہیں۔ میں ملاقات سے قبل یہی سمجھتی تھی کہ آپ صرف ایک دینی شخصیت ہیں لیکن جب میں نے باتیں کیں کافی معلومات ملیں اور انہوں نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ دنیا میں میڈیا فساد کو پھیلانے میں شامل ہے۔ اگر میڈیا چاہے تو امن میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ میری نیک خواہشات جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ کے ساتھ ہیں۔

سینیگال کے ایک بڑے شہر امبور کے میئر بھی آئے تھے جو کہ سینیگال کے بڑے فرقہ ’مرید‘ کے خلیفہ کے نمائندے کی حیثیت سے جلسہ میں شامل ہوئے تھے وہاں انہوں نے سٹیج پہ مجھےایک تحفہ بھی دیا تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے خلیفہ کی بھی بیعت کی ہے لیکن یہاں پر بیعت کا جو نظارہ دیکھا ہے وہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ وہ جب یہ بات بیان کر رہے تھے تو بڑے جذباتی ہوگئے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے۔ کہنے لگے کہ ہمارا بھی ایک خلیفہ ہے مگر خلافت سے اتنی محبت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ ایسا نظارہ نہ کبھی پہلے دیکھا ہے اور نہ کبھی ایسے خلافت کی محبت دیکھی ہے۔ آج مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ کس طرح صحابہ جان فدا کرتے تھے۔ جو میں نے لوگوں کے دلوں کا جذبہ دیکھا ہے جو محبت دیکھی ہے مجھے یوں لگا کہ ایک ہی اشارہ اگر خلیفہ کریں تو کوئی ایسا بندہ نہیں ہو گا جو کام سے پیچھے ہٹے۔ اتنی محبت اور اطاعت میں نے دیکھی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بھی تین دن کا جلسہ ہوتا ہے۔ جب ہمارا خلیفہ آتا ہے تو کوئی بندہ خاموشی سے نہیں بیٹھا ہوتا مگر یہاں جب خلیفہ آتا ہے تو سارے خاموش ہو کر صرف اور صرف خلیفہ کی باتیں سننے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ یہ میں نے نہ کسی دنیاوی اور نہ کسی دینی لیڈر کے ماننے والوں میں دیکھا ہے۔

جلسہ کے موقع پر تیسرے روز جو بیعت ہوئی تھی اس میں وہاں جو نئے بیعت کرنے والے 42 افراد تھے۔ انہوں نے بیعت کی اور ان کا تعلق سترہ مختلف قوموں سے تھا۔

البانیہ سے آنے والے ایک دوست برک صاحب کہتے ہیں میں احمدیت کا شدید مخالف تھا۔ میرا بھائی اور میرا دوست احمدیت میں داخل ہو چکے تھے۔ میں ہر ممکن کوشش کرتا تھا کہ میرے بھائی کو احمدیت سے نفرت ہو جائے۔ بالآخر ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ دونوں دعا کرتے ہیں جو سچا ہو گا وہ جیت جائے گا۔ تو کہتے ہیں مسلسل دعا کے بعد میرا جی چاہنے لگا کہ پہلے اپنی آنکھوں سے جا کر جلسہ سالانہ اور خلیفہ وقت کو دیکھوں تا کہ جو بھی فیصلہ کروں وہ نامکمل علم کی بنیاد پر نہ ہو۔ چنانچہ گزشتہ سال میں جلسہ میں شامل ہوا تو مجھے کچھ اطمینان ہوا مگر پھر بھی کچھ بے چینی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کن وقت آ گیا اور مجھے خلیفہ وقت کا چہرہ دکھائی دیا اور جب میری نظر پڑی تو اسی وقت میری ساری دشمنی بغض نفرت اور سارے شکوک دل سے نکل گئے۔ اب میرے پاس انکار کی گنجائش نہ تھی۔ چنانچہ جلسہ سے واپس آ کر میں نے بیعت فارم پُر کر دیا۔ اب اس دفعہ میں آیا ہوں اور بیعت کرنے کی توفیق پائی ہے۔ اور پھر یہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران مجھے ایک اور مشکل یہ پیش آئی کہ میری منگیتر احمدی نہیں ہونا چاہتی تھی۔ چنانچہ کوشش کر کے اسے اپنے ساتھ یہاں لے کر آیا ہوں۔ میری منگیتر نے جب خلیفہ وقت کا لجنہ میں خطاب سنا تو اسی وقت اس نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ میری منگیتر نے کہا جس جماعت کے پاس اس قدر شفیق اور محبت کرنے والا خلیفہ ہو اسے ایک وجود سے ساری برکتیں مل گئی ہیں جو باقی مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔ اب ہم جلدی ہی بطور احمدی شادی کریں گے۔

جلسہ سالانہ جرمنی کی میڈیا کوریج کی رپورٹ یہ ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں رائٹرز ورلڈ، یورپین نیوز ایجنسی، میسی ڈونیا ٹی وی کے تین جرنلسٹ، لتھوینیا، اسرائیل اور بعض آن لائن اخبارات کے نمائندگان شامل ہوئے۔ نیشنل لیول پر جرمنی کے چار ٹی وی سٹیشن اور دو پرنٹ میڈیا اور ایک ریڈیو کے نمائندے موجود تھے۔ اس کے علاوہ نیشنل نیوز ایجنسی کے نمائندے بھی شامل تھے۔ لوکل لیول پر دو ٹی وی چینل، دو ریڈیو سٹیشن، دو پرنٹ میڈیا اور ایک اخبار کے نمائندے شامل تھے۔ مجموعی طور پر جرمنی میں جلسہ سالانہ کے تینوں دنوں کی کوریج ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چار ٹی وی چینلز، دو ریڈیو چینل اور چھیالیس اخبارات اور دیگر میڈیا کے ذریعہ چھ کروڑ اٹھائیس لاکھ ستاون ہزار افراد تک پیغام پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مزید آرٹیکلز آ رہے ہیں۔

میڈیا کوریج جلسہ سالانہ بیلجیم۔ یہاں بھی بعض تاثرات تھے جو صحیح طرح ابھی اکٹھے نہیںکئے جا سکے۔ بعد میں ماجد صاحب کی رپورٹ میں آ جائیں گے۔ لیکن بہرحال جو میڈیا کوریج ہے بیلجین ٹی وی چینل اور تین اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں جن کے ذریعہ دو ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ بیلجین ٹی وی اور اخباروں میں جلسہ کے حوالے سے خبریں نشر ہوئیں تو دِلبیک جہاں جلسہ ہو رہا تھا۔ چھوٹا تو نہیں ایک درمیانہ قصبہ ہے چھیالیس ہزار آبادی ہے اس کی۔ بلکہ اب تو شہر بن رہا ہے۔ اس میں پچھلے دس بارہ سالوں میں کافی وسعت ہو گئی ہے۔ بعض لوگوں نے فون کر کے حیرت کا اظہار کیا کہ دلبیک میں چار ہزار مسلمان جمع ہوئے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے نزدیک چار ہزار مسلمان جہاںاکٹھے ہو جائیں تو وہاں ضرور فتنہ اور فساد ہونا چاہئے تھا یا ہنگامہ ہونا چاہئے تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ چار ہزار مسلمان جمع ہوئے اور ہمیں پتہ نہیں چلا۔ ہمیں اس اجتماع سے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کا شور ہم نے سنا۔

پھر ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ افریقہ کے جو مختلف ممالک ہیں ان کے ٹی وی چینلز نے پروگرام دئیے۔ ریویو آف ریلیجنز نے آن لائن ایک نیا پروگرام شروع کیا ہوا ہے اس کے ذریعہ سے تقریباً دو ملین (1.98 ملین) لوگوں تک جلسہ کی کارروائی پہنچی۔ لوگوں کے توتاثرات بے شمار ہیں۔ اخبار اور میڈیا کی خبروں کی تفصیلیں بھی ایسی ہیں جن سے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش ہوتی ہے اور دنیا کو پتہ چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان جلسوںکے دیرپا اور نیک اثرات قائم فرماتا چلا جائے۔

نماز کے بعد مَیں کچھ جنازے غائب پڑھاؤں گا۔

پہلا جنازہ جو ہے وہ سید حسنات احمد صاحب( کینیڈا) کا ہے۔ 27؍اگست کو 92 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی اور سیدہ قریشہ طاہر صاحبہ المعروف بیگم شفیع کے بیٹے تھے۔ سلسلہ کا درد رکھنے والے نیک مخلص اور باوفا انسان تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ آپ ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جو ستّر کی دہائی میں کینیڈا آئے۔ جنہوں نے کینیڈین میڈیا میں اور وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر جماعت کو متعارف کروایا۔ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور تمام اقلیتوں کے حقوق کے لئے تا دم آخر کوشاں رہے۔ آپ ہیومن رائٹس اینڈ ریس ریلیشن سینٹر کے بانی تھے۔نیو کینیڈا اخبار کے پبلشر اور چیف ایڈیٹر تھے۔ متعدد کتب کے مصنف تھے۔ 1982ء میں آپ نے کینیڈین ٹی وی راجرز چینل پر بغیر اجرت جماعت کے پروگرام پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور دنیا بھر میں سب سے پہلی دفعہ 12؍دسمبر 1982ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کی تصاویر اور اسلام اور احمدیت کے پروگرام کینیڈین ٹی وی پر پیش کرنے کی توفیق پائی۔ 85-86ء میں احمدیہ گزٹ کینیڈا کے ایڈیٹر رہے۔ انسانی حقوق کی خدمات کے طور پر حکومت کینیڈا نے ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ مع تصویر جاری کیا۔ حکومت کینیڈا اور مختلف تنظیموں نے انہیں بہت سے انعامات اعزازات اور ایوارڈز دئیے۔ کینیڈا کی جماعت میں تین مرتبہ نیشنل سیکرٹری امور خارجہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ 1988ء میں آپ نے کینیڈا میں پناہ لینے والے احمدیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک پندرہ روزہ اخبار نیو کینیڈا شائع کرنا شروع کیا جس کے اداریوں کے ذریعہ حکومت سے کینیڈا میںنئے آنے والوں کے حقوق منوانے کی توفیق پاتے رہے۔ اس اخبار میں احمدیت کے عقائد اور احمدیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک نڈر صحافی کا کردار ادا کیا۔ اسی طرح انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا تعارف بھی لکھا اور اس کو compile کیا وہ بھی ان کی ایک بہت علمی کاوش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے مغفرت کا سلوک اور رحم کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ مبارکہ شوکت صاحبہ کا ہے جو حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مبلغ ہالینڈ اور انڈونیشیا کی اہلیہ تھیں۔ 8؍ستمبر کو 94 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ محترم بابو عبداللطیف صاحب کی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی 1940ء میں حافظ قدرت اللہ صاحب کے ساتھ ہوئی جو واقف زندگی اور سلسلہ کے ابتدائی مبلغین میں سے تھے۔ ان کا یہ ساتھ 53 سال جاری رہا۔ تقریباً 20سال کا عرصہ وہ ہے جبکہ حافظ صاحب کے میدان جہاد میں ہونے کی وجہ سے، تبلیغ کے میدان میں ہونے کی وجہ سے، ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے اپنے بچوںکی تعلیم و تربیت کا فریضہ اکیلے ہی ادا کیا۔ پرانے مبلغین کی بیویوں نے بھی بڑی قربانیاں دی ہوئی ہیں۔ پندرہ بیس سال تک اپنے خاوندوں سے علیحدہ رہی ہیں۔ بہت نیک اور بزرگ دعا گو عبادت گزار خاتون تھیں۔ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے والی، ضرورت مند کی ہر ممکن مدد کرنے والی مخلص خاتون تھیں۔ تہجد کا اہتمام کرنے والی، خدمت دین کے کاموں میں بھرپور شرکت کرنے والی، خلافت سے مضبوط اور اعلیٰ تعلق تھا۔ قتلان(Catalan) زبان میں جماعت کی طرف سے شائع ہونے والے ترجمہ قرآن کا سارا خرچ اپنی طرف سے، حافظ صاحب اور فیملی کی طرف سے پیش کرنے کی توفیق پائی۔ انڈونیشیا میں ایک مسجد کی تعمیر کا سارا خرچ بھی فیملی کی طرف سے ادا کرنے کی سعادت پائی۔

ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا عزیز اللہ صاحب ہیں۔ تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ یہ عطاء المجیب راشد صاحب کی ممانی تھیں۔

اور تیسرا جنازہ چوہدری خالد سیف اللہ صاحب نائب امیر جماعت آسٹریلیا کا ہے جو 16؍ستمبر کو 87 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا چوہدری محمد خان صاحب نمبر دار موضع گل منج ضلع گورداسپور کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1890ء میں نوجوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ چوہدری محمد خان صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ آپ کو احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ذاتی طور پر دیا تھا۔ یہ قادیان گئے۔ وہاں نماز عصر کا وقت جا رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ نماز پڑھ لیتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے لئے گئے تو وہاں نماز ختم ہو چکی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر آ رہے تھے۔ سلام کیا۔ یہ لوگ نماز پڑھنے لگ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہیں بیٹھ گئے اور جب انہوں نے نماز پڑھ لی تو ان کو پوچھا کہ آپ لوگوں کو میرا پیغام پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ کوئی اعلان وغیرہ نہیں پہنچا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے۔ کہتے ہیںوہاں الماری میں لٹریچر پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تمہارے گاؤں میں جتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کے لئے لے جاؤ۔ تو یہ کہتے ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ تو تین چار تھے میں نے چودہ پندرہ کی تعداد میں وہ لٹریچر اٹھالیا۔ جو آپ کے دعوے کا بھی اعلان تھا میں لے گیا۔ اس کے بعد اس کو پڑھا۔ اس سے بڑا متاثر ہوا۔ اور پھر سیکھواں گاؤں جو تھا وہاں کے حضرت میاںجمال دین صاحب اور حضرت میاں خیر دین صاحب رہا کرتے تھے وہ ان کے واقف تھے۔ تو یہ لوگ لٹریچر پڑھنے کے بعد ان کے پاس لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم نے تو مان لیا ہے تم لوگ قبول کرلو۔ چنانچہ چوہدری محمد خان صاحب سیکھواں سے سیدھے قادیان چلے گئے۔ قادیان پہنچ کر آپ نے بیعت کی درخواست کی جو منظور ہوئی اور اس طرح پھر بیعت کر کے آپ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ بیعت کے بعد کہتے ہیں کہ ایک روز چوہدری محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاؤں دبا رہے تھے تو انہوں نے جھجکتے ہوئے عرض کیا کہ حضور مجھے کوئی وظیفہ بتائیں جس سے میری دین و دنیا سنور جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارا وظیفہ یہی ہے کہ نماز سنوار کر ادا کیا کرو۔ استغفار کثرت سے پڑھا کرو۔ بعد میں پھر ایک مرتبہ اسی طرح پاؤں دباتے ہوئے آپ نے دوبارہ عرض کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ استغفار اور درود شریف کثرت سے پڑھا کرو۔ چنانچہ آپ عمر بھر اس پر عمل پیرا رہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہ روایت لکھی ہوئی ہے۔

یہ پہلی باتیں تو ان کے دادا کی بتائی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے تھیں۔ مکرم چوہدری خالد سیف اللہ صاحب کے بارے میں یہ ہے کہ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں جہاں بھی رہے جماعتی خدمات بجا لاتے رہے جن میں یہ صدر ممبر سٹینڈنگ کمیٹی برائے صد سالہ جوبلی بھی رہے ہیں۔ خدام الاحمدیہ کی مرکزی شوریٰ کی دستور کمیٹی کے صدر بھی رہے۔ جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ فیصل آباد بھی رہے۔ فنانشل سیکرٹری مرکزی احمدیہ انجنیئرنگ ایسوسی ایشن بھی رہے۔ صدر حلقہ سول لائن لاہور اور تربیلا بھی رہے۔ بن غازی لیبیا کے امیر جماعت بھی رہے۔ انصار اللہ آسٹریلیا کے صدر بھی رہے۔ نائب امیر جماعت احمدیہ آسٹریلیابھی رہے اور محمود بنگالی صاحب کی وفات کے بعد کچھ عرصہ کے لئے ان کو قائمقام امیر جماعت آسٹریلیا بھی مَیں نے مقرر کیا تھا۔ اس کی بھی انہوں نے بڑے احسن رنگ میں خدمت کی توفیق پائی۔ خلافت سے ان کا غیر معمولی وفا اور اطاعت کا تعلق تھا۔ بیشمار اَور بھی ان کی خدمات ہیں بہرحال بھرپور زندگی انہوں نے گزاری۔ بڑے علمی آدمی تھے۔ جماعت کے جرائد اور رسائل میں ان کے مضامین بھی چھپتے رہے ہیں۔ لیکن انتہائی سادہ مزاج تھے۔ ہر وقت مسکراتے رہنے والے صلح جُو انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اور آپ کے بڑے بیٹے محمد عمر خالد صاحب تو یہیں یُوکے میں ہی ہیں،مارڈن کے صدر حلقہ ہیں۔ چھوٹے بیٹے احمد عمر خالد آسٹریلیا میں نیشنل سیکرٹری وقف جدید کے طور پر خدمت بجا لا رہے ہیں۔ باقی ان کی بیٹیاں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی سب اولاد کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button