https://youtu.be/6-7KZ1I0iGg عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے، ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر مستورات سے بصیرت افروز خطاب کا خلاصہ (حديقة المہدي،۲۶؍جولائی ۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنيشنل)جلسہ سالانہ برطانيہ کے دوسرے روز حضورِ انور ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز حسب روايت مستورات سے خطاب فرماتے ہيں۔ مستورات سے خطاب کے ليے حضورِ انور بارہ بج کر پانچ منٹ پر والہانہ نعروں کي گونج ميں جلسہ گاہ مستورات ميں رونق افروز ہوئے اور السلام عليکم و رحمة اللہ کا تحفہ عنايت فرمايا۔ حضور انور کے کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ امینہ العیساوی صاحبہ کو سورۃالاحزاب کی آیات ۳۶ و ۳۷ کی تلاوت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور مکرمہ سائحہ معاذ صاحبہ کو ان آیات کا اردو ترجمہ تفسیر صغیر سے پیش کرنے کی توفیق ملی۔مکرمہ سلونی رشید صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام میں سے منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا: حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی بعدازاں تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبات کے نام پڑھے گئے۔ تعلیمی اعزازات کا اعلان حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت موجودگی میں ڈاکٹر رابعہ احمد صاحبہ سیکرٹری امور طالبات لجنہ اماءاللہ یوکے نے تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والی طالبات کی درج ذیل فہرست پیش کی: جی سی ایس ای صوفیہ حفیظ، ثمین مرزا، کشمالہ باسط خان، ماہین مصطفیٰ، امۃ الوکیل، ماہدہ کائنات خرم، کاشفہ سہیل،ملائکہ دائود، وردہ وسیم، سبیکہ مظفر احمد، سعدیہ رحمان، حریم گوندل،عالیہ مظہر، عافیہ ناصر، دانیہ رومان، سطوت عمران احمد، نورین اقبال، امۃالسبوح احمد، طافیہ ناصر، نیّرہ بلال، یمنیٰ ملک، یسریٰ ملک، سبیکہ ناصر، منال عظمیٰ نیازی، جاذبہ خرم، مسکان احمد، عطیۃ الہادی نیالہ ، شمائلہ احمد، لبیبہ رحمان، سلمانہ مبشر، صفیہ احمد، عائشہ الہام باجوہ، زوہا قاسم، عیشال احمد، ماہ نور گورایہ، عیشل نور، فائزہ عفت، عطیۃ الشافی اپل، امۃ الباری خان، حافظہ تاشفہ آصف، عروش انیل، فاتحہ اقبال، نداء الحق، انوش رحمان، عنایہ فرمان اے لیول فریحہ باجوہ، ایمن عثمان، امة الباقی جوئیہ،آنسہ نورین، خلود رحمان، شافعہ کامران، حمامة البشریٰ، بارعہ گلزار، نشیطہ ملک، لائبہ اعجاز، امة السبوح خان، طوبیٰ آصف، زنیرہ امان شاہین، ، زینہ بٹر۔ گریجوایٹ و پوسٹ گریجوایٹ طالبات زوہا سہیل ، یسریٰ ڈاہری، سبیکہ احمد، سیدہ ارم رومان، فاتحہ خواجہ، ماہم جاوید، شازبہ احمد، آشفین کھوکھر، منال بٹ، زوہا قیصر، ماریہ فرحت، عائشہ احمد، بریرہ فرخ، صبا نورین اقبال، نمودِ سحر کاہلوں ، طیبہ طاہر، کاشفہ مہک ادریس، سعدیہ چودھری، مدیحہ شعیب، مہوش مسعود، پرنیہ احمد، عائشہ احمد، بختاور احمد، ارسہ نور، حاصفہ محمود، اقرا خالد، ڈاکٹر آمنہ احمد، ڈاکٹر نتاشہ بھٹی، نادیہ جواہیر، فاطماتا کنٹے، سبیکہ مظہر چیمہ، رافائلا وولمر، ڈاکٹر شمائلہ ابراہیم، لائبہ مبشر رشید، کنزیٰ جبار، زویا شاہ، عائزہ احمد، عیشہ بٹ، نادیہ شمس، سلمیٰ جاوید، فریحہ انجم ، قرة العین، نائمہ شہزاد، زوبیہ احمد، طوبیٰ رؤوف، ڈاکٹر ثمرہ ثمین، ڈاکٹر عافیہ نسیم، ڈاکٹر نائلہ عابد، ڈاکٹرماہدہ رحمٰن۔ عالمی ڈگریاں (بیرون ملک تعلیم مکمل کرنے والی طالبات) آمنہ معاذ، نویرہ وقار، لنتہ بشریٰ خالق، ارسہ نجیب، طوبیٰ رؤوف، سونیا اشرف، امة البصیر ، عارفہ عزیر، ڈاکٹر صدف سلمان، غزالہ منیب، ڈاکٹر ماہدہ بٹ، ڈاکٹر مہک بٹ، ڈاکٹر سحر ناصر، ڈاکٹر مشعل کھوکھر، ڈاکٹر انیلہ منور۔ ساڑھے بارہ بجے حضور انور ايدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر رونق افروز ہوئے۔ السلام عليکم ورحمة اللہ کا تحفہ عطا فرماکر حضور انور نے خطاب کا آغاز فرمايا۔ خلاصہ خطاب حضور انور تشہد ،تعوذ اور سورہ ٔفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج آپ جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئی ہیں۔ جلسہ سالانہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنی علمی، روحانی اورعملی ترقی میں اپنا کردار بڑھانے والی بنیں۔ مَیں نے پہلی تقریر میں کل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے اِسی طرف توجہ دلائی تھی کہ جلسے کا مقصد کیا ہے۔ الله تعالیٰ نے عورت کو اسلام کی تعلیم کےذریعے جو مقام دیا ہے، اگر ہر عورت اُسے یاد رکھے اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے والی ہو، اپنی ذاتی اصلاح کے ساتھ ، اپنی اولاد کا حق ادا کرنے والی ہو، اُن کی تربیت کرنے والی ہو اور جو حقوق اسلام نے عورت کے قائم کیے ہیں، اُن کی شکر گزاری کرنے والی ہو، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی میں انقلاب لانے والی ہو گی، بلکہ اپنی اولاد کی زندگیوں میں بھی انقلاب لانے والی ہو گی اور جماعت کے لیے ایک ایسا وجود بن جائے گی، جس کا جماعت کی ترقی میں ایک اہم کردار ہو گا۔ حضور انور نے فرمایا کہ بہت ساری لڑکیاں سوال کرتی ہیں کہ ہم اپنی دنیاوی تعلیم جو حاصل کر رہی ہیں ، اِس کے ساتھ جماعت کے لیے مفید وجود کس طرح بن سکتی ہیں؟ اگر لڑکیاں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو جس فیلڈ میں بھی ہوں، جس شعبے میں بھی ہوں، یا گھرداری کرنے والی خاتون ہوں، جماعت کے لیے ایک مفید وجود بن سکتی ہیں۔ آپ میں سے وہ بھی ہیں، جو چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں یا جوان بچوں کی مائیں ہیں یا جوانی میں قدم رکھنے والے بچوں کی مائیں ہیں یا آئندہ ان شاء الله آنے والی نسلوں کی مائیں بننے والی ہیں، آپ سب کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، یہ آپ کی بنیادی سوچ ہونی چاہیے کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی اصلاح کرنے والے ہیں اور اِس کے لیے ہمیں الله تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے، اپنی اصلاح کرتے ہوئے، اپنی دینی ، علمی، عملی اور روحانی حالت کو بہتر کرتے ہوئے ایک انقلاب لانا ہے۔ اِس کے لیے اسلامی تعلیم کے ذریعےوہ راستے تلاش کر کےاُن پر عمل کرنا ہے، جو ہماری نسلوں کو بھی محفوظ کرنے والے ہوں اور ہماری جماعت کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرنے والے ہوں۔ اِس حوالے سے بعض باتیں آج مَیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ بہت ساری باتیں اِس حوالے سے ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں، لیکن یہ باتیں ایسی ہیں، اِن کو ہمیشہ دُہراتے رہنا چاہیے تاکہ ہم اپنے مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور کبھی نہ بھولیں اور ہم جماعت کی ترقی کی منازل میں اپنا کردار ادا کر سکیں،اپنی نسلوں کو سنبھال سکیں اور اُن کو ایک کارآمد وجود بنا سکیں، ہماری اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوتا رہے۔ پس یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیشہ ہمیں یاد رکھنی چاہئیں۔ الله تعالیٰ نے عورت کو بڑا مقام دیا ہے اور اِس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاِس کی تشریح بہت اعلیٰ رنگ میں فرماتے ہوئے متعدد جگہ پرعورتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ عورت کو وہ عزت اور مقام نہیں دیا جاتا اور اِس کے حقوق کی وہ حفاظت نہیں کی جاتی کہ جوہونی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ مت سمجھو کہ عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ اِن کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے، نہیں!نہیں! ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا :خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن نہیں اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں ؟ دوسروں کے ساتھ وہ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہےجب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہواورعمدہ معاشرت رکھتاہو نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصّے سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اُس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگتی ہے اور بیوی مر گئی ۔ اِس لیے اُن کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِیعنی اِن سے اچھے طریقے سے، معروف طریقے سے سلوک کرو۔ ہاں! اگر وہ بے جا کام کریں تو تنبیہ ضروری ہونی چاہیے۔ انسان کو یہ چاہیے کہ عورت کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی پسند نہیں کر سکتااور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اُس کی کسی غلطی پر چشم پوشی نہ کر سکے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب یہ دیکھیں کتنا عمدہ سبق ہے، آپؑ نے قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں فرمایا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ انسان نیکی کس طرح کر سکتا ہے۔بہت ساری شکایتیں آتی ہیں، بہت ساری عورتیں لکھتی ہیں کہ مرد باہر کے معاشرے میں، جماعتی کاموں میں، لوگوں کے سامنے تو بہت شریف کہلاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اُن جیسا کوئی نیک شخص نہیں، خوش اخلاق کوئی نہیں ایسا، اعلیٰ اخلاق کا مالک کوئی نہیں، لیکن گھر میں اِنہوں نے ایک مصیبت ڈالی ہوتی ہے، وہ بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے، بچوں کے حقوق نہیں ادا کر رہے ہوتے، غصّے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ تو الله تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ عورتوں سے نیک سلوک کرو۔ اور اِس بات کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس طرح فرمائی کہ اگر تم گھر میں نیک سلوک نہیں کر رہے تو باہر تم نے کیا نیکی کرنی ہے؟ تمہاری یہ نیکیاں کسی کام کی نہیں ہیں۔ اور اِس کا معیار ہی یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے نیک سلوک کرو گے تو پھر ہی یہ سمجھا جائے گا کہ تم حقیقت میں نیک اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہو۔اور اگر مرد دین پر قائم نہیں تو پھر عورت کی اصلاح کس طرح کر سکتے ہیں اور کس طرح اُسے کہہ سکتے ہیں کہ اپنی اصلاح کرو۔ پس یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں اور الله تعالیٰ نے عورت کو جو تنبیہ کے لیے کہا ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح بعض مرد سمجھتے ہیں کہ اُنہیں مارنے کی اجازت مل گئی ہے اور عورتیں اِس بات پر بڑی نالاں ہوتی ہیں، ناراض ہوتی ہیں کہ مردوں کو مارنے کی اجازت ہے۔ یہ تو ایک انتہائی قدم ہے اور اِس کی بعض شرائط ہیں۔ پس الله نے تو یہ بات کہہ کر یہاں عورت کا حق محفوظ کیا ہے کہ اُن سے معروف طریقے سے معاشرت کرو۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو اپنے ایک رفیق کے اپنی بیوی سے ناروا سلوک کی وجہ سے الہام بھی ہوا تھا کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے، اِسے روک دیا جائے۔پس اِس الہام میں تمام جماعت کے لیے تعلیم ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس الہام میں تمام جماعت کے لیےتعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں ، وہ اِن کی کنیز یں نہیں ہیں، درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو۔ اور آپؑ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ بِاَھْلہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے والا ہے۔تو آپؑ فرماتے ہیں کہ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو، اِن کے لیے دُعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ خدا کے نزدیک نہایت بدوہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے، جس کو خدا نے جوڑا ہے، اِس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔ حضور انور نے فرمایا کہ پس یہ دیکھیں کہ اِس زمانے کے امام نے عورتوں کے حقوق کس طرح قائم فرمائے ہیں۔ اِن کے بارے میں اسلام کی تعلیم کی روشنی میں کس طرح بیان فرمایا ہے کہ اسلام تو یہ حقوق قائم فرماتا ہے۔ آجکل کے معاشرے میں اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام نعوذ با لله عورتوں کے حقوق غصب کرتا ہے، لیکن اسلام تو ہر جگہ عورتوں کو حقوق دینے کی کوشش کرتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ بعض مرد بھی یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم تو حُسنِ سلوک کرتے ہیں، لیکن عورتوں کے مطالبات ایسے ہوتے ہیں اور بعض باتیں وہ ایسی کرتی ہیں جس کی وجہ سے پھر گھر میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ تو عورتوں کو بھی چاہیے کہ صبر اور حوصلےاور دعا سے اپنے گھروں میں زندگیاں گزاریں، اپنے بچوں کی نگہداشت کریں اور دین پر قائم رہنے کی کوشش کریں۔ عموماً میرے تجربے میں تو یہی آیا ہے کہ الله تعالیٰ کے فضل سے عورتوں کی بہت بڑی تعداد نیکی میں بہت ترقی کرنے والی ہے اور نیک اعمال بجا لانے والی ہیں اور بعض تو مردوں سے بہت آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ بہرحال اسلام کے خلاف آجکل یہ پروپیگنڈا ہے اور اِس بات کو بہت اُچھالا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق نہیں ۔یہ دجّالی چالیں ہیں، اِن سے بچ کر رہنا چاہیے۔ بعض دفعہ ایسی عورتیں، جن کو اسلامی تعلیم کا یا قرآنِ کریم کی تعلیم کا صحیح علم نہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کُتب نہیں پڑھتیں یا آپؑ کے ارشادات نہیں سنے ہوتے، وہ دنیا داروں کی باتیں سن کر متأثر ہو جاتی ہیں، تو اِس چیز سے ہر لڑکی کو، ہر عورت کو بچنا چاہیے۔ کیونکہ یہ دجّالی اور شیطانی چالیں ہیں، جو ہمیں دین سے دُور لے جانے کے لیے ہیں، مذہب سے دُور لے جانے کے لیے ہیں، جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے ہیں اور گھروں میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق اِس حدّ تک قائم فرمائے ہیں کہ اِس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اِس بات کو بیان کرتے ہوئےحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے، ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی، مختصر الفاظ میں فرمادیا ہے وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْھِنَّ کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں، ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر حق ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا ہے کہ اِن بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات اُن سے لیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردے کا حکم ایسے ناجائز طریقے سے برتتے ہیں کہ اُن کو زندہ درگور کر دیتے ہیں، گویا کہ اُن کو زمین میں گاڑ دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو ، جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ معیار جو اسلام قائم کرتا ہے۔ اب دیکھیں کیسی خوبصورت تعلیم ہے ، جو اسلام نے دی ہے کہ میاں بیوی دو سچے دوستوں کی طرح رہیں، تب ایک دوسرے کے برابر کے حقوق ادا کر سکتے ہیں۔ فرمایا کہ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عوتیں ہوتی ہیں۔ پس عورت ہی ہے جو گواہ ہے۔ اگر اُنہی سے اُن کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو۔ پس ہمیں اپنے اہل کے لیے اچھا بننا پڑے گا اور مردوں کو بھی اِس بات کو یاد رکھنا پڑے گا کہ اُنہوں نے عورتوں کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اور عورتوں کو اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مردوں کی طرف سے کوئی زیادتی ہوتی ہے، تو یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق عمل نہیں ہے، بلکہ اسلام کی تعلیم کے خلاف عمل ہے اور اُن کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ اِس لیے اُنہیں بھی، بجائے اعتراض کرنے کے یا لوگوں کی باتوں میں آنے کے، غیروں کی باتوں میں آنے کے، اسلام مخالف لوگوں کی باتوں میں آنے کے، نظام کو اپنی بات پہنچانی چاہیے۔ پھر عورتوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے یا آجکل کے ترقی یافتہ نام نہاد معاشرے میں احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کی تعلیم میں تمہارے جذبات کی کوئی قدر نہیں ہے،تمہیں تو گھر کے اندر بند کر کے رکھا ہوا ہے اور مرد کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ بعض لڑکیاں اِس قسم کے سوال بھی کر لیتی ہیںاور دوسرے پھر اِس کوسن کے exploit بھی کرتے ہیں ، پھر جومذہب اور اسلام کے خلاف لوگ ہیں، یہ ا ِس سے فائدہ اُٹھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ دیکھو!مردوں کو کتنی آزادی دی ہے، اگر اُن کی خواہش ہو تو وہ زیادہ شادیاں بھی کر سکتے ہیں، اَور کوئی بات ہاتھ نہیں آتی تو اِسی بات پر شور مچا دیتے ہیں۔ پس یاد رکھیں کہ یہ دجّالی اعتراضات ہیں کہ جو بغیر کسی سیاق و سباق کے پیش کیے جاتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی طریقہ ہے کہ ہم اِس کے ذریعے سے عورت کے جذبات کو انگیخت کرسکتے ہیں اور اِن کو دین سے دُور لے جا سکتے ہیں۔ یہ شیطانی چالیں ہیں کیونکہ اسلام نے اگر بعض جگہ شادیوں کی اجازت دی ہے تو بعض شرائط کے ساتھ دی ہے۔ پہلی بات تو الله تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ تم تقویٰ پر قائم ہو، اپنا جائزہ لو کہ تم جس وجہ سے شادی کرنا چاہتے ہو، وہ جائز ضرورت ہے، پھر یہ بھی دیکھ لو کہ تم شادی کر کے بیویوں کےدرمیان انصاف کر بھی سکتے ہو، اگر نہیں تو پھر تمہیں شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ مردپر عورت کے اتنے حقوق ہیں کہ اگر مرد کو پتا لگے کہ حقوق نہ ادا کر کے کتنا گناہ ہے ، تو آپؑ نے فرمایا کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہو کہ یہ حقوق اِس قسم کے ہیں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا یا غیرشادی شدہ رہنا پسند کرے۔ پس اسلام نے یہ حقوق قائم کیے ہیں، یہ ایک بنیادی اعتراض ہے جو آجکل بہت زیادہ کیا جاتا ہے، اِس لیے مَیں نے بیان کر دیا ہے۔ یہ لکھا جاتا ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہے، وہ قوّام ہے، قوّام کے معنی یہ ہیں کہ جو اصلاح کرنے والا ہو، معاشرے کی اصلاح کا ذمہ دار ہو، جو ٹیڑھا پن ہے اُسے دُور کرنے والا ہو، جو بُرائیاں اور کجیاں ہیں اُنہیں صاف کرنے والا ہو۔ پس اِس لحاظ سے اگر مرد کو قوّام کہا گیا ہے تو اِس لیے ہے کہ معاشرے کی صفائی کی اوّل ذمہ داری مردوں پر ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں، اپنے نمونے قائم کریں اور ایسا وجود بن کر دکھائیں کہ جو حقیقت میں اصلاح کرنے والا ہواور پھر ایسا نمونہ قائم کرنے کی وجہ سے وہ عورتوں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کر سکتے ہیں۔ قوّام کے ایک معنی یہ ہیں کہ مرد کو مضبوط اعصاب عطا کیے گئے ہیں، اُسے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بدمزگیاں گھر میں پیدا ہوتی ہیں تو تم اپنے مضبوط اعصاب کی وجہ سےاور اِس وجہ سے کہ اصلاح تمہاری ذمہ داری ہے، اپنے بعض حقوق چھوڑ کر بھی، عورت کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرو اور گھر کی فضا کو پُر امن اور پیارو محبّت کی فضا بنانے کی کوشش کرو، تاکہ تمہارا گھر ہر قسم کے جھگڑوں سے پاک رہے اور تمہارے بچے اور آئندہ نسلیں بھی نیک نمونہ دیکھتے ہوئے اسلامی تعلیم کی خوبیوں کو سمجھنے والی اور اُن پر عمل کرنے والی ہوں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے تمہارے اوپر حق ہیں، اُن کے حقوق ادا کرو۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو خود کھاؤ، اُنہیں بھی کھلاؤ ، جو خود پہنو، اُنہیں بھی پہناؤ، کبھی چہرے پر نہ مارو، بُرا بھلا نہ کہو،کبھی بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کرتے رہو۔ یہ باتیں آپؐ نے بڑی وضاحت سے فرمائی ہیں۔ ایسی عورتیں اسلام میں پیدا ہوئیں، جنہوں نے وہ معیار قائم کیے، جو نیکیوں کے اعلیٰ معیار تھے۔ وہ اِس بات پر ناراض نہیں ہوتی تھیں کہ مردوں کے حقوق زیادہ ہیں اور ہمارے حقوق کم ہیں۔ ہاں!کہیں اگر اُن کو حقوق کا شکوہ تھا یا مردوں کے عمل کا شکوہ تھا، تو اِس بات پر کہ وہ بعض دفعہ زیادہ نیکیاں کر جاتے ہیں اور اُن کو ثواب مل سکتا ہے، جو ہمیں نہیں ملتا۔ اِس بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک خاتون اسماء بنتِ یزید انصاریہ رضی الله عنہا تھیں، وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپؐ صحابہؓ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ اُنہوں نے مردوں کے نیکیوں میں سبقت لے جانے کے تناظر میں عرض کیا تو تمام بات سماعت فرمانے کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنا رُخ اور چہرۂ مبارک صحابہ ؓکی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملے میں اپنے مسئلے کو اِس عمدگی سے بیان کرنے میں اِس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ آپؐ نے اُس کی اِس سوال پر بڑی تعریف کی۔ تو صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ!ہمیں یہ ہرگز خیال نہ تھا کہ ایک عورت ایسی گہری سوچ رکھتی ہے۔ آنحضور صلی الله علیہ وسلم اِس خاتون کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ اَے عورت!واپس جاؤ اور دوسری تمام عورتوں کو بتا دو، کسی عورت کے لیے اچھی بیوی بننا، بچوں کی تربیت کرنا، خاوند کی رضا جُوئی اور اُس کے موافق چلنا، مردوں کی اُن تمام نیکیوں کے برابر ہے، جو وہ کرتے ہیں۔ وہ عورت واپس گئی اوروہ خوشی سے لٓا الٰه الّا الله اور الله اکبر کے الفاظ بلند کر رہی تھی۔ آنحضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جو گھر میں رہنے والے ہو، وہ بھی یہ نہ سمجھو کہ ہم گھر میں رہنے کے بعد بند ہو گئی ہیں۔ ہاں! اگر مجبوری ہے ، تمہیں گھر میں رہنا پڑتا ہے، توتمہیں اتنا ہی ثواب مل رہا ہے جتنا مردوں کو جہاد کا یا دوسری لازمی عبادات کا۔ یہ وہ مقام ہے جو اسلام عورت کو دیتا ہے اور کسی قسم کی اِس میں پابندی نہیں ہے۔ پردے کا اگر حکم ہے تو بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کو پردے کا حکم ہے تو اُنہیں بند کر دیا گیا ہے، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہ فرمایا ہے کہ پردے کو وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو صرف قید کر دینا اور گھر سے باہر نہ نکلنے دینا ہے، یہی پردہ ہے، یہ غلط چیزیں ہیں ۔ آنحضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآنِ شریف کے حکم کے مطابق جہاں پردے کا حکم ہے، غضِّ بصر کا حکم ہے، وہاں مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی یہی حکم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس بارے میں فرماتے ہیں کہ مومن کو نہیں چاہیے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہرطرف اُٹھائے پھرے، بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہیے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہیے۔ تو یہ مردوں کو بھی حکم ہے کہ وہ عورتوں کو نہ دیکھیں تو اِس لحاظ سے اُن کا بھی ایک پردہ ہے اور عورتوں کو بھی حکم ہے اور وہ یہی ہے کہ عورتیں نظریں اِدھر اُدھر نہ پھیریں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ آج کل پردہ پر حملے کیےجاتے ہیں، لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں، ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں۔ جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیرمرد و عورت اکٹھے بلاتأ مل اور بےمحابہ مل سکیں، سیریں کریں، جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر کیونکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیرمرداور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کوحالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں، یہ گویا تہذیب ہے، اِنہی بدنتائج کو روکنے کےلیےشارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اور ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ بعض باتیں ایسی سامنے آتی ہیں اور پھر ایسے کیس سامنے آ رہے ہوتے ہیں اور اِس وجہ سے پھر مقدمے بھی چلتے ہیں، دس سال بعد یا کسی کے مرنے کے بعد بھی، پُرانے کیس آجکل اُکھاڑے جا رہے ہیں، آجکل تو یہاں مغرب میں رواج پیدا ہو گیا ہے کہ اُس مرد نے ہمارے ساتھ زیادتی کی، عورتیں الزام لگاتی ہیں، حالانکہ خود اُس کو پہلے موقع دیا، اُس کے کمرے میں بھی گئیں، اُسے کوئی موقع دیا ہو گا تبھی تو یہ باتیں ہوئی ہوں گی۔ تو پھر اِس قسم کی حالتیں بھی ہوں گی اور ایسے مواقع بھی پیدا ہوں گے کہ جہاں چاہے زبردستی ہو یا آپس کی رضا مندی ہو، غلط قسم کی باتیں ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اِس کے بعد جب عورت مرد سے ناراض ہوتی ہے، تو اِس کے خلاف باہر باتیں نکالتی ہے یا کوئی اور مالی فائدہ اُٹھانا ہوتا ہے، تو باتیں نکالتی ہے۔ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایسی باتیں ہونی ہی نہیں چاہئیں۔ کیونکہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ جہاں غیرمحرم مردو عورت جمع ہوں، تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اِن نتائج پر غور کرو ۔ حضور انور نے فرمایا کہ جب الله تعالیٰ نے ایسے حقوق قائم فرما دیے ہیں، تو یہ بہت بڑا انعام ہے، جو اُس نے اسلامی تعلیم میں عورتوں کو دیا ہے۔ اِس لیے عورتوں کا کام ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اِن کے ذمے جو الله تعالیٰ نے کام لگایا ہے یعنی نئی نسل کی اصلاح کرنا، اُن کو اِس مقام پر لے کر آئیں ، جہاں وہ دین کا بھی اور جماعت کا بھی ایک مفید وجود بن سکیں، اپنے ملک کا بھی مفید حصّہ بن سکیں۔ جب یہ ہو گا تو پھر ہی ایک ایسا عظیم معاشرہ قائم ہو گا جہاں صرف خدا تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرنے والے لوگ ہوں گےاور دنیا میں بھی جنّت کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے اور اگلے جہان میں بھی جنّت کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم الله تعالیٰ کی شکرگزار بندیاں بننے کی کوشش کریں کہ اُس نے ہمیں ہمارے حق دیے ہیں۔ ابھی تو مَیں نے ایک دو حقوق بتائے ہیں، لیکن ہر معاملے میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جہاں مردوں کے حق ہیں، وہاں عورتوں کے بھی حق ہیں، کیونکہ وہ ایک ہی پسلی سے، ایک ہی وجود سے اور ایک ہی قسم سے پیدا کیے گئے ہیں۔ پس عورتوں کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا کریں اور اِس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم نے الله تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ الله تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ناجائز خواہشات کو ختم کرنا ہے۔ اور دین کو دنیا پر ہر وقت مقدّم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنے بچوں کی اصلاح کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہےوہ ہم نے کرنا ہے تاکہ آئندہ ہماری نسلوں میں نیک بچیاں پیدا ہوں۔ نیک بیویاں پیدا ہوں۔ نیک مائیں پیدا ہوں۔ نیک خاوند پیدا ہوں۔ اور نیک باپ پیدا ہوں۔ اور پھر وہ سب مل کر اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لیے وہ کردار ادا کریں، جس کے لیے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھیں گے۔یہ دیکھیں کہ ہم اپنے مقصد کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ خاص کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اِس زمانے کے امام کو ہم نے مانا ہے اور آپ اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو گئی ہیں کہ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ یعنی اور اِن کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اِسے بھیجے گا جو ابھی تک اِن سے نہیں ملے۔ حضور انور نے آخر پر فرمایا کہ پس اسلام ایک بڑا متوازن مذہب ہے، جو اعلیٰ اخلاق کی بھی تعلیم دیتا ہے، عبادتوں کے اعلیٰ معیاروں کی بھی تعلیم دیتا ہے، بچوں کے حق قائم کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے، اپنے حق قائم کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے، اپنے معاشرے کے حق قائم کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے اور یہی وہ باتیں ہیں جو پھر دنیا میں امن اور محبّت اور پیار کی فضا پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں وہ عورتیں تھیں کہ جنہوں نے اپنے خاوندوں کے حقوق ادا کیے، اپنے بچوں کے حقوق ادا کیے اور اُن کے اعلیٰ معیار حاصل کیے اور یہی چیزیں ہیں جو آج ایک احمدی عورت کو اپنے سامنے رکھنی چاہئیں اور اِس پر غور کرنا چاہیے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ آج آپ نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کےحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے، اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہے، اپنے ماحول کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہے، پھر اپنے عملی نمونے سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بھی دنیا میں پھیلانا ہے اور اِس حق کو ادا کرنا ہے، جس کے لیے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی۔ مزید برآں حضور انور نے تاکید فرمائی کہ پس صرف یہ نہ دیکھیں کہ خاوندوں نے آپ کے حقوق ادا کیے ہیں یا نہیں بلکہ آپ نے اِس سوچ کے ساتھ اپنے حق اور فرائض ادا کرنے ہیں کہ اسلام نے جو آپ کو حقوق دیے ہیں، اُس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ معاشرے کے لیے ایک مفید وجود بن جائیں اور اِسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے حتّی الوسع اپنی تمام صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنی ہے۔ دعا سے قبل حضور انور نے فرمایا کہ الله تعالیٰ آپ کو اِس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری آئندہ نسلوں میں بھی دین کو دنیا پر ترجیح دینے والی وہ مائیں پیدا ہوں ، وہ لڑکے اور باپ پیدا ہوں، وہ خاوند اور بیویاں پیدا ہوں، جو کہ ایک انقلابِ عظیم لانے کا ذریعہ بن جائیں اور تمام دنیا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آکر توحید کا اعلان کرنے والی بن جائے۔ الله کرے کہ ایسا ہی ہو! حضور انور کا خطاب ايک بج کر اکیس منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد خواتين اور بچيوں نے مختلف گروپس کي صورت ميں ترانے پيش کيے۔ یہ ترانے مختلف زبانوں ميں پيش کيے گئے جن میں اردو، انگریزی، پنجابی اورعربی زبانیں شامل ہیں۔حضور انور نے آخر پر فرمایا کہ لجنہ کی رپورٹ کے مطابق یہاں خواتین کی حاضری ۱۷؍ہزار ۵۹۵ ہے۔ بعد ازاں حضور انور نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ پیش فرمایا اور ايک بج کر بتیس منٹ کے قريب حضورانور زنانہ جلسہ گاہ سے تشريف لے گئے۔ ٭…٭…٭