چاہت میں، اعتبار میں مارا گیا ہوں میں وہ کیا ہے یار، پیار میں مارا گیا ہوں میں میں دشمنوں سے جنگ میں مارا نہیں گیا اپنوں کے پہلے وار میں مارا گیا ہوں میں خوشبو کا شوق تھا مجھے، کانٹے الجھ پڑے پھولوں کے کاروبار میں مارا گیا ہوں میں اُس بےوفا نے پیار سے ہر روز کل کہا اک عشق کے اُدھار میں مارا گیا ہوں میں دکھ یہ نہیں کہ عمر یہ پردیس میں کٹی دکھ یہ ہے شہر یار میں مارا گیا ہوں میں وہ کل ملا تو کہنے لگا آپ کون ہیں؟ وہ جس کے انتظار میں مارا گیا ہوں میں کُل تین چار لوگ تھے، اچھے لگے مجھے بس اُن ہی تین چار میں مارا گیا ہوں میں اُس کے لیے خِزاں سے مِری دشمنی رہی جس موسمِ بہار میں مارا گیا ہوں میں اُس نے مجھے بلا کے مبارک کہا، تُو جا تقریب پُروقار میں مارا گیا ہوں میں (مبارک صدیقی۔ لندن) مزید پڑھیں: حمد اُس کے نام کی جو ذات ہے ربّ الوریٰ