(۱۹۹۳ء کی ایک صبح سیر کے دوران جب پاکستان کے سیاستدانوں کے جماعت کے خلاف بنائے گئے حالات یاد آ رہے تھے اور ساتھ ہی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی جدائی تڑپا رہی تھی تو یہ اشعار کہے جن میں ملک کے سیاستدانوں کے غرور و تکبر اور پھر ان کی بد احوالی کا ذکر ہے جوجماعت احمدیہ سے دشمنی کے نتیجہ میں ہوئی۔ ) بہار چہروں پہ تیغِ اَنا چلانے لگےچمن کے پھولوں پہ گُل چیں ستم ہیں ڈھانے لگے نظر اٹھا بھی نہیں سکتے اب یہ ظالم لوگجو کل تلک تھے ہماری نظر جھکانے لگے یہ کیسا دور چلا ہے کلاہ داروں کاغلام بندوں سے اپنے وہ سر چھپانے لگے خدا کا ہاتھ چلے گر تو یونہی چلتا ہےکہ آسمان نما سارے خاک کھانے لگے ہمیں سے سیکھی تھی جن نے صفاتِ چارہ گریہمیں پہ آج وہ سنگِ گراں گرانے لگے ہم ایک الفتِ بے مثل و خود نما کے لیےبدن پہ خاک، کبھی سیم و زر سجانے لگے میں کیسے کیسے وطن میں شجر اُگاتا پھروںیہاں کی مٹی پہ دوزخ اُبل کے آنے لگے اے حسن والے! ٹھہر جا دکھا دے ایک جھلکزمین پہ میری ہیں بادل سیاہ چھانے لگے میں کیوں نہ قدموں کو سجدوں میں گر کے چوما کروںوہ شہنشائی لیے میرے گھر میں آنے لگے مجھے اسیر ظفرؔ ان کی اک ادا نے کیاوہ مجھ سے خستہ بدن سے بھی دل لگانے لگے (مقبول احمد ظفر مرحوم مربی سلسلہ)(مرسلہ : امة الحی بنت مقبول احمد ظفر۔ کینیڈا) مزید پڑھیں: ارماں جو دل کو تھا مرے ارماں ہی رہ گیا