اتمام نور کا ہمیں منظر دکھا بھی دے صدق و صفا کا پورا وہ سورج چڑھا بھی دے’’آیا مسیح وقت کہ تھی جس کی انتظار‘‘ قریہ بہ قریہ کو بہ کو سب کو سمجھا بھی دےہیں بے دلیل سچ کے وہ دشمن بنے ہوئے یا رب تُو ان دلوں میں بصیرت جگا بھی دےبیعت کرد کہ رحمت و برکت ملے تمہیں ہر کوئی اُس کی راہ میں آنکھیں بچھا بھی دےوہ دُور ہے کہاں وہ میرے دل کے پاس ہے مولا اگر ہیں فاصلے سارے مٹا بھی دےاس کہکشاں کا پانچواں تارا یہی تو ہے ہر سُو مسرتوں کا تو ڈنکا بجا بھی دےشہرہ ترے حبیب کا پہنچا گلی گلی محروم اس عطا سے جو اس کو دکھا بھی دےاب دیر ہو چلی ہے چلا آتو دفعتاً پھر امن و آشتی کا تو مژدہ سنا بھی دےاُترے گی قلب و روح پر تسکین کی پھوار رُودِ چناب چاند کا چہرہ دکھا بھی دےحاؔفظ دعائے نیم شبی ہوگی پُر اثر اب قلب و نظر سے نفس کے پردے اُٹھا بھی دے (ابن کریم)