متفرق مضامین

غذا اور دماغی صحت

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

ایک مشہور قول ہے کہ آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے ہیں You are what you eatلیکن یہ کہنا زیادہ درست ہوسکتا ہے کہ آپ جو کھاتے ہیں وہی محسوس بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ غذائیت سے متعلق نفسیات کا بڑھتا ہوا شعبہ اور اس میں ہونے والی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسان کی غذا انسان کی دماغی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

food

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کھانے اور غذائی اجزا کا صحیح مرکب تناؤ، اضطراب، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل کے خلاف ایک بفریعنی حفاظتی حصار کا کام کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پرتحقیقی مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ Mediterranean Dietکو جو پھلوں، سبزیوں، نباتات، پھلیوں،زیتون کے تیل اور مچھلی پر مشتمل ہوتی ہے اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے لوگوں میں ڈپریشن کا خطرہ کم ہوتا ہے اُن لوگوں کے مقابلے پر جوMediterranean Diet نہیں کھاتے۔۲۰۱۷ء کی ایک تحقیق کے مطابق اپنے دسترخوان کو اس طرح کے Mediterraneanکھانوں سے مزین کرنا معاشرتی و سماجی دکھاوے سے زیادہ خود کی ذہنی صحت کے لیے بہتر ہو سکتا ہے۔

آسٹریلیا کی ڈیکن یونیورسٹی میں فوڈ اینڈ موڈ سینٹر کی شریک ڈائریکٹر اور ۲۰۱۷ء کی تحقیق کی پہلی مصنف فیلیس جیکا کہتی ہیں کہ ’’شائد پیٹ میں جانے والی چیز کا براہ راست دماغ سے کوئی فوری اور واضح رابطہ نہ دکھائی دے مگرانسان ایک نہایت پیچیدہ اور مربوط نظام رکھتا ہے، جسم اور دماغ مسلسل سگنلز کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں اور رابطے میں رہتے ہیں۔‘‘

’’درحقیقت اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ کسی بھی قسم کی، مدت کی، اور شدت کی جسمانی سرگرمی سے دماغی صحت بہتر ہونے میں بہت مدد ملتی ہے اور نامور ماہرینِ غذائیت بشمول عالمی ادارہ صحت والے بھی یہ بات مانتے ہیں کہ جسم میں جانے والی غذا دماغی صحت پر بہت اثر ڈالتی ہے۔‘‘

بوسٹن کے میساچوسٹس جنرل ہسپتال (Massachusetts General Hospital) میں ماہرنفسیات و طرز زندگی اور غذائیت کی ماہرڈائریکٹر ڈاکٹر اوما نائیڈو جو کہ Calm Your Mind with Food کتاب کی مصنفہ بھی ہیں کہتی ہیں کہ ’’آہستہ آہستہ اب جدید سائنس بھی اِس طرف زور پکڑ رہی ہےجبکہ ۴۵۰ قبل مسیح کے مشہور یونانی ماہر طب بقراط (Hippocrates) نے کئی زمانے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پیٹ کی آنتوں اور دماغ کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔‘‘

ڈاکٹر فیلیس جیکا لکھتی ہیں،’’جدید تحقیق ابھی تک یہ سیکھنے کے مراحل میں ہے کہ کس طرح دماغی صحت کو کھانا متاثر کرتا ہے، مگر لگتا ہےکہ جیسے اس عمل میں گٹ مائیکروبائیوم (gut microbiome) ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، ہمارے نظامِ انہضام میں لاکھوں کروڑوں جرثومے رہتے ہیں، اور جو ہم کھاتے ہیں اُس کے اجزا کو توڑنے میں مدد دیتے ہیں، اور اس کے راستے میں جسم کے بہت سے دیگر حصوں کے ساتھ تعامل کرتے ہیں اور جسم کے مختلف حصوں کی پرورش اور دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح بھرپور غذائیت والی فائدہ مند غذائیں ہماری آنتوں میں موجود ان جرثوموں کی پرورش بھی کرتی ہیں۔‘‘

۲۰۲۳ء میں چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ مختلف کھانوں جیسے کہ دہی میں ایک ایسا بیکٹیریا بھی پایا جاتا ہے جس میں ایسی صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جسم کے مختلف مدافعاتی نظام کو درست اور مضبوط کرتا ہے جس سے ذہنی دبائو (stress)، پریشانی(anxiety) اور depressionمیں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں سائیکائٹری کے اسسٹنٹ کلینیکل پروفیسر اور Eat to Beat Depression and Anxiety کے مصنف ڈاکٹر ڈریو ریمزے Dr. Drew Ramsey کہتے ہیں کہ ’’ اگرچہ فی الحال سائنس کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچی مگر پھر بھی بعض محققین کا ماننا ہے کہ معدنی زنک (mineral zinc)، جو سیپ (oysters) اور گری دار میوے(nuts) سمیت کھانے کی مختلف اشیاء میں پایا جاتا ہے، وہ ایک ایسے پروٹین کی سطح کو بڑھا سکتا ہے جس سے دماغ کی نئی نشوونما کو فروغ ملتا ہے، جو ممکنہ طور پر بہتر علمی فعل اور دماغی افعال کا باعث بنتی ہے۔ مزید یہ کہ جب آپ اچھا اور بہترین کھانا کھاتے ہیں تو دراصل آپ اپنے دماغی خلیوں کو وہ تمام اجزا دے رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی نشوونما ہوتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر ریمزے کہتے ہیں کہ آپ کیسے اور کہاں کھاتے ہیں یہ بھی بہت اہم ہے۔ بہت سے لوگ اپنی خریداری کی فہرست بنیادی طور ایسے بناتے ہیں کہ جو سب سے سستا اور تیار کرنا آسان ہے وہ خریدنا ہے۔ لیکن کھانے کے ساتھ جذباتی تعلق پیدا کرنا بھی ضروری ہے چاہے اسے کسانوں کی منڈیوں سے خرید کر جہاں آپ اسے اگانے والے لوگوں سے مل سکیں یا آہستہ آہستہ اور دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ کھانا بانٹ کر، دماغ اور روح کے ساتھ ساتھ جسم کی پرورش کر سکتے ہیں۔

یہاں آپ کی آسانی کے لیے چند ایک ایسے کھانے جن کےمتعلق سائنس کہتی ہے کہ بہتر دماغی صحت کے لیے آپ کو اپنی خریداری کی فہرست میں رکھنے چاہئیں اوراپنی روزمرہ کی خوراک کا حصہ بنانا چاہیے درج ذیل ہیں:

Omega-3 fatty acids

اگرچہ اس کے متعلق ابھی تحقیقات نامکمل ہیں مگر پھر بھی اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سے بھرپور غذائیں بشمول سمندری غذا (Sea Foods)، گری دار میوے (Nuts) اور پودوں کے تیل (Plant Oils) ہفتے میں کم از کم چند بار کھانے سے موڈ کی خرابی جیسے ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

Cruciferous vegetables

گوبھی، بروکولی، بند گوبھی اور ارگولا جسے Rocket بھی کہتے ہیں اس کے سمیت سبزیوں میں ایسے مرکبات ہوتے ہیں جو اُس سوزش کو کم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ڈپریشن اور بےچینی سمیت صحت کے متعدد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ۲۰۲۲ءکی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ ہر روز ایسی سبزیوں کی ایک سے زیادہ سرونگ کھاتے ہیں ان میں ذہنی تناؤ یعنی ڈپریشن کی سطح ان لوگوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوتی ہے جوایسی سبزیاں کم کھاتے ہیں۔

Fermented foods

آپ کے آنتوں کے جرثوموں کو کھانا کھلانے کے لیے مشہور، سادہ دہی، کیمچی Kimchi( اچار کی ایک قسم جو کہ کورین ڈش ہے) اور ساورکراٹ یعنی باریک کٹا ہوا گوبھی کا اچار اور دیگر خمیر شدہ کھانے دماغ اور جسم کے تعلق کو بڑھانے کے لیے پاور ہاؤس ہیں۔ نیزتحقیق سے پتا چلتا ہے کہ روزانہ دو سے تین مرتبہ کھانے سے تناؤ اور افسردگی کی علامات میں واضح کمی ہوتی ہے۔

Spices

دار چینی، زعفران، ہلدی، کالی مرچ اور دیگر مصالحے اینٹی آکسیڈنٹس antioxidants سے بھرپور ہوتے ہیں، ان میں سوزش کم کرنے والے مرکبات ہوتے ہیں، اور میٹابولزم metabolismکو بہتر بناتے ہیں، جو دماغی صحت کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔

Beans and leafy greens

بعض تحقیقات کے مطابق ذہنی بے چینی کا تعلق جسم میں میگنیشیم کی کمی سے بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی غذائیں بکثرت کھانی چاہیں جو اس معدنیات یعنی میگنیشیم سے بھرپور ہوں، جیسے پھلیاں، پالک اور سوئس چارڈ، دماغ کو پرسکون کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

نوٹ: سب سے اہم بات یہ ہےکہ کسی بھی نسخے یا مخصوص غذا کو استعمال کرنے سے پہلے کسی اچھے ماہرِ غذائیت(Nutritionist)سے مشورہ کر کے اپنے کھانے پینے کی روٹین بنائیں تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پسِ تحریر: ہمارے مضمون میں ایک مشہور یونانی طبیب بقراط کا ذکر ہوا ہے اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتے چلیں کہ گو ہیپوکریٹس کی زندگی کے متعلق تاریخ میں مکمل تفصیلات نہیں ہیں مگر پھر بھی طبی سائنس میں ان کا کردار اتنا اہم ہے کہ آج بھی بعض میڈیکل کالجز کی گریجوایشن کی تقریب میں ڈاکٹرز سے ان کے شعبے اور فرائض کے متعلق Hippocratic oath پر حلف لیا جاتا ہے۔ یہ حلف طالب علموں کے لیے طبیب کے فرائض اور شاگرد کے استاد کے فرائض کا تعین کرتا ہے۔ حلف میں، طبیب اپنی صلاحیتوں اور فیصلے کے مطابق صرف فائدہ مند علاج تجویز کرنے کا عہد کرتا ہے۔ نقصان پہنچانے یا چوٹ پہنچانے سے باز رہنا، اور ایک مثالی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کا بھی عہد دہراتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button