حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

محسنِ انسانیتؐ… جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

آجکل مسلم دنیا میں، اسلامی ممالک میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر شدید غم و غصّہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقینا ًحق بجانب ہیں۔ مسلمان تو چاہے وہ اس بات کا صحیح ادراک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی مقام کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دشمنان اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بیہودہ اور لغو فلم بنائی ہے اور جس ظالمانہ طور پر اس فلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اہانت کا اظہار کیا گیا ہے اس پر ہر مسلمان کا غم اور غصّہ ایک قدرتی بات ہے۔

وہ محسنِ انسانیت، رحمۃٌللعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا، جس نے اپنی جان کو مخلوق کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے اس درد کا اظہار کیا اور اس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو نہیں پہچانتے، ہلاکت میں ڈال لے گا؟ اس عظیم محسنِ انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقیناً ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ جس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کا اِدراک عطا فرمایا۔ پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ اُنہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔ ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ادراک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خاتم الانبیاءؐ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے۔… ایک روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا اور آپ نے ایک موٹے کنارے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدّو نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپؐ کی گردن پر پڑ گئے۔ پھر اُس نے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، میرے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپ مجھے نہ تو اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے۔ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر فرمایا: اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اُس کا بندہ ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ مجھے جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا۔ اُس بدو نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدو نے کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں۔ (الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحہ 74 الباب الثانی فی تکمیل اللّٰہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

تو یہ ہے وہ صبر و برداشت کا مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور جو اپنوں سے نہیں دشمنو ں سے بھی تھا۔ یہ ہیں وہ اعلیٰ اخلاق ان میں جودو سخا بھی ہے اور صبر و برداشت بھی اور وسعتِ حوصلہ کا اظہار بھی ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے جاہل بغیر علم کے اُٹھتے ہیں اور اُس رحمۃ للعالمین پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سختی کی تھی اور فلاں تھا اور فلاں تھا۔

(خطبہ جمعہ ۲۱ ستمبر ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍ اکتوبر ۲۰۱۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button