حضرت مصلح موعود ؓمتفرق مضامین

میری مریم (قسط نمبر 5۔آخری)

بُلانے والا ہے سب سے پیارا۔۔۔۔۔۔۔اُسی پہ اَے دل تو جاں فدا کر

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

(رقم فرمودہ:حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

ایک دوسرے کو سمجھنے کی حسرت

میری مریم جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اپنی بیماری کی وجہ سے اِس وہم میں اکثر مبتلا رہتیںکہ میں اُن سے محبت نہیں کرتا یا یہ کہ دوسروں سے کم کرتا ہوں اور اِس وجہ سے دوسرے لوگوں سے تو اچھی رہتیں مگر مجھ سے بہت دفعہ جھگڑ پڑتیں اور ہماری زندگی محبت اور تنازع کا ایک معجون سا تھی۔ میں ان سے بے حد محبت کرتا تھا اور تکلیف کے وقت اِن کی شکل دیکھ لینا میری کوفت کو کم کر دیتاتھا۔ مگر وہ اِس وہم میں رہتیں کہ مجھ سے محبت کم کی جاتی ہے۔ لیکن آخری بیماری میں جو دو عورتیں باری باری اِن کی صحبت میں رہیں، اُنہوں نے مجھے الگ الگ سنایا ہے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ پہلی نے سنایا کہ انہوں نے اِس امر کا اظہار کیا کہ میرا خیال تھا کہ حضرت صاحب کو مجھ سے محبت نہیں مگر یہ غلط ہے۔ میری بیماری میں جو اِنہوں نے خدمت کی ہے اِس سے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اِن کو مجھ سے بہت محبت ہے۔ اگر مَیں زندہ رہی تو مَیں اِن کے پائوں دھو دھو کر پیوں گی اور دوسری نے سنایا کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ اب مجھے تسلی ہوگئی ہے کہ مجھ سے اِن کو بہت محبت ہے۔ اگر میں زندہ رہی تو میںاپنی عمر اِن کی خدمت میں خرچ کر دوں گی۔ مگر قسمت کا پھیر دیکھو کہ دونوں نے اِن کی وفات کے بعد یہ بات مجھ سے بیان کی اگر وہ ان کی زندگی میں مجھ سے یہ بات کہتیں تو میرے لئے کتنی خوشی کا موجب ہوتا۔ میں اِن کے پاس جاتا اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہتا کہ مریم! تم فکر نہ کرو، تم کو نہ خدمت کی ضرورت ہے اور نہ پائوں دھونے کی۔ تمہارے دل میں اِس خیال کے آنے سے ہی مجھے میری ساری محبت کا بدلہ مل گیا ہے۔ شاید اِس سے انہیں بھی تسلی ہوتی اور میرا دل بھی خوش ہو جاتا۔ اگر ایک منٹ کے لئے بھی ہم ایک دوسرے کے سامنے اِس طرح کھڑے ہو جاتے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہوتے تو یہ لمحہ ہم دونوں کیلئے کیسا خوش کُن ہوتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔ شاید ہمارے گناہوں کی شامت ہم سے ایک بڑی قربانی کا تقاضا کر رہی تھی۔

حواس آخری سانس تک قائم رہے

عجیب بات ہے کہ باوجود اِس قدر لمبی بیماری کے مریم بیگم کے حواس نزع کی آخری گھڑیوں تک قائم رہے۔ وفات سے دو دن پہلے جب ضعف انتہاء کو پہنچ گیا تھا مجھ سے کہا کہ چھوٹے میز پوش منگوا دیں۔ میں نے مریم صدیقہ سے کہا کہ وہ موٹر میں جا کر پسند کر لائیں۔ میں نے جب مرحومہ کو میز پوش دکھایا تو غنودگی کی حالت میں انہوں نے کہا کہ اچھا ہے، ایک درجن میز پوش منگوا دیں۔ میں نے سمجھا کہ اِن کے حواس ٹھیک نہیں رہے کیونکہ ہسپتال کے کمرہ میں تو ایک چائے کی میز تھی۔ میں نے کہا بہت اچھا، بہت اچھا! اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور مَیں گھبرا کر باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اِن کی مصاحبہ کمرہ سے باہر آئی اور کہا کہ بی بی بُلاتی ہیں۔ میں گیا تو انہوں نے زور سے اپنی غنودگی پر قابو پا لیا تھا مگر ضعف بدستور تھا مجھے اشارہ سے نزدیک کر کے کہا کہ آپ گھبرا گئے، مَیں ہوش میں ہوں مَیں نے ہسپتال کے لئے نہیں بلکہ گھر کے لئے میز پوش منگوائے تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بات اِن کے کمزور دل نے بعد میں بنائی۔ اصل میں یہی بات تھی کہ وقتی غنودگی اِن پر آئی لیکن اِس قدر سمجھ تھی کہ میری گھبراہٹ کو تاڑ لیا اور اِن کے نفس نے اپنا محاسبہ کر کے معلوم کر لیا کہ میں کوئی غلطی کر بیٹھی ہوں اور اِس رنگ میں میز پوشوں کی بات کو حل کیا کہ وہ بات معقول ہوگئی اور پھر مجھے بُلا کر تسلی دینے کی کوشش کی۔

تیمار داری کرنے والوں کیلئے دعا

مریم بیگم کی بیماری میں سب سے زیادہ شیر محمد خاں صاحب آسٹریلیا والوں کی بیوی اقبال بیگم نے خدمت کی۔ اڑھائی مہینہ اُس نیک بخت عورت نے اپنے بچوں کو اور گھر کو بھلا کر رات اور دن اِس طرح خدمت کی کہ مجھے وہم ہونے لگ گیا تھاکہ کہیں یہ پاگل نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور اُن کے سارے خاندان پر ہمیشہ اپنے فضل کا سایہ رکھے۔

پھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں جن کو اُن کی بہت لمبی اور متواتر خدمت کا موقع ملا۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے کئی ماہ تک ہماری مہمان نوازی کی اور دوسرے کاموں میں امداد کی۔ میاں احسان اللہ صاحب لاہوری نے دن رات خدمت کی یہاں تک کہ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ اُن کا خاتمہ بِالخیر کرے۔ حکیم سراج الدین صاحب بھاٹی دروازہ والوں نے برابر اِن کی ہمراہی عورت کا اڑھائی ماہ تک کھانا پہنچایا اور خود بھی اکثر ہسپتال میں آتے رہے۔ ڈاکٹر معراج الدین صاحب کو رعشہ کا مرض ہے اور بوڑھے آدمی ہیں اِس حالت میں کانپتے اور ہانپتے اور لرزتے ہوئے جب ہسپتال میں آکر کھڑے ہو جاتے کہ مَیں نکلوں تو وہ مجھ سے مریضہ کا حال پوچھیں تو کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے اِس احسان کو دیکھ کر کہ مجھ ناکارہ کی محبت اُس نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے، میری آنکھوںمیں آنسو آ جاتے۔ لاہور کے اور بہت سے احباب نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا اور بہت سی خدمات ادا کیں۔ سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی کے خاندان نے اخلاص کا ایسا بے نظیر نمونہ دکھایا کہ حقیقی بھائیوں میں بھی اِس کی مثال کم ملتی ہے۔ حیدر آباد جیسے دُور دراز مقام سے پہلے اِن کی بہو اور بیٹیاں دیر تک قادیان رہیں اور بار بار لاہور جا کر خبر پوچھتی رہیں۔ آخر جب وہ وطن واپس گئیں تو عزیزم سیٹھ محمد اعظم اپنا کاروبار چھوڑ کر حیدر آبا دسے لاہور آ بیٹھے اور مرحومہ کی وفات کے عرصہ بعد واپس گئے۔ ڈاکٹر لطیف صاحب کئی دفعہ دہلی سے دیکھنے آئے۔ میرے خاندان کے بہت سے افراد نے بھی محبت سے قربانیاں کیں۔ مگر اِن پر تو حق تھا مَیں اِن لوگوں کو سوائے دعا کے اور کیا بدلہ دے سکتا ہوں۔ اَے میرے ربّ! تو اِن سب پر اور اُن سب پر جن کے نام میں نہیں لکھ سکا یا جن کا مجھے علم بھی نہیں، اپنی برکتیں اور فضل نازل کر۔ اے میرے ربّ! مَیں محسوس کرتا ہوں کہ یہ تیرے نیک بندے مجھ سے زیادہ مخلص اور خادم رہنما کے مستحق ہیں۔ مَیں اور کن لفظوں سے اِن کی سفارش تیرے پاس کر سکتا ہوں۔

جماعت کی طرف سے اظہارِ اخلاص

مریم بیگم کی وفات پر جس اخلاص کا اظہار جماعت نے کیا وہ ایمان کونہایت ہی بڑھانے والا تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت ہی ہے جس نے جماعت میں ایسا اخلاص پیدا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن کے اخلاص کو قبول کرے، اِن کی غلطیوں کو دُور کرے اور نیکیوں کو بڑھائے اور اِن کی آئندہ نسلوں کی اپنے ہاتھوں سے تربیت فرمائے۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ

اے میرے ربّ! میں اب اپنے مضمون کوختم کرتا ہوں اور بخاری میں مذکور مشہور واقعہ کو تجھے یاد دلاتے ہوئے تجھ سے کہتا ہوں کہ اگر مریم بیگم کی وفات کے وقت باوجود دل سے خون ٹپکنے کے مَیں نے اِس کے آخری لمحوں کو صرف تیری ہی محبت کے لئے وقف رکھنے کے لئے کوشش کی تھی اور اپنے جذبات کو اِس لئے قربان کر دیا تھا کہ تیرے ایک بندہ کی روح تیری ہی محبت سے چمٹ کر تیرے پاس پہنچے تو اے میرے پیارے! اگر میرا وہ فعل تیرے لئے اور تیرے نام کی بڑائی کے لئے تھا تو تو اُس کے بدلہ میں میرے دل سے مریم کی تکلیف دِہ یاد کو نکال دے۔ اے میرے ربّ! جب مریم بیگم نے امۃ الحی مرحومہ کے بچوں کو پالنے کا وعدہ کیا اور میں نے اِس سے وعدہ کیا کہ میں اِس سے بہت محبت کروں گا تو اُس وقت مَیں نے تجھ سے دعا کی تھی کہ تو اِس کی محبت میرے دل میں ڈال دے اور تو نے میری دعا سُنی اور باوجود ہزاروں بدمزگیوں کے اِس کی محبت میرے دل سے نہیں نکلی۔ آج مَیں تجھ سے پھر عرض کرتا ہوں کہ اِس کی محبت تو میرے دل میں رہے کہ مَیں اِس کیلئے دعا کرتا رہوں مگر اِس کی تکلیف دہ یاد میرے دل سے جاتی رہے۔ تا مَیں تیرے دین کی خدمت اچھی طرح اور آخری وقت تک ادا کرتا رہوں۔ اے میرے ربّ! میں یقین رکھتا ہوں کہ اب کہ مریم اگلے جہان میں ہیں اور حقائق اُن پر واضح ہوچکے ہیں اگر تو اُن پر یہ امر منکشف فرمائے تو وہ بھی اس امر کو بُرا نہیں منائے گی بلکہ خود بھی تجھ سے یہی عرض کرے گی کہ میرے خاوند نے میری روح کو بابرکت بنانے کیلئے مجھ سے میری آخری گھڑیوں میں درخواست کی تھی کہ مریم میری محبت کو بھول جائو خدا تعالیٰ ہی ہمارا پیارا ہے پس اُسی کو یاد رکھو، اب میں اِس کی سفارش کرتی ہوں کہ اس کے دل سے میری وہ محبت جو اُس نے تجھ سے دعا کر کے لی تھی اب واپس لے لے نہ اِس قدر کہ وہ میرے لئے دعائوں میں غافل ہو جائے بلکہ وہ محبت جو اس کے دل میں تشویش پیدا کرنے والی ہو اور اس کے کام میں روک بننے والی ہو۔

ساری جماعت کیلئے جامع دعا

اے میرے ربّ! تو کتنا پیارا ہے۔ نہ معلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لئے مَیںآج ہی اپنی ساری اولاد اور اپنے سارے عزیز و اقارب اور ساری احمدیہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں۔ اے میرے ربّ! تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں۔ میری آنکھیں اور میری روح اِن کی تکلیف نہ دیکھیں، یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کر دیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو اِن سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں۔ خدایا! صدیوں تک تو مجھے اِن کا دکھ نہ دکھائیو اور میری روح کو اِن کے لئے غمگین نہ کیجیؤاور اے میرے ربّ! میری امۃ الحی اور میری سارہ اور میری مریم پر بھی اپنے فضل کر اور اُن کا حافظ و ناصر ہو جا اور اُن کی اَرواح کو اگلے جہان کی ہر وحشت سے محفوظ رکھ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن

آخری درد بھرا پیغام

اے مریم کی روح! اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے تو لو یہ میرا آخری درد بھرا پیغام سن لو اور جائو خدا تعالیٰ کی رحمتوںمیں جہاں غم کا نام کوئی نہیں جانتا، جہاں درد کا لفظ کسی کی زبان پر نہیں آتا، جہاں ہم ساکنین ارض کی یاد کسی کو نہیں ستاتی۔

وَالسَّلَامُ

وَ اٰخِرُ دَعْوَئنَا وَ دَعْوئکُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

اَبْکِیْ عَلَیْکِ کُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ

اَرْثِیْکِ یَا زَوْجِیْ بِقَلْبٍ دَامِیْ

میں تجھ پر ہر دن اور ہر رات روتا ہوں۔ اے میری بیوی! میں تیری وفات کا افسوس خون بہانے والے دل سے کرتا ہوں۔

صِرْتُ کَصَیْدٍ صِیْدَفِی الصُّبْحِ غَبْلَۃً

قَدْ غَابَ عَنِّیْ مَقْصِد ِیْ وَ مَرَامِیْ

مَیں تیری موت پر اُس شکار کی طرح ہو گیا۔ جسے صبح کے وقت جب وہ بے فکر غذا کھانے کے لئے نکلتا ہے پھانس لیا جاتا ہے۔ ایسا یکدم صدمہ پہنچا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں بھول گیا ہوں کہ میرا رُخ کدھر کو تھا اور میں کدِھر جا رہا تھا۔

لَولَمْ یَکُنْ تَائِیْدُ رَبِّیْ مُسَاعِدِیْ

اَ صْبَحْتُ مَیْتًا عُرْضَۃً لِسِھَامِیْ

اگر خدا تعالیٰ کی تائید میری مدد پر نہ ہوتی تو مَیں اپنے ہی دل کے تیروں کا نشانہ بن کر مردار کی طرح ہو جاتا

وَلٰکِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ جَائَ لِنَجْدَتِیْ

وَاَنْقَذَنِیْ مِنْ زَلَّۃِ الْاَقْدَامِٖ

مگر اللہ کا فضل میری مدد کے لئے آ گیا اور اُس نے مجھے قدموں کے پھسلنے سے محفوظ رکھا۔

یَارَبِّ سَتِّرْنِیْ بِجُنَّۃِ عَفْوِکَ

کُنْ نَاصِرِیْ وَمُصَاحِبِیْ وَمُحَامِیْ

اے میرے ربّ! مجھے اپنی بخشش کی ڈھال سے ڈھانپ لے۔ اے میرے مددگار! اے میرے ساتھی !اور میرے محاظ!

اَلْغَمُّ کَالضِّرْ غَامِ یَأْکُلُ لَحْمَنَا

اَ تَجْعَلَنِّیْ لُقْمَۃَ الضِّرْ غَامِ

غم شیر کی طرح ہوتا ہے اور ہمارے گوشت کو کھا جاتا ہے۔ اے خدا! مجھے اس شیر کا لقمہ نہ بننے دیجیؤ

یَارَبِّ صَاحِبْھَا بِلُطْفِکَ دَائِمًا

وَاجْعَلْ لَھَا مَأْوًی بِقَبْرٍ سَامِیْ

اے میرے ربّ! ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا اور اپنا فضل اس پر نازل کرتے رہنا۔ اور اس کا ٹھکانا ایک بلند شان قبر میں بنانا

یَارَبِّ اَنعِمْھَا بِقُرْبِ مُحَمَّدٍ

ذِیْ المَجْدِ وَالْاِحْسَانِ وَالْاِکْرَامٖ

اے میرے ربّ! اپنے فضل سے اسے محمد رسول اللہ کے قُرب میں جگہ دینا۔ جو بڑی بزرگی والے ہیں، بڑا احسان کرنے والے ہیں اور جن کو تو نے بہت عزت بخشی ہے۔

اِس دنیا کی سب محبتیں عارضی ہیں اور صدمے بھی۔ اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اُس میں ہو کر ہم اپنے مادی عزیزوں سے مل سکتے ہیں اور اُس سے جدا ہو کر ہم سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہماری ناقص عقلیں جن امور کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھتی ہیں بسا اوقات اُن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان پوشیدہ ہوتا ہے۔ پس مَیں تو یہی کہتا ہوںکہ میرا دل جھوٹا ہے اور میرا خدا سچا ہے۔ وَالْحَمْدُللّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ۔ خدا تعالیٰ کے فضل کا طالب۔

مرزا محمود احمد

(الفضل12؍ جولائی 1944ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button