حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (3) (قسط سوم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

فضائل القرآن کے مضمون کی اہمیت

میں نے پچھلے سال کے سالانہ جلسہ پر فضائل قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون بیان کیا تھا۔ یہ مضمون جس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ احباب اس سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ قرآن کریم دنیا کی ساری مذہبی اور الہامی کتابوں سے افضل ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی کچھ نہیں ہو سکتی۔ آپﷺ کی بعثت سے پہلے بھی دنیا میں مذاہب موجود تھے اگر آپﷺ ان سے کوئی افضل چیز نہیں لائے تو پھر آپﷺ کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی! لیکن اگر قرآن کریم کے افضلیت ثابت ہو جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔ ان کی وہی مثال ہو جاتی ہے کہ ’’آب آمد تیمّم برخاست‘‘۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن آب کی حیثیت رکھتا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ پہلی کتابیں متروک ہو چکی ہیں اور اب صرف قرآن ہی قابل عمل کتاب ہے۔

میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ایک چیز کو لے کر ہم فضیلت ثابت کریں تو شبہ رہ سکتا ہے کہ فلاں چیز جس کا ذکر نہیں کیا گیا اس کے لحاظ سے نہ معلوم وہ افضل ہے یا نہیں لیکن اگر اصولی طور پر ہم افضلیت ثابت کر دیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کُلّی طور پر تمام کتب الٰہیہ سے افضل ہے۔

میں نے گذشتہ سال کے لیکچر میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق چھبیس وجوہ بیان کی تھیں۔ مگر ان چھبیس میں سے صرف چھ کی رو سے ہی میں نے قرآن کریم کی افضلیت ثابت کی تھی۔ اور باقی بیس میرے ذمہ قرض رہ گئی تھیں۔ بلکہ ان چھ میں سے بھی آخری دو، وقت کی قلت کی وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی تھیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج ان دو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کر دوں۔

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارادہ کوپورا کرنے کی کوشش

یہ مضمون دراصل اُس عہد کا ایفاء ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق تین سو دلائل پیش کرنے کے بارہ میں فرمایا تھا۔(براہین احمدیہ چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ129)اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے آخر میں ہی لکھ دیا تھا کہ

’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اَور صورت تھی۔ پھر بعد اس کے قدرتِ الٰہیہ کی ناگہانی تجلّی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی۔ یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے

اِنِّی اَنَا رَبُّکَ

کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی۔ سو اب اس کتاب کا متولّی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت ربّ العٰلمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں۔‘‘

(اشتہار بعنوان ہم اور ہماری کتاب۔براہین احمدیہ چہار حصص جلد 1 صفحہ 673)

پھر بعد میں آپؑ نے یہ بھی تحریر فرما دیا کہ

’’میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل (یعنی سچے مذہب کا اپنے عقائد اور تعلیم میں کامل ہونا اور اس کی زندہ برکات اور معجزات) ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا۔‘‘

(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ6)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی افضلیت کے وہ دلائل جن کا براہین احمدیہ میں وعدہ کیا تھا اپنی دوسری کتابوں میں بیان فرما دیئے۔ مگر ہر ایک نظر اُن تک نہیں پہنچ سکتی اس لئے میں نے انہیں ایک ترتیب سے بیان کرنا ضروری سمجھا۔

پچاس وجوہ فضیلت

لیکن جب میں اس قرضہ کی ادائیگی کا سامان کرنے کیلئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ قرضہ اور بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ میں نوٹ کرنے لگا تو 26کی بجائے 50فضیلت کی وجوہات مجھے معلوم ہوئیں اور اس طرح 20کی بجائے 44میرے ذمہ نکلیں۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ جب گذشتہ سال لمبا وقت صرف کر کے بمشکل چھ وجوہات پیش کی جا سکی تھیں تو اس سال 44کس طرح بیان کی جا سکیں گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کی طبیعت چونکہ وہمی ہوتی ہے اس لئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصولی طور پر فضیلت کے گر بیان کر کے جو قرآن کریم کی فضیلت ثابت کی گئی ہے اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تو اس میں ضرور کوئی بات ہوگی۔ اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کو پوری طرح ثابت نہیں کر سکتے ہونگے۔ اس وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جو تفصیل بیان نہیں ہو سکی تھی اس کو بھی لے لوں۔ اس طرح میرا کام اور بھی وسیع ہو گیا جسے اس سال تو میں یقینی طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ اور اگلے سال کے متعلق میں نہیں جانتا کہ خداتعالیٰ میرے دل میں کیا ڈالے۔ اس لئے جتنا ہو سکے گا اتنا بیان کر دوں گا۔

قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے

میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کو جو افضلیت حاصل ہے وہ انہی باتوں میں نہیں جو اس میں دوسری الہامی کتابوں سے زائد ہیں بلکہ جو باتیں پہلی کتابوں میں موجود ہیں ان کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ہے۔ میں غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر پہلی کتابوں میں کپڑے بدلنے کا کوئی طریق بتایا گیا ہے تو قرآن کریم نے اس سے بہتر اور عمدہ طریق پیش کیا ہے۔ اگر ان میں کھانا کھانے کے متعلق حکم دیا گیا ہے تو اس کا بھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیا ہے۔ گویا کوئی معمولی سے معمولی بات بھی قرآن کریم نے ایسی نہیں بتائی جس میں اس کے برابر کوئی اور کتاب ہو۔ اور خواہ کوئی موٹی سے موٹی بات لے لی جائے اس میں بھی قرآن کریم دوسری کتابوں سے افضل ثابت ہوگا۔ بلکہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے جو پہلی بات سامنے آئے اگر اسی کو لے لیا جائے تو میں اس کے متعلق بھی بتا دوں گا کہ کس طرح معمولی سے معمولی بات کے متعلق بھی پہلی کتابوں میں تعلیم موجود ہونے کے باوجود قرآن کریم نے ان سے اعلیٰ تعلیم پیش کی ہے۔ پس ان لوگوں کا شبہ دور کرنے کیلئے جنہیں یہ خیال ہو کہ شاید تفصیل کی رو سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت نہ ہو سکتی ہو میں دو مثالیں لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح انہیں نئے اور علمی رنگ میں پیش کیا ہے۔

صدقہ و خیرات کے بارہ میںاسلامی تعلیم کی جامعیت

پہلی مثال میں مَیں صدقہ وخیرات کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں۔ یہ کوئی روحانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے۔ ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ حیوانوں تک میں موجود ہے۔ ایک حیوان دوسرے حیوانوں سے ہمدردی کرتا ہے۔ ایک پرندہ دوسرے پرندہ سے ہمدردی کرتا ہے۔ اگر ایک کوا مارو تو بیس کوے کائیں کائیں کر کے جمع ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک کوے کے مرنے پر غم بھی کریں گے۔ اور اگر کسی نے مرا ہوا کوا اٹھایا ہوا ہو تو اس پر حملہ بھی کریں گے تا کہ اسے چھڑا لیں۔ غرض ہمدردی اور ایک دوسرے سے احسان کا مادہ حیوان اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا بلکہ چونچ اور زبان ہوتی ہے اس لئے وہ اسی سے اس جذبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ انسانوں کے پاس مال و دولت اور دوسری اشیاء ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعہ دوسروں کی امداد کرتے ہیں۔ بہرحال صدقہ اور خیرات کا مسئلہ اتنا موٹا اور اتنا عام ہے کہ کسی مذہب میں اس کے متعلق نامکمل اور ناقص تعلیم نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ ہر مذہب میں مکمل تعلیم ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آدمؑ سے لیکر اس وقت تک لوگ عمل کرتے چلے آ رہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس کے متعلق اسلامی تعلیم افضل ثابت ہو تو باقی مسائل کی تفصیلات میں اس کی تعلیم افضل ثابت نہیں ہو سکتی۔

صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم

صدقہ کے متعلق جب ہم مختلف مذاہب کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں۔ انجیل میں آتاہے

’’یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے۔ اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہوا۔‘‘

(متی باب 19 آیت 24،23برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہورمطبوعہ 1906ء)

گویا انجیل کی رو سے جب تک کوئی شخص اپنا سب کا سب مال خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ دے دے اس وقت تک اس کا دیا ہوا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح آتاہے۔

’’اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا۔‘‘

(متی باب 19 آیت 21برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہورمطبوعہ 1906ء)

پھر صدقہ کے متعلق حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں۔

’’جب تُو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلا دیگا۔‘‘

(متی باب 6 آیت 4،3برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1922ء)

ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے صدقہ و خیرات کے متعلق یہ بتایا ہے کہ اول جو کچھ تمہارے پاس ہو سارے کا سارا دے دو۔ دوم جب خیرات دو تو ایسی پوشیدگی سے دو کہ تمہارے اپنے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو۔ یعنی قریب ترین رشتہ داروں یا ماتحتوں یا افسروں کو بھی پتہ نہ لگے۔

٭…٭…جاری ہے …٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button