سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قلمی مجاہدات

آپؑ کے کچھ مباحثات اور مناظرات

جس زمانہ میں حضرت اقدسؑ کی ولادت ہوئی وہ زمانہ جیساکہ ابھی ذکرہواکہ اسلام کی کس مپرسی اور بے حالی کا بھیانک ترین زمانہ تھا۔ اسلام کادفاع کرنے والااصل میں توکوئی تھاہی نہیں کہ جوکھل کرکامیاب دفاع کرتا۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں میں کوئی عالم نہیں تھا۔ نہیں ! عالم بہت تھے۔ تفسیروحدیث کے عالم تھے کہ جنہیں خاتم المحدثین و المفسرین کہتے تھے۔ علم منطق وہندسہ کے چوٹی کے عالم بھی تھے۔ فقہ وکلام کے جیدعالم بھی موجودتھے۔ علم الصرف والنحوکے امام بھی تھے۔ بڑے بڑے مناظرے اور مباحثے بھی ہوتے تھے۔ درجنوں مناظرفریقین کی طرف سے پیش ہوتے تھے۔ مناظرہ سننے کے لئے اکٹھ کے اکٹھ ہوتے۔ صبح سے شام تک بلکہ بعض اوقات تو کئی کئی دن تک یہ مناظرہ چلتا تھا۔ ایک اسی قسم کامناظرہ اس زمانے کے ایک چوٹی کے عالم نے بھی کیاتھا۔ اوربڑے فخرسے ان کی سوانح میں بیان ہے کہ کئی سوکتابیں درجنوں چھکڑوں پرلادکرلے جائی گئیں اورکبھی سوچ سکتے ہیں کہ اس مناظرے کاموضوع کیاتھا؟؟ جی ہاں … !اس مناظرے کاموضوع تھا کہ کوّاحلال ہے یاحرام…!سبحان اللہ!

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

مناظرے ہوتے تھے اور ان مناظروں کااختتام خون ریزہلڑبازی پرختم ہوتا۔ پکڑدھکڑہوتی اور عدالتوں میں پیشی پرجج پوچھتاکہ تم کون ہوتوجواب ملتا کہ ہم ’وَلَاالدَّالِّیْن‘ والے ہیں اور دوسرے ’وَلَاالضَّالِّیْنَ‘ والے ہیں۔ یعنی ضادکوزادبولناہے کہ دال…!

اس بات پرجھگڑے ہورہے تھے کہ نمازمیں آمین جہراً کہی جائے گی کہ سرًّا اور اگرکوئی بے چارہ بھولا بھٹکا مسافر کسی مسجدمیں نمازباجماعت میں شامل ہوجاتا اور امام کے پیچھے وَلَاالضَّالِّیْنَپراگراونچی آوازمیں آمین کہہ بیٹھا تو پھراس کا سلامت واپس بچ کرآنامحال ہوجاتا۔ علماء اور مفتیوں سے فتوے لیے جاتے کہ کوئی وہابی اگربریلویوں کی مسجدمیں آجائے تو وہ کتنی ناپاک ہوگی اتنی کہ جتنی کسی کتے کے آنے سے ہوتی ہے یااس سے بھی زیادہ اوریہ فتوے بھی موجودہیں کہ اس سے زیادہ ناپاک ہوتی ہے ا س لیے اب صرف فرش دھونے سے کام نہیں چلے گا زیادہ اَولیٰ اور اَنسب ہے کہ اس جگہ کافرش ہی نیا کیا جائے۔ اس موضوع پرکتابیں لکھی گئیں اور بحثیں ہوئیں کہ قہوہ حلال ہے یاحرام، کسی کے آنے پرکھڑاہوناجائزہےیاناجائز۔

مناظروں کے صرف موضوع ہی ایسے مضحکہ خیزاور غیرضروری نہ تھے بلکہ اس پردیے جانے والے دلائل کی منطق اس سے بھی زیادہ بے باکانہ اور جاہلانہ تھی۔ اوروہ یہ کہ قرآن پرحدیث کوقاضی بناکرپیش کرتے ہوئے فیصلہ حدیث کی رُوسے کیے جانے کی دلائل بازی ہوتی۔ اورکہیں ایک فریق تھا کہ حدیث پرفقہی روایت کومقدم مانتا اور کوئی گروہ کسی حدیث کویہ کہہ کربیک زبان ردکردیتاکہ اس سے ہمارے مخالف امام فقہ نے اپنے حق میں استدلال کیاہے اس لیے یہ حدیث ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔

ملک عرب کے مشرکین وکفار اگرزمانہ ٔجاہلیت میں کبھی پانی پینے پلانے میں جھگڑے اورکبھی گھوڑاآگے بڑھانے کی لڑائی میں مصروف تھے تو آج کے مسلمان ہاتھ ناف کے اوپرباندھنے یانیچے باندھنے اور شلوارٹخنہ سے اوپریانیچے رکھنے کے جہادوقتال میں مشغول تھے۔

مناظرات ومباحثات کے اس ماحول میں حضرت اقدسؑ نے قدم رکھا۔ لیکن آپؑ نے ایسے اصول اور طریق پیش کیے کہ جن سے مناظروں اور مباحثوں کی فضاہی بدل کررکھ دی۔

آپؑ کے مباحثات میں جواصول وضوابط ہمیں نظرآتے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :

ایک اصول ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپؑ صرف اپنی علمیت جتلانے کے لیے بحث برائے بحث کوپسندنہیں فرماتے تھے۔ ایک بار مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے آپ کولے جایاگیاآپؑ نے ان سے پہلے پوچھا کہ آپ کا موقف کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں قرآن کومقدم جانتاہوں اور اس کے بعد حدیث کو۔ توآپؑ نے فرمایاکہ اس میں تو کوئی بحث کی بات ہے نہ ضرورت اور بغیربحث کے واپس تشریف لے آئے۔

2۔ ایک دوسرااصول ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپؑ کا مقصد دوسرے کوہدایت کی طرف لانامقصودہوتاہے نہ کہ اس کونادم اور شرمندہ کرکے لاجواب کرکے منہ بندکرنااور اس لیےآپ عجزوانکسارکے ساتھ بات کرتےاور فریق مخالف کی شوخی اورتیزی اور زبان درازی تک کونظراندازفرماتے۔ اور جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن کی تصویرہوتے۔

3۔ آپ مناظروں اور مباحثوں میں نرم زبان استعمال فرماتے اور حتی الوسع کوشش ہوتی کہ فریق مخالف کادل نہ دکھنے پائے۔

4۔ ہرچندکہ آپ کے دلائل اور جوابات علمی وتحقیقی ہوتے تھے لیکن کسی بھی طرح سے قابومیں نہ آنے والے مناظر کے لیے جوکہ علمی واخلاقی حدودسے تجاوز کرتا چلاجاتاہو آخرالحیل کے طورپر الزامی جواب بھی دیتے۔

5۔ لیکن جوبھی بات یادلیل ہوتی وہ فریق مخالف کی مسلّمہ مقبولہ کتب سے ہی ہوتی۔

6۔ آپؑ بحث ومناظرہ میں یہ اصول ٹھہراتے کہ فریق مخالف کوئی ایسی بات نہ پیش کرے نہ اعتراض کرے کہ جو خود معترض کی ہی الہامی کتاب یا کتابوں پر جن کے الہامی ہونے پر وہ ایمان رکھتا ہے وارد ہو سکتا ہو یعنی وہ امر جو بنا اعتراض کی ہے ان کتابوں میں بھی پایا جاتا ہو جن پر معترض کا ایمان ہے ایسے اعتراض سے چاہیے کہ ہریک ایسا معترض پرہیز کرے۔

7۔ ہندوستان میں مباحثوں اور مناظروں کی مکدر فضا کے پیش نظر اس طرح کے مباحثوں کوطبعاً ناپسند فرماتے تھے کیونکہ اس سے بالعموم کینہ اور بغض ہی بڑھتا رہا اور فساد اور عداوت میں ہی ترقی ہوئی اس لیے اس سے کراہت فرماتے تھے لیکن اتمام حجت کے طور پراگرایساکرناہی پڑا تو آپؑ نے مباحثات کومفیداور بہتر بنانے کاایک طریق یہ وضع فرمایاکہ تقریری بحث مباحثہ کی بجائے تحریری بحث کے طریق کواختیارفرمایاتاکہ فریق مخالف کے انکاروادبارکی راہ مسدودہوسکے اور مناظرہدایت پاسکے یا کم ازکم عوام الناس تک تو صحیح دلائل پہنچ جائیں اور وہ خودفیصلہ کرسکیں اور ان کے لیے ہدایت کاباعث بن سکے۔

8۔ آپؑ کاایک طریق یہ بھی تھا کہ فریق مخالف کواصل موضوع سے ہٹنے نہ دیتے تھے اورنہ ہی اصول کوچھوڑکرفروعات کی طرف جانے دیتے۔

اب تین اور اصول بیان کیے جاتے ہیں کہ جن کے پیش کرنے سے گویا تمام بے لگام مناظرین کولگام ڈال کررکھ دی۔

9۔ ان میں سے ایک اصول آپ نے یہ پیش فرمایاکہ جوبھی دعویٰ پیش کیاجائے وہ اپنی مقدس الہامی کتاب سے ہو۔

10۔ اور ا ن میں سے دوسرایہ اصول تھا کہ نہ صر ف یہ کہ دعویٰ الہامی کتاب سے ہوبلکہ دلیل بھی الہامی کتاب سے ہو۔

11۔ اور ایک تیسرا زبردست اصول آپؑ نے ایساپیش کیاکہ ہندوستان بھرکے تمام مناظروں اور مباحثوں کی یکسر کایاپلٹ کررکھ دی۔ پرانے طرزِ مباحثہ سے چھٹکارا دلاتے ہوئے آپؑ نے یہ فرمایاکہ بحث مباحثے سے اصل مقصدتویہ ہے کہ حق معلوم ہو۔ یہ پتہ چلے کہ سچامذہب کون ساہے۔ کس مذہب کے ساتھ اس خالق حقیقی کی تائیدشامل ہے۔ تو کیوں ناں اس بات کافیصلہ بھی اسی خدائے علیم وخبیرسے ہی چاہا جائے۔ چنانچہ آپؑ اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں :’’اور معقولی و منقولی بحثوں نے اس ملک ہندوستان میں کچھ ایسا ان کو فائدہ نہیں بخشا اس لئے ضرور ہو کہ اب طرز بحث بدل لی جائے سو میری دانست میں اس سے انسب طریق اور کوئی نہیں کہ ایک روحانی مقابلہ مباہلہ کے طور پر کیا جائے۔ ‘‘

( حجۃالاسلام ص36 روحانی خزائن جلد 6 ص 70)

یہ وہ چندایک اصول تھے کہ جن کی وجہ سے حضرت اقدسؑ نے اسلام اوربانیٔ اسلام کی فتح وعظمت کاجھنڈامیدان میں گاڑ دیااور کسی کوجرأت نہیں ہوئی کہ مقابل پرآتا اور پھرندامت اور رسوائی کاقشقہ لگوائے بغیرواپس جاپاتا۔

حضورؑ سے مباحثہ کرنے والے ایک، پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کاکہناتھا ’’ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ مرزا صاحب سے مباحثہ کرے۔ ان کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔ ‘‘

(حیات احمد از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ حصہ اول ص273)

ہندوستان کے ایک چوٹی کے ادیب اورانشاءپردازجوکہ مفسراور عالم بھی تھے۔ میری مراد مولانا ابو الکلام آزادسے ہے۔ انہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اسی کمال کاذکرکرتے ہوئے لکھاتھا:

’’فطری ذہانت مشق و مہارت اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک شان خاص پیدا کر دی تھی۔ اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے۔ تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملت کا ہوان کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا۔ ‘‘

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم ص 561-562)

’’کرزن گزٹ‘‘ دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے مؤرخہ یکم جون 1908ء کو اپنے اخبار میں لکھا کہ

’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا…‘‘

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم ص 565)

یہ ہیں وہ چندحقائق جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے دلائل دینے کے طریق سے مخالفین اس قدر خائف تھے کہ وہ کسی صورت میں بھی آپؑ سے مباحثہ یا منا ظرہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور انکار کردینے میں ہی عافیّت سمجھتے تھے۔

آئندہ اقساط میں ہم اس عہدکے آپؑ کے کچھ مباحثات اور مناظروں پرنظرڈالتے ہیں کہ جومضامین اور خطوط اور اشتہارات کی صورت میں محفوظ ہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button