خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍مارچ2021ء

حضرت عثمانؓ کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق آپؓ میں پائے جاتے تھے۔ دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے آپؓ نہایت ممتاز تھے۔ اسلام میں سبقت رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ پر نہایت خوش تھے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمانؓ بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی اکٹھے نماز نہیں پڑھ سکو گے اور کبھی بھی متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ نہ کر سکو گے اور ضرور تم آپس میں اختلاف کرو گے اور اس طرح تم الجھ کر رہ جاؤ گے۔(حضرت عثمانؓ)

حضرت زید بن ثابت انصاریؓ نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا کہ یہ انصار دروازے پر حاضر ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو ہم دوسری مرتبہ اللہ کے انصار بننے کو تیار ہیں۔ اس پر آپؓ، حضرت عثمانؓ نے فرمایا نہیں۔ قتال ہرگز نہیں کرنا۔

چار مرحومین مولوی محمد ادریس تیرو صاحب مبلغِ سلسلہ آئیوری کوسٹ، مکرمہ امینہ نائیگا کائرے صاحبہ اہلیہ محمد علی کائرے صاحب امیرومشنری انچارج یوگنڈا، مکرم لُؤی قزق صاحب آف سیریا اور مکرمہ فرحت نسیم صاحبہ ربوہ اہلیہ مکرم محمد ابراہیم صاحب حنیف سارچوری کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍مارچ2021ء بمطابق 12؍امان 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی وفات سے یا جب فتنہ زوروں پر تھا اس سے تقریباً ایک سال پہلے آخری حج کیا۔ بہرحال ان کا جو آخری حج تھا اس وقت فتنہ پردازوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور حضرت امیر معاویہؓ نے اس کو بڑی شدت سے محسوس کیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حج سے واپسی پرحضرت معاویہ بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ مدینہ آئے۔ کچھ دن ٹھہر کر آپ واپس جانے لگے تو آپ نے حضرت عثمانؓ سے علیحدہ مل کر درخواست کی کہ فتنہ بڑھتا ہوامعلوم ہوتا ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں اس کے متعلق کچھ عرض کروں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اول میرا مشورہ یہ ہے کہ آپؓ میرے ساتھ شام چلیں کیونکہ شام میں ہر طرح سے امن ہے اور کسی قسم کا فساد نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یکدم کسی قسم کا فساد اٹھے اور اس وقت کوئی انتظام نہ ہو سکے۔ حضرت عثمانؓ نے ان کو جواب دیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا خواہ جسم کی دھجیاں اڑا دی جائیں۔ حضرت معاویہ نے کہا پھر دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپؓ مجھے اجازت دیں کہ میں ایک دستہ شامی فوج کا آپؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دوں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں کوئی شخص شرارت نہیں کر سکے گا۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ نہ میں عثمان کی جان کی حفاظت کے لیے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں۔ اس پر حضرت معاویہ نے عرض کی کہ پھر تیسری تجویز یہ ہے کہ صحابہ ؓکی موجودگی میں لوگوں کو جرأت ہے کہ اگر عثمانؓ نہ رہے تو ان میں سے کسی کو آگے کھڑا کر دیں گے۔ ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں ان کو پراگندہ کر دوں، پھیلا دوں۔ اس پر معاویہ رو پڑے اور عرض کی کہ اگر ان تدابیر میں سے جو آپؓ کی حفاظت کے لیے میں نے پیش کی ہیں آپؓ کوئی بھی قبول نہیں کرتے تو اتنا تو کیجیے کہ لوگوں میں یہ اعلان کر دیں کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچا تو معاویہ کو میرے قصاص کا حق ہو گا۔ شاید لوگ اس سے خوف کھا کر شرارت سے باز رہیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ معاویہ! جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کی طبیعت سخت ہے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت معاویہ کو کہا کہ آپ کی طبیعت سخت ہے ایسا نہ ہو کہ آپ مسلمانوں پر سختی کریں۔ اس پر حضرت معاویہ روتے ہوئے آپ کے پاس سے اٹھے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو۔ اور باہر نکل کر صحابہؓ سے کہا۔ اسلام کا دارومدار آپ لوگوں پر ہے۔ حضرت عثمانؓ اب بالکل ضعیف ہو گئے ہیں اور فتنہ بڑھ رہا ہے۔ آپ لوگ ان کی نگہداشت رکھیں۔ یہ کہہ کر معاویہ شام کی طرف روانہ ہو گئے۔

(ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد4صفحہ 285-286 )

حضرت عثمانؓ کا جو مضبوط عزم و ہمت تھا اس کے بارے میں بیان ہے، مجاہد نے بیان کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر سے محاصرین کو جھانک کر فرمایا کہ اے میری قوم! مجھے قتل نہ کرو کیونکہ میں حاکم وقت اور تمہارا مسلمان بھائی ہوں۔ بخدا میں نے ہمیشہ مقدور بھر اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے خواہ میرا موقف درست تھا یا مجھ سے کوئی خطا ہوئی۔ یاد رکھو اگر تم نے مجھے قتل کیا تو تم لوگ کبھی بھی اکٹھے نماز نہ پڑھ سکو گے اور نہ ہی کبھی اکٹھے جہاد کر سکو گے اور نہ ہی اموالِ غنیمت کی تم میں منصفانہ تقسیم ہو سکے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ جب محاصرہ کرنے والوں نے انکار کیا تو آپؓ نے فرمایا میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم لوگوں نے امیرالمومنین حضرت عمر ؓکی وفات کے وقت جبکہ تم سب متحد تھے اور سب دین اور حق پر قائم تھے وہ دعا نہ کی تھی جو تم نے کی تھی یعنی خلافت کے بارے میں۔ پھر کیا اب تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعائیں قبول نہیں کیں یا پھر یہ کہنا چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اب دین کی کوئی پروا نہیں رہی یا پھر یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں نے اس چیز یعنی خلافت کو تلوار کے زور سے یا غاصبانہ قبضہ کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور مسلمانوں کے مشورے سے اسے حاصل نہیں کیا یا پھر تمہارا خیال ہے کہ میری خلافت کے ابتدائی زمانے میں اللہ تعالیٰ میرے بارے میں وہ باتیں نہیں جانتا تھا جن کا اسے بعد میں پتہ چلا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔ اس پر بھی جب محاصرین نے آپؓ کی بات نہ مانی تو آپؓ نے دعا کی کہ یا اللہ !تُو انہیں اچھی طرح گن لے اور ان سب کو چن چن کر مارنا اور ان سب میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑنا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس فتنہ میں جس جس نے بھی حصہ لیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ38،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

ابولیلیٰ کِنْدِی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ کو دیکھا جبکہ آپ محصور تھے۔ آپؓ نے ایک روشن دان سے جھانک کر فرمایا اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اور اگر میرا قصور ہے تو مجھے توبہ کا موقع دو۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی اکٹھے نماز نہیں پڑھ سکو گے اور کبھی بھی متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ نہ کر سکو گے اور ضرور تم آپس میں اختلاف کرو گے اور اس طرح تم الجھ کر رہ جاؤ گے۔ راوی کہتے ہیں آپؓ نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر بتایا کہ ایسے۔ پھر آپؓ نے فرمایا

وَ يٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْ اَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ۔(هود:90)

اور اے میری قوم! میری دشمنی تمہیں ہرگز ایسی بات پر آمادہ نہ کرے کہ تمہیں بھی ویسی ہی مصیبت پہنچے جیسی نوح کی قوم کو اور ہود کی قوم کو اور صالح کی قوم کو پہنچی تھی اور لوط کی قوم بھی تم سے کچھ دور نہیں۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلام کی طرف پیغام بھیجا۔ انہوں نے آکر حضرت عثمانؓ سے عرض کیا کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اس میںآپ کی کیا رائے ہے؟ تو آپؓ نے یعنی حضرت عثمانؓ نے فرمایا لڑائی سے بچو۔ لڑائی سے بچو۔ کیونکہ یہ بات تمہارے حق میں بطور دلیل زیادہ مضبوط ہو گی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ39،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ حضرت زید بن ثابت انصاریؓ نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یہ انصار دروازے پر حاضر ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو ہم دوسری مرتبہ اللہ کے انصار بننے کو تیار ہیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا۔ نہیں، قتال ہرگز نہیں کرنا۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ یوم الدَار کو میں نے حضرت عثمانؓ کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا۔ اے امیر المومنینؓ! اب تو تلوار اٹھانا ہی مناسب ہے۔ آپؓ نے فرمایا اے ابوہریرؓہ! کیا تم پسند کرو گے کہ تم تمام لوگوں کو اور مجھے بھی قتل کر دو۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ تو آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر تم نے ایک شخص کو بھی قتل کیا تو گویا سب لوگ قتل ہو گئے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں پھر واپس آگیا۔ اس لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔ پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ آج ہی لڑنے کا موقع ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے بیان کیا کہ میں نے محاصرہ کے روز حضرت عثمانؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے امیر المومنینؓ! ان لوگوں سے جنگ کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے لیے ان سے جنگ کرنا جائز قرار دیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! مَیں ان سے کبھی بھی جنگ نہیں کروں گا۔

راوی کہتے ہیں کہ اس پر وہ لوگ آپؓ کے پاس گھر میں گھس آئے جبکہ آپؓ روزے سے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے گھر کے دروازے پر حضرت عبداللہ بن زبیر کو نگران مقرر فرمایا ہوا تھا۔ آپؓ نے فرمایا تھا کہ جو میری اطاعت کرنا چاہتا ہے وہ عبداللہ بن زبیر کی اطاعت کرے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے امیر المومنین! یقینا ًآپ کے پاس گھرمیں آپ کی حفاظت کے لیے ایک گروہ ہے جسے اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہے اور وہ ان محاصرین کی نسبت تعداد میں کم ہیں۔ پس آپ مجھے باغیوں سے قتال کی اجازت دیں۔ تو آپؓ نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قَسم دیتا ہوں یا فرمایا میں تمہیں اللہ کے نام پر نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی آدمی میری خاطر اپنا خون نہ بہائے یا میری خاطر کسی اَور کا خون نہ بہائے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ39،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

حضرت عثمانؓ کی شہادت سے قبل کے فتنہ اور آپؓ کے واقعہ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ باغیوں کو بظاہر غلبہ حاصل ہو چکا تھا۔ انہوں نے آخری حیلے کے طور پر پھر ایک شخص کو حضرت عثمانؓ کی طرف بھیجا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خود دستبردار ہو جائیں گے تو مسلمانوں کو انہیں سزا دینے کا کوئی حق اور موقع نہ رہے گا یعنی باغیوں کو پھر سزا دینے کا موقع نہیں ملے گا۔ حضرت عثمانؓ کے پاس جو پیامبر پہنچا تو آپؓ نے فرمایا کہ میں نے تو جاہلیت میں بھی بدیوں سے پرہیز کیا ہے اور اسلام میں بھی اس کے احکام کو نہیں توڑا ۔ مَیں کیوں اور کس جرم میں اس عہدے کو چھوڑ دوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے؟ میں تو اس قمیص کو کبھی نہیں اتاروں گا جو خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے۔ وہ شخص یہ جواب سن کر واپس آ گیا اور اپنے ساتھیوں سے ان الفاظ میں آکر مخاطب ہوا کہ خدا کی قسم! ہم سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ خدا کی قسم !مسلمانوں کی گرفت سے عثمان کو قتل کرنے کے سوائے ہم بچ نہیں سکتے کیونکہ اس صورت میں حکومت تہ و بالا ہو جائے گی اور انتظام بگڑ جائے گا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا اور اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں یعنی حل تو یہی ہے لیکن قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں ۔ اس شخص کے یہ فقرات نہ صرف ان لوگوں کی گھبراہٹ پر دلالت کرتے ہیں بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس وقت تک بھی حضرت عثمانؓ نے کوئی ایسی بات پیدا نہ ہونے دی تھی جسے یہ لوگ بطور بہانہ استعمال کر سکیں اور ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ حضرت عثمانؓ کا قتل کسی صورت میں جائز نہیں۔

جب یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے قتل کا منصوبہ کر رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن سلام جو بحالت کفر بھی اپنی قوم میں نہایت معزز تھے اور جن کو یہود اپنا سردار مانتے تھے اور عالمِ بے بدل جانتے تھے، تشریف لائے اور دروازے پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی اور حضرت عثمانؓ کے قتل سے ان کو منع فرمایا کہ اے قوم! خدا کی تلوار کو اپنے اوپر نہ کھینچو۔ خدا کی قسم! اگر تم نے تلوار کھینچی تو پھر اسے میان میں کرنے کا موقع نہ ملے گا، پھر ہمیشہ مسلمانوں میں تلوار کھنچی رہے گی۔ ہمیشہ مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہی رہے گا۔ عقل کرو۔ آج تم پر حکومت صرف کوڑے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ عموماً حدود شریعہ میں کوڑے کی سزا دی جاتی ہے اور اگر تم نے اس شخص کو قتل کر دیا یعنی حضرت عثمانؓ کو قتل کر دیا تو حکومت کا کام بغیر تلوار کے نہ چلے گا۔ یعنی چھوٹے چھوٹے مجرموں کے جرموں پر بھی لوگوں کو قتل کیا جائے گا۔ یاد رکھو کہ اس وقت مدینہ کے محافظ ملائکہ ہیں۔ اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو ملائکہ مدینہ کو چھوڑ جائیں گے۔ اس نصیحت سے ان لوگوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ عبداللہ بن سلام صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھتکار دیا اور ان کو پہلے دین کا طعنہ دے کر کہا کہ اے یہودن کے بیٹے! تجھے ان کاموں سے کیا تعلق؟ افسوس کہ ان لوگوں کو یہ تو یاد رہا کہ عبداللہ بن سلام یہودن کے بیٹے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے ایمان لانے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر ایک مصیبت اور دکھ میں آپ شریک ہوئے اور اسی طرح یہ بھی بھول گیا کہ ان کا لیڈر اور ان کو ورغلانے والا حضرت علیؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی قرار دے کر حضرت عثمانؓ کے مقابلے پر کھڑا کرنے والا عبداللہ بن سبا بھی یہودن کا بیٹا تھا بلکہ خود یہودی تھا اور صرف ظاہر میں اسلام کا اظہار کر رہا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام تو یہ باتیں سن کے ان لوگوں سے مایوس ہو کر چلے گئے اور ادھر ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ دروازے کی طرف سے جا کر حضرت عثمانؓ کو قتل کرنا مشکل ہے کیونکہ اس طرف تھوڑے بہت جو لوگ بھی روکنے والے موجود ہیں وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ فیصلہ کیا کہ کسی ہمسائے کے گھر کی دیوار پھاند کر حضرت عثمانؓ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ اس ارادے سے چند لوگ ایک ہمسائے کی دیوار پھاند کر آپؓ کے کمرے میں گھس گئے۔ جب اندر گھسے تو حضرت عثمانؓ قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور جب سے کہ محاصرہ ہوا تھا رات اور دن آپؓ کا یہی شغل تھا کہ نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس کے سوا اَور کسی کام کی طرف توجہ نہ کرتے اور ان دنوں میں صرف آپؓ نے ایک کام کیا اور وہ یہ کہ ان لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے آپؓ نے دو آدمیوں کو خزانے کی حفاظت کے لیے مقرر کیا کیونکہ جیسا کہ ثابت ہے اس دن رات کو رؤیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو نظر آئے، حضرت عثمانؓ کو خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ عثمانؓ آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا۔ اس رؤیا سے آپؓ کو یقین ہو گیا تھا کہ آج میں شہید ہو جاؤں گا۔ پس آپؓ نےاپنی ذمہ داری خیال کر کے دو آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ خزانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر پہرہ دیں تا کہ شور و شرمیں کوئی شخص خزانے کو لُوٹنے کی کوشش نہ کرے۔ غرض جب یہ لوگ اندر پہنچے تو حضرت عثمانؓ کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے پایا۔ ان حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے اور بوجہ اپنے اقتدار کے جو ان لوگوں پر ان کو حاصل تھا اپنا فرض سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا ناںکہ میں حضرت ابوبکر کا بیٹا ہوں تو مجھے فوقیت حاصل ہے۔ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ہر ایک کام میں آگے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی داڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا۔ حضرت عثمانؓ نے ان کے اس فعل پر صرف اس قدر فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ یعنی حضرت ابوبکرؓ اس وقت ہوتا تو تُو کبھی ایسا نہ کرتا۔ تجھے کیا ہوا۔ تُو خدا کے لیے مجھ پر ناراض ہے۔ کیا اس کے سوا تجھے مجھ پر کوئی غصہ ہےکہ تجھ سے مَیں نے خدا کے حقوق ادا کروائے ہیں؟ مَیں یہی کہتا ہوں ناں کہ خدا کے حقوق ادا کرو۔ اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہو کر واپس لَوٹ گئے لیکن دوسرے شخص وہیں رہے اور چونکہ اس رات بصرہ کے لشکر کی مدینہ میں داخل ہونے کی یقینی خبر آ چکی تھی اور یہ موقع ان لوگوں کے لیے آخری موقع تھا۔ ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ بغیر اپنا کام کیے واپس نہ لَوٹیں گے اور ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمانؓ کے سر پر ماری اور پھر حضرت عثمانؓ کے سامنے جو قرآن کریم دھرا ہوا تھا اس کو لات مار کر پھینک دیا۔ قرآن کریم لڑھک کر حضرت عثمانؓ کے پاس آگیا اور آپؓ کے سر پر سے خون کے قطرات گر کر اس پر آ پڑے۔ قرآن کریم کی بے ادبی تو کسی نے کیا کرنی ہے مگر ان لوگوں کے تقویٰ اور دیانت کا پردہ اس واقعہ سے اچھی طرح فاش ہو گیا۔ جس آیت پر آپؓ کا خون گرا وہ ایک زبردست پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر جا کر اس شان سے پوری ہوئی کہ سخت دل سے سخت دل آدمی نے اس کے خونی حروف کی جھلک کو دیکھ کر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ آیت یہ تھی۔

فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۔(البقرة:138)

اللہ تعالیٰ ضرور ان سے تیرا بدلہ لے گا اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔

اس کے بعد ایک اَور شخص سُوْدَان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپؓ پر حملہ کرنا چاہا۔ پہلا وار کیا تو آپؓ نے اپنے ہاتھ سے اس کو روکا اور آپؓ کا ہاتھ کٹ گیا۔ اس پر آپؓ نے، حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم !یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا۔ اس کے بعد پھر اس نے دوسرا وار کر کے آپؓ کو قتل کرنا چاہا تو آپ کی بیوی نائلہ وہاں آ گئیں اور اپنے آپ کو بیچ میں کھڑا کر دیا مگر اس شقی نے ایک عورت پر وار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور وار کر دیا جس سے آپؓ کی بیوی کی انگلیاں کٹ گئیں اور وہ علیحدہ ہو گئیں۔ پھر اس نے ایک وار حضرت عثمانؓ پر کیا اور آپؓ کو سخت زخمی کر دیا۔ اس کے بعد اس شقی نے یہ خیال کر کے کہ ابھی جان نہیں نکلی، شاید بچ جائیں اسی وقت جبکہ زخموں کے صدموں سے آپ بیہوش ہو چکے تھے اور شدت درد سے تڑپ رہے تھے آپؓ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کیا اور اس وقت تک آپ کا گلا نہیں چھوڑا جب تک آپؓ کی روح جسم ِخاکی سے پرواز کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالا کو پرواز نہیں کر گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔پہلے حضرت عثمانؓ کی بیوی اس نظارے کی ہیبت سے متاثر ہو کر بول نہ سکیںلیکن آخر انہوں نے آواز دی اور وہ لوگ جو دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اندر کی طرف دوڑے مگر اب مدد فضول تھی، جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے ایک آزاد کردہ غلام نے سُوْدَان کے ہاتھ میں وہ خون آلود تلوار دیکھی جس نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا تھا تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس شخص کا تلوار سے سر کاٹ دیا۔ اس پر اس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کر دیا۔

اب اسلامی حکومت کا تخت خلیفہ سے خالی ہو گیا۔ اہل مدینہ نے مزید کوشش فضول سمجھی اور ہر ایک اپنے اپنے گھر جا کر بیٹھ گیا۔ ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کو مار کر گھر پر دستِ تعدّی دراز کرنا شروع کیا۔ حضرت عثمانؓ کی بیوی نے چاہا کہ اس جگہ سے ہٹ جاویں تو اس کے لَوٹتے وقت ان میں سے ایک کمبخت نے اپنے ساتھیوں سے ان کے متعلق نہایت غلیظ الفاظ میں تبصرہ کیا۔ بےشک ایک حیادار آدمی کے لیے خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو کیوں نہ ہو اس بات کو باور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت سابق قدیمی صحابی، آپؐ کے داماد، تمام اسلامی ممالک کے بادشاہ اور پھر خلیفۂ وقت کو یہ لوگ ابھی ابھی مار کر فارغ ہوئے تھے ایسے گندے خیالات کا ان لوگوں نے اظہار کیا ہو لیکن ان لوگوں کی بےحیائی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ کسی قسم کی بداعمالی بھی ان سے بعید نہ تھی۔ یہ لوگ کسی نیک مدعا کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے تھے نہ ان کی جماعت نیک آدمیوں کی جماعت تھی۔ ان میں سے بعض عبداللہ بن سبا یہودی کے فریب خوردہ اور اس کی عجیب و غریب مخالف اسلام تعلیموں کے دلدادہ تھے۔ کچھ حد سے بڑھی ہوئی سوشلزم بلکہ بولشویزم کے فریفتہ تھے۔ کچھ سزا یافتہ مجرم تھے جو اپنے دیرینہ بغض کو نکالنا چاہتے تھے۔ کچھ لٹیرے اور ڈاکو تھے جو اس فتنہ پر اپنی ترقیات کی راہ دیکھتے تھے۔ پس ان کی بےحیائی قابل تعجب نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اگر ایسی حرکات نہ کرتے تب تعجب کا مقام تھا۔ جب یہ لوگ لوٹ مار کر رہے تھے تو ایک اَور آزاد کردہ غلام سے حضرت عثمانؓ کے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر نہ رہا گیا اور اس نے حملہ کر کے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے پہلے غلام کو مارا تھا۔ اس پر ان لوگوں نے اسے بھی قتل کر دیا اور عورتوں کے جسم پر سے بھی زیور اتار لیے اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔

(ماخوذ ازاسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد4صفحہ 327تا331 )

حضرت مصلح موعودؓ ان قاتلین کی بدتہذیبی کا مزید ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ خود انہوں نے کیا کیا! حضرت عثمانؓ کو شہید کیا اور جب خون میں تڑپ رہے تھے تو قاتل ان کی بیوی، حضرت عثمانؓ کی بیوی کے متعلق بیہودہ بکواس کر رہے تھے، جسم کے بارے میں تبصرے کر رہے تھے۔ پھر اس سے بھی بدتر انہوں نے کام کیا یعنی حضرت عثمانؓ کی بیوی پر ہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھے اور حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے متعلق بھی باتیں کیں۔ حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بہت بڑا مرتبہ دیا ہے اور میں اس پر فخر کرتا ہوں لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ کاش میں اُس وقت ہوتا اور اب نہ ہوتا تو مَیں ان لوگوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا۔ ان لوگوں کی انتہا کیا تھی؟ حضرت عائشہؓ کے بارے میں جیسا کہ مَیں نے کہا فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بے پرد کیا اور دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو نوجوان ہے۔

(ماخوذ از رپورٹ مجلس مشاورت12،11 اپریل1925ء صفحہ32-33)

حضرت عائشہؓ پر بھی تبصرے سے باز نہیں آئے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے یعنی حضرت عثمانؓ اس بات سے کبھی خائف نہیں ہوئے کہ مجھ سے کیا سلوک ہو گا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو ایک دوسرے سے جدا جدا رکھتے تا وہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمانؓ نماز پڑھنے کے لیے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا۔ جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمانؓ کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہ کا اپنے مکان کے ارد گرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیںقَسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میری فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ ثابت ہے کہ حضرت عثمانؓ کو شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا۔ پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اَور زبردست ثبوت یہ ہے جیسا کہ خطبہ کے شروع میں بیان ہوا تھا کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہ حج کے لیے آئے۔ جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمانؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپؓ میرے ساتھ شام چلیں وہاں آپ ان فتنوں سے محفوظ رہیں گے۔ آپؓ نے فرمایا کہ معاویہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لیے بھیج دیتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا اپنی حفاظت کے لیے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی نہیں کرنا چاہتا۔ حضرت معاویہ نے عرض کیا کہ امیر المومنین! لوگ آپ کو دھوکے سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے کہ آپؓ کے خلاف وہ برسر جنگ ہو جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ مجھے اس کی پروا نہیں۔ میرے لیے میرا خدا کافی ہے۔ آخر انہوں نے کہااگر آپؓ اَور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے۔ چنانچہ وہ ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں۔ اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپؓ سے تعارض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جبکہ مدینہ میں کوئی اَور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں ہے۔ مگر حضرت عثمانؓ نے یہ بات بھی نہ مانی، پہلے ذکر ہو چکا ہے،اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں انہیں جلاوطن کر دوں۔ حضرت معاویہ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ اَور کچھ نہیں کرتے تو اتنا ہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا۔ آپؓ نے فرمایا معاویہ تمہاری طبیعت تیز ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو۔ اس لیے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا۔ اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرأت کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں ؟ اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دل میں کچھ بھی خوف تھا یعنی حضرت عثمانؓ کے دل میں کوئی خوف تھا۔ اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کے لیے بھجوا دو۔ انہیں تنخواہ مَیں دلا دوں گا اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے اگر مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سن لے کہ میرا بدلہ معاویہ لے گا مگر آپؓ نے سوائے اس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ تمہاری طبیعت تیز ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر مَیں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کرو گے۔ پھر جب آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کا ایک بیٹا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے ،آگے بڑھا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی پکڑ کے اسے زور سے جھٹکا دیا۔ حضرت عثمانؓ نے اس کی طرف آنکھ اٹھائی اور فرمایا میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تُو کبھی ایسا نہ کرتا۔ یہ سنتے ہی اس کا سر سے لے کر پیر تک جسم کانپ گیا اور شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک اَور شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک لوہے کی سیخ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے حضرت عثمانؓ کے سر پہ ماری اور آگے قرآن جو پڑا ہوا تھا اس کوپاؤں سے ٹھوکر ماری۔ الگ پھینک دیا۔ وہ ہٹا تو ایک اَور شخص آگے آیا اور اس نے تلوار سے آپ کو شہید کر دیا۔ ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان واقعات سے خائف تھے۔

(ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد15صفحہ 536-537)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئےاور اسی رنگ میں آئے جس رنگ میں حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ اور دوسرے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور آپؑ کے بعد بھی اسی رنگ میں سلسلۂ خلافت شروع ہوا جس طرح پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوا۔ اگر ہم عقل کے ساتھ دیکھیں اور اس کی حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے۔ یعنی خلافت کا سلسلہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر دس ہزار نسلیں بھی اس کے قیام کے لیے قربان کر دی جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ میں دوسروں کے متعلق تو نہیں جانتا مگر کم از کم اپنے متعلق جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تاریخ پڑھنے کے بعد جب میں حضرت عثمانؓ پر پڑی ہوئی مصیبتوں پر نظر کرتا ہوں اور دوسری طرف اس نور اور روحانیت کو دیکھتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر ان میں پیدا کی تو میں کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں میری دس ہزار نسلیں پیدا ہونے والی ہوتیں اور وہ ساری کی ساری ایک ساعت میں جمع کر کے قربان کر دی جاتیں تا وہ فتنہ ٹل سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جُوں دے کر ہاتھی خریدنے کا سودا ہے یعنی بہت چھوٹی سی چیز دے کر، جُوں تو ایک بڑا معمولی سا کیڑا ہے وہ دے کے ہاتھی خریدنے کے سودے سے بھی یہ سستا ہے۔ درحقیقت ہمیں کسی چیز کی قیمت کا پتہ پیچھے لگتا ہے۔

(ماخوذ از نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہے،انوار العلوم جلد18صفحہ 246)

بعد میں پتہ لگتا ہے کہ اصل قیمت کیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد پتہ لگا کہ خلافت کی اہمیت کیا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی نظر مسندِخلافت پر بیٹھنے کے لیے حضرت عثمانؓ پر پڑی اور آپ اکابر صحابہؓ کے مشورہ سے اس کام کے لیے منتخب کیے گئے۔ آپؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور یکے بعد دیگرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپؓ سے بیاہی گئیں اور جب دوسری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوت ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اَور بیٹی ہوتی تو میں اُسے بھی حضرت عثمانؓ سے بیاہ دیتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں آپ کو خاص قدر و منزلت حاصل تھی۔ آپ اہل ِمکہ کی نظر میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے اور اس وقت ملکِ عرب کے حالات کے مطابق مالدار آدمی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام اختیار کرنے کے بعد جن خاص خاص لوگوں کو تبلیغ اسلام کے لیے منتخب کیا ان میں ایک حضرت عثمانؓ بھی تھے اور آپؓ پر حضرت ابوبکرؓ کا گمان غلط نہیں گیا بلکہ تھوڑے دنوں کی تبلیغ سے ہی آپ نے‘‘ حضرت عثمانؓ نے ’’اسلام قبول کر لیا اور اس طرح اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں یعنی اسلام میں داخل ہونے والے اس پیشرو گروہ میں شامل ہوئے جن کی قرآن کریم نہایت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتا ہے۔ عرب میں انہیں جس قدر عزت و توقیر حاصل تھی اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رؤیا کی بنا پر مکہ تشریف لائے اور اہل مکہ نے بغض وکینہ سے اندھے ہو کر آپؐ کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا کہ کسی خاص معتبر شخص کو اہل مکہ کے پاس اس امر پر گفتگو کرنے کے لیے بھیجا جاوے اور حضرت عمرؓ کا اس کے لیے انتخاب کیا۔ حضرت عمرؓنے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ! میں تو جانے کو تیار ہوں مگر مکہ میں اگر کوئی شخص ان سے گفتگو کر سکتا ہے تو وہ حضرت عثمانؓ ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کی نظر میں خاص عزت رکھتا ہے۔ پس اگر کوئی دوسرا شخص گیا تو اس پر کامیابی کی اتنی امید نہیں ہو سکتی جتنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے۔ اور آپؓ کی اس بات کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی درست تصور کیا اور انہی کو اس کام کے لیے بھیجا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کفار میں بھی خاص عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کا بہت احترام فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور آپؐ اسی طرح لیٹے رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی آپؐ اسی طرح لیٹے رہے۔ پھر حضرت عثمانؓ تشریف لائے تو آپؐ نے جھٹ اپنے کپڑے سمیٹ کر درست کر لیے اور فرمایا حضرت عثمانؓ کی طبیعت میں حیا بہت ہے۔ اس لیے میں اس کے احساسات کا خیال کر کے ایسا کرتا ہوں۔ آپؓ ان شاذ آدمیوں میں سے ایک ہیں‘‘ یعنی حضرت عثمانؓ ان شاذ آدمیوں میں سے ایک ہیں ’’جنہوں نے اسلام کے قبول کرنے سے پہلے بھی کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا اور زنا کے نزدیک نہیں گئے اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو عرب کے ملک میں جہاں شراب کا پینا فخر اور زنا ایک روزمرہ کا شغل سمجھا جاتا تھا اسلام سے پہلے چند گنتی کے آدمیوں سے زیادہ لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ غرض آپؓ کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق آپؓ میں پائے جاتے تھے۔ دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے آپؓ نہایت ممتاز تھے۔ اسلام میں سبقت رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ پر نہایت خوش تھے اور حضرت عمرؓ نے آپ کو ان چھ آدمیوں میں سے ایک قرار دیا ہےجو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک آپؓ کی اعلیٰ درجہ کی خوشنودی کو حاصل کیے رہے اور پھر آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے ایک فرد ہیں یعنی ان دس آدمیوں میں سے ایک ہیں جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔‘‘

(اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد4صفحہ 251-253)

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے دن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ سترہ یا اٹھارہ ذوالحجہ 35؍ ہجری کو جمعہ کے دن شہید کیے گئے۔ ابو عثمان نَہْدِیکے مطابق حضرت عثمانؓ کی شہادت ایام تشریق کے وسط میں ہوئی یعنی بارہ ذوالحجہ کو جبکہ ابن اسحاق کے مطابق حضرت عثمانؓ کا واقعہ شہادت حضرت عمر ؓکے واقعہ شہادت کے گیارہ سال گیارہ ماہ اور بائیس دن کے بعد ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچیس سال بعد ہوا۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء3 صفحہ159، عثمان بن عفان،دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے بروز جمعہ 18؍ ذوالحجہ 36؍ ہجری میں نماز عصر کے بعد بیاسی سال کی عمر میں شہادت پائی۔ آپؓ شہادت کے وقت روزے سے تھے۔ ابُومَعْشَر کے نزدیک شہادت کے وقت آپ کی عمر75سال تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ43ذکرعثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

حضرت عثمانؓ کی تجہیز و تکفین کے بارے میں بیان ہے کہ نِیَار بن مُکْرَمنے کہا کہ ہفتہ کی رات مغرب اور عشاء کے درمیان حضرت عثمانؓ کی میت کو ہم چار اشخاص نے اٹھایا یعنی مَیں اور جُبَیر بن مُطْعِمْ ؓ اور حکیم بن حِزَام اور ابو جُہَم بن حُذَیفہ۔ حضرت جُبَیر بن مُطْعِمْ ؓنے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ معاویہ نے اس بات کی تصدیق کی ۔ یہی چار آپؓ کی قبر میں اترے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جُبَیر بن مُطْعِمْ ؓنے سولہ افراد کے ہمراہ حضرت عثمانؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ علامہ ابن سعد کا قول ہے کہ پہلی روایت زیادہ درست ہے یعنی چار آدمیوں والی جس میں ذکر ہے کہ چار افراد نے آپؓ کی نماز جنازہ ادا کی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ43ذکر عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

عبداللہ بن عمرو بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کو ہفتے کی رات مغرب اور عشاء کے درمیان حَشِّ کَوْکَبْ میں دفن کیا گیا۔ ربیع بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں کی یہ آرزو تھی کہ وہ اپنے مُردوں کو حَشِّ کَوْکَبْ میں دفن کیا کریں۔ حشچھوٹے باغ کو کہتے ہیں اور کوکب ایک انصاری کا نام تھا جس کا یہ باغ تھا۔ یہ جنت البقیع کے بالکل قریب ہی ایک جگہ تھی۔ حضرت عثمان بن عفان ؓکہا کرتے تھے کہ عنقریب ایک مرد صالح وفات پائے گا اور اسے وہاں دفن کیا جائے گا یعنی حَشِّ کَوْکَبْ میں دفن کیا جائے گا اور لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ مالِک بن ابُوعامِر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ پہلے شخص تھے جو وہاں دفن کیے گئے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ42-43ذکر عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 5 صفحہ 468 کوکب، دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء)

حضرت عثمانؓ کی تدفین کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ مفسدین اور باغیوں نے تین روز تک آپؓ کی تدفین نہیں ہونے دی۔ چنانچہ تاریخ طبری میں مذکور ہے کہ ابوبشیر عَابِدِی نے بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ کی نعش تین دن تک بے گور و کفن رہی اور ان کی تدفین نہ ہونے دی گئی۔ پھر حضرت حکیم بن حِزامؓ اور حضرت جُبَیر بن مُطْعِمْ ؓنے حضرت علیؓ سے حضرت عثمانؓ کی تدفین کی بابت بات کی کہ وہ حضرت عثمانؓ کے اہل سے ان کی تدفین کی اجازت طلب کریں۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ایسا کیا اور انہوں نے حضرت علی ؓکو اجازت دے دی۔ جب ان لوگوں نے یعنی مفسدین نے یہ بات سنی تو وہ پتھر لے کر راستے میں بیٹھ گئے اور حضرت عثمانؓ کے جنازے کے ساتھ ان کے اہل میں سے چند لوگ ساتھ نکلے۔ وہ لوگ مدینہ میں ایک احاطے میں جانا چاہتے تھے جسے حَشِّ کَوْکَبْکہتے تھے۔ یہود وہاں اپنے مردے دفن کیا کرتے تھے۔ جب حضرت عثمانؓ کا جنازہ باہر آیا تو ان لوگوں نے آپؓ کی چارپائی پر پتھر مارے اور آپ کو گرانے کی کوشش کی۔ جب یہ بات حضرت علیؓ تک پہنچی تو انہوں نے ان لوگوں کی طرف پیغام بھجوایا اور کہا کہ وہ ایسا کرنے سے باز آ جائیں۔ اس پر وہ لوگ باز آ گئے۔ جنازہ چلا یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کو حش کوکب میں دفن کر دیا گیا۔ جب امیر معاویہ لوگوں پر غالب آگئے تو انہوں نے حکم دیا کہ اس احاطے کی دیوار کو گرا دیا جائے یہاں تک کہ وہ بقیع یعنی قبرستان جو تھا اس میں شامل ہو جائے اور انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے وفات یافتگان کو حضرت عثمانؓ کی قبر کے ارد گرد دفن کریں یہاں تک کہ وہ احاطہ مسلمانوں کی قبروں کے ساتھ جا ملا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ687 ذکر الخبر عن الموضع الذی دفن فیہ عثمان…… دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

بعض کتب تاریخ میں یہ بھی بیان ہے کہ اس جگہ کو حضرت عثمانؓ نے خود خرید کر جنت البقیع میں شامل کر دیا تھا۔

(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 3صفحہ 586 عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

بہرحال ابھی شاید کچھ ذکر مزید چلے گا۔ تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ آئندہ ان شاء اللہ۔

اس وقت میں ،آج کچھ جنازے بھی پڑھانے ہیں۔ ان کا ذکر کر دیتا ہوں۔ پہلا ذکر مولوی محمد ادریس تیرو صاحب مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ کا ہے جو 27، 28؍فروری کی درمیانی شب مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ آئیوری کوسٹ کے شہری تھے اور ابتدائی تعلیم کے بعد یہ برکینا فاسو چلے گئے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ عربی زبان میں مہارت حاصل کی۔ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے قبول احمدیت کیا۔ 1983ء میں اپنی دلی خوشی کے ساتھ پاکستان گئے جہاں جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آئیوری کوسٹ میں بطور مبلغ خدمت سلسلہ کی توفیق پائی۔ گھانا اور پھر برکینا فاسو میں خدمت بجا لانے کے بعد ستمبر2007ء سے دوبارہ آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پا رہےتھے۔ مرحوم موصی تھے۔

پاکستان جانے کا واقعہ بھی جو انہوں نے بیان کیا وہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ان کے پاس جو جمع پونجی تھی انہوں نے اس سے جہاز کا ٹکٹ خریدا اور پاکستان پہنچ کر کسی کو اطلاع نہیں کی۔ نہ جماعت آئیوری کوسٹ کو اطلاع نہ پاکستان میں کسی کو اطلاع۔ وہاں پہنچے۔ ایئر پورٹ سے باہر نکلے۔ بڑے فکر مند تھے تو دیکھا کہ ایک شخص ہے۔ اس کے پاس گئے بلکہ وہ شخص خود ہی ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ انگلش ان کو آتی نہیں تھی۔ اردو بھی نہیں آتی تھی۔ عربی کے ایک آدھ فقرے میں بات ہوئی تو بہرحال پھر وہ احمدیہ ہال میں لے آیا تو اس شخص نے بتایا کہ میری بیوی نے رات خواب دیکھی تھی کہ ایک غیر ملکی مہمان آ رہا ہے اور آپ اس کو لے کر آئے ہیں۔ وہ کہتے تھے اس وجہ سے میں ایئر پورٹ آ گیا تھا اور جب میں نے دیکھا کہ جہاز پر سے صرف آپ ہی اترے ہیں اور پریشان باہر کھڑے ہیں تو میں سمجھا یہی وہ مہمان ہے جو میری بیوی کو خواب میں نظر آیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کا انتظام کر دیا اور اس واقعہ کو بڑا سناتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مَیں دعا سارے رستے میں بھی کرتا رہا اور اس وقت بھی اور دعا کا یہ معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا انتظام کر دیا اور ایک رات پہلے اس احمدی شخص کی بیوی کو بھی کراچی میں خواب دکھا دی کہ میں آ رہا ہوں۔ اس طرح ان کا انتظام ہو گیا اور پھر وہ احمدیہ ہال پہنچے۔ اس کے بعد ربوہ پہنچے۔ بہرحال بڑے نیک دعاگو بزرگ تھے۔

قیوم پاشا صاحب جو مشنری انچارج آئیوری کوسٹ ہیں کہتے ہیں کہ برکینا فاسو میں بھی ہم نے تین سال اکٹھے کام کیا پھر آئیوری کوسٹ میں بھی اکٹھے کام کا موقع ملا۔ جماعت سے اور مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے بے پناہ محبت رکھنے والے تھے۔ بہت فدائی تھے۔ عبادت گزار تھے۔ سخی دل انسان تھے۔ لوگوں کی بہت مددکرتے تھے۔ بچوں کو اپنے گھر میں رکھ کر ان کی تعلیم اور دوسرے اخراجات اٹھائے۔ دین کی تبلیغ میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ مہمان نوازی بھی ان کا خاص شیوہ، ان کی پہچان تھی۔ تبلیغ کرنے کا انداز بھی بہت اچھا تھا اور بہت علم بھی تھا۔ لوگ ان کا انداز پسند کرتے تھے۔ جہاں تبلیغ کے لیے بیٹھتے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے۔ تہجد گزار، سچی خوابیں دیکھنے والے شخص تھے۔ بے نفس وجود تھے۔

صدیق جیالو صاحب معلم آئیوری کوسٹ ہیں کہتے ہیں مولوی ادریس تیرو صاحب جماعت اور خلافت کے دیوانے تھے جو ہر وقت جماعت کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہتے تھے۔ میں نے آئیوری کوسٹ میں ان سے زیادہ جماعت سے محبت کرنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کی نیشنیلٹی کیا ہے تو جواب دیا کرتے تھے نہ میں افریقن ہوں نہ میں یورپین ہوں۔ نہ کوئی اَور میری نیشنیلٹی۔ میری پہچان میری قوم احمدیت ہے۔ آئیوری کوسٹ کے اولین احمدیوں میں سے تھے۔

باسط صاحب مبلغ آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں۔ ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے جو بھی فیض پایا خلافت کی بدولت ہی پایا۔ علمی لحاظ سے بھی بہت بلند پایہ انسان تھے۔ جُولا (Jula)جو ان کی مادری زبان تھی اس کے علاوہ فرنچ، عربی، اردو پر بھی کافی عبور حاصل تھا۔ علم کلام کے ماہر اور مناظر تھے۔ وہابی علماء کے ساتھ مناظرے کیا کرتے تھے۔ ایک احمدی بھائی عبداللہ صاحب نے سان پیدرو (San Pedro)میں ہونے والے ایک مناظرے کا واقعہ سنایا کہ وہابیوں کی مسجد میں پہنچے اور مناظرے کے لیے طے ہوا کہ صرف قرآن کریم سے دلائل دیے جائیں گے۔ صبح آٹھ سے لے کے شام چھ بجے تک مسلسل مناظرہ جاری رہا جس کے دوران صرف نماز کا وقفہ کیا گیا۔ اس دوران مولوی صاحب نے ایسے دلائل مخالف مولوی صاحب کو دیے جس کا وہ کوئی ردّ پیش نہ کر سکا اور اپنی شکست تسلیم کی اور احمدیت کو اس مناظرے میں فتح نصیب ہوئی۔ پھر لکھتے ہیں کہ ان کی حیثیت لائبریری جیسی تھی۔ تبلیغ کے لیے میدان میں آپ کو حوالہ جات زبانی یاد ہوتے تھے۔ پھر وہ چاہے اردو میں ہوں یا عربی میں یا فرنچ میں ،کسی زبان میں بھی حوالہ ہو فوراً سنا دیا کرتے تھے۔ دعا کو ہمیشہ اپنا حربہ بناتے تھے اور سب کو دعا کرنے کی نصیحت بھی کیا کرتے تھے۔

ان کی ایک بیوی اور چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی نظام سے تعلق میں فعال کرے اور ان کی خواہشات کے مطابق ان کو نظام کا حصہ بنائے۔ کچھ اتنا زیادہ تعلق نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

دوسرا جو جنازہ ہے وہ مکرمہ امینہ نائیگا کائرے (Kaire) صاحبہ کا ہے جو محمد علی کائرے صاحب امیر ومشنری انچارج یوگنڈا کی اہلیہ تھیں۔ 20؍فروری کو وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ایک عاجز، تعلیم یافتہ اور بہادر خاتون تھیں۔ کائرے صاحب نے بتایا کہ میرے کامیاب مربی ہونے کی ایک خاص وجہ میری اہلیہ ہیں۔ یوگنڈن ہیں لیکن بہت اخلاص اور وفا رکھنے والی۔ کہتے ہیں جب ہماری شادی ہوئی تو ان کی عمر انیس سال تھی۔ آپ کو قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا تھا مگر چونکہ آپ کو اس کے لیےجوش اور لگن تھی اس لیے آپ نے قرآن کریم پڑھنا سیکھ لیا اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کرنے کی ان کو توفیق ملی اور تبلیغ کا ان کو بڑا شوق تھا۔ 2005ء میں ان کو صدر لجنہ مقرر کیا گیا۔ ایک دو مرتبہ ان کو جیل بھی ہوئی کسی غلط قسم کے جرم میں۔ مطلب ان کی غلطی نہیں تھی ظالمانہ طور پر ان کو جیل بھی جانا پڑا۔ تربیت کے معاملے میں ایک نمونہ تھیں۔ آپ بڑی بہادری سے غیر از جماعت کے اعتراضات کے جواب دیتی تھیں۔ آپ کی بیٹی بتاتی ہیں کہ آپ ہر حالت میں خواہ صحت مند ہوں یا بیمار ہمیشہ نماز کی پابند رہتی تھیں۔ ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف بیٹھتی تھیں۔ ذاتی اعتراضات کو برداشت کرتی تھیں مگر مذہب کے بارے میں کچھ برداشت نہ کرتی تھیں۔ آپ کو پولیٹیکل فورَم پر مختلف لیول پر بھی کام کرنے کی توفیق ملی۔ مرحومہ موصیہ تھیں پسماندگان میں میاں کے علاوہ چھ بچے شامل ہیں جن میں سے دو بیٹے مشنری ہیں۔

اگلا ذکر مکرم لؤِی قزقصاحب شام کا ہے۔ 10؍ دسمبر کو اڑتالیس سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم کے خاندان میں احمدیت 1928ء میں آئی جب حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب دمشق سے حَیفا تشریف لے گئے تھے۔ حَیفا کے پہلے احمدی مکرم رُشدِی باکیر بُسْطِی صاحب کی تبلیغ سے مرحوم کے پڑدادا علی صالح قزق صاحب اور ان کے بھائی محمد قزق صاحب (والد طٰہ قزق صاحب سابق صدر جماعت اردن) نے مع فیملی بیعت کی۔ بعد میں اسرائیل کے قیام پر ان کا خاندان دمشق ہجرت کر گیا۔ مرحوم بہت مخلص احمدی تھے۔ صوم و صلوٰة کے پابند، چندوں میں باقاعدہ ،خلافت سے محبت کرنے والے، جماعتی خدمت میں پیش پیش رہنے والے، باوجود غربت کے دوسروں کی مالی مدد کرنے والے تھے اور ہمدرد اور نیک انسان تھے۔ مرحوم نے دو بیویاں اور تین کمسن بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ دو بیٹیاں وقف نو میں شامل ہیں۔

وسیم محمد صاحب صدر جماعت ان کی خدمات میں بیان کرتے ہیں کہ سیریا کے حالات ایسے تھے کہ جب بھی کہا جاتا تھا خاص طور پر مریضوں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا ہوتا تھا تو ان حالات میں بے دھڑک ہو کے یہ کام کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مجالس عاملہ کے ممبران کو دوروں پہ لے جانا۔ کار ان کو لے دی تھی۔ اس کے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ جب کام ہوتا فوراً پہنچ جاتے۔ بڑی بشاشت سے خدمات پیش کرتے اور دلی جوش سے یہ سارے کام سرانجام دیتے۔ چندے بڑی پابندی سے ادا کرتے جو آخری سال میں بہت بڑھ گئے تھے۔ احمدیوں کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ مرحوم نے اپنی سادگی، کم گوئی، اخلاص اور خدمت خلق اور حسنِ نیت کی وجہ سے سب پر نیک اثر چھوڑا ہے۔

مرحوم کی اہلیہ خدیجہ علی صاحبہ کہتی ہیں۔ میرے میاں اللہ کے فضل سے بہت مخلص احمدی تھے۔ جماعت سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ لوگوں کی مدد کرنا انہیں بہت اچھا لگتا تھا۔ گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اپنی بیٹیوں سے بہت محبت کرتے اور ان کی نیک تربیت کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر دیر تک جماعت کے بارے میں باتیں کیاکرتے۔ اللہ کے فضل سے آپ نےاپنی زندگی کا آخری سال بھی جماعت کی خدمت میں گزارا اور اس بات سے بہت خوش تھے۔

ان کے خالہ زاد بھائی اکرم سلمان صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے بھائی نےان کے ذریعہ سے بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں ہم بیعت سے پہلے بھی مرحوم کے اعلیٰ اخلاق کے گواہ ہیں۔ خود ان کے اپنے مالی حالات بہت اچھے نہ تھے۔ پھر بھی وہ غریب رشتہ داروں کی مدد کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بہت اچھی ملازمت ان کو مل گئی جس سے ان کے سارے قرض اتر گئے۔ یہ کزن کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے بجائے مال جمع کرنے کے میری غریب خالاؤں کی ایک بڑی رقم ادا کی اور کہا کرتے تھے کہ جب میری صحت اچھی ہے اور میرے پہ کوئی قرض نہیں تو میں امیر ہوں اور میں ضرورت سے زیادہ مال محتاجوں پر خرچ کرنا چاہتا ہوں اور چاہیے۔ کہتے ہیں یہ بات میرے لیے بڑی حیرت انگیز تھی کیونکہ میں نے زندگی بھر ایسی قناعت اور مالی قربانی کی ایسی طاقت کسی میں نہیں دیکھی۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں بھائیوں کی بیعت کے بعد ہماری تعلیم اور تربیت اور خلافت کے ساتھ جوڑنے کے لیے بڑی محنت کی۔ ہمیں برکات خلافت سے متمتع ہونے کے مؤثر واقعات سناتے تھے جس سے ہمارے دلوں میں خلافت کی محبت پیدا ہوئی۔ ان کے بھائی معتز قزق صاحب جو جامعہ کینیڈا کے استاد ہیں لکھتے ہیں کہ میرے مرحوم بھائی بہت مخلص اور خلافت سے محبت کرنے والے تھے۔ اگرچہ ہمارے اجداد احمدی تھے مگر ہمیں احمدیت کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے بھائی اپنے دادا خضر قزق صاحب کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے حلب شہر سے دمشق گئے جہاں ان کی ملاقات احمدی احباب سے ہوئی اور جماعت کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ واپس آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ سجدوں میں بہت زیادہ رونے لگ گئے ہیں۔ اس یکا یک تبدیلی پر مَیں بہت حیران ہوا۔ اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے مجھے بھی جماعت کا تعارف کرایا۔ پھر کہتے ہیں میں نے تحقیق کی۔ پہلے تو نام کے احمدی تھے پھر باقاعدہ تحقیق کی کہ جماعت کی تعلیم کیا ہے اور ایک رؤیا دیکھنے کے بعد میں نے دوبارہ بیعت کر لی۔ میری بیعت میں میرے بھائی کی نیک تبدیلی کا بڑا کردار تھا۔ دوبارہ سے مراد ہے کہ ایک تو پہلے خاندانی طور پر، رسمی طور پر تو احمدی چلتے آرہے تھے لیکن عملاً احمدی نہیں تھے اس لیے دوبارہ سمجھ کے بیعت کی۔ مرحوم کو تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا۔ خلیفۂ وقت کے لیے بہت دعائیں کرتے تھے۔ نظام وصیت میں شامل تھے۔ مرحوم کو اپنی وفات کے قریب ہونے کا احساس ہو گیا تھا جس کا ذکر انہوں نے وفات سے چند روز قبل اپنی والدہ صاحبہ اور اپنی بیویوں سے کر دیا تھا۔

اگلا جنازہ جو ہے وہ مکرمہ فرحت نسیم صاحبہ ربوہ کا ہے جو مکرم محمد ابراہیم صاحب حنیف جو ماسٹر سارچوری صاحب کہلاتے تھے ان کی اہلیہ تھیں۔ 26؍ دسمبر کو 86 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحومہ کے والد حضرت میاں علم دین صاحبؓ اور دادا حضرت میاں قطب الدین صاحبؓ لودھی ننگل ضلع گورداسپور کے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شامل تھے۔

آپ بےشمار خوبیوں کی مالک تھیں۔ صوم و صلوٰة کی پابند،تہجد گزار،صابرہ اور شاکرہ ،دعا گو، سادہ مزاج،غریب پرور، خلافت سے والہانہ عقیدت رکھنے والی نیک مخلص خاتون تھیں۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ متعدد بار مختلف تحریکات میں اپنا زیور پیش کرنے کی بھی توفیق پائی۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں اور متعدد نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ ان کے دو نواسے مربی سلسلہ بھی ہیں ایک بیٹے بھی مربی سلسلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان سب مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان سب کے درجات بلند فرمائے۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل 2؍اپریل2021ء صفحہ 5تا9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button