خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍اپریل 2019ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج جن بدری صحابہ کا میں ذکر کروں گا ان میں سے پہلا نام ہے حضرت حُصَیْن بن حَارِثؓ کا۔ حضرت حُصَیْن کی والدہ سُخَیْلَہ بنت خُزَاعِی تھیں۔ ان کا تعلق بنو مُطَّلِبْ بن عَبدِ مَنَافْ سے تھا انہوں نے اپنے دو بھائیوں حضرت طفیل اور حضرت عُبَیدہ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ان کے ساتھ حضرت مِسْطَح بن اُثَاثہؓ اور حضرت عَبَّاد بن مُطَّلِبؓ بھی تھے۔ مدینہ میں آپؓ نے حضرت عبداللّٰہ بن سَلَمَہْ عَجْلَانِیؓ کے گھر قیام کیا۔ روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حُصَیْنؓکی حضرت عَبْدُاللّٰہ بن جُبَیر ؓکے ساتھ مؤاخات قائم فرمائی۔ یہ محمد بن اسحاق کے مطابق ہے۔ حضرت حُصَیْنؓ نے غزوۂ بدر اور احد سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ حضرت حُصَیْنؓ کے دو بھائیوں حضرت عُبَیْدَہؓ اور حضرت طُفَیْلؓ نے بھی غزوۂ بدر میں شرکت کی۔ حضرت حُصَیْنؓ کی وفات 32ہجری میں ہوئی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 30 ’’حُصَیْن بن الحارث‘‘ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 141 ‘‘عبیدہ بن الحارث’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
(اسد الغابہ جلد اول صفحہ 573 ‘حُصَیْن بن الحارث’۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت حُصَیْنؓ کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا۔ ان کی بیٹیاں خدیجہ اور ہند تھیں۔ انہوں نے بھی اسلام قبول کیا۔ غزوۂ خیبر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سو وسق غلہ عطا فرمایا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 30 ‘‘ذکرالحُصَیْن بن الحارث’’ جلد 8 صفحہ 364 تسمیة النساء المبایعات من قریش مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

ایک وسق جو ہے وہ 60؍صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع کچھ کم اڑھائی سیر کے برابر ہوتا ہےتو اس طرح تقریباً 375 من غلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کے والد کی وجہ سےعطا فرمایا۔

(لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 487 ‘‘وسق’’۔ جلد 2 صفحہ 648 ‘‘صاع’’ ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)

حضرت صَفْوَان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جن کے والد کا نام وَہْب بن رَبِیعہ تھا۔ یہ دوسرے صحابی ہیں جن کا ذکر کروں گا۔ حضرت صَفْوَانؓ کی کنیت ابو عَمْرو ہے اور آپؓ قبیلہ بَنُو حَارِث بن فِہْر سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کے والد کا نام وَہْب بن رَبِیعہ تھا ۔ ان کا نام ایک روایت میں اُھَیْببھی آیا ہے۔ ان کی والدہ کا نام دَعْد بنتِ جَحْدَم تھا جو کہ بَیْضَاء نام سے مشہور تھیں۔ اسی وجہ سے حضرت صَفْوَانؓ کو ابن بَیْضَاء بھی کہا جاتا ہے۔ آپؓ حضرت سَہْلؓ اور حضرت سُہَیْلؓ کے بھائی تھے۔یہ دونوں بھائی ان سَہْلؓ اور سُہَیلؓ کے علاوہ ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی ؐکی زمین خریدی تھی۔ یہ وہ نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صَفْوَانؓ کی مؤاخات حضرت رَافِع بن مُعَلّٰیؓ سے کروائی اور ایک روایت کے مطابق آپ کی مؤاخات حضرت رَافِعْ بن عَجْلَانؓ سے کروائی گئی۔ ان کی وفات کے متعلق بھی مختلف رائے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت صَفْوَانؓ کو غزوۂ بدر میں طُعَیْمَہ بن عَدِی نے شہید کیا تھا اور ایک روایت کے مطابق آپؓ غزوۂ بدر میں شہید نہیں ہوئے تھے بلکہ آپؓ نے غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ حضرت صَفْوَانؓ کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ غزوۂ بدر کے بعد مکہ واپس لوٹ گئے تھے اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ ہجرت کر کے آ گئے تھے۔ یہ بھی روایت ملتی ہے کہ آپؓ فتح مکہ تک وہیں رہے یعنی مکہ میں رہے۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سریہ عَبْدُاللّٰہ بن جَحْشَ میں اَبْوَا کی طرف شامل کر کے بھجوایا تھا۔ بعض روایات میں آپ کی وفات کا سال 18؍ ہجری اور 30؍ ہجری اور 38؍ ہجری بیان کیا گیا ہے۔

(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 33 صَفْوَان بن وھب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 358-359 صَفْوَان بن وھب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 318 صَفْوَان ابن بیضاء مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

بہرحال یہ ہر جگہ پہ ثابت ہے کہ آپؓ بدری صحابی تھے۔

اگلے صحابی جن کا ذکر ہے وہ حضرت مُبَشِّر بن عَبْدالمُنْذِرؓ ہیں۔ حضرت مبشرؓ کے والد کا نام عَبْدُالْمُنْذِر اور آپؓ کی والدہ کا نام نَسِیْبَہ بنت زَیْد تھا۔ آپؓ اَوس کے قبیلے بنو عَمْرو بِن عوف سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ اور حضرت عاقِل بن ابُوبُکَیْرؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاقِل بن ابوبُکَیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَادؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ بہرحال آپؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور اسی جنگ میں آپؓ شہید بھی ہوئے۔ حضرت سَائِب بن اَبُوْلُبَابَہؓ جو حضرت مبشرؓ کے بھائی حضرت اَبُولُبَابَہؓ کے بیٹے تھے ان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ کا مال غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور مَعْن بن عَدِیؓ ہمارے پاس ان کا حصہ لے کر آئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ347-248 مبشر بن عبد المنذر،داراحیاء التراث العربی بیروت۔ لبنان 1990ء)

ان کے بھائی، ان کے بھتیجوں کوبھی حصہ ملا۔

ہجرتِ مدینہ کے وقت مہاجرین میں سے حضرت ابو سَلَمَہ بن عبدالْاَسَدؓ اور حضرت عامر بن رَبِیعہؓ اور حضرت عبداللّٰہ بن جَحْشؓ اور ان کے بھائی حضرت ابُو اَحْمَد بن جَحْشؓ نے قبا کے مقام پر حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ کے ہاں قیام کیا۔ پھر مہاجرین پے در پے وہاں آنے لگے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 335، ذِكْرُ الْمُهَاجِرِينَ إلَى الْمَدِينَةِ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)

حضرت مُبَشِّر بن عبدِالمُنْذِرؓ اپنے دو بھائیوں حضرت ابولُبَابَہ بن عبدالمنذِرؓ اور حضرت رِفَاعَہ بن عبدالمنذِرؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت رِفَاعہؓ ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے تھے۔ اسی طرح غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئے تھے۔ غزوۂ احد کے دن آپؓ شہید ہوئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کی جانب روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُولُبَابہؓ کو مدینے کا عامل بنا کر رَوْحَاء مقام سے واپس روانہ کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ رَوْحَاء ایک مقام کا نام ہے۔ مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے لیے مال غنیمت اور ثواب میں حصہ مقرر فرمایا۔ علامہ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُبَشِّر بن عبدِالمُنْذِرؓ بنو عمرو بن عوف سے تھے۔ آپؓ ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو بدر میں شہید ہوئے تھے۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ،الجزء الخامس،مبشر بن عبد المنذر،صفحہ53،دار الکتب العلمیۃ بیروت۔لبنان2008) (الطبقات الکبریٰ،الجزء الثالث ،صفحہ241،مُبَشِّر بن عبدِالمُنْذِر، داراحیاء التراث العربی بیروت۔ لبنان 1996ء) (لغات الحدیث جلددوم صفحہ149)

حضرت عبداللّٰہ بن عَمْرو بن حرامؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے غزوۂ احد سے پہلے خواب دیکھا کہ گویا حضرت مُبَشِّر بن عبدالمُنْذِرؓ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم چند روز میں ہمارے پاس آ جاؤ گے۔ میں نے پوچھا کہ آپؓ کہاں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں جنت میں ہوں۔ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں کھاتے پیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آ پؓ بدر میں شہید نہیں ہو گئے تھے؟ آپؓ نے بتایا ہاں کیوں نہیں ۔ لیکن مجھے پھر زندہ کر دیا گیا تھا۔ اس صحابی نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘اے ابو جابر! شہادت یہی ہوتی ہے۔’

(المستدرك على الصحيحين جلد 5 صفحہ1840،1841،کتاب معرفة الصحابہ،ذِكْرُ مَنَاقِبِ عَبْدِ اللّهِ بْنِ عَمْرو مکتبہ نزار مصطفے الباز ،مکة 2000)

شہید جو ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے پاس جاتا ہے اور وہاں آزاد پھرتا ہے۔

علامہ زَرْقَانی غزوۂ بدر کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دو صحابہ قبیلہ اَوس میں سے تھے جن میں سے ایک حضرت سَعْد بن خَیْثَمَہؓ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ طُعَیْمَہ بن عَدِی نے انہیں شہید کیا جبکہ بعض کہتے ہیں کہ عَمْرِو بنِ عَبدِ وُدّ نے انہیں شہید کیا تھا۔ سَمْہُوْدِی نے اپنی کتاب ‘وفا ’میں لکھا ہے کہ اہل سِیَر کے کلام سے ظاہر ہے یعنی جو سیرت لکھتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے موقع پر شہید ہونے والے صحابہ ماسوائے حضرت عُبَیْدَہؓ کے بدر میں مدفون ہیں۔ حضرت عُبَیْدَہؓکی وفات کچھ دیر بعد ہوئی تھی اور وہ صَفْرَاء یا رَوْحَاءکے مقام پر مدفون ہیں۔

طبرانی نے ثِقہ راویوں سے روایت کی ہے کہ حضرت ابنِ مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصحاب جو بدر کے دن شہید کیے گئے اللہ ان کی روحوں کو جنت میں سبز پرندوں میں رکھے گا جو جنت میں کھائیں پِییں گے۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ ان کا رب اچانک ان پر مطلع ہو گا، ظاہر ہو گا اور کہے گا اے میرے بندو ! تم کیا چاہتے ہو؟ پس وہ کہیں گے اے ہمارے رب! کیا اس سے اوپر بھی کوئی چیز ہے۔جنت میں ہم آئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پھر پوچھے گا تم کیا چاہتے ہو؟ چنانچہ چوتھی مرتبہ صحابہ کہیں گے کہ تُو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دے تا کہ ہم پھر سے ویسے ہی شہید کیے جائیں جیسے ہم پہلے شہید کیے گئے تھے۔

(شرح العلامہ الزرقانی ،الجزء الثانی،صفحہ327،باب غزوة بدر الکبری،مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت۔لبنان1996ء)

پھر اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت وَرَقَہ بن اِیَاسؓ ۔ حضرت وَرَقَہؓ کے نام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپؓ کا نام وَرَقَہ کے علاوہ وَدْفَہ اور وَدْقَہ بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت وَرَقَہؓ کے والد کا نام اِیَاس بن عَمْرو تھا۔ آپؓ انصار کے قبیلے خزرج کی شاخ بَنُو لَوْذَان بن غَنَم سے تعلق رکھتے تھے۔ علامہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت وَرَقَہؓ کو اپنے دو بھائیوں حضرت رَبِیع اور حضرت عمرو کے ہمراہ غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی توفیق ملی تھی۔ حضرت وَرَقَہؓ کو غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دیگر تمام غزوات میں شرکت کی توفیق ملی۔ آپؓ کی شہادت جنگ یمامہ کے روز حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں 11ہجری میں ہوئی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 469، الانصار ومن معہم/ من بنی لوذان وحلفائہم، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(اسدالغابۃ جلد 5 صفحہ 412-413 ودفۃ بن ایاس، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 6 صفحہ 471 ، ودقۃ بن ایاس بن عمرو الانصاری، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)

اگلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ۔ ان کی ولدیت نَضْلَۃ بن عبداللّٰہ ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ کے والد کانام وَھْب تھا۔ آپؓ کی کنیت ابو نَضْلَۃ تھی۔ آپؓ گورے اور خوبصورت چہرے والے تھے۔ آپؓ کا لقب فُہَیْرَۃ تھا۔ آپؓ اَخْرَم کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ آپؓ بنو عبد ِشمس کے حلیف تھے جبکہ بنو عَبْدُالْاَشْھَل انہیں اپنا حلیف بتاتے ہیں۔ مُحْرِزْ یا اَخْرَم دونوں نام آپؓ کے ہیں۔ حضرت مُحْرِزؓ کا تعلق مکہ کے قبیلہ بَنُو غَنَمْ بن دُوْدَان سے تھا۔ یہ قبیلہ مسلمان ہو گیا تھا۔ اس قبیلے کے مردوں اور عورتوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی توفیق ملی۔ ان مہاجرین میں حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ بھی شامل تھے۔ واقدی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم بن اسماعیل کو سنا وہ کہتے تھے کہ یَوْمُ السَّرْح ،یہ غزوۂ ذِی قَرَد اور غَزْوَۃُ الْغَابَہ کا نام ہے جو 6 ہجری میں ہوا تھا،میں سوائے حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ کے بنو عبدالاشھل کے گھر سے کوئی اَور نہیں نکلا۔ وہ حضرت محمد بن مسلمہؓ کے گھوڑے پر سوار تھے جس کا نام ذُو اللَّمَّہتھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ اور حضرت عُمَارَہ بن حَزْمؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ واقدی کے نزدیک آپؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور غزوۂ خندق میں شریک ہوئے تھے۔ صالح بن کَیْسَان سے مروی ہے کہ حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓنے بتایا کہ میں نے خواب میں ورلے آسمان کو دیکھا کہ وہ میرے لیے کھول دیا گیا ہے یہاں تک کہ میں اس میں داخل ہو گیا اور ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ پھر سِدْرَۃُالمُنْتَھیٰتک چلا گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمہاری منزل ہے۔ حضرت مُحْرِزؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے یہ خواب بیان کیا جو فن ِتعبیر کے ماہر تھے تو آپؓ نے فرمایا کہ شہادت کی خوشخبری ہو! پھر ایک روز آپؓ شہید کر دیے گئے۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ہمراہ یوم السَّرْح میں غَزْوَۃُ الْغَابَہ کے لیے روانہ ہوئے، یہ غزوہ ذی قَرَد بھی کہلاتا تھا جو 6 ہجری میں ہوا۔ عَمْروبن عثمان جَحْشِی اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ جب غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تو آپؓ 31 یا 32 سال کے تھے اور جب آپؓ شہید ہوئے تو 37 یا 38 سال کے قریب تھے۔

(الطبقات الكبرٰی الجزء الثالث،صفحہ52‘‘مُحْرِزْ بِنْ نَضْلَةَ’’دارا حیاء التراث،بیروت 1996ء) (أسد الغابة في معرفة الصحابة،الجزء الخامس، صفحہ68‘‘مُحْرِزْ بن نضلة’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)

حضرت مُحْرِزؓ کی شہادت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت اَیَاس بن سَلَمَہؓ غزوۂ ذِی قَرَد کے بارے میں روایت بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ والے واقعہ کے بعد ہم مدینہ کی طرف واپس جانے کے لیے نکلے۔ پھر ہم ایک جگہ اترے۔ ہمارے اور بنو لِحْیَان کے درمیان ایک پہاڑ تھا۔وہ مشرک تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کے لیے دعا کی جو اس پہاڑ پر رات کو چڑھے گویا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے لیے حالات پر نظر رکھنے اور حفاظت کی غرض سے جاسوس کا کام دے یعنی نگرانی کے لیے، حفاظت کے لیے اوپر چڑھے۔ دیکھے کہ کوئی دشمن وغیرہ حملہ آور نہ ہو جائے۔ حضرت سَلَمَہ بن اَکْوَعؓ کہتے ہیں میں اس رات دو یا تین مرتبہ چڑھا ۔پھر ہم مدینہ پہنچے۔ پھر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رَبَاح نامی آدمی کے ہاتھ اپنے اونٹ بھیجے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا اور میں حضرت طلحہؓ کے گھوڑے کے ساتھ اس پر سوار ہو کر نکلا اور میں اس کو اونٹوں کے ساتھ پانی پلانے کے لیے جا رہا تھا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمٰن فَزَارِی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کیا۔ ساتھ ایک قبیلہ تھا جو دشمن تھا اور سب کو ہانک کر لے گیا اور ان کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے رَبَاح! یہ گھوڑا پکڑو اور اسے طَلْحَہ بن عُبَیدِ اللّٰہ کو پہنچا دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو کہ مشرکوں نے آپ کے جانور لوٹ لیے ہیں۔ پھر میں ایک ٹیلے پر مدینے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوا اور تین دفعہ پکارا یَا صَبَاحَاہُ! یَا صَبَاحَاہُ!یہ کلمہ اہل عرب اس وقت کہا کرتے تھے جب کوئی دشمن لوٹنے والا اور غارت کرنے والا صبح کو آ پہنچتا تھا تو اس کے ساتھ یہ نعرہ مارتے تھے گویا بلند آواز سے فریاد مانگی جا رہی ہے اور امداد کے لیے اعلان کیا جا رہا ہے تاکہ حمایتی جو ہیں وہ فوراًجائیں اور دشمن کا مقابلہ کریں اور اس کو دوڑا دیں۔

بعض نے کہا ہے کہ لڑنے والوں کا قاعدہ ہوتا تھا کہ رات ہوتے ہی جنگ بند کر دیتے تھے۔ اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے تھے۔ ‘صَبَاحَاہُ’کے متعلق دوسری روایت یہ بھی ہے۔ اور پھر صباحاہکہہ کر دوسرے روز لڑنے والوں کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے۔ اب جنگ کے لیے پھر تیار ہو جاؤ۔ لغات الحدیث میں یہ وضاحت لکھی گئی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ پھر میں ان لوگوں کے پیچھے تلاش کرتا ہوا اور انہیں تیر مارتا ہوا نکلا اور میں رَجْزِیہ اشعار پڑھ رہا تھا اور میں کہہ رہا تھا کہ؎

اَنَا ابْنُ الْاَکْوَع
وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ

کہ میں اَکْوَع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پس میں ان میں سے جس شخص سے بھی ملتا تو اس کے کجاوے میں تیر مارتا یہاں تک کہ تیر کا پھل نکل کر اس کے کندھے تک جا پہنچتا۔ میں کہتا یہ لو ، اَنَا ابْنُ الْاَکْوَع ؍ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ کہ میں اَکْوَع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کو تیر مارتا رہا اور انہیں زخمی کرتا رہا اور جب میری طرف کوئی گھڑ سوار آتا تو میں کسی درخت کی طرف آتا اور اس کے نیچے بیٹھ جاتا یعنی درخت کے پیچھے چھپ جاتا اور میں اسے تیر مار کر زخمی کر دیتا یہاں تک کہ جب پہاڑ کا راستہ تنگ ہو گیا اور وہ اس تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور انہیں پتھر مارنے لگا۔ یہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور لُوٹ کر لے کر جا رہے تھے ان پر انہوں نے حملہ کیا۔ اکیلے تھے۔ پہلے تیر مارتے رہے پھر کہتے ہیں کہ درّے پہ پہنچا وہاں سے پتھر مارنے شروع کیے اور اسی طرح میں ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں میں سے کوئی اونٹ ایسا پیدا نہیں کیا جسے میں نے اپنے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو یعنی کہ درّے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے اور وہ لوگ آگے دَوڑ گئے اور انہوں نے ان کو میرے اور اپنے درمیان چھوڑ دیا۔ پھر میں تیر اندازی کرتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس نیزے یعنی اپنا وزن ہلکاہونے کے لیے پھینک دیے۔ وہ لوگ دوڑ رہے تھے تو اونٹ چھوڑ دیے۔ پھر اپنا سامان بھی پیچھے پھینکنا شروع کر دیا تا کہ آسانی سے دوڑ سکیں۔ کہتے ہیں جو چیز بھی وہ پھینکتے جاتے تھے میں ان پر نشان کے طور پر پتھر رکھ دیتا تھا تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے جہاں انہیں بدر فزاری کا کوئی بیٹا ملا۔ وہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے اور میں ایک چوٹی پر بیٹھا تھا۔ فزاری نے کہا یہ کون شخص ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا اس شخص نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ اللہ کی قسم! یہ صبح سے ہم پر مسلسل تیر اندازی کر رہا ہے یہاں تک کہ اس نے ہم سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ اس نے کہا چاہیے کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف جائیں۔ حضرت سَلَمَہ بن اَکْوَعؓ کہتے ہیں کہ ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے۔ جب وہ میرے اتنے قریب آئے کہ میں ان سے بات کر سکا تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں سَلَمَہ بن اَکْوَع ہوں۔پھر انہوں نے آگے کافروں کو کہا کہ اس کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت عطا کی ہے کہ مَیں تم میں سے جس شخص کو پکڑنا چاہوں اسے پکڑ سکتا ہوں لیکن تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا۔ چار آدمی جو آئے تھے ان میں سے ایک ذرا ڈر گیا۔ اس نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے اور وہ چاروں پھر واپس چلے گئے اور میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے درختوں کے درمیان آتے ہوئے دیکھے۔ ان میں سے سب سے پہلے اَخْرَم اسدیؓ تھے اور ان کے پیچھے اَبُو قَتَادۃ انصاریؓ تھے اور ان کے پیچھے مِقْدَاد بِن اَسْوَد کِنْدِی ؓ تھے میں نے اَخْرَم یعنی حضرت مُحْرِزؓ کے گھوڑے کی لگام پکڑی تو وہ چاروں طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ یہ ذرا سا confusion ہے میرا خیال ہے۔ وہ جو دوسرے لوگ وہاں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اَور قریب آ گئے ہیں تو وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ کہتے ہیں میں نے کہا اے اَخْرَم! یعنی حضرت مُحْرِزؓکو کہا کہ تُو ان سے بچ ،تا کہ وہ تجھے ہلاک نہ کر دیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ پہنچ نہ جائیں۔ اس نے کہا اے سَلَمَہ!اگر تو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور تُو جانتا ہے کہ جنت حق ہے اور آگ حق ہے یعنی جہنم حق ہے۔ پس تُو میرے اور شہادت کے درمیان حائل نہ ہو۔ مَیں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ یعنی اَخْرَمؓ اور عبدالرحمٰن باہم برسرِ پیکار ہوئے اور انہوں نے عبدالرحمٰن سمیت اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اُن کو یعنی اَخْرَمؓ کو، حضرت مُحْرِزؓ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور ان کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے لوگوں میں جانے کے لیے واپس مڑا تو پھر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ آ رہے تھے ان میں سے ابوقتادہؓ ، عبدالرحمٰن کے پیچھے گئے اور اس کو پکڑ لیا اور نیزہ مار کر اُسے قتل کر دیا جو حضرت مُحْرِزؓ کو شہید کر کے گیا تھا۔ تو یہ کہتے ہیں کہ پس اس کی قسم جس نے محمدؐ کے چہرے کو عزت عطا کی! میں نے دوڑتے ہوئے ان کا تعاقب جاری رکھا ۔ میں پھر بھی ان کے پیچھے جاتا رہایہاں تک کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو اور نہ ان کے غبار کو اپنے پیچھے پایا یعنی بہت آگے نکل گیا یہاں تک کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا۔ اسے ذی قَرَد کہتے تھے۔ وہ لوگ جو مال لُوٹ کے لے جانے والے چور تھے وہ اس سے پانی پینا چاہتے تھے اور وہ پیاسے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے اپنے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان کو وہاں سے ہٹا دیا اور وہ اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ وہ وہاں سے نکلے اور ایک گھاٹی کی طرف تیزی سے بڑھے۔ میں بھی دوڑا۔ میں ان میں سے جس شخص کو پیچھے پاتا یعنی چھپ چھپ کے پیچھے دوڑتا رہا اور جو پیچھے رہ جاتا تھا اس کے کندھے کی ہڈی میں تیر مارتا۔ میں کہتا یہ لو أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ ؍ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِکہ میں اَکْوَع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ اَکْوَع کو اس کی ماں کھوئے۔ کیا صبح والا اَکْوَع؟ یہ جو لوگوں کو زخمی کر رہے تھے تو ان میں سے ایک نے یہ کہا کہ صبح والا اَکْوَع، جو صبح سےہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ اے اپنی جان کے دشمن تیرا صبح والا اَکْوَع ۔ انہوں نے دو گھوڑے گھاٹی میں پیچھے چھوڑ دیے۔ میں ان دونوں کو ہانکتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل پڑا۔ مجھے عامر ایک چھاگل میں تھوڑے سے دودھ میں ملا ہوا پانی اور ایک چھاگل میں پانی لاتے ہوئے ملے۔ پھر میں نے وضو کیا اور پیا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے ان لوگوں کو ، ان لٹیروں کوصبح بھگایا تھا۔وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ اور وہ سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھڑائی تھیں لے لیں اور حضرت بلالؓ نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے ان سے چھینے تھے ایک اونٹنی ذبح کی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کلیجی اور کوہان کے گوشت سے بھون رہے تھے۔ میں نے کہا یا رسولؐ اللہ! آپؐ کے ساتھ جو لوگ آئے ہیں مجھے اس لشکر میں سے سو آدمی منتخب کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ تو میں ان لوگوں کا پیچھا کر کے ان سب کو قتل کر دوں۔ کوئی ان کے قبیلے کو خبر دینے والا بھی نہ بچے جو یہ سامان لُوٹ کر لَوٹے تھے، لُوٹ کر لے جانے لگے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھلکھلا کر ہنسے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپؐ کے دانتِ مبارک دکھائی دینے لگے۔ آپؐ نے فرمایا اے سَلَمَہ! کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہ کر سکتے ہو کہ ان کے گھروں میں پہنچنے سے پہلے ان سب کو مار دو؟ میں نے کہا ہاں اس کی قسم جس نے آپؐ کو عزت عطا کی ہے ! آپؐ نے فرمایا اب وہ غطفان کی سرحد پر پہنچ گئے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس جگہ یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں کہ جب حضرت سَلَمہ بن اَکْوَعؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کا دوبارہ پیچھا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ‘يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ’۔اے ابن اَکْوَع! تم نے جب غلبہ پا لیا ہے تو پھر جانے دو اور درگزر سے کام لو۔ اب پیچھے جانے کا ان کو قتل کرنے کا کیا فائدہ؟۔ تو یہ جو اسوہ ہے اس میں ایک تو یہ ہے کہ یہ اکیلے جنگ کرتے رہے حضرت مُحْرِزؓ آئے تو ان پہ انہوں نے چھپ کے حملہ کیا یا ان کو کسی طرح شہید کر دیا ۔پہلی دفعہ تو ان کے گھوڑے کو پکڑ کے انہوں نے پلٹا دیا اور بچ گئے لیکن پھر حملہ ہوا اور وہ شہید ہو گئے۔ ایک تو یہ حضرت مُحْرِزؓ کی شہادت کا واقعہ ہے۔ دوسرا ان کی بہادری بھی ہے اور ان کو جنگ کے طریقے کا بھی پتا ہے۔ اَکْوَعؓ نے ان لٹیروں سے سب مال چھینا اور پھر اہم بات یہ کہ جب مال واپس لے لیا اور پھر بھی کہا کہ میں ان کا پیچھا کر کے ان سب کو قتل کر دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو جانے دو۔ جب مال واپس آ گیا ہے تو چھوڑو۔ تو یہ اسوہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیونکہ آپؐ کو قتل و غارت سے غرض نہیں تھی۔ یہ مقصد نہیں تھا۔ لٹیروں سے اور حملہ آوروں سے جب آپؓ نے واپس مال لے لیا اور سب لوگ چھوڑ کر فرار ہو گئے ، ان میں سے کچھ زخمی بھی ہو گئے تو آپؐ نے بھی پھر وہاں کسی قسم کی جنگ اور قتل و غارت گری نہیں کی۔

بہرحال یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان سے یہ باتیںکر رہے تھے کہ ان کو چھوڑو۔ وہ چلے گئے ہیں تو اب جانے دو۔ اس دوران میں بنی غطفان کا ایک شخص آیا اس نے کہا کہ فلاں شخص نے ان کے لیے اونٹ ذبح کیا ہے۔ جب وہ ان کی جلد اتار رہے تھے تو انہوں نے ایک غبار دیکھا۔ انہوں نے کہا وہ لوگ آ گئے ۔ وہ وہاں سے بھی بھاگ گئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج ہمارے بہترین شاہ سوار ابوقَتَادہؓ ہیں اور پیادوں میں بہترین پیادہ یعنی پیدل چلنے والوں میں، جنگ کرنے والوں میں سَلَمہؓ ہیں۔ سَلَمَہؓ نے ان لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصّے دیے ایک سوار کا اور ایک پیدل کا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ لوٹتے ہوئے مجھے عَضْبَاءاونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ توکہتے ہیں کہ جب ہم جا رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے جس سے دوڑ میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا اس نے کہنا شروع کر دیا کہ کوئی مدینہ تک دوڑ لگانے والا ہے۔ اب جنگوں اور دشمنوں کے تنگ کرنے کے باوجود صحابہؓ اپنی تفریح کے سامان بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو ہلکے پھلکے چیلنج بھی دیتے تھے تا کہ وقت بھی گزر جائے اور دشمنوں کا جومستقل ذہنی دباؤ بھی جو ہے وہ بھی کچھ کم ہو۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ کوئی ہے جو مجھ سے دوڑ لگائے ؟کیا کوئی دوڑنے والا ہے؟ کہتے ہیں انہوں نے کئی دفعہ یہ بار بار دہرایا تو میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے دوسرے صحابی کو چھیڑکے کہا اسے کہ تم کسی معزّز کی عزت نہیں کرتے؟ کسی بزرگ سے نہیں ڈرتے؟ اس نے کہا نہیں سوائے اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کا خوف نہیں تو میں نے کہا یا رسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ مجھے اس آدمی سے دوڑ لگانے دیں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم چاہتے ہو تو لگاؤ۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ چلو۔ پھر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پاؤں موڑے اور چھلانگ ماری اور دوڑ پڑا اور میں ایک یا دو گھاٹیاں اسکے پیچھے دوڑا پھر میں اپنی طاقت بچا رہا تھا پھر میں آہستگی سے اس کے پیچھے دوڑا پھر میں تیز ہوا ، اسے جا لیا۔ یہ دوڑ لگتی رہی۔ وہ مدینہ کا سب سے تیز دوڑنے والا شخص تھا۔ کہتے ہیں اَور تیز ہو کے میں نے اسے جا کےپکڑ لیا ۔ میں نے اسے کندھے کے درمیان مکا مارا۔ میں نے کہا اللہ کی قسم! تو پیچھے رہ گیا۔

ایک راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ تک اس سے آگے رہا اور پھر ہم صرف تین راتیں ٹھہرے یہاں تک کہ اس کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔(ماخوذ از صحیح مسلم جلد 9 صفحہ 228تا 238کتاب الجھاد والسیر،بَابُ غَزْوَةِ ذِي قَرَدٍ وَغَيْرِهَا، حدیث:3358، نور فاؤنڈیشن 2008ء)(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات القرد حدیث 4194) وہاں ٹھہرے۔ پھر خیبر کی طرف چلے گئے۔

تاریخ طبری میں اس غزوہ کی بابت کچھ تفصیلات یوں درج ہیں۔ حضرت عاصِم بن عُمر بن قَتادہسے مروی ہے کہ غزوۂ ذِی قَرَد میں دشمن کے پاس سب سے پہلا گھوڑا حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓکا پہنچا جو بنو اسد بن خُزَیْمَہ میں سے تھے۔ حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓکو اَخْرَمْ بھی کہا جاتا تھا اسی طرح آپؓ کو قُمَیْر بھی کہا جاتا تھا اور جب دشمن کی طرف سے لُوٹ مار اور خطرے کے لیے اجتماع کا اعلان ہوا تو حضرت محمود بن مَسْلَمَہؓ کے گھوڑے نے جو اُن کے باغ میں بندھا ہوا تھا جب اَور گھوڑوں کی ہنہناہٹ کی آواز سنی تو اپنی جگہ اچھل کود کرنے لگا۔ یہ ایک عمدہ اور سدھایا ہوا گھوڑا تھا۔ تب بَنُو عَبْدِالْاَشْھَل کی عورتوں میں سے بعض عورتوں نے بندھے ہوئے گھوڑے کو اس طرح اچھلتے کودتے دیکھا تو حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ سے کہا اے قُمَیر! کیا آپؓ طاقت رکھتے ہیں کہ اپنے اس گھوڑے پر سوارہوں اور یہ گھوڑا جیسا ہے وہ آپؓ اسے دیکھ ہی رہے ہیں۔ پھر آپؓ مسلمانوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملیں۔ آپؓ نے کہا ہاں! میں تیار ہوں۔ پھر عورتوں نے وہ گھوڑا آپؓ کو دیا۔ آپؓ،حضرت مُحْرِزؓ، اس پر سوار ہو کر چل دیے۔ انہوں نے اس گھوڑے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دی یہاں تک کہ آپؓ نے اس جماعت کو پا لیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہی تھی اور ان کے آگے آپؓ کھڑے ہو گئے۔ پھر حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ نے کہا اے تھوڑی سی جماعت! ٹھہرو۔ یہاں تک کہ دوسرے مہاجر اور انصار جو تمہارے پیچھے ہیں وہ بھی تم سے آ ملیں۔ راوی کہتے ہیں کہ دشمن کے ایک شخص نے آپؓ پر حملہ کیا اور آپؓ کو شہید کر دیا۔ پھر وہ گھوڑا بے قابو ہو کر بھاگا اور کوئی اس پر قابو نہ پا سکا یہاں تک کہ وہ بَنُو عَبدِالْاَشْھَل کے محلے میں آ کر اُسی رسّی کے پاس ٹھہر گیا جس سے وہ بندھا ہوا تھا۔ پس مسلمانوں میں اس دن آپؓ کے علاوہ اور کوئی شہید نہیں ہوا تھا اور حضرت محمودؓ (طبقات ابن سعد کےمطابق ان صحابی کا نام حضرت محمد بن مسلمہؓ تھا۔ ان) کے گھوڑے کا نام ذُو اللَّمَّہ تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ حضرت عُکَّاشَہ بن مِحْصَنؓ کے گھوڑے پر شہادت کے وقت سوار تھے۔ اس گھوڑے کو جَنَاح کہا جاتا تھا اور بعض جانور دشمن کے ہاتھ سے چھڑا لیے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام سے روانہ ہوئے اور غزوۂ ذی قَرَد کے پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہرے اور وہیں اَور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اور ایک رات وہاں مقیم رہے۔ سَلَمَہ بن اَکْوَعؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اگر آپؐ سو آدمی میرے ساتھ بھیج دیں تو مَیں بقیہ جانور بھی دشمن سے چھڑا لاتا ہوں اور ان کی گردن جا دباتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہاں جاؤ گے؟ اس وقت تو وہ غطفان کی شراب پی رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو سَو سَو میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں کھانے کے لیے اونٹ تقسیم کیے جنہیں صحابہ نے بطور کھانے کے استعمال کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

(تاريخ الطبري،الجزء الثالث‘‘غَزْوَةُ ذِي قَرَدٍ’’صفحہ115،116مکتبہ دارالفکر،الطبعة الثانیة2002ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 70 مُحْرِزْ بن نضلۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

اور ان لوگوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں کو جانے دیا اور یہی حضرت مُحْرِزْؓ وہاں صرف ایک شہید ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق گھڑ سواروں میں سب سے پہلے شہید تھے اور یہی پہلی روایت میں بھی ہے۔

پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سُوَیْبِطْ بن سَعْدؓ۔ آپؓ کو سُوَیْبِطْ بن حَرْمَلَہ بھی کہا جاتا ہے۔ آپؓ کا نام سُوَیْط بن حَرْمَلَہ اور سَلِیْط بن حَرْمَلَہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت سُوَیْبِطْؓ کا تعلق قبیلہ بنو عبد ِدار سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام ھُنَیْدَہ تھا۔ آپؓ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوںمیں شامل تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے آپؓ کو مہاجرینِ حبشہ میں شامل کیا ہے۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 354‘‘ سُوَیْبِطْ بن حرملہ’’ دارالفکر بیروت لبنان2003ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ الجزء السادس صفحہ 368 ‘‘نُعَیْمَان بن عمرو’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء) (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد12 ، جزء 24صفحہ 117‘‘ذکر من اسمہ سلیط’’ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان)

حضرت سُوَیْبِطْؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد آپؓ نے حضرت عبداللّٰہ بن سَلَمہ عَجْلَانِیؓ کے گھر قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سُوَیْبِطْؓ اور حضرت عَائِذْ بن مَاعِصْؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ حضرت سُوَیْبِطْؓ نے غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں بھی شرکت کی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 65‘‘ سُوَیْبِطْ بن سَعْد’’ومن عبدالدار بن قصی داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

حضرت ام سَلَمَہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل بُصْرٰی،ملک شام کا ایک علاقہ اس کی طرف تجارت کے لیے گئے تھے۔ ان کے ساتھ نُعَیْمَانؓ اور سُوَیْبِطْ بن حَرْمَلَۃؓ نے بھی سفر کیا اور یہ دونوں جنگِ بدر میں بھی موجود تھے۔ نُعَیْمَانؓ زادِ راہ پر متعیّن تھے۔ سُوَیْبِطْؓ کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ اس نے نُعَیْمَانؓ سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ۔ جو زادِ راہ تھا، سامان تھا اس کے نگران تھے۔ قافلے کا کھانے پینے کا انتظام ان کے سپرد تھا ۔ انہوں نے ان سے کہا کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابوبکرؓ نہیں آئیں گے میں کھانا نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا اگر تم مجھے کھانا نہیں دو گے تو میں تمہیں غصہ دلاؤں گا۔ یہ واقعہ پہلے بھی مَیں نے مختصر بیان کیا تھا ۔ جب یہ جا رہے تھے تو اس دوران میںحضرت سُوَیْبِطؓ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو سُوَیْبِطْؓ نے ان سے کہا کیا تم مجھ سے میرا ایک غلام خریدو گے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ سُوَیْبِطْؓ نے اس قبیلے والوں کو کہا کہ وہ غلام بولنے والا ہے یاد رکھنا۔ اور یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں۔ جب تمہیں وہ یہ بات کہے تو تم اس کو چھوڑ کر میرے غلام کو میرے لیے خراب نہ کرنا۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ہم اسے تجھ سے خریدنا چاہتے ہیں۔ تو انہوں نے دس اونٹنیوں کے عوض اس غلام کو خرید لیا۔ پھر وہ لوگ حضرت نُعَیْمَانؓ کے پاس آئے اور ان کے گلے میں پگڑی یا رسّی ڈالی۔ نُعَیْمَانؓ بولے کہ یہ شخص تم سے مذاق کر رہا ہے۔ مَیں آزاد ہوں غلام نہیں ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اس نے تمہارے بارے میں پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ تم یہی کہو گے اور وہ پکڑ کے لے گئے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے اور لوگوں نے اس کے متعلق آپؓ کو بتایا تو آپؓ ان لوگوں کے پیچھے گئے اور ان کو ان کی اونٹنیاں واپس دیں اور نُعَیْمَانؓ کو واپس لیا۔ واپس لے آئے اور کہا یہ آزاد ہے غلام نہیں ہے۔ انہوں نے مذاق کیا تھا۔ اس طرح کے مذاق بھی صحابہ میں چلتے تھے۔ بہرحال جب یہ لوگ واپس پہنچے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو بتایا تو راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ایک سال تک اس سے حظ اٹھاتے رہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاح حدیث نمبر 3719) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 522 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس بات پہ خوب ہنسے اور ایک سال تک لطیفہ مشہور رہا ۔ بہرحال مندرجہ بالا واقعہ ایک فرق کے ساتھ بعض کتب میں اس طرح بھی ملتا ہے۔لکھا ہے کہ فروخت کرنے والے حضرت سُوَیْبِطْؓ نہیں بلکہ حضرت نُعَیْمَانؓ تھے۔

صحابہ کے اس ذکر کے بعد میں جو بات مختصراً کہنا چاہتا ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کے بارے میں ہے کہ ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’۔ یہ الہام آپؑ کو مختلف وقتوں میں ہوا۔ شروع میں اس وقت اللہ تعالیٰ نے ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’کا الہام فرمایا جب آپؑ فرماتے ہیں کہ اس وقت شاید دو یا تین لوگ میری مجلس میں آیا کرتے تھے اور کوئی مجھے جانتا نہیں تھا۔(ماخوذ از سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73)

پھر مختلف وقتوں میں دوسرے الہامات کے ساتھ بھی ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’کا الہام ہوتا رہا یعنی اپنی مکانیت کو وسیع کرو اور اس کے ساتھ جو دوسرے الہامات ہیں ان میں خوش خبریوں اور مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہونے کا بھی ذکر ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جب اپنے انبیاء کو الہاماً کوئی حکم دیتا ہے کہ یہ کرو تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی تائیدات اور نصرت بھی فرمائے گا اور وسائل کے سامان بھی پیدا فرمائے گا اور پھر اس طرح یہ تکمیل کو پہنچے گا اور یہی ہمارا تجربہ ہے۔ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اس الہام کو پورا کیا اور ابھی بھی پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ادنیٰ غلام ہیں ہمیں بھی اس الہام کے متعلق مختلف وقتوں میں پورا ہونے کے نظارے دکھاتا چلا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر الہام اور اللہ تعالیٰ کا آپ کو کسی بھی معاملے میں حکم دینا یا پیشگوئی کے رنگ میں بتانا اصل میں تو آپؑ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین یعنی اسلام کی اشاعت اور ترقی کے ہونے کی خو ش خبری ہے اور پھر آپؑ کے بعد سلسلۂ خلافت کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی خوش خبری ہے۔ پس ہر قدم جو ہمارا آگے بڑھتا ہے یا جو ترقی ہم دیکھتے ہیں وہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کا حصّہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بنایا ہوا ہے۔

اس تمہید کے بعد میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کی طرف آتا ہوں یعنی ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’۔ خلافت کے یہاں یوکے میںہجرت کے بعد برطانیہ میں بھی، یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی، افریقہ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ مکانیت وسیع ہوتی چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جگہیں مہیا کرتا چلا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب یہاں ہجرت کر کے آئے تھے تو فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اپنی وسعت کا ایک نظارہ دکھایا اور اسلام آباد میں 25؍ ایکڑ زمین جماعت کو خریدنے کی توفیق ملی اور اس کے بعد مزید اس میں چھ ایکڑ بھی شامل ہو گئی جہاں جلسہ بھی ہوتا رہا اور کچھ رہائش بھی جماعتی کارکنوں کے لیے، واقفینِ زندگی کے لیے میسر تھی۔ ایک بنگلہ بھی جو خلیفۃ المسیح کی رہائش کے لیے تھا۔ کچھ دفاتر بھی تھے۔ ایک بیرک نما جو جگہ تھی اس میں مسجد بھی بنائی گئی تھی اور مجھے یاد ہے جب ایک دفعہ یہاں آیا 1985ء میں تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے مجھے خاص طور پر فرمایا تھا کہ بڑی اچھی جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مرکز کے لیے بھی مہیا کر دی ہے۔ کم و بیش یہی الفاظ تھے مگر معیّن نہیں۔ اور مجھے یقین ہے اور بعض دوسرے شواہد بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہاں باقاعدہ مرکز بنانے کا ارادہ تھا۔ بہرحال ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر فرمایا ہوا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ اسلام آباد میں نئی تعمیر ہوئی ہے۔ کچھ دفاتر بہتر سہولتوں کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔ باقاعدہ مسجد بنائی گئی ہے۔ خلیفۂ وقت کی رہائش بنائی گئی ہے اور واقفینِ زندگی اور کارکنوں کے لیے گھر بھی تعمیر ہوئے ہیں اور اَور بھی تعمیر ہوں گے۔

لندن میں دفاتر عارضی طور پر گھروں کو دفتر میں تبدیل کر کے استعمال ہو رہے تھے اور بڑے تنگ کمروں میں مشکل سے گزارا ہو رہا تھا۔ کام کی وسعت کی وجہ سے جگہ کی شدید کمی ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ کونسل کو بھی اعتراض رہتا تھا کہ یہ گھر رہائش کے مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں تم نے دفتر بنائے ہوئے ہیں یہاں سے دفتر ختم کرو۔ عموماً وقتاً فوقتاً یہ شور اٹھتا رہتا تھا۔ اب اس نئی تعمیر سے تین چار دفاتر جو یہاں گھروں میں تھے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اسلام آباد منتقل ہو جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسلام آباد منصوبے کے ساتھ ہی فارنہم (Farnham)میں ایک بڑی دو منزلہ عمارت بھی جماعت کو مہیا فرما دی جس میں پریس بھی کام کر رہا ہے۔ یہ عمارت دو تین میل کے فاصلے پہ ہے اور کچھ دفاتر بھی ہیں۔ پھر خدام الاحمدیہ کو بھی یہاں ایک بڑی عمارت خریدنے کی توفیق مل گئی۔ اس سے پہلے قریب ہی جلسہ گاہ کے لیے 200؍سے زائد ایکڑ کی جگہ ‘‘حدیقۃ المہدی’’ خریدنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دے دی۔ پھر جامعہ جو لندن میں تھا یہاں سے منتقل ہو گیا اور غیر معمولی طور پر کم قیمت پر موجودہ جگہ جامعہ کی اللہ تعالیٰ نے بہتر ماحول اور سہولتوں کے ساتھ عطا فرما دی۔ تقریباً تیس ایکڑ اس کی زمین بھی ہے اور یہ سب جگہیں اسلام آباد سے دس سے بیس منٹ کے فاصلے پر ہیں۔ اسلام آباد کے موجودہ منصوبے کے ساتھ ان تمام جگہوں کے خریدنے کی پلاننگ کوئی پہلے نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا منصوبہ تھا کہ یہ تمام جگہیں ایک علاقے میں قریب قریب اکٹھی ہوتی گئیں اور اللہ تعالیٰ نے مرکز کے ساتھ ساتھ ہی دوسری چیزیں بھی مہیا فرما دیں۔ جامعہ بھی قریب ہونا ضروری ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام جگہوں کا، ان تمام چیزوں کا ایک علاقے میں اکٹھا ہونا ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ خلیفہ وقت کی رہائش گاہ اور دفاتر وغیرہ بھی وہاں بن گئے ہیں۔بڑی مسجد بھی بن گئی ہے۔ اس لیے اب میں بھی لندن سے ان شاء اللہ تعالیٰ چند دنوں میں اسلام آباد منتقل ہو جاؤں گا۔ وہاں منتقلی کے بعد ہر لحاظ سے وہاں کی رہائش بھی بابرکت ہونے کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل فرماتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اسلام آباد سے اسلام کی تبلیغ کے کام کو پہلے سے زیادہ وسعت عطا فرمائے اور ‘‘وَسِّعْ مَکَانَکَ’’صرف مکانیت کی وسعت کا ذریعہ ہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں کی تکمیل میں وسعت کا ذریعہ بھی بنے۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ مسجد فضل کے جو ہمسائے تھے ان ہمسایوں کو مسجد آنے والے احمدیوں کی وجہ سے ٹریفک اور پارکنگ کی وجہ سے ہمیشہ تنگی اور شکوہ رہا ہے۔ اس لیے نئی جگہ ہمسایوں کو اور علاقے کے لوگوں کو نمازوں کے لیے اور ویسے بھی جو اسلام آباد آنے والے ہیں ان کی وجہ سے کسی قسم کا شکوہ نہ ہو۔ انہیں اس کا موقع نہ دیں۔ ارد گرد کے جو لوگ ہیں وہ آئیں گے تو ٹریفک کی پابندی اور احتیاط کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔

جہاں تک جمعہ کا سوال ہے عموماً جمعہ یہیں بیت الفتوح میں ان شاء اللہ تعالیٰ آ کے پڑھایا کروں گا۔ امیر صاحب کو میں نے کہا ہے۔ وہ باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کر کے جماعتوں کو بھی بتائیں گے کہ جن لوگوں نے یا جماعتوں نے اسلام آباد میں جمعہ پڑھنا ہو گا یا جو وہاں پڑھنا چاہتے ہیں وہ کون لوگ ہوں گے۔ وہاں کی ارد گرد کی جماعتیں ہوں گی۔ اگر ان میںسے جو بھی وہاں جا کے پڑھنا چاہیں وہ پڑھ سکتے ہیں۔ کس کس علاقے کے لوگ ہوں گے ؟کس طرح تقسیم ہو گی؟ اسلام آباد کے بیس میل کے علاقے کے ارد گرد کے لوگ جو ہیں وہ تو وہیں جمع ہو سکتے ہیں۔ وہاں جمعہ پڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال جو تفصیل ہے وہ جماعتوں کو امیر صاحب کی طرف سے متعلقہ صدران کو مل جائے گی۔ بیس میل سے باہر جن لوگوں نے وہاں جمعہ پڑھنا ہے ان کے بارے میں بھی پتہ لگ جائے گا کہ کون کون سی جماعتیں ہیں یا کس طرح ان کی ترتیب دی جائے گی۔ بہرحال دوبارہ میں یہی کہتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس منصوبے کو اور وہاں منتقل ہونے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button