سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا بیان(حصہ سوم)

آپؑ کی تجہیز و تکفین و نمازِ جنازہ کا بیان

حضرت اقدسؑ کی نعش مبارک کے غسل میں حسب ذیل دوست شامل ہوئے:

مکرم ڈاکٹرنورمحمدصاحبؓ، محترم حکیم محمدحسین صاحب قریشیؓ، میاں شادی خان صاحبؓ ،میرمہدی حسین صاحب ؓاور حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب ؓقادیانی۔

ایک روایت کے مطابق غسل میں حضرت قاضی محبوب عالم صاحب اورخلیفہ رجب الدین صاحب بھی شامل تھے۔(ماخوذ از لاہور تاریخ احمدیت صفحہ245)جبکہ تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ 549 کے مطابق غسل دینے والے بھائی عبدالرحیم صاحب اورشیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک اَور احمدی دوست تھے۔ غسل ڈاکٹرمحمدحسین صاحب کے مکان کے نچلے حصہ میں دیاگیااور اڑھائی بجے غسل وتکفین سے فارغ ہوکرتین بجے کے قریب حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓکی معیت میں ایک کثیرجماعت نے نمازجنازہ اداکی۔مکان کے باہراحمدی احباب اور غیرازجماعت جن میں شرفاء بھی تھے۔اورایک طرف مخالف بدتمیزلوگوں کابھی ایک ہجوم تھاجویہ بھی اعلان کررہاتھا کہ مرزاصاحب کے ہاتھ پاؤں میں نعوذباللہ کوڑھ ہوگیاہے۔خلیفہ رجب الدین صاحب نے تجویزدی کہ مخالفین یہ شورکررہے ہیں بعدمیں آنے والے لوگوں کے لئے یہ پریشانی کاباعث ہوگا کیوں نہ لوگوں کواس مقدس چہرے کی عام زیارت کرائی جائے۔چنانچہ نمازجنازہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ

’’آؤ لوگو! حضرت کا چہرۂ مبارک دیکھ کرتسلی کرلو۔ کیسانورانی،کتناروشن اورکس قدرپاک صورت ہے۔ جن کوشبہ ہووہ اپنا شک ابھی نکال لیں ۔پیچھے باتیں بنانافضول ہوگا۔‘‘

جس پرچالیس چالیس ،پچاس پچاس لوگ اکٹھے آتے تھے اورحضرت اقدسؑ کے پاؤں اور ہاتھ اورمنہ کھلا رکھاہواتھا۔لوگ زیارت کرتے اورسبحان اللہ ،ماشاء اللہ پکار اٹھتے۔ہندو لوگ میت کودیکھ کرہاتھ جوڑ کرسلام کرتے تھے اورکہتے تھے کہ یہ توزندہ لیٹے ہوئے ہیں۔بعض ہندوشرفاء جب حضرتؑ کے آخری درشن کوآئے تو مہاپرش،دیوتا،مہاتما اوراوتار وغیرہ کے الفاظ بآوازبلند کہتے ہوئے نذرواخلاص وعقیدت کے پھول چڑھاتے۔بعدمیں بھی متعدد بار لوگوں نے نمازجنازہ اداکی۔

چاربجے کے قریب جنازہ ریلوے اسٹیشن لایاگیاجہاں بٹالہ کے لئے ریزرو گاڑیوں کا انتظام کرایاگیاتھا۔گرمیوں کے موسم کی وجہ سے نعش کوصندوق میں بند کرکے گرداگرد برف رکھی گئی تھی۔شام کے چھ بجے کے قریب گاڑی روانہ ہوئی۔ اورامرتسرسے ہوتی ہوئی رات دس بجے کے قریب گاڑی بٹالہ پہنچی۔دوبجے کے قریب صندوق کوگاڑی سے باہر نکالاگیا۔اورایک آم کے درخت کے نیچے رکھااورصبح تین بجے کے قریب جسد مبارک کو صندوق سے نکال کر چارپائی پررکھااورلمبے بانس باندھ کرتاکہ زیادہ سے زیادہ احباب یہ سعادت حاصل کرسکیں کہ نہ جانے پھرکب وہ کسی نبی کے جسدمبارک کوایسے لے جاسکیں گے۔

اس قافلے نے دیوانی وال کے تکیے میں صبح کی نماز ادا کی۔اور آٹھ بجے کے قریب مسجدفضل کے پاس سے گزرتے ہوئے جسدمبارک بہشتی مقبرہ کے باغ میں پختہ مکان میں رکھا گیا۔قادیان اور دورونزدیک سے درد کے مارے عشاق جمع ہورہے تھے۔اپنے آقا کاآخری دیدارکررہے تھے۔کوئی بارہ سوکے قریب احباب نے رسالہ الوصیۃ کے مطابق خدائی  نوشتوں کوپوراکرتے ہوئےحضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کاجانشین اور خلیفۃ المسیح تسلیم کیا اوریوں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو نبی اکرمﷺ نے اپنے اس ظل کامل کے حق میں فرمائی تھی۔

’’عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ، قَالَ: كُنَّا قُعُوْدًا فِي الْمَسْجِدِ وَكَانَ بَشِيْرٌ رَجُلًا يَكُفُّ حَدِيْثَهُ، فَجَاءَ أَبُوْ ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، فَقَالَ: يَا بَشِيْرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ حَدِيْثَ رَسُولِ اللّٰہ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْأُمَرَاءِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ، فَجَلَسَ أَبُوْ ثَعْلَبَةَ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’تَكُوْنُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللّٰہ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہ أَنْ يَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ۔ثُمَّ سَكَتَ۔‘‘

ترجمہ:’’حضرت نعمان بن بشیر ؓسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بشیر اپنی احادیث روک کر رکھتے تھے۔ ہماری مجلس میں ابو ثعلبہ خشنی ؓ آئے اور کہنے لگے کہ اے بشیر بن سعد! کیا امراء کے حوالہ سے آپ کو نبیﷺ کی حدیث یاد ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ فرمانے لگے کہ مجھے حضورﷺ کا ایک خطبہ یاد ہے ۔حضرت ابو ثعلبہ ؓ بیٹھ گئے اور حضرت حذیفہ ؓ کہنے لگے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’جب تک اللہ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجودرہے گی۔ پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا۔ پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا۔ اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک منظور خداہوگا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا۔ پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی۔ پھر رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے… ‘‘

(مسنداحمدبن حنبل جلد 6حدیث النعمان بن بشیر حدیث18596)

بیعت خلافت ہوچکی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے کچھ وقفے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے مملوکہ باغ میں کنویں کے قریب نماز جنازہ پڑھائی۔نماز عصر کے بعد سب خدام نے یکے بعد دیگرے حضورعلیہ السلام کے نورانی چہرہ کاآخری دیدار کیا۔حضور کاجسد اطہر اس وقت اس مکان کے درمیانی کمرے میں جنوبی دیوار کے دونوں مغربی دروازوں کے درمیان رکھا ہوا تھا جو بہشتی مقبرہ کے شمال مغرب کی طرف ہے۔نعش مبارک اس چارپائی پر رکھی ہوئی تھی جو لاہور سے ساتھ لائی گئی تھی۔پہلے مردوں نے پھر مستورات نے زیارت کی۔احباب صحن کی طرف مغربی دیوار کے جنوبی حصہ میں لگے ہوئے دروازے سے صحن میں اور صحن سے کمرے میں آتے اور زیارت کر کے کمرے کے شمالی دروازہ سے باہر نکلتے جاتے۔اورشام سے کچھ پہلے جسد اطہر کو گریاں وبریاں دلوں کے ساتھ کاندھے پہ اٹھائے ہوئے بہشتی قطعۂ زمین پررکھا۔

دن ڈھل چکا تو درد نصیبوں کا قافلہ

کاندھوں پہ آفتاب اُٹھائے ہوئے چلا

اور کوئی چھ بجے کے قریب حضورعلیہ السلام کا جسد مبارک سینکڑو ں اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دلوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ کی خاک مقدس کے سپرد کردیا گیا۔

ارض قادیاں اسے سینے سےلگا کے رکھنا

آبگینوں سے بھی نازک یہ دفینہ ہے

مزار مبارک، کتبہ اور چار دیواری

حضرت اقدس علیہ السلام کا مزار مبارک بالکل کچا رکھاگیااور محض شناخت کے لئے قبر کے سرہانے چونے کی دیوار پر سیاہی سے عارضی طور پر یہ الفاظ لکھ دئیے گئے۔

’’جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی رئیس قادیان مسیح موعود ومجدد صدی چہار دہم تاریخ وفات 26مئی 1908ء‘‘

مستقل کتبے کے لئے مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے جو افسر بہشتی مقبرہ تھے 21؍فروری 1909ء کے الحکم میں ایک بہت لمبا کتبہ لکھا جس میں مسیح وقت ومہدی ومجدد جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ اور نبی وغیرہ القاب سے یاد کیا گیا تھا۔مگر خلافت اولیٰ میں اس کے لکھنے کی نوبت نہ آئی۔خلافت ثانیہ میں جب کہ بارشوں کی وجہ سے دیوار کی سیاہی کے الفاظ دھل گئے توسنگ مرمر کا مستقل کتبہ نصب کیاگیا جس پریہ الفاظ درج کئے گئے۔

’’بسمِ اللہ الرحمٰن الرحیم

مزار مبارک حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ وعلیٰ مطاعہ محمد الصلوٰۃ والسلام

تاریخ وفات 24؍ربیع الثانی 1366ھ بمطابق 26مئی 1908ء

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘

یہی کتبہ آج تک موجود ہے۔نومبر1925ء میں حفاظت کی غرض سے مزار کے اردگر دچار دیواری بھی تعمیر کردی گئی۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button