سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لکھنے اور قلم کا بیان(حصہ دوم)

“تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات، قلم، بستہ اور کتابیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجود رہا کرتی تھیں کیونکہ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی۔اور مَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنکا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا۔ایک بات کا ذکر کر نا میں بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے نہ بدلہ کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا تب بدلتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر447)

اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بیان کیا کہ

“حضورؑ لکھا بہت کرتے تھے۔جب بیٹھ کر لکھتے تو ہم حضورؑ کے کندھے دبایا کرتے تھے۔حضورؑ اکثرٹہل کر لکھا کرتے تھے درمیان میں ایک میز رکھی ہوتی اور اس پر ایک دوات پڑی رہتی تھی۔حضورؑ لکھتے لکھتے ادھر سے آتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے۔پھر ادھر جاتے تو قلم سیاہی میں ڈبو لیتے او ر جب پڑھتے تو اونچی آواز سے پڑھا کرتے تھے اور جو کچھ لکھتے اس کو دہراتے جاتے۔”

(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر1314)

حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ کپورتھلہ بیان کرتے ہیں :

“بمقام دہلی جبکہ مولوی بشیرصاحب سے مباحثہ ہوا۔ خاکسار بھی وہاں حاضر تھا اور بھائی بھی تھے وہ مولوی صاحب نیچے کے مکان میں تھے اور حضور علیہ السلام اوپر دوسرے پر قیام پذیر تھے۔مباحثہ شروع ہوا اور اوپر سے دو ورق فل سکیپ لکھا ہوا آیا اور یہ فرمایا کہ اس کوالگ الگ کر کے دو آدمی ہمارے نقل کرلیویں اور بعد نقل کرنے کے جو اصل پرچہ ہے وہ مولوی صاحب کو دے دیا جاوے۔ایک ایڈیٹر غیر احمدی کسی مطبع کا وہاں موجود تھا۔وہ بڑا منشی زود نویس تھا۔ایک ورقہ نقل کے واسطے ان کو دیا گیا اور ایک ورق منشی ظفر احمد کو دیا گیا۔ابھی یہ دونوں صاحب نقل کر رہے تھے اور کچھ مضمون ابھی باقی تھا کہ اوپر سے اور دو ورقہ آیا۔وہ ایڈیٹر حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ ابھی ہم پہلا آدھا ہی نہ لکھنے پائے تھے کہ اوپرسے آپ نے ایک اور دو ورقہ تصنیف کر کے اور پھر لکھ کر بھیج دیا ہے۔شاید آپ نے پہلے لکھ کر رکھا ہوا ہے۔ابھی دوسرے دو ورقہ کو نقل نہیں کرنے پائے تھے کہ تیسرا دو ورقہ آگیا۔ایڈیٹر صاحب نے دیکھا اور کہنے لگے کہ یہ تازہ لکھا ہوا ہے اور روشنائی بھی ابھی تک خشک نہیں ہوئی اور کہنے لگا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ دو ورق تصنیف بھی کرلیتے ہیں اور ہم اس سے نصف نقل بھی نہیں کر سکتے۔غرض اس طرح سے اور کئی ورق آئے نقل کر کے دیئے گئے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد1صفحہ209-210 روایت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ کپورتھلہ)

حضرت شیخ محمد شفیع صاحبؓ سیٹھی بیان کرتے ہیں :

“ایک روز حضور سے ملاقات کے لئے گیا تو حضور تیسری منزل کی چھت پر تشریف لے گئے۔وہاں کیا دیکھا کہ دونوں طرف کاغذ، قلم، دوات ہے۔آتے جاتے کچھ نوٹ کرتے ہیں ۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ198 روایت شیخ محمد شفیع صاحب سیٹھیؓ)

حضرت علاؤ الدین صاحبؓ زرگر بیان کرتے ہیں :

“حضور کا ایک کمرہ اوپر کی منزل میں تھا اور صحن سے قدرے نیچے تھا۔شاید ایک یا دو سیڑھیاں تھیں ۔دروازہ کے ساتھ شاید بڑا آلہ (طاق) تھا۔ایک دوات اس آلہ میں ہوتی تھی اور دوسری شاید انگیٹھی تھی یا کوئی باری۔وہاں ہوتی تھی۔حضور ٹہل کر ہی زیادہ تر لکھا پڑھا کرتے (تھے) کیونکہ زیادہ مجھے دیکھنے کا اتفاق اس طرح ہوا ہے اور حضور کے پاس رقعہ میں زیادہ لے جایا کرتا تھا تو حضور اسی طرح ٹہل کر پڑھا کرتے تھے۔جو اب اسی طرح دیا کرتے اور جس طرف دوات میں سیاہی ختم ہوتی اسی طرف کی دوات میں سے سیاہی لگالیتے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ103 روایت علاؤ الدین صاحب ؓزرگر)

حضرت امیر محمد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“ہمارے گاؤں کا ایک ہمیراج برہمن حضور کے وقت قادیان میں چٹھی رساں تھا وہ ہمیں بتایا کرتا تھا کہ جب میں ڈاک لے کر حضور کے پاس جاتا تو اکثر حضور کو میں ٹہلتے دیکھتا۔آپ کے ہاتھ میں قلم کاغذ ہوتا۔جب حضور ایک طرف جاتے تو اس طرف ایک طاقچہ میں قلم دوات رکھی ہوتی وہاں ٹھہر کر حضور کچھ کاغذ پر رقم فرماتے اور پھر جب دوسری طرف تشریف لاتے تو اس طرف بھی طاقچہ میں قلم دوات ہوتی اور وہاں بھی ٹھہر کر حضور کچھ لکھتے۔وہ کہتا کہ میں جتنا عرصہ وہاں رہا حضور کو ایسا ہی کرتے دیکھتا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ158-159روایت چوہدری امیر محمد خانصاحبؓ)

حضرت محمد ابراہیم صاحبؓ کی ایک روایت ہے:

“حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دالان کے سامنے صحن میں ایک دری بچھوا لیتے۔صحن کے دونوں طرف دو طاقچے تھے۔ان دونوں طاقچوں میں دو دواتیں رکھ لیتے اور اپنے ہاتھ میں ہولڈر (قلم) لے لیتے۔مشرق سے مغرب کی طرف حضور چلتے جاتے اور لکھتے جاتے پھر مغرب کے طاقچے والی دوات میں ہولڈر ڈبو لیتے اور مغرب سے مشرق کی طرف چلتے جاتے اور لکھتے جاتے۔یہ کام عام طور پر میں نے مغرب کی نماز تک کرتے کئی دفعہ دیکھا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ219 روایت محمد ابراہیم صاحبؓ)

حضرت عبد اللہ صاحبؓ کی ایک روایت ہے:

“کئی دفعہ میں نے مسجد مبارک کے اندر سے جو دروازہ حضور کے گھر کو جاتاہے۔اندر جا کر دیکھا تھا۔وہاں پہلے صحن ہوتا تھا اور ایک کمرہ کے سامنے حضور نے اپنا پلنگ بچھایا ہواتھا۔وہاں حضور بیٹھ کر اکثر لکھا کرتے تھے۔جب حضور بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تو اٹھ کر ٹہلنے لگ جاتے اور ایک دوات حضور کے پلنگ کے قریب ہوتی اور ایک دوات حضور درمیان میں اسٹول پر رکھواتے تھے اور ایک دوات مسجد مبارک والے دروازہ کی دیوار پر ایک الماری تھی جو کہ باہر سے جاتے ہوئے دائیں طرف تھی رکھی ہوتی تھی۔حضور ٹہلتے بھی تھے اور لکھتے جاتے بھی تھے۔اشاعت کا اتنا خیال تھا کہ کوئی وقت بغیر لکھنے کے نہ ہوتا تھا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ 206 روایت عبداللہ صاحبؓ (عبدل))

حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“حضور ایسی سادگی سے مہمانوں کو ملا کرتے تھے کہ میں نے بعض اوقات حضور کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ حضور کے ہاتھ میں قلم ہوتی اور بعض اوقات حضور پاؤں سے ننگے تشریف لے آتے۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ63 روایت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ)

حضرت سید شاہ عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“حضور کام میں اتنا مشغول رہتے تھے حضور کے مکان میں جو اوپر کا صحن ہے اس میں گرمیوں میں پلنگ کے اوپر چادر تانی جاتی تھی۔عصر کے بعد حضور ٹہل ٹہل کر لکھتے جاتے تھے تین دوات مٹی کی اور کانے کی قلمیں ایک دوات قصر خلافت کی طرف سے جو سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں وہاں دیوار کے ایک طاق میں رکھتے۔دوسری درمیان کے بڑے سٹول پر۔تیسری پاخانہ کے ساتھ والے طاق میں۔ٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے۔مجھے کئی دفعہ حضور نے فرمایا کہ ان دواتوں میں پانی ڈال دو۔ایک دفعہ میں نے ایک دوات میں پانی ڈال کر بھر دیا کہ جلد ختم نہ ہو جاوے حضور بہت ہنسے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہنستے جاتے فرمانے لگے کہ آخر سید کے بیٹے ہیں فراخدلی سے کام لیا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد8صفحہ87روایت سید شاہ عالم صاحب ؓ)

حضرت سردار بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں :

“ایک طرف ایک سٹول پڑا تھا اس پر دوات تھی دوسری طرف بھی ایک چھوٹے سے میز پر دوات تھی۔حضور ٹہلتے ٹہلتے لکھ رہے تھے۔ایک لیمپ کے پاس کھڑے ہو کر حضور کچھ لکھ لیتے تھے اور پھر چل پڑتے تھے۔پھر دوسرے لیمپ کے پاس آکر کھڑے ہو جاتے تھے۔جب درمیان میں چلتے تھے تو درمیان میں کوئی دعا بھی پڑھتے تھے جو صاف سنائی نہ دیتی تھی …”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد10صفحہ 208-209 روایت سردار بیگم صا حبہ ؓ)

حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“حضور ہمیشہ خوشنویس سے خوشنویس کی تلاش میں رہتے تھے۔چنانچہ ایک شخص امرتسر کا جو غیر احمدی تھا حضور کی اکثر کتابوں کا کاتب ہے۔حضور اس کو کافی معاوضہ کے علاوہ اس کی خوب خاطر تواضع بھی کرتے اور ہر طرح سے اس کی آسائش کا خیال رکھتے تھے اس کا نام غلام محمد تھا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ 84 روایت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ)

حضرت ڈاکٹر عبد المجید خاں صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر تحریر کا کام چل پھر کر کرتے۔دونوں طرف دوات رکھ لیتے۔ایک طرف سے قلم کو سیاہی سے ڈبو لیا۔تو لکھتے چلے گئے۔جب دوسری طرف آنے لگے تو اس طرف سے قلم ڈبو لیا۔بعض اوقات حضور درمیان میں یا دوات کے نزدیک جا کر ٹھہر جاتے اس طرح جیسا کہ کسی کی کوئی بات سن رہا ہے اور میں نے اکثر اس طرح دیکھا ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ سے ذکر کیا کہ حضور لکھتے لکھتے کیوں ٹھہر جاتے ہیں ۔جیسے کوئی کسی سے بات کرتے ہوں ۔تو میری والدہ مجھ کو کہا کرتی تھیں ۔کہ اس وقت فرشتوں سے باتیں کرتے ہیں یا جو وہ کہتے ہیں لکھتے جاتے ہیں یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔جبکہ میری عمر غالباً 12سال کی تھی۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ90 روایت ڈاکٹر عبدالمجید خاں صاحبؓ)

حضرت شیخ محمد نصیب صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

“یہ بھی آپ ہی کا خاصہ تھا کہ حضور چلتے پھرتے لکھتے بھی جاتے تھے۔آپ عموماً جامن رنگ کی سیاہی اور ہولڈر سے لکھا کرتے۔آپ کا خط بڑا پختہ تھا۔اور ہر ایک کا کام نہ تھا کہ اسے پڑھ لے اس خاکسار کو بھی حضور کا خط پڑھنے کا ربط تھا۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد15صفحہ30 روایت شیخ محمد نصیب صاحبؓ)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ صاحب لکھتے ہیں :

“… مولوی محمد حسین سے مباحثہ قرار پایا اور دن مباحثہ کا مقرر ہوکر مباحثہ کے لئے مولوی محمد حسین حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر آئے اور ساتھ مولوی محمد حسن اور سعد اللہ نو مسلم اور پانچ سات اور شخص بھی آئے اور ایک سوال لکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کے آگے رکھ دیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کا جواب لکھ دیا اور مجھ سے فرمایا (حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہر روز کئی کئی قلم مجھ سے بنوا کر رکھ لیتے اور جو میں نہ ہوتا تو جیسا قلم ہاتھ میں آجاتا ٹوٹا پھوٹا ویسے سےہی لکھ لیا کرتے تھے بعض وقت سیاہی نہ ہوتی تو قلم کو لب لگا کر لکھ لیتے تھے۔منہ) کہ کئی قلم بنا کر میرے پاس رکھ دو اور جو ہم لکھتے جائیں اس کی نقل کرتے جا ؤ…”

(تذکرۃ المہدی حصہ او ل از پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ نمبر 160)

(…………باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button