ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط 31)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

منصب وعظ او رزمانہ حاضرہ

نا اہل پلیدلوگ سچی اورحق و حکمت کی بات سن ہی نہیں سکتے اور جب کبھی کوئی بات معرفت اور حکمت کی ان کے سامنے پیش کی جاوے تو وہ اس پہ توجہ نہیں کرتے بلکہ لا پرواہی سے ٹال دیتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ وہ لوگ جو حق کہیں وہ بھی تھوڑے ہیں۔محض اللہ تعالیٰ کے لیے کسی کو حق کہنے والے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔گویا ہے ہی نہیں۔علی العموم واعظ وعظ کہتے ہیں،لیکن ان کی اصل غرض اور مقصود صر ف یہ ہوتا ہے ۔کہ لوگوں سے کچھ وصول کریں اور دنیا کماویں۔یہ غرض جب اس کی باتوں کے ساتھ ملتی ہے۔ تو حقانیت اور للہیت کو اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے اور وہ لذت اور معرفت کی خوشبوجو کلام الٰہی کے سننے سے دل و دماغ میں پہنچتی اور روح کو معطر کر دیتی ہے وہ خودغرضی اور دنیا پرستی کے تعفّن میں دب کر رہ جاتی ہے۔ اور اسی مجلس میں لوگ کہہ اٹھتے ہیں۔میاں یہ ساری باتیں ٹکڑا کمانے کی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ اکثر لوگوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ذریعہ معاش قرار دے لیا ہے،لیکن ہر ایک ایسا نہیں ہے۔

ایسے پاک دل انسان بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیںکہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے لیے وہ مامور ہیں اور اس کو فر ض سمجھتے ہیں ۔اور وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں۔وعظ کا منصب ایک اعلیٰ درجہ کا منصب ہے۔اور وہ گویا شان نبوّت اپنے اندر رکھتا ہے۔بشرطیکہ خدا ترسی کو کام میں لایاجاوے۔

وعظ کہنے والا اپنے اندر خاص قسم کی اصلاح کا موقعہ پا لیتا ہےکیونکہ لوگوں کے سامنے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کم از کم اپنے عمل سے بھی ان باتون کو کر کے دکھاوے جو وہ کہتا ہے۔

بہر حال اگر ایک آدمی اپنی ہی غرض و منشاء کے لیے کوئی بھلی بات کہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ اس سے اس لیے اعراض کیا جاوے کہ وہ اپنی کسی ذاتی غرض کی بناء پر کہہ رہا ہے۔وہ بات جو کہتا ہے وہ تو بجائے خود ایک عمدہ بات ہے۔نیک دل انسان کو لازم ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے جو وہ کہہ رہا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ان اغراض ومقاصد پر بحث کرتا رہے جن کو ملحوظ رکھ کروعظ کہہ رہا ہے۔سعدیؒ نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎

مرد باید کہ گیرد اندر گوش

گر نوشت ہست پند بر دیورا

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 103-105)

*۔اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ سعدی کا شعر استعمال کیا ہے ۔جو کہ گلستان سعدی کے دوسرے باب کے اندر ایک حکایت میں موجود ہے ۔

مکمل شعر اور حکایت

ایک فقیہ نے اپنے والد سے کہا واعظوں کی ان رنگین باتوں کا میرے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں ان کا عمل قول کےمطابق نہیں دیکھتاہوں ۔دنیا کو ترکِ دنیا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ خود چاندی اور غلہ جمع کرتے ہیں ۔ جس عالم کا صرف کہنا ہی کہنا ہو وہ جو کچھ کہے گا اس کا اثر کسی پر نہ ہوگا ۔عالم تو وہ ہے جو برے کام نہ کرے ۔نہ یہ کہ مخلوق کو کہتا رہےاور خود عمل نہ کرے۔

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ۔ (البقرہ :45)

کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنی ذاتوں کو بھولتے ہو۔وہ عالم جو عیش وتن پروری کرے ۔ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا رہنمائی کرے گا۔

باپ نے کہا اے بیٹے محض اس باطل خیا ل کی وجہ سے نصیحت کرنے والوں کی تربیت سے روگردانی نہ کرنی چاہیے۔اور علماء کو گمراہی کی طرف منسوب کرنا اور معصوم عالم کی تلاش میں علم کے فوائد سے محروم رہنا اس اندھے کی طرح ہے کہ جو ایک رات کیچڑ میں پھنس گیا تھا۔اور کہہ رہا تھا۔ اے مسلمانوں !میرے راستہ میں ایک چراغ رکھ دو ۔ایک خوش مزاح عورت نےسنا اور کہا ۔جب تجھے چراغ ہی نظر نہیں آتا تو چراغ سے کیا دیکھے گا؟ اسی طرح وعظ کی مجلس بزّاز کی دکان کی طرح ہے۔وہاں جب تک نقد نہ دوگے سامان نہیں لے سکتے ہو ۔اور اس مجلسِ وعظ میں جب تک عقیدت سے نہ آؤگے کوئی نیک بختی نہ حاصل کرسکو گے ۔عالم کی بات دل سے سنو اگرچہ اس کا عمل قول کی مانند نہ ہو ۔

مَرْدبَایَدْ کِہْ گِیْرَدْاَنْدَرْگُوْش

گَرْنَوِشْت اَسْت پَنْدبَرْدِیْوَار

ترجمہ :۔انسان کو چاہیے کہ کان میں ڈال لے اگرچہ نصیحت دیوار پر لکھی ہو۔

ایک صاحب دل درویشوں کی صحبت کے عہد کو توڑ کر خانقاہ سے مدرسہ میں آگیا۔میں نے دریافت کیا عالم اور عابد میں کیا فرق ہے کہ تم نے اس فریق کو چھوڑ کر اس فریق کو پسند کیا۔ اس نے کہا وہ اپنی گدڑی موج سے بچا کر لے جاتاہے اور یہ کوشش کرتاہے کہ ڈوبنے والے کی دستگیری کرے ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button