متفرق شعراء

سوا صدی سے ہماری فطرت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

(اطہر حفیظ فرؔاز)

خدا کے پیاروں سےاس کی رحمت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی،
ہماری اس سے دلی محبت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

اسی خدا نے پرند بھیجے، جو کنکروں کو گرا رہے تھے،
خدا تعالیٰ کی خاص نصرت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

تمہارے چہرے ڈراؤنے ہیں، تمہارے مقصد گھناؤنے ہیں،
مگر ہماری بلند ہمت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

اگر گراؤ گے مسجدوں کو، تو کھنڈروں میں پڑھیں نمازیں،
خدا کے بندوں سے اس کی قربت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

اگر یہ نام و نشاں مٹانے کے فیصلے تم کیے ہوئے ہو،
تو جان لو کہ ہماری شہرت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

ہمیں نے دنیا میں دین احمد کا نام روشن کیا ہوا ہے،
ہماری کوشش، ہماری قسمت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

ہمیں نے صبر و قرار سے ہی خدا کی مرضی کو پا لیا ہے،
سوا صدی سے ہماری فطرت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

تمہیں نے کانٹے بچھا دیے تھے، تمہیں نے پہرے بڑھا دیے تھے،
ہمارے اوپر خدا کی نعمت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

ہمیں خلافت کی رہبری میں جو لعل موتی ملے ہوئے ہیں،
یہ بیش قیمت ہے ایک دولت، نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

فراز !! ہم نے کیے ہیں وعدے کہ جان تک سب ہی وار دیں گے،
ہماری الفت، ہماری چاہت نہ چھن سکی ہے، نہ چھن سکے گی

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button