اداریہ

اداریہ: رمضان المبارک میں مالی عبادات کی فضیلت (رمضان میں نبی اکرمﷺ کی سخاوت کا مقابلہ تیز ہوا نہ کرپاتی)

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

رمضان، اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ اس میں مسلمانوں کو خاص طور پر روزہ، عبادت، صدقہ و خیرات اور تلاوت قرآن کریم کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور نجات کے دروازے کھول دیتا ہے۔روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے جو ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر رمضان کے مہینے میں فرض کیا گیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا ذکر قرآن مجید اور حدیث شریف میں موجود ہے، جو اس عبادت کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ (البقرۃ: ۱۸۴)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزے کو فرض قرار دیا ہے تاکہ مسلمان تقویٰ اختیار کریں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ (صحیح بخاری) روزے کی فرضیت کے پیچھے بہت سی حکمتیں اور فوائد ہیں۔ روزہ نہ صرف جسمانی طہارت اور صحت کا ذریعہ ہے بلکہ یہ روحانی پاکیزگی اور خود احتسابی کا بھی سبب بنتا ہے۔

روزے کی فرضیت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف راغب کرتی ہے اور انہیں تقویٰ کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے جس میں وہ اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط اور اپنی روحانی اور اخلاقی حالت کو بہتر بناسکیں۔سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت میں روزے کی فرضیت کے ساتھ ساتھ اس کے مقصد کو بھی واضح کیا گیا ہے جو کہ تقویٰ یعنی اللہ کے حکموں کی پیروی اور گناہوں سے بچنے کی صلاحیت ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)روزہ صرف بھوک اور پیاس کی حالت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی عبادت ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔ روزہ دار کے لیے نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی پاکیزگی حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں ایمان والے اپنے فرائض کی ادائیگی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مغفرت کے طلبگار ہوتے ہیں۔

روزے کی فضیلت میں ایک اَور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو صبر، شکر اور اپنے نفس پر قابو پانے کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ نادار اور غریبوں کی بھوک اور پیاس کا احساس دلاتا ہے اور انہیں بہتر طور پر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے حقوق العباد کو ادا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔

اس مہینے کی ایک بڑی فضیلت قرآن مجید کا نزول بھی بیان کی جاتی ہے جو انسانیت کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو رمضان کے مہینے میں نازل فرمایا، یا رمضان کے بارے میں قرآن کریم میں تعلیمات نازل فرمائیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔‘‘(البقرۃ: ۱۸۶)

رمضان اور نزولِ قرآن کا باہمی تعلق اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان قرآنِ حکیم میں موجود ہدایت کی روشنی میں اپنی زندگی کو سنوارے اور سیدھے راستے پر چلے۔ رمضان کے مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی خصوصی ترغیب بھی دی جاتی ہے اسی لیے رمضان کے دوران مسلمان قرآن مجید کی تلاوت میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ نمازِ تہجد اور تراویح نیز دن کے ہر حصے میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔ یہ مہینہ مومنین کو قرآن مجید کے ساتھ ایک پختہ تعلق قائم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو ان کی روحانی ترقی، اخلاقی اور تعلیم و تربیت بہتری کا ذریعہ بنتا ہے۔

یہ مہینہ مسلمانوں کے لیے عبادت، روحانی ترقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی بجاآوری کا بھی خاص ذریعہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کی اہمیت اور فضیلت کو قرآن مجید اور حدیث شریف میں بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک اور ایسی مالی عبادت ہے جو ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔ اس کا مقصد زکوٰۃ دینے والے کے مال کو پاکیزہ کرنا اور معاشرتی انصاف اور مساوات کو فروغ دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: ’’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘(البقرۃ:۴۴)اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری میں زکوٰۃ کی ادائیگی سے نہ صرف مال میں برکت آتی ہے بلکہ یہ معاشرے کے غریب اور محتاج افراد کی مدد کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ دوسری جانب صدقہ کو، جب یہ زکوٰۃ کے معنوں میں استعمال نہ ہو، فرض عبادت قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا جانے والا ایسا مال ہے جو کسی بھی ضرورت مند کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کبھی بھی دیا جاسکتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں صدقہ دینے کی فضیلت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو رمضان میں دیا جائے۔‘‘(جامع ترمذی)۔رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس مہینے میں کیے گئے نیک اعمال کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس مہینے میں مسلمانوں کو اپنے مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی خصوصی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ جہاں وہ اپنی عبادات کو خوبصورتی سے بجا لاتے ہوئے حقوق اللہ ادا کریں وہاں اپنے مال سے معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد کرتے ہوئے حقوق العباد بھی بہترین طریق سے ادا کر سکیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی معمول کی زندگی میں کثرت سے صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔ کوئی سوالی حضورؐ کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ ایک مرتبہ فرمایا: مجھے اس بات کی کوئی خوشی نہیں کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسری رات مجھ پر اس حال میں گزرے کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس بچا رہے، سوائے اس کے جو قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں، مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کے بندوں میں وہ مال تقسیم کر دوں۔(صحیح بخاری) چنانچہ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکتے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان میں نبی اکرمﷺ کی سخاوت کا مقابلہ تیز ہوا نہ کر پاتی۔ (صحیح بخاری)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق، غلامِ احمد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی غریب پروری میں اپنی مثال آپ رکھتے تھے۔ ’’قادیان کے قریب سٹھیالی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو قادیان سے قریباً چھ میل کے فاصلے پر ہوگا وہاں سے ایک جٹ فقیر آیا کرتا تھا …وہ مسجدمبارک کی چھت کے نیچے آکر کھڑکی کے پاس آواز لگایا کرتا تھا۔ جو بیت الفکر کی مغربی دیوار میں ہے۔ اس کی آواز یہ ہوتی تھی۔ ’’غلام احمد!۱یک روپیہ لینا ہے۔‘‘ یعنی اے غلام احمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام)! روپیہ لینا ہے۔ اور وہاں بیٹھ جاتا۔ حضرت صاحب کسی کام میں بعض اوقات مصروف ہوتے اور آپ کی توجہ اس میں ہوتی اور آپ اس کی آواز کو نہ سن سکتے تو وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد آوازیں لگاتا۔ اکثر لوگوں کو ناگوار معلوم ہوتا اور کوئی اسے ٹوکتا تو اسے کہہ دیتا کہ میں تمہارے پاس آیا ہوں ؟ میں تو غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے مانگتا ہوں۔ حضرت اقدس کو اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ کسی نے اسے کچھ کہا ہے تو آپ نا پسند فرماتے اور ہنستے ہوئے اس کو روپیہ دے دیا کرتے اور یہ بھی آپ کا معمول تھا کہ سائل کوزیادہ دیر انتظار میں نہ رکھتے تھے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ ۲۹۲ از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں فرض اور نفل عبادات کے ساتھ فرض اور نفل مالی عبادات بھی بجا لائیں، رمضان کی تمام برکات سے مستفید ہو ں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے عظام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس مہینے سے کماحقہ فائدہ اٹھانے والے بنیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button