اداریہ

اداریہ: رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت

(حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔ مدیر اعلیٰ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

’’ہمیں چاہئے کہ خاص توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ دن گزاریں، دعاؤں میں لگ جائیں اور اپنی دنیا وآخرت سنوارنے والے بن جائیں۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)

آج کل ہم رمضان کے بابرکت مہینے سے گزر رہے ہیں۔ سارا سال رمضان کا انتظار رہتا ہے اور جب یہ آتا ہے تو انسان خیال کرتا ہے کہ ہمارے پاس پورا مہینہ ہے، تیس دن ہیں اس میں تلاوتِ قرآنِ کریم کرنے، نوافل ادا کرنے، تہجد ادا کرنے، اپنے نفس کو قابو میں رکھنے، صدقات و خیرات کرنے، نیکیاں کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا خوب موقع ملے گا۔ لیکن یہ مہینہ ایسے گزر جاتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا۔ ایک دو روز میں اس رمضان کا بھی آخری عشرہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ جو لوگ رمضان کے آغاز میں عبادات بجا لانے اور نیکیاں کرنے پر کمربستہ دکھائی دیتے تھے ان میں سے بعض تو اپنے نیک ارادوں پر پورے اترے ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جن سے کسی وجہ سے سستی ہو گئی ہو گی اور اب انہیں یہ احساس ہونے لگا ہو گا کہ رمضان تو قریباً گزر بھی گیا اور ہم تو گویا کچھ بھی نہیں کر سکے۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ Time and tide wait for none یعنی وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔لیکن ایک مومن اپنی ماضی کی کمیوں، کوتاہیوں سے پریشان نہیں ہوتا بلکہ اُن سے سبق سیکھتا ہوا ہر آنے والے دن کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ جو وقت گزر گیا سو گزر گیا لیکن جب تک سانس باقی ہے ہم جس طرح نیکیاں کر سکتے ہیں، برائیوں سے توبہ کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کر سکتےہیں اسی طرح جب تک رمضان باقی ہے ہم گزرے روزوں کی کمیاں آئندہ ایام میں پوری کر سکتے ہیں۔ حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’جن کو اس رمضان کے گزرے ہوئے دنوں میں دعاؤں کا موقع ملا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے، اس کی رضا کی راہوں پر چلنے کا موقع ملا ہے یا جن کو اپنی شامت اعمال کی وجہ سے گزرے ہوئے دنوں کی برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت دل میں پیدا کرتے ہوئے ان آخری دنوں کی برکات سے فیض اٹھاتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان بقیہ دنوں کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ دن جو ہیں ان کو دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍نومبر۲۰۰۵ء)

ہمارے لیے ایک تسلّی بخش امر یہ بھی ہے کہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی اور اگرچہ رمضان کے دو عشرے گزر چکے ہیں، آخری عشرہ ابھی باقی ہے۔ یوں تو رمضان کا ہر روزہ، ہر عشرہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت کو الگ سے بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لئے اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہ آتی تھی۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الاعتکاف۔ باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من شہر رمضان)

…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے، اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر۔ باب فضل لیلۃ القدر) (خطبہ جمعہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍نومبر۲۰۰۵ء)

آخری عشرے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُشَدَّ الْمِئْزَرَہُ وَ أَحْيَا لَیْلَہُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ۔(صحيح بخاری كتاب فضل لیلۃ القدر باب العمل فی العشر الاواخر من رمضان)یعنی جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمرکس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت عائشہؓ کی مذکورہ روایت کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’غور کرو یہ کیا الفاظ ہیں؟ کس نے کمر کس لی؟ اُس نے جس کی تمام راتیں جاگتے اور دن عبادات میں گزرتا تھا اور ہر ایک گھڑی خدا کی یاد میں بسر ہوئی ہوتی تھی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ جن کے تعلق اور وابستگی کی یہ کیفیت تھی ان کے متعلق عائشہ ؓکہتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کمر کس لیتے تھے۔ اس بات کو عائشہ صدیقہ ؓ ہی سمجھ سکتی تھیں اور کسی کے لئے اس کی حقیقت سمجھنا آسان نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کمر کھولتے ہی نہ تھے اور آپؐ فرماتے کہ جب مَیں سوتا ہوں تو درحقیقت اس وقت بھی جاگ ہی رہا ہوتا ہوں۔ چنانچہ فرمایا۔ میری آنکھیں سوتی ہیں مگر دل جاگتا ہے۔( بخاری کتاب المناقب باب کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم تنام عَیْنٰہٗ وَ لَا ینام قلبُہٗ)

پس جب آپؐ بستر پر جاتے ہیں اُس وقت بھی آپ کی کمر نہیں کھلتی تو اور کس وقت کھولتے تھے۔ درحقیقت یہ قول ایک بہت بڑے معنی رکھتا ہے جو قیاس میں بھی نہیں آسکتے اور ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے آپ کی صحبت اُٹھائی ہو۔ بعد میں آنے والے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری عشرہ میں راتوں کو جاگتے اور رشتہ داروں کو جگاتے اور خود کمرکَس لیتے تھے۔ یعنی جن کی کمر ہر وقت کسی رہتی تھی وہ بھی کس لیتے تھے۔ اس سے سمجھ لو کہ جن کی کمر ہمیشہ ڈھیلی رہتی ہے ان کے لئے رمضان میں کس قدر توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍جون ۱۹۱۹ءمطبوعہ الفضل۲۸؍جون۱۹۱۹ء) ’’پس ہمارے سامنے یہ اُسوہ ہے۔ ان بقایا دنوں میں ہمیں چاہئے کہ خاص توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ دن گزاریں، دعاؤں میں لگ جائیں اور اپنی دنیا وآخرت سنوارنے والے بن جائیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍نومبر۲۰۰۵ء)

آخری عشرے کی ایک فضیلت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس میں انسان جہنم سے نجات حاصل کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیںنصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ان چنددنوں کے بارے میں خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں۔ گناہ گار سے گناہگار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپ کو آگ سے بچانے والا ہو گا۔ پس یہ گناہگار سے گناہگار شخص کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے سامان کر لو۔

آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے۔ تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ہوا و ہوس کی جہنم سے بھی ہمیں نجات دے۔ ہماری دعائیں قبول فرمائے، ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے ہمیں اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍نومبر۲۰۰۵ءصفحہ۶) ؎

آخری عشرے کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے دوران مومنین سنتِ نبویؐ کی پیروی میں اعتکاف کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے،یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی ازواج مطہراتؓ نے بھی اعتکاف کیا۔‘‘(متفق علیہ)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘(متفق علیہ)حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ نے مجھے مسجد میں وہ جگہ دکھائی جہاں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔’’(مسلم)

آخری عشرے کی ایک اور فضیلت اس کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کا ہونا بھی ہے۔ لیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے گویا اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار رات کی عبادات سے افضل ہے۔

الغرض ہم اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ہم نے ایک اور رمضان کو پایا اور ابھی بھی اس مبارک مہینے کا پورا عشرہ باقی ہے جو مہینوں کے سردار یعنی رمضان کا بہترین عشرہ شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں اپنی کمرِہمت کستےہوئے اس عشرے کو عبادات و ریاضاتِ مسنونہ میں گزارنے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بجاآوری میں گزارنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button