سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کے ہنسنے مسکرانےاورمزاح کا بيان (حصہ سوم)

حضرت ڈاکٹر مير محمد اسمٰعيل صاحبؓ نے بيان کيا :

“بعض اوقات حضور عليہ السلام کسي ہنسي کي بات پر ہنستے تھے اور خوب ہنستے تھے۔يہاں تک مَيں نے ديکھا ہے کہ ہنسي کي وجہ سے آپ کي آنکھوں ميں پاني آ جاتا تھا۔جسے آپ انگلي يا کپڑے سے پونچھ ديتے تھے۔مگر آپؑ کبھي بيہودہ بات يا تمسخر يا استہزاء والي بات پر نہيں ہنستے تھے۔بلکہ اگر ايسي بات کوئي آپؑ کے سامنے کرتا تو منع کر ديتے تھے۔چنانچہ ميں نے ايک دفعہ ايک تمسخر کا نا مناسب فقرہ کسي سے کہا۔آپؑ پاس ہي چارپائي پر ليٹے تھے۔‘‘ ہُوں ہُوں ’’کرکے منع کرتے ہوئے اُٹھ بيٹھے اور فرمايا۔يہ گناہ کي بات ہے۔اگر حضرت صاحب نے منع نہ کيا ہوتا تو اس وقت مَيں وہ فقرہ بھي بيان کر ديتا۔

خاکسار (حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے۔ناقل) عرض کرتا ہے کہ اس روايت سے مجھے ايک بات ياد آگئي کہ ايک دفعہ جب مَيں ابھي بچہ تھا ہماري والدہ صاحبہ يعني حضرت ام المومنين نے مجھ سے مزاح کے رنگ ميں بعض پنجابي الفاظ بتا بتا کر ان کے اردو مترادف پوچھنے شروع کيے۔اس وقت مَيں يہ سمجھتا تھا کہ شايد حرکت کے لمبا کرنے سے ايک پنجابي لفظ اردو بن جاتا ہے۔اس خود ساختہ اصول کے ماتحت مَيں جب اُوٹ پٹانگ جواب ديتا تھا تو والدہ صاحبہ بہت ہنستي تھيں اور حضرت صاحبؑ بھي پاس کھڑے ہوئے ہنستے جاتے تھے۔اسي طرح حضرت صاحبؑ نے بھي مجھ سے ايک دو پنجابي الفاظ بتا کر ان کي اردو پوچھي اور پھر ميرے جواب پر بہت ہنسے۔چنانچہ مجھے ياد ہے کہ اس وقت مَيں نے “کتّا” کي اردو “کُوتا”بتايا تھا۔اور اس پر حضرت صاحبؑ بہت ہنسے تھے۔”

(سيرت المہدي جلد اوّل روايت نمبر588)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان فرماتے ہيں :

“ڈاکٹرغلام احمد صاحب۔آئي۔ايم۔ايس نے بذريعہ تحرير مجھ سے بيان کياکہ ميرے والد شيخ نياز محمد صاحب انسپکٹر پوليس سندھ بيان فرماتے ہيں کہ ايک دن جبکہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نماز کے بعد اندر تشريف لے جا رہے تھے تو مَيں نے ايک کپڑا حضرت صاحبؑ کو ديا۔جو کہ حضرت ام المومنين کے ليے تھا۔حضور نے ميري طرف چنداں توجہ نہ کي اور نہ ہي نظر اُٹھا کر ديکھا کہ کس نے ديا ہے۔اس کے بعد ايک دن ميري والدہ صاحبہ نے مجھ سے ذکر کياکہ ايک دفعہ حضرت اُمّ المومنين نے ان سے فرمايا کہ ايک دن حضرت صاحب ہنستے ہوئے اندر تشريف لائے اور ايک کپڑا مجھے دے کر فرماياکہ معلوم ہے يہ کپڑا تمہيں کس نے ديا ہے؟ پھر فرمايا۔يہ اسي کے بيٹے نے ديا ہے جس نے تمہارے ٹرنک ليکھرام کي تلاشي کے وقت توڑے تھے۔

خاکسار عرض کرتا ہے۔کہ شيخ نياز محمد صاحب مياں محمد بخش کے لڑکے ہيں۔جو حضرت صاحب کے زمانہ ميں کئي سال تک بٹالہ ميں تھا نہ دار رہے تھے۔اور سخت مخالف تھے۔حضرت صاحب کو اس خيال سے کس قدر رُوحاني سرور حاصل ہوا ہو گا۔کہ اللہ تعاليٰ کس طرح مخالفين کي اولاد کو پکڑ پکڑ کر حضور کے قدموں ميں گرا رہا ہے۔”

(سيرت المہدي جلد اوّل روايت نمبر632)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے سے روايت ہے:

“مفتي فضل الرحمٰن صاحب نے بواسطہ مولوي عبدالرحمٰن صاحب مبشر بذريعہ تحرير بيان کيا کہ ايک دفعہ دورانِ مقدمہ گورداسپور ميں رات کے دو بجے کے قريب مَيں اپنے کمرہ ميں سويا ہوا تھا کہ کسي نے ميرا پاؤں دبايا۔مَيں فوراً جاگ اُٹھا۔اندھيرا تھا۔مَيں نے پوچھاکون ہے؟ تو حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے فرمايا۔مياں فضل الرحمٰن! مولوي يار محمد صاحب ابھي قاديان سے آئے ہيں ۔وہ بتلاتے ہيں ۔کہ والدہ محمود احمد بہت بيمار ہيں ۔مَيں خط لکھتا ہوں ۔آپ جلدي گھوڑا تيار کريں اور ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب لائيں ۔چنانچہ مَيں نے اُٹھ کر کپڑے پہنے۔اور گھوڑے کو دانہ ديا۔اور حضور عليہ السَّلام اپنے کمرہ ميں خط لکھتے رہے۔جب مَيں گھوڑا تيار کر چکا۔تو مولوي عبدالکريم صاحب مرحوم نے صبح کي اذان کہي۔اور مَيں خط ليکر گھوڑے پر سوار ہو گيا۔اور فوراً قاديان پہنچا۔يہاں اس وقت چھوٹي مسجد ميں نمازِ صبح پڑھي جا رہي تھي۔مَيں نے گھر پر فوراً دستک دي اور لفافہ ام المومنين عليہا السلام کے ہاتھ ميں ديا اور عرض کيا کہ مولوي يار محمد صاحب نے وہاں جا کر آپ کي علالت کا ذکر کيا تو حضور نے مجھے فوراً روانہ کيا۔انہوں نے کہا کہ الحمدللہ مَيں تو اچھي بھلي ہوں ۔ان کو کوئي غلطي لگي ہو گي۔مَيں نے عرض کيا کہ لفافہ ميں سے خط آپ نکال ليں اور لفافہ پر مجھے اپنے قلم سے خيريت لکھ ديں ۔چنانچہ آپ نے خيريت لکھ دي۔اور مَيں ليکر فوراً واپس ہوا۔جب ميں گورداسپور پہنچا۔تو گھوڑا باندھ کر خط ليکر اندر گيا۔تو مولوي عبدالکريم صاحب مرحوم نے فرضوں سے سلام پھيرا تھا۔مَيں نے السَّلام عليکم کہا۔تو حضور اقدس نے فرمايا۔کہ کيا آپ ابھي يہيں ہيں۔ مَيں نے عرض کيا۔کہ حضور مَيں تو جواب بھي لے آيا ہوں ۔فرمايا۔يہ کيسے ممکن ہے۔مَيں نے رسيد پيش کي۔تو حضرت اقدس اس امر پر تمام دن ہنستے اور متعجب ہوتے رہے۔”(سيرت المہدي جلد اوّل روايت نمبر 649)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان کرتے ہيں :

“مياں محمد عبدالرحمٰن صاحب مسکين فريد آبادي (برادر اکبر ماسٹر احمد حسين صاحب فريد آبادي)نے بواسطہ مولوي عبدالرحمٰن صاحب مبشر بذريعہ تحرير بيان کيا۔کہ 1901ء ميں ايک مرتبہ جبکہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي مجلس مسجد مبارک ميں تھي۔ميں نے شيخ يعقوب علي صاحب عرفاني کي فرمائش پر حضرت صاحب کي خدمت ميں وہ نظم پڑھي جو کہ مَيں نے صداقت مسيح موعود عليہ السَّلام کے بارہ ميں لکھي تھي۔جس کے دو اشعار نمونتاً درج ہيں ۔

مثيلِ مسيح نے جو دعويٰ پکارا

صليبِ نصاريٰ کيا پارا پارا

غلامانِ احمد کو آيا فرارا

گروہ پادري بس ہوا ہارا ہارا

ان اشعار کو سُن کر حضرت اقدس بہت محظوظ ہوئے اور حضور عليہ السلام نے منہ پر رومال رکھ کر بمشکل ہنسي کو روکا۔اسي طرح حضرت مولوي نورالدين صاحب و مولوي عبدالکريم صاحب اور نواب محمد علي خانصاحب بھي بہت ہي ہنسے اور خوش ہوئے۔اسي خوشي ميں مجھ کو تين کتابيں … بطور انعام عنايت فرمائيں …

خاکسار عرض کرتا ہے …کہ مياں عبدالرحمٰن بيچارے شعر کے وزن و قوافي سے واقف نہيں تھے۔اس ليے بعض اوقات ان حدود سے متجاوز ہو جاتے تھے۔اور الفاظ بھي عجيب عجيب قسم کے لے آتے تھے اس ليے مجلس ميں ہنسي کي کيفيت پيدا ہو گئي ہو گي۔مگر بہرحال بہت مخلص تھے۔اسي غزل کا آخري شعر يہ تھا کہ

نوابَين نے جب کہ مجھ کو پکارا

گيا افراتفري ميں مضموں ہمارا

اور اس کي تفصيل يہ ہے کہ جب مياں عبدالرحمٰن صاحب يہ غزل لکھ رہے تھے تو نواب صاحب کے دو صاحبزادوں نے انہيں کسي کام کے ليے پے در پے آواز دي۔اور اس گھبراہٹ ميں ان کا مضمون اور شعر دماغ ميں منتشر ہو کر رہ گئے۔مياں عبدالرحمٰن صاحب نواب صاحب کے ہاں نوکر تھے۔”

(سيرت المہدي جلد اوّل روايت نمبر731)

حضرت منشي ظفر احمد صاحبؓ کپور تھلوي نے بيان کيا :

“اوائل ميں جب مَيں قاديان جاتا تو اس کمرے ميں ٹھہرتا تھا۔جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور جس ميں سے ہو کر حضرت صاحب مسجد ميں تشريف لے جاتے تھے ايک دفعہ ايک مولوي جو ذي علم شخص تھا۔قاديان آيا۔بارہ نمبردار اس کے ساتھ تھے۔وہ مناظرہ وغيرہ نہيں کرتا تھا بلکہ صرف حالات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ايک مرتبہ رات کو تنہائي ميں وہ ميرے پاس اس کمرہ ميں آيا۔ اور کہا کہ ايک بات مجھے بتائيں کہ مرزا صاحب کي عربي تصانيف ايسي ہيں کہ ان جيسي کوئي فصيح بليغ عبارت نہيں لکھ سکتا۔ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہوں گے۔اور وہ وقت رات کا ہي ہو سکتا ہے تو کيا رات کو کچھ آدمي ايسے آپ کے پاس رہتے ہيں جو اس کام ميں مدد ديتے ہوں ۔ مَيں نے کہا مولوي محمد چراغ اور مولوي معين الدين ضرور آپؑ کے پاس رات کو رہتے ہيں ۔يہ علماء رات کو ضرور امداد کرتے ہيں ۔حضرت صاحب کو ميري يہ آواز پہنچ گئي۔اور حضور اندر بہت ہنسے۔حتّٰي کہ مجھ تک آپؑ کي ہنسي کي آواز آئي۔اس کے بعد مولوي مذکور اُٹھ کر چلا گيا۔اگلے روز جب مسجد ميں بعد عصر حسب معمول حضور بيٹھے تو وہ مولوي بھي موجود تھا۔حضور ميري طرف ديکھ کر خودبخود ہي مسکرائے اور ہنستے ہوئے فرمايا کہ‘‘اُن علماء کو اِنہيں دکھلا بھي تو دو”اور پھر ہنسنے لگے۔اس وقت مولوي عبدالکريم صاحب کو بھي رات کا واقعہ حضور نے سنايا اور وہ بھي ہنسنے لگے۔ميں نے چراغ اور معين الدين کو بلا کر مولوي صاحب کے سامنے کھڑا کر ديا۔چراغ ايک بافندہ اَن پڑھ حضرت صاحبؑ کا نوکر تھا۔اور معين الدين صاحب ان پڑھ نابينا تھے۔جو حضرت صاحب کے پَير دبايا کرتے تھے۔وہ شخص ان دونوں کو ديکھ کر چلا گيا۔اور ايک بڑے تھال ميں شيريني لے کر آيا اور حضور سے عرض کيا کہ مجھے بيعت فرما ليں ۔اب کوئي شک و شبہ ميرے دل ميں نہيں رہا۔اور اس کے بارہ ساتھي بھي اس کے ساتھ ہي بيعت ہو گئے۔حضرت صاحبؑ نے بيعت اور دعا کے بعد ان مولوي صاحب کو مسکراتے ہوئے فرمايا۔ کہ يہ مٹھائي منشي صاحب کے آگے رکھ دو کيونکہ وہي آپ کي ہدايت کا باعث ہوئے ہيں ۔”

(سيرت المہدي جلد اوّل روايت نمبر777)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان کرتے ہيں :

“مير شفيع احمد صاحب محقق دہلوي نے مجھ سے بذريعہ تحرير بيان کيا کہ ايک مرتبہ ايک عرب حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے پاس بيٹھا ہوا افريقہ کے بندروں کے اور افريقن لوگوں کے لغو قصے سنانے لگا۔حضرت صاحب بيٹھے ہوئے ہنستے رہے۔آپؑ نہ تو کبيدہ خاطر ہوئے اور نہ ہي اس کو ان لغو قصوں کے بيان کرنے سے روکا کہ ميرا وقت ضائع ہو رہا ہے۔بلکہ اس کي دلجوئي کے ليے اخير وقت تک خندہ پيشاني سے سنتے رہے۔”

(سيرت المہدي جلد اوّل روايت نمبر790)

حضرت  منشي ظفر احمد صاحبؓ کپور تھلوي نے بيان کيا:۔

“لدھيانہ کا واقعہ ہے کہ ايک شخص جو بظاہر فاتر العقل معلوم ہوتا تھا۔حضرت مسيح موعودعليہ السلام کے پاس خاکي وردي اور بوٹ پہنے ہوئے آيااور سر پر کلاہ اور پگڑي تھي۔وہ آکر حضرت صاحب کے سامنے جھک گيا۔سر زمين سے لگا ديا۔حضور نے اس کي کمر پر تين تھاپياں ماريں اور وہ اٹھ کر ہنستا ہوا چلا گيا۔مولوي عبدالکريم صاحب نے دريافت بھي کيا مگر حضور مسکراتے رہے اور کچھ نہ بتايا۔”

(سيرت المہدي جلددوم روايت نمبر1085)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان کرتے ہيں :

“اہليہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب (مہر سنگھ)بي اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قاديان بذريعہ تحرير بيان کيا کہ ايک دفعہ ميں نے خواب ميں ديکھا کہ ميرے لڑکا پيدا ہوا اور فاطمہ اہليہ مولوي محمد علي صاحب پوچھتي ہيں‘‘بشريٰ کي اماں ! لڑکے کا نام کيا رکھا ہے!’’ اتنے ميں دائيں طرف سے آواز آتي ہے کہ “نذير احمد”۔ميرے خاوند نے يہ خواب حضرت اقدسؑ کو سناديا۔جب ميرے ہاں لڑکا پيد اہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضورؑ نے فرمايا کہ‘‘وہي نام رکھوجوخدا نے دکھايا ہے۔”جب ميں چلّہ نہا کر گئي تو حضورؑ کو سلام کيا اور دعا کے ليے عرض کي۔آپؑ نے فرمايا۔‘‘انشاء اللہ”پھر حضورعليہ السلام ہنس پڑے اور فرمايا۔‘‘ايک نذير دنيا ميں آنے سے تو دنيا ميں آگ برس رہي ہے اور اب ايک اَور آگيا ہے”

 (سيرت المہدي جلد دوم روايت نمبر1326)

……………………………………………………………(باقي آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button