سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کے ہنسنے مسکرانےاورمزاح کا بيان (حصہ دوم)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان فرماتے ہيں :

“بيان کيا مجھ سے مياں عبداللہ صاحب سنوري نے کہ مولوي محمد حسين بٹالوي کے لدھيانہ والے مباحثہ ميں مَيں موجود تھا۔حضرت صاحب الگ اپنے خادموں ميں بيٹھ جاتے تھے اور مولوي محمد حسين الگ اپنے آدميوں ميں بيٹھ جاتا تھا اور پھر تحريري مباحثہ ہوتا تھا۔ميں نے دوران ِ مباحثہ ميں کبھي حضرت صاحب اور مولوي محمد حسين کو آپس ميں زباني گفتگو کر تے نہيں سنا۔ان دنوں ميں لدھيانہ ميں بڑا شور تھا۔مولوي محمد حسين کے ملنے والوں ميں ايک مولوي نظام الدين صاحب ہوتے تھے جو کئي حج کر چکے تھے۔اور طبيعت ظريف رکھتے تھے وہ ايک دفعہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے خلاف ِ قرآن شريف وفات مسيح کا يہ کيا عقيدہ نکالا ہے۔حضرت صاحب نے فرمايا کہ‘‘ميں نے قرآن شريف کے خلاف کچھ نہيں کہا۔بلکہ ميں تو اب بھي تيار ہوں کہ اگر کوئي شخص قرآن سے حيات مسيح ثابت کر دے۔تو فوراً اپنے عقيدہ سے رجوع کر لوں گا۔مولوي نظام الدين نے خوش ہو کر کہا کہ کيا واقعي آپؑ قرآن شريف کي آيات کے سامنے اپنے خيالات کو ترک کر ديں گے ؟ حضرت صاحب نے کہا۔ہاں ميں ضرور ايسا کروں گا۔مولوي نظام الدين نے کہا۔اچھا پھر کيا ہے۔ميں ابھي مولوي محمد حسين کے پاس جاتا ہوں۔اور پچاس آيتيں قرآن کريم کي حيات مسيح کے ثبوت ميں لکھوا لاتا ہوں ۔حضرت صاحب نے فرمايا پچاس کي ضرورت نہيں ۔ميں تو اگر ايک آيت بھي نکل آئے گي تو مان لوں گا۔اس پر مولوي نظام الدين خوشي خوشي اٹھ کر چلے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد سر نيچے ڈالے واپس آئے۔حضرت صاحب نے فرمايا کيوں مولوي صاحب آپ آيتيں لے آئے۔مولوي صاحب نے کہا کہ ميں نے مولوي محمد حسين صاحب سے جاکر يہ کہا تھا کہ مولوي صاحب !ميں نے مرزا صاحب کو بالکل قابو کر ليا ہے اور يہ اقرار کر وا ليا ہے کہ اگر ميں قرآن کر يم کي ايک آيت بھي ايسي پيش کر دوں جس ميں حيات مسيح  ؑثابت ہو تو وہ مان ليں گے اور اپنے عقائد سے توبہ کر ليں گے۔مگر ميں نے انہيں کہا تھا کہ ايک آيت کيا ميں پچاس آيتيں لاتا ہوں۔سو آپ جلد آيتيں نکال ديں تا ميں ابھي ان کے پاس جا کر اُن سے توبہ کر الوں ۔اس پر مولوي صاحب نے سخت برہم ہو کرکہا کہ اے اُلّو! تم نے يہ کيا کيا۔ہم تو اسے قرآن سے نکال کرحديثوں کي طرف لاتے ہيں اور تم اسے پھر قرآن کي طرف لے آئے۔ميں نے کہا کہ مولوي صاحب ! تو کيا قرآن ميں کو ئي آيت مسيح کي حيات ثابت نہيں کرتي ؟ مولوي صاحب نے کہا تم تو بے وقوف ہو۔اسے حديثوں کي طرف لانا تھا کيونکہ قرآن ميں اس کا ذکر نہيں ہے۔مولوي نظام الدين نے کہا کہ ميں نے کہا کہ ہم تو پھر قرآن کے ساتھ ہيں۔جب قرآن سے مسيح ؑکي وفات ثابت ہو تي ہے تو ہم اس کے مخالف حديثوں کو کيا کريں ۔اس پر مولوي صاحب نے مجھے گالياں ديني شروع کر ديں اور کہا کہ تو بے وقوف ہے تجھے سمجھ نہيں وغيرہ وغيرہ۔مياں عبداللہ صاحب کہتے ہيں کہ اس کے بعد مولوي نظام الدين صاحب نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر بيعت کر لي۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ پير سراج الحق صاحب نے اپني کتاب تذکرة المہدي حصہ اوّل ميں يہ واقعہ بيان کر کے يہ بات زائد بيان کي ہے کہ مولوي نظام الدين صاحب نے يہ بھي سنايا کہ جب ميں نے مولوي محمد حسين صاحب سے يہ کہا کہ ہم تو پھر قرآن کے ساتھ ہيں تو مولوي صاحب نے سخت برہم ہو کر اپنے ساتھيوں سے کہا کہ اس کي روٹي بند کر دو۔(پير صاحب لکھتے ہيں کہ مولوي نظا م الدين صاحب کو مولوي محمد حسين کي طرف سے روٹي ملا کرتي تھي) اس پر ميں نے ہاتھ باندھ کر مولوي محمد حسين سے (ظرافت کے طور پر)کہا کہ مولوي صاحب ميں قرآن کو چھوڑ ديتا ہوں۔ خدا کے واسطے ميري روٹي نہ بند کرنا۔اس پر مولوي محمد حسين صاحب سخت شرمندہ ہوئے۔

پير صاحب نے لکھا ہے کہ جب مولوي نظام الدين نے عملاً اسي طرح ہاتھ باندھ کر اس مکالمہ کو حضرت صاحب کے سامنے دہرايا تو حضرت صاحب بہت ہنسے اور پھر فرمانے لگے کہ ديکھو ان مولويوں کي حالت کہاں تک گر چکي ہے۔”

(سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر276)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان فرماتے ہيں :

“بيان کيا مجھ سے مولوي شير علي صاحب نے کہ ايک دفعہ مولوي محمد علي صاحب يہاں ڈھاب ميں کنارے پر نہانے لگے۔مگر پاوٴں پھسل گيا۔اور وہ گہرے پاني ميں چلے گئے۔اور پھر لگے ڈوبنے کيونکہ تيرنا نہيں آتا تھا۔کئي لوگ بچانے کے ليے پاني ميں کودے مگر جب کوئي شخص مولوي صاحب کے پاس جاتاتھا۔تو وہ اسے ايسا پکڑتے تھے کہ وہ خود بھي ڈوبنے لگتا تھا۔اس طرح مولوي صاحب نے کئي غوطے کھائے۔آخر شايد قاضي امير حسين صاحبؓ نے پاني ميں غوطے لگا لگا کر نيچے سے اُن کو کنارے کي طرف دھکيلا۔تب وہ باہر آئے۔جب مولوي صاحب حضرت صاحب ؑسے اس واقعہ کے بعد ملے تو آپؑ نے مسکراتے ہوئے فرمايا۔مولوي صاحب آپ گھڑے کے پاني سے ہي نہا ليا کريں ۔ڈھاب کي طرف نہ جائيں ۔”

 (سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر288)

حضرت مفتي محمد صادق صاحبؓ بيان فرماتے ہيں :

“ايک دفعہ جب ميں حضرت مسيح موعودؑ کي خدمت ميں حاضر تھا تو آپ کے کمرہ کا دروازہ زور سے کھٹکا اور سيد آل محمد صاحب امروہوي نے آواز دي کہ حضور ميں ايک نہايت عظيم الشان فتح کي خبر لا يا ہوں ۔حضرت صاحب نے مجھ سے فرمايا کہ آپ جاکر ان کي بات سن ليں کہ کيا خبر ہے۔ميں گيا اور سيد آل محمدصاحب سے دريافت کيا انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ مولوي سيد محمد احسن صاحب امروہوي کا فلاں مولوي سے مباحثہ ہوا تو مولوي صاحب نے اُسے بہت سخت شکست دي۔اور بڑا رگيدا۔اور وہ بہت ذليل ہوا وغيرہ وغيرہ۔اور مولوي صاحب نے مجھے حضر ت صاحب کے پاس روانہ کيا ہے کہ جاکر اس عظيم الشان فتح کي خبر دوں۔مفتي صاحب نے بيان کيا کہ ميں نے واپس آکر حضرت صاحب کے سامنے آل محمد صاحب کے الفاظ دہراديے۔حضرت صاحب ہنسے اور فرمايا۔(کہ ان کے اس طرح دروازہ کھٹکھٹانے اور فتح کا اعلان کرنے سے)“ميں سمجھا تھا کہ شايد يورپ مسلمان ہو گيا ہے”۔مفتي صاحب کہتے تھے کہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کو يورپ ميں اسلام قائم ہو جانے کا کتنا خيال تھا۔”

(سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر302)

حضرت پير سراج الحق صاحب نعماني ؓ نے بيان کيا:

“حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام عصر کي نماز کے وقت مسجد مبارک ميں تشريف لائے۔بائيں ہاتھ کي انگلي پر پٹي پاني ميں بھيگي ہوئي باندھي ہوئي تھي۔اس وقت مولوي عبدالکريم صاحب سيالکوٹي نے حضرت اقدس سے پوچھا کہ حضور نے يہ پٹي کيسے باندھي ہے؟ تب حضرت اقدس عليہ السَّلام نے ہنس کر فرمايا کہ ايک چوزہ ذبح کرنا تھا۔ہماري اُنگلي پر چُھري پھر گئي۔مولوي صاحب مرحوم بھي ہنسے اور عرض کيا کہ آپ نے ايسا کام کيوں کيا۔حضرت نے فرمايا۔کہ اس وقت اور کوئي نہ تھا۔”

(سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر307)

حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ ايم۔اے بيان کرتے ہيں :

“خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي زندگي ميں ہمارے گھر ميں ايک خادمہ عورت رہتي تھي جس کا نام مہرو تھا۔وہ بيچاري ايک گاوٴں کي رہنے والي تھي اور ان الفاظ کو نہ سمجھتي تھي جو ذرا زيادہ ترقي يا فتہ تمدن ميں مستعمل ہوتے ہيں چنانچہ ايک دفعہ حضرت صاحب نے اسے فر ماياکہ ايک خلال لاوٴ ، وہ جھٹ گئي اور ايک پتھر کا ادويہ کوٹنے والا کھرل اُٹھا لائي جسے ديکھ کر حضرت صاحب بہت ہنسے اور ہماري والدہ صاحبہ سے ہنستے ہوئے فرماياکہ ديکھو ميں نے اس سے خلال مانگا تھا اور يہ کيا لے آئي ہے۔اسي عورت کا ذکرہے کہ ايک دفعہ مياں غلام محمد کا تب امرت سري نے دروازہ پر دستک دي اور کہا کہ حضرت صاحب کي خدمت ميں عرض کروکہ کاتب آيا ہے۔يہ پيغام لے کر وہ حضرت صاحب کے پاس گئي اور کہنے لگي کہ حضور قاتل دروازے پر کھڑا ہے اور بلاتا ہے۔حضرت صاحب بہت ہنسے۔”

(سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر350)

حضرت ڈاکٹر مير محمد اسماعيل صاحبؓ نے بيان کيا:

“حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي زندگي کے آخري زمانہ ميں اکثر دفعہ احباب آپ کے ليے نيا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پيش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ ليتے تھے۔اسي طرح ايک دفعہ کسي نے ميرے ہا تھ ايک نيا کرتہ بھجواکر پرانے اترے ہوئے کرتے کي درخواست کي۔گھر ميں تلاش سے معلوم ہواکہ اس وقت کوئي اترا ہوا بے دھلاکرتہ موجود نہيں ۔جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبي کے ہا ں کا دھلا ہوا ديئے جانے کا حکم فرمايا۔ميں نے عرض کيا کہ يہ تو دھوبي کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر ميلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھي کيا برکت ہے جو دھوبي کے ہاں دھلنے سے جاتي رہے۔چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دے ديا گيا۔”

 (سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر377)

 حضرت پير سراج الحق صاحبؓ نے بيان فرمايا کہ

“ايک دفعہ قاديان ميں بہت سے دوست بيرون جات سے آئے ہوئے حضرت صاحب کي خدمت ميں حاضر تھے اور منجملہ ان کے حضرت خليفہ اوّل اور مولوي عبد الکريم صاحب اور مولوي محمد احسن صاحب اور منشي ظفر احمد صاحب اور محمدخان صاحب اور منشي محمد اروڑا صاحب اور مولوي عبد القادر صاحب اور خواجہ کمال الدين صاحب اور مولوي محمد علي صاحب اور شيخ غلام احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا يعقوب بيگ صاحب وغيرھم بھي تھے۔مجلس ميں اس بات کا ذکر شروع ہوا کہ اولياء کو مکاشفات ميں بہت کچھ حالات منکشف ہو جاتے ہيں ۔اس پر حضرت اقدس تقرير فرماتے رہے اور پھر فرمايا کہ آج ہميں دکھايا گيا ہے کہ ان حاضر الوقت لوگوں ميں بعض ہم سے پيٹھ ديئے ہوئے بيٹھے ہيں اور ہم سے رو گرداں ہيں۔يہ بات سُن کر سب لوگ ڈر گئے اور استغفار پڑھنے لگ گئے۔اور جب حضرت صاحبؑ اندر تشريف لے گئے تو سيّد فضل شاہ صاحب بہت گھبرائے ہوئے اٹھے اور ان کا چہرہ فق تھااور انہوں نے جلدي سے آپ کے دروازہ کي زنجير ہلائي۔حضرت صاحب واپس تشريف لائے اور دروازہ کھول کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔شاہ صاحب کيا بات ہے؟شاہ صاحب نے عرض کيا کہ ميں حضور کو حلف تو نہيں دے سکتا کہ ادب کي جگہ ہے اور نہ ميں اوروں کا حال دريافت کرتا ہوں۔صرف مجھے ميرا حال بتا ديجئے کہ ميں تو رو گردا ں لوگوں ميں سے نہيں ہوں؟  حضرت صاحب بہت ہنسے اور فرمايا۔نہيں شاہ صاحب آپ اُن ميں سے نہيں ہيں۔اور پھر ہنستے ہنستے دروازہ بند کر ليا۔اور شاہ صاحب کي جان ميں جان آئي۔”

(سيرت المہدي جلداوّل روايت نمبر417)

……………………………………………………………(باقي آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button