خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍جولائی 2019ء

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 12؍جولائی 2019ء بمطابق 12؍ وفا 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدمبارک،اسلام آباد۔ (ٹلفورڈ، سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷﴾

گذشتہ دنوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے آخری دن بتایا بھی تھا اس سال وہاں حاضری بھی چالیس ہزار سے اوپر تھی ۔ یہ ترقیات ہم ہر سال دیکھتے ہیں۔ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہمارے کاموں اور ہماری کوششوں سے بڑھ کر ہمیں دیتا ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں بڑھتے ہوئے اپنی طرف سے اپنی کوششوں کو مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے یہ فضل اور نوازشیں بڑھتی چلی جائیں۔

جلسے میں شامل ہونے والے سینکڑوں غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمانوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ایک غیرمعمولی ماحول اور اثر دیکھنے میں آیا ہے۔ اپنے تو اظہار کرتے ہی ہیں لیکن کس طرح تمام کارکن بچے بچیاں تک کام کرتے ہیں اور کس طرح اتنی بڑی تعداد میں لوگ بغیر کسی جھگڑے اور فساد کے رہتے ہیں۔ یہ غیروں کے نزدیک ایک عجیب غیر معمولی چیز ہے بلکہ بعض نے تو یہ اظہار کیا کہ یہ ایک معجزہ ہے۔ پس ہمارا جلسہ علاوہ ہماری اپنی تربیت کے تبلیغ کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے۔ پس یہ چیز ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی شکرگزاری میں بڑھتے چلے جائیں اور یہ ماحول ہمارے عارضی ماحول نہ ہوں بلکہ ہماری زندگیوں کا ہر لمحہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کوہمارے ہر عمل سے دکھانے والا ہو اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو ہر وقت پورا کرنے والے ہوں۔

عموماً مَیں جلسے کے بعد مہمانوں کے تاثرات اور جلسے کے بارے میں بعض باتوں کا ذکر کیا کرتا ہوں۔ آج مَیں وہ پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے میں کام کرنے والے کارکنوں اور کارکنات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے رات دن ایک کر کے جلسے کے انتظامات کو ہر لحاظ سے کامیاب کرنے کی کوشش کی اور اب وہاں وائنڈاپ (Wind-up)ہو رہا ہے تو یہ لوگ ابھی تک کام کر رہے ہیں۔

جیسا کہ اب یہاں بھی اور دنیا کی ہر بڑی اور منظّم جماعت میں دیکھنے میں آتا ہے کہ کارکن جلسے کے کاموںکے لیے اپنے ذاتی مفادات اور کام پسِ پشت ڈال کر صرف اور صرف جلسہ کے انتظامات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کے کام کے لیے اپنا ہر لمحہ وقف کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی کی جماعت بھی اخلاص و وفا میں بڑھی ہوئی جماعت ہے بلکہ بعض قربانیوں میں تو بعض جماعتوں سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ اگر کہیں کمی ہوتی ہے تو عہدیداروں کے کام کے طریق یا صحیح کام نہ لینے یا نہ کرنے میں کمی ہوتی ہے لیکن افرادِ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت قربانی کرنے والے ہیں۔جان ،مال، وقت قربان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔

اس دفعہ شاملین کی تعداد بڑھنے کے بعد انتظامیہ اور امیر صاحب کو بھی خیال آیا گو یہ خیال گذشتہ سال بھی آیا تھا اور میں بھی ان کو چند سالوں سے کہہ رہا تھا لیکن اس سال لگتا ہے کہ سنجیدہ ہوئے ہیں اور امیر صاحب اور مرکزی نیشنل عاملہ اور عہدیدار جو ہیں وہ زیادہ سنجیدہ ہیں کہ ہمارے پاس اپنی ایک بڑی جلسہ گاہ ہونی چاہیے۔ اس دفعہ ان کو پارکنگ وغیرہ کا بھی مسئلہ رہا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل بھی پیدا ہوئے اور ایک موقعے پرپھر لوگوں کو جلسہ گاہ میں آ کر پروگرام میں شامل ہونے میں بھی دقّت رہی۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جب رَش بھی زیادہ ہو اور انتظام میں ذرا سی کمی ہو جائے تو یہ ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ تھوڑی سی بدمزگی بھی ہوئی، یہ بھی قدرتی بات ہے ہونی تھی۔ لوگوں نے جو شامل نہیں ہو رہے تھے لیٹ ہو رہے تھے ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور ڈیوٹی والے کارکن بھی جو ٹریفک اور پارکنگ میں تھے پریشان رہے لیکن بہرحال ایسے حالات میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ فون پر ایم۔ٹی۔اے کی سہولت کی وجہ سے لوگوں نے تقریریں سن لیں یا پروگرام دیکھ لیے، سن لیے۔ جلسے کی یہ سب باتیں ایسی باتیں ہیں جو پھر اس طرف توجہ دلاتی ہیں کہ کوئی کھلا انتظام ہونا چاہیے۔ پھر جلسے کی تاریخیں بھی انتظامیہ کے مطابق مقرر کرنی پڑتی ہیں۔ اپنی آزادی نہیں اور اس دفعہ تو جلسے کا ہال بھی انہوں نے بالکل آخری وقت میں دیا ہے۔ یہ سب باتیں اب انتظامیہ کو اس طرف توجہ دلا رہی ہیں کہ ان کی اپنی جگہ ہو جہاں جلسہ منعقد کیا جا سکے۔ امیر صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایک جگہ دیکھی ہے جس کے حصول کی وہ کوشش کر رہے ہیں اور یہ انہیں پسند بھی آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ جگہ جماعت کے لیے بہتر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے خریدنے اور لینے کے بھی انتظام فرما دے اور آسانی پیدا کر دے ۔ مجھے امید ہے اور اسی طرح جرمن جماعت کے اخلاص و وفا اور قربانی کے اس کے جذبے کو دیکھ کر بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس کے لیے کچھ مالی قربانی کی ضرورت پڑی تو جماعت ان شاء اللہ تعالیٰ یہ قربانی کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی توفیق کو بھی بڑھائے۔

جیسا کہ میں نے جرمنی کے جلسے کے آخری دن میں کہا تھا کہ جرمنی کا جلسہ بھی اب بین الاقوامی جلسہ بن گیا ہے اور یورپ کے لیے تو جلسہ جرمنی میں شامل ہونا پہلے بھی آسان تھا۔ اب اس دفعہ یہ محسوس ہوا ہے کہ بعض دوسرے ممالک جیسے سابق روس کی ریاستیں ہیں اور افریقہ کے بعض ممالک ہیں ان لوگوں کا بھی وہاں آنا زیادہ آسان رہا ہے اور ویزے آسانی سے ملے ہیں۔ اس لحاظ سے جرمنی میں بھی جلسہ گاہ اور متعلقہ انتظامات میں وسعت کی ضرورت ہے۔

کارکنوں کا شکریہ ادا کرنے اور جلسہ کے متعلق ان باتوں کے بعد اب میں آپ کے سامنے جلسے پر آنے والوں کے کچھ تاثرات پیش کروں گا جن سے پتا چلتا ہے کہ نہ صرف کارکن بلکہ جلسے میں شامل ہونے والا ہر احمدی اپنے اخلاق اور رویّےکی وجہ سے غیروں کے لیے خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے۔ جلسے کے دنوں میں وہاں ہفتے والے دن دوپہر کو غیر احمدی اور غیر مسلموں کے لیے ایک الگ پروگرام بھی ہوتا ہے جس میں میری تقریر بھی ہوتی ہے تو سب سے پہلے میں اس میں شامل ہونے والوں کے تاثرات بیان کرتا ہوں۔ اس پروگرام میں باقی وقت تبلیغی نشست ،تبلیغی پروگرام ہوتا ہے جو وہاں کی مقامی انتظامیہ مہمانوں کے ساتھ کرتی ہے ۔

اس سال تبلیغی نشست میں ان کے کُل گیارہ سو اُناسی، seventy nine، ایک ہزار ایک سو اناسی (1179)مہمان شامل ہوئے۔ اس میں جرمن مہمانوں کی تعداد 502تھی اور دیگر یوروپین اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی تعداد 341تھی ۔ اس کے علاوہ 157 عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آئے۔ 104ایشین اور 75افریقن مہمان بھی شامل ہوئے۔ اس طرح وہاں کل ستاسٹھ (67)قومیتوں کے مہمانوں کی نمائندگی تھی۔

ان مہمانوں میں ایک مسٹر Hans Oliver ہیں جو فرینکفرٹ کی ایک لاء فرم کے سینئر پارٹنر ہیں اور اس لحاظ سے وکیل ہیں۔ انہوں نے تبلیغی نشست میں شامل ہو کے اور میری تقریر سننے کے بعد اپنے یہ تاثرات بیان کیے کہ امام جماعت احمدیہ کی تقریر میرے لیے بہت پرجوش اور ہیجان انگیز تاثیر رکھتی تھی ۔ پھر لکھتے ہیں کہ بظاہر پُرسکون اور روزمرہ کے معمول کے مطابق چلتے ہوئے حالات میں آنے والے خطرات اور جنگ کو بھانپ لینا یہ بڑی اہم بات ہے اور امام جماعت احمدیہ نے نہ صرف مستقبل میں معلّق خطرات کو حقیقی طور پر محسوس کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے امیگریشن کو جس طرح حکومتوں کے سماجی اور اقتصادی مفادات کے ساتھ جوڑ کر دکھایا ہے وہ تجزیہ بھی برحقیقت تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک قانون دان کے طور پر مَیں اس پہلو کو اپنے ساتھیوں سے بیان کرنا اور دوطرفہ ضرورت کے ادراک کو عام کرنا چاہوں گا کیونکہ عام طور پر یہاں لوگ صرف پناہ گزینوں کی آمد کا منفی ذکر ہی کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ جڑے ہوئے ملکوں اور قوموں کے مقامی مفادات کو نظر انداز کر جاتے ہیں جو کہ بڑا اہم پہلو ہے۔

پھر ویرینا لُڈوِگ صاحبہ Vereena Ludwig جو لفتھانسا (Lufthansa)میں ہیں۔ ایئرلائن کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی ایکسپرٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں خطاب کو سنتے وقت مسلسل سوچ رہی تھی کہ گفتگو دیگر رہنما بھی کرتے ہیں اور دنیا کو پیش آمدہ خطرات سے بچنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ امنِ عالم کے قیام پر بات کرناتو لیڈروں کے لیے ایک ہاٹ کیک ہے مگر امام جماعت احمدیہ کی گفتگو میں جو طاقت تھی وہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھی اور دوسری بات یہ ہے کہ بڑی تفصیلی تحقیق بھی تھی جس سے گہرا درد بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اگر یہ درد نہ ہو تو کوئی اتنا تفصیلی تجزیہ پیش نہیں کرتا۔ پھر کہتی ہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی حوالوں سے دنیا کی لیڈرشپ پر واضح کیا ہے کہ امنِ عالم خوفِ خدا سے منسلک ہے۔ اگر ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اقدامات نہ کیے گئے تو ایٹمی جنگ کی ہولناک تباہی کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ پھرکہتی ہیں کہ میرے نزدیک اس قدر وضاحت کے ساتھ پیغام دے دیا گیا ہے کہ اگر تعصبات حائل نہ ہوں تو انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے یہ تنبیہ کافی ہے اور فیصلہ سازوں تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کیونکہ انسانیت کی وسیع تر بہبود کے لیے اس کا گلوبل لَیول پہ ادراک عام ہونا بھی ضروری ہے۔

پھر مسٹر کلاؤزے (Klause) اور مسز ہائڈے (Heide) یہ دو جرمن میاں بیوی تھے، یہ کہتے ہیں کہ یہاں آنے سے پہلے ہمارا تو بہت خوفزدہ سا حال تھا۔اور اگرچہ کئی سال سے جماعت کا تعارف تھا مگر جلسے میں آتے ہوئے ہمارے تحفظات ہوتے تھے جن کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میڈیا سے سنی ہوئی معلومات پر ہی تھی۔ اس لیے یہاں آتے ہی ہم آج بھی بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ پتا نہیں کیسا ہجوم ہو گا لیکن آنے کے بعد ہم دونوں میاں بیوی ایسے ریلیکس ہیں اور ماحول میں اتنی اپنائیت ہےکہ ہم گویا اپنے ہی ماحول میں گھوم رہے ہیں۔ میری تقریر کے بعد ان کی بیوی کہتی ہیں کہ اس تعلق میں مَیں یہ کہنا چاہوں گی کہ میں نے جنگ کے فسادات بچشم خود دیکھ رکھے ہیں۔ (دوسری جنگِ عظیم کی یہ بات کررہی تھیں) اور امام جماعت احمدیہ نے جن تباہیوں اور جن ہولناک مناظر سے قبل از وقت خبردار کیا ہے یا کر رہے ہیں اور جس درد اور سنجیدگی کی روح سے انسانیت کو متنبہ کر رہے ہیں اس کا اثر مجھ جیسوں پر جنہوں نے جنگِ عظیم دیکھ رکھی ہے اَور طرح سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس خطاب کے لفظ لفظ سے متفق ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل اس کا بروقت ادراک اور احساس کر سکے۔ ان خاتون کے خاوند کہتے ہیں کہ انہوں نے خطرات کی نشاندہی تو ضرور کی ہے مگر یہ بیان کرتے ہوئے نہ تو کسی کا نام لیا اور نہ ہی اس طرح کے لب و لہجہ سے دوران ِگفتگو کسی طرف خاص جھکاؤ کا تاثر مل رہا تھا اور نصیحت کا انداز پُر درد تنبیہ کا تھا نہ کہ کوئی ذاتی پسند نا پسند کا۔ ذاتی جھکاؤ کا ادنیٰ شائبہ بھی ان کی گفتگو سے نہیں ملا اور مذہبی سربراہ کا یہی مقام ہوتا ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد میں قائل ہو کر جا رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ میں دنیا کے لیے ایک درد ہے۔

پھر مسٹر نوبرٹ واگنر(Nobert Wagner) امیگریشن لائر، یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ مَیں جلسے میں شرکت پہلی بار نہیں کر رہا اور احمدیوں کے کیسز کے وکیل کے طور پر مجھے اکثر باتوں کا علم ہوتا رہتا ہے۔ یہ احمدیوں کے اسائلم کیس کرتے ہیں، لیکن امام جماعت احمدیہ کا آج کا خطاب میرے لیے بالکل نئے پہلو اور نئے نکات کا حامل تھا۔ گو کہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کر رہا ہوں مگر یہ اظہار ایک طرح کا فوری ردِّعمل ہے جو میں کہہ رہا ہوں جبکہ ابھی اس تقریر میں میرے لیے پیشہ وارانہ ضرورت کے بہت سے اہم نکات ہیں جن کو میں گھر جا کر دوبارہ زیر ِغور لاؤں گا۔ مہاجرین اور تارکینِ وطن کے مسئلے پر آج جو نکتۂ نظر امام جماعت احمدیہ نے بیان کیا ہے اس سے میزبان ملکوں اور مہاجرین کے باہمی معاملات میں ایک توازن اور وقار پیدا ہو گا اور خاص طور پر جس طرح انہوں نے اعداد و شمار کی مدد سے بڑھاپے اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے جرمنی کی افرادی قوت کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے اس سے پناہ گزینوں کی عزتِ نفس کو بھی سہارا ملے گا اور میزبان اداروں میں بھی ان مہاجرین کی عزت اور وقار بڑھیں گے مگر میں دوبارہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی میرے لیے اور امیگریشن لاء کی پریکٹس کرنے والے رفقائے کار کے لیے اس میں بہت سامواد ہے جو ہمارے کام آ سکتا ہے تو اس لحاظ سے بھی، دنیاوی لحاظ سے بھی لوگوں کی مدد ہو جاتی ہے ۔

پھر سوئٹزر لینڈ سے ایک خاتون لیلیٰ صاحبہ ہیں ۔ کہتی ہیں میں ایک تنظیم کے لیے کام کرتی ہوں اور ہم امن کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ آج جب میں نے یہ تقریر سنی تو مجھے ہر ایک لفظ میں امن ہی امن نظر آیا۔ مجھے ہر ایک لفظ میں برداشت اور انسانیت کی اقدار نظر آئیں۔ اگر آپ امن، برداشت اور انسانیت کو باہم یک جا کر دیں تو پھر آپ ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ پھر کہتی ہیں جو بھی آپ کہتے ہیں وہ ہمارے ہی فائدے کے لیے ہے۔ سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ تھی کہ آپ نے تمام مسائل بیان کرنے کے بعد مذہب سے اس کا حل پیش کیا اور بتایا کہ ان تمام مسائل کا حل خدا کو پہچاننے میں ہے۔ آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہے۔

ایک جرمن لڑکی کہتی ہیں کہ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ اس تقریر میں حالیہ مسائل پر بات کی گئی۔ پہلے بھی بعض سیاستدانوں نے بات کی لیکن ان کی باتوں میں کوئی وزن نہیں تھا، وہی معمولی باتیں تھیں جو کوئی بھی کہہ سکتا ہے لیکن یہ تقریر بالکل مختلف تھی۔ آپ نے حقیقی مسائل کے بارے میں بات کی۔ جوہری جنگ کی بات کی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بات کی۔ امیگریشن کی بات کی اور یہ وہ مسائل ہیں جو عام ہیں اور پھر ان کا حل بھی بتایا۔ مذہب پر قدغنیں لگانے کی بجائے مذہب کوفروغ دیا جائے۔ لوگ خدا کی طرف آئیں، اس طرف توجہ دلائی۔ پھر کہتی ہیں بہت واضح الفاظ میں بتا دیا کہ آج کل جو جنگیں ہو رہی ہیں اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیاسی معاملات پر بھی بڑی روشنی ڈالی۔ پھر یہ کہا کہ طاقتور ممالک کمزور ممالک سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ فائدے ظاہری طور پر اٹھائے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ پوشیدہ طور پر اٹھائے جاتے ہیں اور ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ طاقتور ملکوں کے مفادات کا تحفظ کریں۔ یہ سٹوڈنٹ ہیں تو اس لحاظ سے بھی انہوں نے بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے لوگ غور سے سنتے بھی ہیں اور پھر اس پر غور بھی کرتے ہیں۔

پھر جرمنی کے ایک عیسائی پادری اندریاس وائس بروٹ (Andreas Weisbrot) ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ میں جلسہ سالانہ سے ،ان بہت سے دوستانہ چہروں سے، اس خوش خلقی کی فضا سے، اس عظیم اتحاد اور محبت سےبہت متاثر ہوا ہوں۔ اور پھر میری تقریر کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس تقریر نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا۔ ایٹمی جنگ کے خطرے کا مجھے اتنا احساس نہیں تھا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہم صرف اس وقت ترقی کر سکتے ہیں جب ہم سماجی اقدار اور امن کی طرف توجہ دیں اور مل کر امن کی تلاش کریں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ایک مضبوط معاشرے کی ضرورت ہے جس میں ہم رواداری اور کثیر العقائد فضا کو قائم کریں اور اس میں مکالمہ بین المذاہب ایک اہم حصہ ہے۔

یہ تو چند ایک مثالیں مَیں نے بہت ساری مثالوں میں سے لی تھیں۔ اب جلسے کے عمومی تاثرات کے بارے میں بھی چند مثالیں بیان کر دیتا ہوں۔

میسیڈونیا (Macedonia)سے ایک وفد آیا تھا جو ستّر احباب پر مشتمل تھا۔ اس وفد میں آٹھ صحافی بھی شامل تھے۔ دو علاقائی ٹی وی اور دیگر چھ نیشنل ٹی وی یا دیگر نیوز ایجنسیز سے منسلک تھے اور انہوں نے جلسے کی کارروائی کے علاوہ بعض لوگوں کے انٹرویو بھی لیے ۔ میرے سے بھی بعض سوال جواب تھے۔ صحافیوں کے علاوہ وفد میں پندرہ عیسائی دوست تھے۔ 23غیر احمدی مسلمان تھے اور 24احمدی مسلمان شامل تھے۔ غیر از جماعت مہمانوں میں سے پانچ نے اس جلسے کے دوران اس کارروائی کو دیکھ کر اور سارا پروگرام دیکھ کر بیعت بھی کرلی۔ یہ پہلے بھی زیرِ تبلیغ تھے۔

میسیڈونیا وفد کی ایک خاتون الیگزانڈرا دونیوا صاحبہ (Aleksandra Doneva) پہلی بار جلسہ میں شامل ہوئیں۔ ان کا اپنااندازِ بیان ہے بڑا شاعرانہ بھی فلسفیانہ بھی۔ اس لیے میں نے اس کو بیان کرنے کے لیے رکھ لیا۔ کہتی ہیں اہلِ خانہ کے بغیر گھر کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ کیا اخلاق کے بغیر انسانیت کا تصور ہو سکتا ہے؟ انسان کی حقیقت مذہب اور عقیدے کے بغیر نہیں ہے اور محبت کے بغیر انسانیت کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ انسان کی روح کی پاکیزگی صرف امن میں رہنے اور امن کو پھیلانے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح روح کی پاکیزگی رواداری، باہمی عزت و تکریم میں پنہاں ہے۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا پر یقین رکھے اور زمین پر مستقبل کو بہتر بنائے۔ یہ ایک ایسا طریق ہے جس سے ہم انسانیت کی حفاظت کر سکتے ہیںا ور جماعت احمدیہ یہ تمام امور سرانجام دے رہی ہے۔ احمدی امن کو پھیلاتے ہیں امن کی تعلیم دیتے ہیں۔ اخلاقیات کو قائم کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ بنی نوع انسان یہ تمام امور سرانجام دیں۔ احمدیت لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر رہی ہے۔ ان کو عبادت کی لَو لگائی ہے۔ احمدیت یہ چاہتی ہے کہ لوگ روحانیت میں اضافہ کرنے والے ہوں۔ ان میں اتحاد قائم ہو۔ وہ خدا کے قریب ہوں اور اس سال جلسہ سالانہ پر میں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ بہت زیادہ اچھے لوگ دیکھے جو ہمیں بہت عزت دے رہے تھے۔ ان کو اس بات کا یقین ہے کہ اچھے اخلاق کے ساتھ اچھی زندگی جی جا سکتی ہے۔

کہتی ہیں کہ میں شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کا خدا پر یقین اور ایمان بہت مضبوط ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ یہ نیک کام جاری رکھیں گے ، اس سلسلے میں زیادہ توجہ اور محبت جاری رکھیں گے اور پھر ایک وقت آئے گا اور لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ زندگی کا اصل مقصد اور ویلیو (value)کیا ہے۔

یہ ایک غیر از جماعت کا تاثر ہے اور یہ تاثر ہمیں اس بات کی طرف لانے والا ہونا چاہیے کہ ہم حقیقت میں اپنی زندگی کے مقصد کو پہچاننے والے ہوں اور اس مقصد کو حاصل کرنے والے بھی ہوں۔

میسیڈونین وفد میں شامل ایک ٹی وی کے صحافی زُورَانچَو زُورِنسکی (Zoranco Zorinski) صاحب کہتے ہیں کہ میں دوسری بار جلسے میں شامل ہوا ہوں اور میرے لیے بڑا اعزاز ہے۔ جلسے کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے۔ میرے خیال میں جلسے کے انتظامات پچھلے سال کی نسبت زیادہ اچھے تھے۔ پھر کہتے ہیں آپ کا جو خطاب تھا اس سے مَیں بہت محظوظ ہوا۔ ہر لفظ انسانیت کے لیے ایک سبق تھا۔ یہ ایک عالمی پیغام ہے کہ ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘۔ پھر کہتے ہیں کہ خدا پر ایمان رکھنا اور تمام انسانوں کی مدد کرنا یہ ایسا کام ہے جو تمام لوگوں کے درمیان اختلافات کو دور کر دے گا۔ پھر مزید لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ لوگوں کو مثبت چیزیں سکھاتی ہے اور پھر میری جو پریس کانفرنس تھی اس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ صحافیوں کو جو جوابات دیے وہ انسانیت کی بنیادی اقدار کا اظہار کر رہے تھے۔ کہتے ہیں مَیں بھی صحافی ہوں، میں کسی وقت آپ کا انٹرویو کرلینے کی کوشش کروں گا ۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’اچھی نصیحت کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مزید لوگ احمدیت قبول کریں گے جو انسانیت کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ ‘‘ تو دنیا کو یہ نظر آ رہا ہے کہ اسلام ان شاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعے سے پھیلنا ہے۔

پھر وویو مانیوسکی (Vojo Manevski) صاحب کہتے ہیں کہ میں نے گہرائی میں جا کر احمدی مسلمانوں کے پیغام کو سمجھا ہے۔ بطور صحافی میں نے مختلف مذاہب میں ملتی جلتی تعلیمات کا جائزہ لیا ہے۔ مذہب کی بنیاد اللہ تعالیٰ سے محبت اور بنی نوع انسان سے محبت پر مبنی ہے۔ یہ ایسا پیغام ہے جس کی آج کے دور میں بہت ضرورت ہے۔ آج کی دنیا کے بہت سے مسائل کا حل جو دنیا کوسخت پریشان کر رہے ہیں اس محبت کے پیغام میں ہے۔ آج یورپ کا بہت بڑا مسئلہ دائیں بازو کے سیاست دانوں کی طاقت میں اضافہ ہے جس کا حل صرف گفتگو سے ممکن ہے جو مختلف مذاہب ،کلچر اور سویلائزیشن (Civilization)کے درمیان ہو۔ اگر ہم خدا کی تلاش کریں تو ہمیں علم ہو جائے گا کہ ہم میں آپس میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جتنا ہم خدا سے دور ہوں گے اتنا ہی ہم انسانیت اور لوگوں سے دور ہوں گے۔ مادیّت کا دور روحانی زندگی اور آپس کے تعلقات کو ختم کر رہا ہے۔ اس لیے ہم اپنی فیملی اور دوستوں کی حفاظت کریں اور تعلقات کی حفاظت کریں۔

پھر ایک جانی رجیپوو (Jani Redjepov) صاحب بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنی فیملی کے ساتھ جلسے میں شامل ہوا ہوں۔ جلسہ بہت اچھا رہا ۔جلسہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ پھر کہتے ہیں میسیڈونیا میں میں نے جب پہلی بار احمدیت کا پیغام سنا تو مجھے احساس ہو گیا تھا کہ احمدیت کا پیغام لوگوں کے لیے مثبت رہنمائی کا کام ہے۔ پہلے میری فیملی نے اس پیغام کو قبول کیا اور پھر میری رہنمائی کی۔ جلسہ سالانہ میں شرکت کا انتظام کرنے پر آپ کا شکرگزار ہوں۔

پھر ایک تانیہ (Tanja) صاحبہ ہیں کہتی ہیں کہ میں پہلی بار جلسے میں شامل ہوئی ہوں۔ یہاں میرے لیے سب کچھ نیا تھا اور بہت اچھا تھا۔ تمام انتظامات ہر لحاظ سے بہت اچھے تھے خصوصاً کام کرنے والے رضاکاران کا انداز بہت دوستانہ تھا۔ مسکراتے چہروں کے ساتھ پیش آ رہے تھے اور بڑے خوش اخلاقی سے یہ کام کر رہے تھے۔

پھر بلغاریہ کے ایک یونیورسٹی کے طالب علم ہیں ،کہتے ہیں: لوگ بہت ہمدرد تھے جس کی وجہ سے میں اب یہاں ہوں۔ بیعت کی تقریب کو میں ایک زائر کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔ لوگوں کا اس رنگ میں اکٹھا ہونا ایک شاندار امر ہے۔

بلغاریہ سے 49؍ افراد پر مشتمل وفد شامل ہوا تھا اس میں 15؍ احمدی تھے اور 34؍ غیر از جماعت اور عیسائی احباب شامل تھے۔ وفد میں شامل ایک عیسائی خاتون جولیا (Yulia) صاحبہ کہتی ہیں ۔ میں اس بات کو سوچ کر بہت جذباتی ہو رہی ہوں کہ میں بھی احمدیہ جماعت کے جلسے پر ان ہزارہا شاملین کے ساتھ شامل ہوئی ہوں۔ بےشک میں عیسائی ہوں لیکن میری تقریر کے متعلق کہہ رہی ہیں کہ مجھے یہ تقریر بہت پسند آئی۔ آپ کی دعائیں دل پر اثر کرنے والی تھیں۔ تلاوتِ قرآن کریم بھی مجھے بہت پسند آئی۔ اس کا ترجمہ بھی۔ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ طلباء کو انعامات بھی آپ نے اپنے ہاتھ سے دیے اور پھر آگے بھی دعا دے رہی ہیں کہ آپ کی دعائیں قبول ہوں۔

بلغارین وفد کی ایک خاتون کراسمیرا (Krasrmira) صاحبہ کہتی ہیں مجھے تیسری مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے اور ہر سال مجھے نئی سے نئی باتیں سیکھنے کو ملتی ہی۔ میں تقاریر کو بہت غور سے سنتی ہوں کیونکہ میں ایک فزیو تھراپسٹ اور سائیکالوجسٹ بھی ہوں۔ میں ان تقاریر میں بتائی جانے والی جماعت احمدیہ کی تعلیم کے ذریعے اپنے ہر مریض کے مسائل کا بہتر رنگ میں حل کر سکتی ہوں اور میں اپنے لیے بھی مفید نصائح اکٹھی کر کے لے جاتی ہوں۔

بلغارین وفد کی ایک عیسائی خاتون ایوانکا (Ivanka) صاحبہ کہتی ہیں۔ مجھے پہلی دفعہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ میں ساری چیزیں دیکھ کر حقیقت میں حیران رہ گئی ہوں۔ خاص طور پر ان بچوں سے بہت متاثر ہوئی ہوں جو گلاسوں میں ہمیں پانی دیتے تھے۔

پھر ایک خاتون گیلیا (Galia) صاحبہ کہتی ہیں مَیں تینوں دن جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی۔ میں جلسہ کی مہمان نوازی اور انتظامات سے بے حد متاثر ہوں۔ میں ان خوش اخلاق اور نیک ارادے رکھنے والے لوگوں سے بھی بہت متاثر ہوئی ہوں جن سے میں جلسے کے موقع پر ملی۔

ہنگری سے بھی اس سال وفد آیا جس میں آٹھ مہمان تھے اور گیارہ احمدی شامل تھے اور سَاَوا وِنْس (Szava Vince) صاحب جن کا تعلق روما قوم سے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اور ان کی لیگل (legal)مدد کے لیے ہم نے ایک تنظیم بنائی ہے اور اس تنظیم کے سولہ ہزار سے زائد ممبر ہیں۔ جلسے میں پہلی مرتبہ شامل ہوئے۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کو اپنے کام کی وجہ سے مختلف لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ یہ مختلف تقریبات میں جاتے ہیں ان کے پروگراموں میں جاتے ہیں۔ یہودیوں کے پروگراموں میں بھی گئے۔ مسلمانوں کے پروگراموں میں بھی گئے۔ عیسائیوں کے پاس بھی گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جومحبت اور انسانیت کا احترام ، مساوات اوربھائی چارہ یہاں آ کر دیکھا ہے ایسا کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی اور پروگرام میں دیکھا۔ انہوں نے جماعت کا شکریہ ادا کیا کہ جماعت نے انہیں موقع دیا کہ یہاں آ کر خود دیکھیں کہ ہم جو کہتے ہیں ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘۔ اس کا عملی اظہار بھی یہاں ہو رہا ہے۔ یہ بتاتے ہیں کہ یہ تجربہ ان کے لیے ایک لائف ٹائم تجربہ ہے۔ اس کو بھلایا نہیں جا سکتا اور یہ جلسہ میں شمولیت کی وجہ سے خاص جذباتی کیفیت میں ہیں۔ پھر کہتے ہیں اپنے ملک میں جہاں مسلمان مہاجرین کے مسائل کی وجہ سے ان کے لیے خاص نفرت ہے ہم مسلمانوں کے لیے پہلے سے بھی بڑھ کر آواز اٹھاتے رہیں۔ پہلے بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن اب تو مزید زور اور شور کے ساتھ آواز اٹھائیں گے کہ وہ مسلمان جن کی باتیں میڈیا کرتا ہے یہ بالکل غلط باتیں ہیں۔

پھر وفا حسن شرمانی صاحبہ یمن کی ہیں۔ اپنے بیٹے اور والدہ کے ساتھ ہجرت کر کے ہنگری آ گئی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ جلسہ میں پچھلے سال بھی اور اس سال بھی شامل ہوئی تھی۔ اور پچھلی دفعہ جب یہ عورتوں کی طرف گئی تھیں تو کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو وہاں زیادہ comfortable محسوس کیا تھا تو اس سال انہوں نے عورتوں میں جا کر وہیں سارے پروگرام سنے اور کہتی ہیں ان کے لیے ایک خاص روحانیت سے بھرا ہوا اور جذباتی ماحول تھا۔

پھر ایک مہمان بیسم جوزی (Besim Gjozi) صاحب ہیں۔ آخر ی روز بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے اور کہتے ہیں کہ اس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکرگزار ہوں۔

ایک اور مہمان سِنان بڑے شانائے (Sinan Breshanaj) صاحب کہتے ہیں کہ میرے جماعت میں شامل ہونے کا سبب ہی وہ ملاقات تھی جو چند سال پہلے میرے سے ان کی ہوئی۔ کہتے ہیں اس وقت سے ان پر اثر تھا جس کے بعد یہ ہر سال جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوتے ہیں ۔

دوسرے ایک احمدی دوست بیکِم بِیتسی (Bekim Bici) صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے 2004ء میں بیعت کی۔ جرنلزم میں گریجوایشن میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی اور اس بنا پر 2016ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے میڈل بھی حاصل کیا۔ اس کے بعد میں نے البانیہ میں آن لائن اخباروں میں بطور صحافی کام کیا۔ گذشتہ سال جلسہ سالانہ پر آنے کے لیے جب میں نے چھٹی کی درخواست دی تو منظور نہیں ہوئی۔ اس پر میں نے کام سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ میں اس جلسہ سالانہ سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسی دن میرے لیے دوسری میڈیا کمپنی میں کام دلا دیا جہاں پر یہ شرط بھی منظور کر لی گئی کہ میں اس سال جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہو کر واپسی کے بعد کام شروع کر سکتا ہوں۔ کہتے ہیں اسی طرح اس سال بھی صرف چار ماہ ہوئے تھے کہ ایک آن لائن اخبار میں کام کر رہا تھا۔ کمپنی کے قوانین کے مطابق چھ ماہ سے پہلے چھٹی نہیں مل سکتی تھی۔ پھر بھی میں نے جلسے کے لیے درخواست دی جو منظور نہیں ہوئی۔ میں نے استعفی دے دیا اور اسی دن مجھے تین اور کمپنیوں کی طرف سے کام کی آفر ملی۔ چنانچہ اس پر میں نے ایک جگہ اس شرط کے ساتھ کام قبول کر لیا کہ میں جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہو کر واپس آنے کے بعد کام شروع کروں گا۔ چنانچہ میری شرط منظور کر لی گئی۔ یہ ہے ایمان اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حقیقی مثال جو نئے آنے والے بھی قائم کر رہے ہیں۔

پھر ایک احمدی دوست گَزِیم مُژَاچِی (Gëzim Muzhaqi) صاحب جن کا تعلق لامذہب سوسائٹی سے تھا ۔چند سال قبل ان کا جماعت سے رابطہ ہوا۔ مذہب اور خصوصاً اسلام سے متعلق دلائل جو جماعت احمدیہ دیتی ہے وہ انہیں بہت معقول لگے، بہت پسند آئے۔ اس سے قبل مولویوں کی کہانیوں کی وجہ سے ان کا دل مذہب سے بیزار تھا ۔ چنانچہ چند سال قبل انہوں نے بیعت کی اور اب آہستہ آہستہ اسلامی شعار کی پابندی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ مجھے بہت خاص لگا ۔ مہمان نوازی اور انتظامات ہر سال کی طرح نہایت ہی اعلیٰ تھے اور یہ کہتے ہیں کہ لجنہ میں میرا خطاب اور جو اختتامی خطاب تھا اس نے مجھے بڑا متاثر کیا اور یہ پیغام ہم مردوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

پھر ایک مہمان اِلیڑ چُولانجی (ILIR CYLANDJI)ہیں۔ البانین ہیں۔ جرمنی میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جلسہ سالانہ ہر احمدی مسلمان کے لیے ایک عظیم الشان روحانی اجتماع ہے جس میں افرادِ جماعت کے علاوہ دیگر مذاہب اور قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر انہیں جہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے تعارف حاصل ہوتا ہے وہیں جماعت احمدیہ میں قائم نظام ِخلافت کے ذریعے ان خوبصورت تعلیمات کے عملی نمونے دیکھنے کا بھی تجربہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ان تین دنوں کے دوران مردوں اور خواتین کے جلسہ گاہ میں صرف اجلاسات کا انعقاد ہوتا ہے اور موجودہ زمانے کے تغیّرات اور چیلنجز کے بالمقابل اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پیش کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں میں بحیثیت ایک احمدی مسلمان سارا سال اس روحانی جلسے کا بڑے اہتمام سے انتظار کرتا ہوں کیونکہ یہاں ایک حقیقی اخوّت کی روح نظر آتی ہے جسے بیان کرنا ناممکن ہے اور کہتے ہیں کہ خالص اور فطری محبت کا اظہار تمام اراکینِ جماعت کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس جلسے میں آ کر مجھے یوں لگتا ہے گویا میں جنت میں ہوں اور دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں اور اگلے سال کے جلسہ کا بڑی بےصبری سے میں انتظار کر رہا ہوتا ہوں۔

پھر جارجیا کا وفد تھا جو 85؍ افراد پر مشتمل تھا۔ رشیا کے کسی بھی ملک سے آنے والا یہ سب سے بڑا وفد تھا۔ ایک فلاحی ادارے کے چیئرمین بیسو (Besso) صاحب کہتے ہیں کہ بہت سے احمدی احباب سے بات کرنے کا موقع ملا اور میں نے بات چیت میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ یہ جماعت کس قدر مذہبی رواداری کا خیال رکھنے والی ہے۔ اس غرض سے دو احمدیوں سے بات چیت کی اور اس بات چیت کے دوران میں نے انہیں اچانک بتایا کہ میں مسلمان نہیں ہوں بلکہ عیسائی ہوں۔ میرا خیال تھا کہ یہ جان کر ان لوگوں کا رویہ بدل جائے گا لیکن میں بہت حیران ہوا کہ احمدی دوست جس طرح پہلے خوش اخلاقی سے بات کر رہے تھے اسی طرح اپنے اخلاق کا اظہار کرتے رہے اور کسی قسم کے تعصّب کا اظہار نہیں کیا۔ اس طرح بھی غیر لوگ جو ہیں ہمیں آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جارجیا کے وفد میں دینی علوم کی طالبہ نانوکا (Nanuka) صاحبہ بھی شامل تھیں اور بیعت کی تقریب کے بارے میں اپنے جذبات بیان کرتی ہیں کہ بیعت کی تقریب جذبات سے بھرپور تھی۔ مجھے مذہبی اتحاد کا ایک نظارہ دیکھنے کو ملا اور معلوم ہوا کہ کس طرح مختلف رنگ و نسل کے لوگ امن کے ساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ میں دینی علم حاصل کر رہی ہوں۔ جلسے پر پہلی مرتبہ آئی ہوں اور میرا یقین ہے کہ یہ جلسہ امن کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

پھر ایک اور خاتون ہیں نانا کردیانی (Nana Kurdiani) صاحبہ کہتی ہیں میں نہ تو مسلمان ہوں اور نہ ہی عیسائی ہوں لیکن اس جلسے پہ آنے کے بعد میںاپنے آپ کو اسلام کی طرف جھکا ہوا دیکھتی ہوں اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں اپنے مذہب کے بارے میں کچھ فیصلہ کروں۔ پھر جارجیا سے ایک یونیورسٹی طالب علم ہیں جورجیو (Georgio) صاحب یہ ایک امام کا بھتیجا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میں برائے نام مسلمان ہوں لیکن اب جلسے پر شامل ہو کر امام جماعت احمدیہ کی محبت کو دیکھ کر میں جماعت احمدیہ کے بارے میں مزید مطالعہ کروں گا۔

کوسووو سے بھی ایک وفد آیا ہوا تھا 45؍ افراد پر مشتمل تھا۔ 30؍ احباب اس میں احمدی تھے 15؍ غیر از جماعت تھے۔ ایک دوست مسٹر شیپ زکرجی (Mr. Shaip Zeqiraji) صاحب دوسری بار جلسے میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ جب مجھے اطلاع ملی کہ جلسے میں شامل ہونا ہے تو یہ بہت خوش ہوئے مگر اس سفر کے اخراجات جب سامنے آئے تو بہت کشمکش میں مبتلاہو گئے لیکن پھر کہتے ہیں خلیفہ وقت سے ملنا اور جلسے میں شامل ہونا میری ایک تڑپ تھی۔ اس لیے وہ کہتے ہیں میں نے اپنی گائے بیچی اور جلسے میں شامل ہونے کے اخراجات پورے کیے۔ اس طرح بھی لوگ احمدی ہونے کے بعد قربانی کر کے جلسے میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانے زمانے کی مثالیں ہیں جو یہ قائم کر رہے ہیں۔

کوسووو کے وفد میں ایک دوست مسٹر سکینڈر اسلانی (Skender Asllani) صاحب بھی تھے جو البانین زبان اور لٹریچر کے استاد ہیں۔ انہیں اس سال بیعت کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں کہ مجھے تو ڈھونڈنے پر بھی ان جلسے کے انتظامات میں کوئی نقص نہیں ملا۔ تقاریر کا معیار بہت عمدہ تھا اور پھر میری تقریر کا بھی کہتے ہیں کہ بڑا متاثر ہوا۔ پھر کہتے ہیں بیعت کرنا ایک انعام ہے جس کی قدر ہم سب کو کرنی چاہیے کیونکہ اس ماحول میں ایک ہاتھ پر جمع ہونا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

مالٹا سے جلسے میں شامل ہونے والی تین خواتین مستورات کی مارکی میں بھی گئیں۔ کہتی ہیں کہ ہمارا بہت خیال رکھا گیا۔ بہت دفعہ ہمیں پوچھا گیا۔ خواتین کی مارکی میں ایک فیملی کا ماحول تھا۔ ایسے تھا کہ جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح شاید صدیوں سے جانتے ہیں مگر ہماری تو پہلی بار ملاقات ہو رہی تھی۔
پھر یہ کہتی ہیں کہ خواتین کی مارکی میں زیادہ آسانی تھی اور ہمیں دونوں طرف کے ماحول کو تجربہ کرنے کا موقع ملا اور ہمیں اسلامی تعلیمات جس میں مردو خواتین کے لیے علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے اس کی صحیح اور گہری حکمت اور فلاسفی کو سمجھنے کا موقع ملا اور ہم اپنے تجربے کی بنا پر بھی یہ کہہ سکتی ہیں کہ اسلامی تعلیمات بہت گہری اور حکمت سے پُر ہیں اور خواتین علیحدہ جگہ پر زیادہ آسانی اور اطمینان محسوس کرتی ہیں اور انہیں اپنے انتظامات سنبھالنے اور اپنی قابلیتوں کے جوہر دکھانے کا وسیع موقع ملتا ہے۔

پس غیر بھی اب اس بات کو ماننے لگ گئے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی جو علیحدگی ہے اور جو انتظامات ہیں یہ حقیقت میں ضروری ہیں اور ہماری نوجوان نسل کی بعض لڑکیوں کو جو بعض خیالات آتے ہیں کہ اکٹھا کیوں نہیں ہوتا اور اکٹھے کیوں نہیں؟ یہ آزادی نہیں ہے؟ ان کو بھی سوچنا چاہیے ۔

مالٹا سے جلسہ میں شرکت کرنے والی ایک مہمان خاتون جن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے کہتی ہیں کہ آپ کا مستورات سے جو خطاب تھا اس سے مَیں بڑی متاثر ہوئی۔ آپ نے مردو خواتین کے حقوق اور ذمےداریوں کی طرف توجہ دلائی ۔گھروں میں مسائل پیش آتے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں آپ کی یہ رہنمائی ہمیشہ کے لیے بہت مفید ثابت ہو گی۔ پھر کہتی ہیں کہ اس بارے میں یہ بیان کیا کہ اسلام کی شادی سے قبل پاکیزگی اور عفّت کی تعلیم بہت ہی پُرحکمت اور جامع ہے۔ یہ بڑی ضروری چیز ہے۔ روحانی اور جسمانی پاکیزگی اور تقویٰ اور طہارت کی طرف بھی ہماری رہنمائی کی۔ پھر کہتی ہیں اگر کبھی دوبارہ جلسے میں شامل ہوئی تو سارا وقت مستورات کی مارکی میں گزاروں گی کیونکہ وہاں جو ماحول میسر آیا وہ بہت ہی دینی اور روحانی تھا۔

قرغیزستان سے آنے والے ایک مہمان بیان کرتے ہیں کہ جلسے میں شامل ہو کر غیر معمولی احساسات تھے۔ احمدی ہونے سے قبل مجھے کبھی بھی رونا نہیں آیا مگر صرف قادیان اور جرمنی میں رونا آیا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ دل میں ایک نرمی اور تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ ہر ایک جو بیعت کرتا ہے اس کے ذریعے میرے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں پہلے مولوی تھا ، جب جماعت احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا تو تمام باتیں جو قرآنِ کریم میں دجال اور مسیح موعود علیہ السلام وغیرہ کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ان سب باتوں کی حقیقت معلوم ہوئی۔ بیعت میں ایسا لگا مجھ پر ٹھنڈا پانی پڑ رہا ہے اور اب میں اصل اور حقیقی مسلمان ہو گیا ہوں۔

پھر تاجکستان سے ایک مہمان عبدالستار (Abdussator) تھے کہتے ہیں میں نے احمدیوں کے بارے میں سنا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور شراب کو جائز سمجھتے ہیں۔ جلسے میں شامل ہونے سے پہلے احمدیوں کی مسجد سبحان دیکھی۔ یہ وہاں جرمنی میں ہے اور اس میں نماز پڑھی تو پتا لگا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں اور پانچ ارکانِ دین پر عمل کرتے ہیں۔ جلسے میں شامل ہو کر پتا چلا کہ یہ امام مہدی کو مانتے ہیں اور بالکل شراب نہیں پیتے اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ یہاں جلسہ میں شامل ہونے کے بعد بہت زیادہ معلومات احمدیہ جماعت کے بارے میں ملیں اور میں بنیادی طور پر آپ لوگوں کو مسلمان سمجھنے لگا ہوں۔ ارکانِ دین اور ارکانِ اسلام وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہوتے ہیں۔ یہاں پر حج کے بعد دوسری مرتبہ اتنے مسلمانوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا۔

لتھوینیا (Lithuania) سے جو وفد آیا تھا 58؍افراد پر مشتمل تھا۔ 46؍غیر احمدی تھے۔ 12؍احمدی تھے۔ وہاں سے ایک پطرس یانولیونس (Petras Janulionis)اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلسہ پر آنے سے قبل اسلام کے بارے میں میرا تصور کچھ اچھا نہ تھا لیکن جلسے میں شمولیت کے بعد اسلام کے بارے میں میرے جذبات مثبت ہو گئے ہیں۔ مجھے جلسے میں اس بات کا احساس ہوا کہ مسلمان اپنے عقیدے کے ساتھ بہت سنجیدہ ہیں بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عیسائیوں کی نسبت بہت زیادہ سنجیدہ ہیں۔
پھر لتھوینیا کی ایک صاحبہ مانیفہ (Manefa) صاحبہ ہیں ۔کہتی ہیں کہ جلسہ میں شمولیت سے قبل اسلام کے بارے میں شش و پنج میں تھی کیونکہ بعض مسلمان نہایت غصیلے اور دوسرے مذہب کے بارے میں عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں لیکن جلسے میں شمولیت کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ احمدی مسلمان دوسروں کی رائے اور مذہب کا احترام کرنے والے اور تمام انسانیت میں امن اور محبت بانٹنے والے لوگ ہیں۔

لتھوینیا سے ایک لائر کمپنی کے سربراہ آئے ہوئے تھے۔ شارونس (Sarunas) صاحب کہتے ہیں جلسہ سالانہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں اسلام کی پرامن تعلیم کا پتا چلتا ہے اور اسلام کے بارے میں جو غلط تصورات ہیں اس کا قلع قمع ہوتا ہے۔

سیریا (Syria)کے ایک دوست جنہوں نے جنوری 2019ء میں بیعت کی تھی وہ بیعت کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے والد نے 2008ء میں سیریا میں بیعت کی تھی۔ پھر ایک بھائی نے بھی بیعت کر لی لیکن میں تین دفعہ جلسے پر آیا ہوں اور لوگوں کو جذبات سے روتے دیکھ کر حیران ہوتا تھا اور ہنستا تھا کہ یہ لوگ کیوں روتے ہیں لیکن میں مخالف ہی رہا اور بیعت نہیں کی۔ پھر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر یہ جماعت سچی ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی رہنمائی فرما دے۔ اس پر میں نے خواب میں دیکھا کہ اسی ملاقات کا سا موقع ہے۔ لوگ بیٹھے ہیں۔ میں پہلی صف میں بیٹھا ہوں۔ سب دوست خاموش ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آپ آتے ہیں اور میں نے بے اختیاری سے روناشروع کر دیا تو اس پر میں نے انہیں اپنے پاس بلایا اور پیار سے پوچھا اور کہا کہ ادھر آ کے پاس بیٹھ جاؤ۔ کہتے ہیں اس پر میں بیدار ہوا تو بیعت کے لیے شرح صدر ہو گیا اور بیعت کر لی۔ یہ واقعہ خود بھی مجھے سنایا اور اس وقت بھی دوران ملاقات بڑے جذباتی تھے۔ بعد میں بھی جب بھی ان پر نظر پڑتی تھی بڑے جذباتی ہو جاتے تھے۔

بیلجیم سے آنے والے ایک نوجوان دوست لَوخ بالن صاحب کہتے ہیں کہ میں نے چند ماہ قبل بیعت کی تھی۔ پہلی بار جلسے میں شامل ہوا ہوں۔ اس جلسے میں شامل ہو کر حیران رہ گیا کہ اتنا خوبصورت بھائی چارے کا ماحول ہے۔ پہلے جو میں نے سنا تھا اس کی حقیقی تصویر اس جلسے میں دیکھنے کو ملی اور بڑا خوش قسمت ہوں کہ روحانی ماحول میں شامل ہوا۔

سینیگال سے آنے والے ایک مہمان تھے جو وہاں اپنے علاقے میں کمشنر ہیں۔ انہوں نے میری ملاقات کا ذکر کیا ۔کہتے ہیں کہ ملاقات کے بعد مَیں بڑا خوش ہوا اور آپ کی جو تقریر ہے وہ محبت اور توحید کا درس ہے اس سے بڑا متاثر ہوں۔ کہتے ہیں اگر میں جلسہ نہ دیکھتا اور آپ سے نہ ملتا تو میں اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا محسوس کرتا اور آج میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی کا مشن مکمل ہو گیا ہے۔

یہ ایک کشتی لائے ہوئے تھے اور وہ اپنی گود میں لے کے بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ یہ تحفہ ہے۔ ہم آپ کے لیے لائے ہیں اور کہا کہ یہ کشتی امن کی کشتی ہے۔ ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کی کشتی ہے۔ اب جو اس میں سوار ہو گا وہی امن پائے گا اور یہ احمدیت کی کشتی ہے اور کشتی کا تحفہ دینے کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی تھا کہ ہمارے ملک کی معیشت اس سے وابستہ ہے۔ وہاں ماہی گیر زیادہ ہیں۔ لہٰذا ہمارے ملک کے لیے خاص دعا کریں۔

پھر ان کے ساتھ ایک اور مہمان تھے وہ وہاں اسٹیبلشمنٹ کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ہیں اور انہوں نے ہسپتال کے حوالے سے بھی میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہاں آ کر انہوں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ دیکھا ہے پھر کہتے ہیں کہ میں نے دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی اجتماع بھی دیکھے ہیں۔ امریکہ اور یورپ سب جگہوں پر گیا ہوں لیکن آج تک ایسا نظام، ایسا حقیقی اسلام اور اسلام کی ایسی تصویر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ایسی اطاعت کبھی نہیں دیکھی جو میں نے یہاں لوگوں میں دیکھی ہے اور خلافت سے ایسی محبت میں نے نہیں دیکھی۔ کہتے ہیں میں یہ علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں کسی جگہ بھی کوئی اپنے سیاسی یا مذہبی لیڈر سے ایسا پیار نہیں کرتا جتنا یہاں میں نے اپنے خلیفہ سے لوگوں کو کرتے دیکھا ہے اور میں اس سچائی کو تسلیم کرتا ہوں۔

پھر ایک ڈاکٹر مورجاؤ ( Mordiaw) صاحب تھے۔ کہتے ہیں ہم دل سے اس سچائی کو قبول کرتے ہیں۔ جو ہم نے دیکھا ہے یہ ایک ایسی سچائی ہے کہ جس کو کوئی بھی رد نہیں کر سکتا اور ہم اورہمارے دل آج سے آپ کے ساتھ ہیں۔ جو ہم نے دیکھا ہے اور آپ سے سنا ہے اس کو ہم محسوس کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

بوسنیا وفد بھی شامل ہوا جس میں 74؍ افراد شامل تھے۔ ایک مقامی این جی او کے بانی یاسمین سپاحیچ (Yasmin Spahich) صاحب ہیں۔ یہ ان کے صدر ہیں ۔کہتے ہیں کہ آپ کا اسلام اور بانیٔ اسلام سے عشق اور اس عشق کا انتشار آپ کے محبت بکھیرنے والے الفاظ میں ہوتا ہے۔ نیزرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے حوالے سے نصیحت دل کو چھو رہی تھی ۔یہی وہ کام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اگلا جلسہ اس سے بھی بہتر ہو اور یہ جلسہ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قوت اور اتحاد پیدا کرنے کا باعث ہو۔

پھر یمینہ چاؤشیویچ (Emina Chaoshevich) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں مجھے جلسہ میں شامل ہو کر یہ احساس ہوگیا کہ جلسہ کے ماحول میں وہ قوت اور تاثیر ہے کہ روحانی طور پر مردہ انسان میں زندگی کی روح چلی آتی ہے۔

پھر عِلما کرے میش ( Elma Krehmiche)صاحبہ ہیں کہتی ہیں میں اس موقعے سے استفادہ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کا شکر ادا کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اس عظیم جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ مہمان نوازی اور جلسے کے متعلق تمام انتظامات نے مجھے حیرت انگیز طور پر متاثر کیا ہے اور خصوصاً میرا یہ weekend ایسے لوگوں کے درمیان گزرا ہے جن کے چہرے پہ ہمیشہ مسکراہٹ تھی۔

پھر وہاں بیعت کی تقریب بھی ہوئی جس میں 16؍ ممالک سے تعلق رکھنے والے 37؍ افراد نے بیعت کی توفیق پائی جس میں البانیہ ،سربیا، ہالینڈ، جرمنی، چچنیا، رومانیہ، کوسووو، بیلجیم، سیریا، ترکی، ازبکستان، لبنان، سینیگال، گھانا، گیمبیا، گنی کناکری شامل تھے۔

ایک دوست مسٹر لبینو ٹ(Labinot)کوسووو کے ایک ہائی سکول کے پرنسپل ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ نے مجھ پر ایک خاص جذباتی اثر ڈالا ہے اور خاص طور پر جب آپ نے وہاں کہا کہ بیٹھ جاؤ تو اتنا بڑا مجمع فوراً بیٹھ گیا۔ یہ دنیا میں کہیں دیکھنے میں نہیں ملا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ جلسہ میں شامل ہونے کے بعد تو میں یہ کہتا ہوں کہ جلسہ تین دن کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ تیس دن کا ہونا چاہیے اور کہتے ہیں بیعت کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا لیکن میں سب چیز سے اور پھر اس سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ بیعت کے دوران میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ خود بخود ہی میرا ہاتھ اٹھ گیا اور الفاظ دہرانے شروع کر دیے اور اب میں نےبیعت کر لی۔ صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ حقیقت میں کر لی۔

پھر آذربائیجان سے آغاصف صاحب ہیں۔ یہ کہتے ہیں میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں روحانیت کی اتنی بلندیوں کو دیکھوں گا۔ مربی محمود صاحب نے مجھے جماعت کے بارے میں اور اس کے عقیدے کے بارے میں معلومات دینی شروع کیں۔ مجھے یہ سب بناوٹی اور جھوٹ لگا ۔میں نے ان باتوں کو سنتے ہی انکار کر دیا لیکن معلوم نہیں تھا کہ سچ کی یہ قوت مجھے جلد اپنی طرف کھینچ لے گی۔ یقینی طور پر جماعت کی سچائی اور اس کے پیش کردہ دلائل بہت پختہ ہیں۔ ویڈیوز میں دیکھے جانے والے نظارے یہاں آ کر حقیقت میں دیکھنے کا موقع ملا۔ جلسے میں بہت سے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا لیکن ہر ایک سے مل کر ایک ہی جیسا خوشگوار احساس ہوتا تھا جو یقینی طور پر دلیل ہے کہ یہ ایک جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت بخشی۔ پہلی دفعہ جب مجھے اطلاع دی گئی تو مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے چار پانچ بار پوچھا کیا واقعی میں خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیعت کروں گا۔کہتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور ساتھ ہی پریشان ہو گیا کہ میں تو اس قابل نہیں۔ پھر میں نے درود شریف اور استغفار کا وِرد کرناشروع کیا۔ بیعت کا موقع آنے تک میں نہ کھا سکا اور نہ ہی کچھ اَور کر سکا۔ الحمد للہ بیعت کا موقع بھی آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی قوت بخشی، روحانی موقعےسے نوازا کہ میں بیعت کے بعد سجدے میں گر گیا اور اس ذات کا شکر ادا کیا جس نے اپنے اس ناچیز گناہگار بندے کو آپ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔ جلسے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ پھر ملاقات کا ایک موقع بھی مل جائے گا۔ میں سارا دن کئی سوال سوچتا رہا لیکن ملاقات ہوئی تو میں بھول گیا اور صرف سب سے زیادہ فکر مند کرنے والا سوال یاد رہا کہ جلسہ کے بعد اپنے ملک جانے کے بعد کیا روحانیت کا معیار قائم رہے گا۔ تو اس پر آپ نے کہا کہ اس کو قائم رکھنے کے لیے سورت فاتحہ اھدنا الصراط المستقیماور صراط الذین انعمت علیھم اور استغفار کو باقاعدگی سے پڑھتے رہا کرو اور کہتے ہیں میں یہاں سے یہ عہد کر کے جا رہا ہوں کہ اگلے جلسے تک اس نصیحت پر عمل پیرا رہوں گا اور اگلے جلسہ پر آ کر یہ بتاؤں گا کہ میں نے نصیحت پر عمل کیاہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا رہے۔

کوسووو کے وفد میں ایک دوست تھے جو پہلی دفعہ شامل ہوئے۔ کہتے ہیں اپنے احساسات اور جذبات کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میری زندگی میں کب سے ایک خواہش تھی کہ کوئی ایسا وجود مجھے ملے جو دنیا کی فکر کرنے والا ہو اور جس سے مل کر میرے تمام مسائل اور تکلیفیں حل ہو جائیں۔ میرا اس جلسے میں شامل ہونا خدائی تصرّفسے تھا اور بیعت کرتے ہوئے مجھے ایسےلگ رہا تھا گویا کہ میں خدا کے قریب ہو گیا ہوں۔

پھر البانیہ کے پَلُّومب (Pellumb) صاحب ہیں ۔کہتے ہیں میں نے آپ کے ہاتھ پربیعت کی اور جماعت میں داخل ہونے کی سعادت پائی۔ اللہ تعالیٰ کا اس کے لیے بے حد شکر گزار ہوں کہ مجھے احمدیت میں آنے کی توفیق عطا فرمائی۔ کہتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کابے حد شکرگزار ہوں کہ ایک سال قبل میں ایمان سے خالی تھا اور اس سال اللہ تعالیٰ نے مجھے ایمان کی دولت نصیب فرمائی ہے۔ میری پیدائش اور پرورش مکمل لامذہب ماحول میں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اور آپ سے ملاقات کے ذریعہ مجھے ایمان سے آراستہ کیا۔

ڈاکٹر محمد محمود صاحب کہتے ہیں جب دو سال قبل پہلی بار جلسے پہ آیا تو مجھے عجیب سا لگا اور میرے لیے بالکل نئی بات تھی کہ احمدی کہتے ہیں کہ مہدی اور مسیح آ گیا اور ہمیں اس کا ابھی علم نہیں ہے۔ میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کرتے کہ ہم نے تو یہی سیکھا اور پڑھا ہے کہ مہدی عربی ہو گا اور اس کا نام محمد بن عبداللہ ہو گا۔ کیا یہ جماعت دینی ہے یا سیاسی۔ اسی طرح کے کئی سوالات نے میرے ذہن کو جکڑ لیا۔ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے میں اگلے سال پھر جلسے پر آیا اور احمدی بھائیوں سے مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی۔ جلسے کے بعد بھی میرا احمدیوں سے رابطہ رہا اور آہستہ آہستہ میرے تمام سوالات کے جوابات ملتے رہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ احمدی ہی ایک حقیقی مسلمان کی تمام صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں نےجماعت کی محبت اور الفت سے متاثر ہو کر بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ کہتے ہیں یہ محبت جو جماعت کے لوگوں میں پائی جاتی ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کا بیج ان کے دلوں میں نہ بوتا تو کبھی بھی یہ محبت پیدا نہ ہوتی۔ پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور بیعت کے الفاظ دہراتے ہوئے جو احساس تھا اس کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ خوش قسمت ہوں کہ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ پھر کہتے ہیں کہ اگر بیعت پانچ گھنٹے بھی جاری رہتی تو میں بور نہ ہوتا اور نہ مجھے وقت گزرنے کا احساس ہوتا۔

کوسووو کے وفد میں ایک دوست تھے جو پہلی مرتبہ شامل ہوئے اور پانچ افراد کی ساری فیملی کو بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کہتے ہیں کہ پہلے مجھے بیعت کا ایک ڈر تھا کہ کس طرح ہو گی اور جسم گھبراہٹ سے کانپ رہا تھا لیکن بیعت کرنے کے بعد پھر یہ پرسکون ہو گیا اور محسوس ہونے لگا جیسے کہ سب نارمل ہو گیا ہے۔

کمال علوان صاحب لبنانی ہیں ۔ کہتے ہیں میرے پاس ایک ریسٹورنٹ تھا جس میں ایک احمدی دوست محمد شہادہ آیا کرتے تھے۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ امام مہدی آ بھی چکے ہیں اور وفات بھی پا چکے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ شخص کون تھا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد وہ احمدی آتا ہے اور دوبارہ آ کے کہتا ہے کہ امام مہدی آ چکا ہے۔ ایک دن اس نے بعض باتوں کی وضاحت کی جن میں دجال اور وفاتِ مسیح کا ذکر تھا۔ میرے لیے حیرت انگیز معلومات تھیں اور میرے دل میں گھر کر گئیں اور میرے دل میں تحریک پیدا کرنے لگیں کہ میں جماعت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کروں۔ پھر اس نے مجھے جلسے پر آنے کی دعوت دی جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ کہتے ہیں جلسے میں جو میرے لیے جماعت کی سچائی کی سب سے پہلی دلیل بنی وہ اتنی بڑی تعداد اور ان کا حسنِ انتظام تھا۔ جلسہ کے دوران ایک دوست نے مجھے بتایا کہ یہ خلیفة المسلمین ہیں۔ پھر میں نے احمدیوں سے مختلف سوالات کیے جن کا انہوں نے بڑے پیار سے جواب دیا۔ میرا دل احمدیت کی صداقت سے مطمئن ہوتا چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ اگلے سال تک زندہ رہوں گا بھی یا نہیں اس لیے ابھی بیعت کرنی چاہیے تو میں نے بیعت کر لی۔ اسی طرح میری دو خوابیں بھی جماعت کی صداقت کی وجہ بنیں۔ اللہ کے فضل سے میرے ایک بیٹے نے بھی بیعت کر لی اور میں چاہتا ہوں کہ میری باقی اولاد بھی احمدی ہو جائے۔ میں آج الحوار المباشر اور خطبات جمعہ غور سے دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک دس شرائطِ بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے صرف چند شرائط ہی نہیں بلکہ یہ خدائی لائحہ عمل ہے۔ بیعت سے قبل میں دعا کیا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے امام مہدی کو دیکھنے کی توفیق دے۔ گذشتہ زندگی جو جماعت کے بغیر میں نے گزاری اس پر مجھے ندامت ہوتی رہتی ہے۔ میں اس لیے ہر احمدی کا تہ دل سے احترام کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ دینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کر رہے ہیں۔ مجھے اب اپنے بیوی بچوں اور کام کرنے کی اتنی فکرنہیں ہوتی بلکہ مجھے فکر لاحق رہتی ہے کہ میرے پاس اتنے پیسے ہوں کہ میں جماعت کی ترقی کے لیے خرچ کر سکوں اور جماعت کی خدمت کر سکوں اور اللہ تعالیٰ میری خواہش کو قبول کرے۔

پھر فواد صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ جماعت کے تعارف سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے بارے میں سوچتا تھا اور مسلمانوں کی حالت پر نظر کرتا تھا جو دن بدن بُری ہوتی چلی جا رہی تھی اور یہ کہ ان کی حالت کب ٹھیک ہو گی۔ پھر جب میں جرمنی آ گیا تو میں یورپ کے عرب دوستوں کو دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ کیا ان لوگوں کے ذریعے سے یورپ میں اسلام پھیلے گا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں یورپ میں اسلام پھیلے گا۔ اسی دوران ایک احمدی دوست ماہر المعانی سے میری ملاقات ہوئی اور اس نے جماعت کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ شروع میں تو میں نے اس کی مخالفت کی لیکن جماعتی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے جلسے پر جانے کا ارادہ کر لیا۔ میں نے جلسہ دیکھا اور سوچا کہ اس قدر لوگ کس طرح ایک شخص کے ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے اور آپس میں محبت اور الفت کا تعلق بھی قائم ہو گیا۔ میں نے تہجد میں بہت دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ جماعت سچی ہے تو مجھے اسی جلسہ میں (یہ 2018ء کی بات ہے) بیعت کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ پس اس جلسہ پر میرا دل مطمئن ہو گیا اور میں نے بیعت کر لی لیکن میری بیوی نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور میں نے سمجھایا کہ تم یہ کتابیں پڑھو اور خدا سے استخارہ کرو۔ تین مہینے بعدمیری بیوی نے استخارہ کیا اور اس نے خواب میں دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور ایک سفید کبوتر اُن کے درمیان موجود ہے۔ میری بیوی نے پوچھا کہ یہ کبوتر کیا ہے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا یہ کبوتر اسلام پھیلانے کے لیے قُدس کے علاقے میں آیا ہے۔ اس خواب نے میری بیوی کے دل کو کھول دیا اور وہ اس جلسے میں یعنی 2019ء میں شامل ہوئی اور بیعت کر لی۔ پھر کہتے ہیں میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری تمام فیملی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی توفیق دی ہے اور اب میں اپنے تمام رشتے داروں کو بھی تبلیغ کروں گا۔

آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ایک مہمان فاطمہ سامر صاحبہ کہتی ہیں کہ میں نے جلسہ جرمنی کے موقعے پر 7؍جولائی کو بیعت کی ہے اور میں دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ میری بیعت بابرکت ہو اور میری کوئی غلطی میرے اس عہدِ بیعت کو توڑ نہ دے۔ اللہ کرے کہ میں اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کر سکوں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں ذکر کیا ہے۔ پھر کہتی ہیں مَیں اپنی فیملی کے ساتھ 2011ء سے احمدی ہوں۔ لیکن بیعت فارم فِل نہیں کیا تھا اور اپنے آپ کو احمدی سمجھتی تھیں۔ کہتی ہیں دو ماہ بعد میری عمر اٹھارہ سال ہو جائے گی۔ میری بچپن سے یہ خواہش تھی کہ خود بیعت کروں ۔ میں نے 2011ء سے اپنا بیعت فارم محفوظ کیا ہوا تھا تا کہ خود پیش کروں اور آپ کے ہاتھ پر خود بیعت کروں۔ چنانچہ اس سال یہ خواہش پوری ہو گئی اور اب وہ فارم فل کرنے سے پہلے ہی مہمانوں کو تبلیغ بھی کرتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نوجوانوں کے دل بھی کھول رہا ہے۔

ایک کُرد لڑکی اپنے تاثرات بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ نے احمدیت قبول کی تھی لیکن اس وقت میں تیار نہ تھی۔ اب گذشتہ چند ماہ سے مجھے شرح صدر ہو رہی ہے کیونکہ میں نے احمدیوں میں باہمی محبت دیکھی ہے اور آج آپ کا خطاب سننے سے میرے تمام خدشات دور ہو گئے ہیں۔ گذشتہ سال بھی میں آئی تھی لیکن یہ کیفیت نہ تھی جو آج ہے۔ میری والدہ بہت خوش ہوں گی کیونکہ اب مجھے بہت شدت سے احساس ہونے لگا ہے کہ اب مجھے احمدی ہو جانا چاہیے۔

جارجیا سے ایک وکیل جو یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں۔ وہ بھی آئے۔ غیر ہیں۔ کہتے ہیں انہوں نے بیعت کی جو کارروائی دیکھی ۔ کہتے ہیں:میں بہت متاثر ہوا اور یہ ایک معجزہ ہے۔ بار بار کہتے تھے یہ ایک معجزہ ہے۔ اور ایک معجزہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جماعت میں باہمی محبت زیادہ ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان بیعت کرنیوالوں کے اخلاص و وفا اور ایمان و ایقان میں ترقی عطا فرماتا رہے اور ہم میں سے ہر ایک کو بھی جلسہ کی برکات سے فیض پانے والا بنائے اور مسیح موعود کی دعاؤں کا وارث بنائے۔

میڈیا کے ذریعہ سے اس سال جرمنی میں کُل تیرہ میڈیا آؤٹ لٹس (Outlets) نے اور اس کے علاوہ پھر سوشل میڈیا کے ذریعہ سائٹس پر بھی جلسہ کی کوریج دی۔ اٹلی، چین اور سلواکیہ کے آن لائن اخبارات نے خبریں دیں۔ ان کے اندازے کے مطابق دو کروڑ چھبیس لاکھ افراد تک پیغام پہنچا۔ ریویو آف ریلیجنز کے ذریعے سے بھی مختلف پروگرام آتے رہے۔ یہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا اور ان کا خیال ہے کہ اس کے ذریعہ بھی ایک ملین لوگوں تک پہنچ جائے گا۔ یہ جو ریویو آف ریلیجنز کا میں نے بھی ذکر کیا یہ ابھی چل رہا ہے۔ افریقہ میں ایم۔ٹی۔اے افریقہ کے ذریعہ سے انہیں تعارف حاصل ہوا ہے۔ وہاں بھی جلسوں کے پروگرام دکھائے گئے اور جلسہ جرمنی کے حوالے سے جو رپورٹس بنا کر بھیجی گئی تھیں وہ وہاں گھانا کے نیشنل ٹی وی نے دکھائیں۔ گیمبیا کے نیشنل ٹیلیویژن نے دکھائیں۔ روانڈا کے نیشنل ٹیلیویژن نے دکھائیں۔ سیرالیون کے نیشنل ٹیلیویژن نے دکھائیں اور یوگنڈا کے نیشنل ٹیلیویژن نے دکھائیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اس جلسہ کے حوالے سے بڑے وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ بابرکت فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button