خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09؍ مارچ 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور ان کے مقام و مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ان پر انعامات کا ذکر

یہ صحابہ اپنی تمام نفسانی خواہشات سے پاک تھے۔ صاف دل ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو کر صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے والے تھے اور جب یہ حالت ہو تو پھر خدا تعالیٰ بھی نوازتا ہے اور بے انتہا نوازتا ہے اور ہم صحابہ کی زندگی میں یہ باتیں دیکھتے ہیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے تعلق باللہ اور محبت الٰہی میں اس کی رضا کی خاطر عظیم الشان قربانیوں کی روح پرور مثالوں کا تذکرہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسی نے ان صحابہ میں ایک ایسی روح پھونک دی تھی کہ وہ مرتے ہوئے بھی کہتے تھے کہ کعبہ کے رب کی قسم ہم کامیاب ہو گئے۔ ہم نے خدا کو پا لیا۔ یہ لوگ ظلم کے خلاف جنگ کرنے والے تھے۔ ظلم پھیلانے والے نہیں تھے۔

کسی بھی صحابی کے واقعہ کو لے لیں اخلاص اور وفا اور خدا تعالیٰ کی خاطر جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ سے محبت کا جو انداز تھا اور پھر جس طرح آپ کی قوت قدسی سے اللہ تعالیٰ سے ان صحابہ کا تعلق پیدا ہوا اور پھر خدا تعالیٰ بھی بعض دفعہ ان صحابہ کو براہ راست نوازتا تھا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ان کو نوازتا تھا۔ اس کا ذکر بھی صحابہ کے مقام و مرتبہ کا پتہ دیتا ہے۔

ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے۔ وہ نہایت سرگرمی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں صحابہ کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نمونوں پر چلتے ہوئے اپنے اخلاص و وفا کو بھی بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور ان کے مقام و مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ان پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال و متاع خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اور آپ کمبل پہن لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں کیا دیا۔ تمام عرب کا انہیں بادشاہ بنا دیا اور اسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے سے زندہ کیا اور مرتد عرب کو پھر فتح کر کے دکھا دیا اور وہ کچھ دیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا‘‘۔ فرماتے ہیں ’’غرض ان لوگوں کا صدق و وفا اور اخلاص و مروّت ہر مسلمان کے لئے قابل اُسوہ ہے۔ صحابہؓ کی زندگی ایک ایسی زندگی تھی کہ تمام نبیوں میں سے کسی نبی کی زندگی میں یہ مثال نہیں پائی جاتی…۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’ اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اپنی خواہشوں اور اغراض سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں آتا وہ کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ لیکن جب وہ تمام نفسانی خواہشات اور اغراض سے الگ ہو جاوے اور خالی ہاتھ اور صافی قلب لے کر خدا تعالیٰ کے حضور جاوے تو خدا اس کو دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ انسان مرنے کو تیار ہو جاوے اور اس کی راہ میں ذلّت اور موت کو خیر باد کہنے والا بن جاوے‘‘۔ فرمایا ’’دیکھو دنیا ایک فانی چیز ہے۔ (کوئی اس میں مستقل نہیں رہتا)’’ مگر اس کی لذت بھی اسی کو ملتی ہے جو اس کو خدا کے واسطے چھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا مقرّب ہوتا ہے خدا تعالیٰ دنیا میں اس کے لئے قبولیت پھیلا دیتا ہے۔ یہ وہی قبولیت ہے جس کے لئے دنیا دار ہزاروں کوششیں کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی خطاب مل جاوے یا کسی عزت کی جگہ یا دربار میں کرسی ملے اور کرسی نشینوں میں نام لکھا جاوے۔ غرض تمام دنیوی عزتیں اسی کو دی جاتی ہیں اور ہر دل میں اسی کی عظمت اور قبولیت ڈال دی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے اور کھونے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف آمادہ بلکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھونے والوں کو سب کچھ دیا جاتا ہے‘‘۔

آپ مجلس میں بیٹھےیہ باتیں فرما رہے تھے۔ دوسری جگہ ایک اور روایت میں اس کے یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’’زمینی گورنمنٹوں کے لئے جو ذرا سا کچھ گنواتا ہے ان کو اجر ملتا ہے‘‘۔( عام دنیا داری میں دیکھو تم کچھ دیتے ہو، ان کی خاطر کچھ کرتے ہو تو اجر ملتا ہے)۔ فرمایا’’ تو جو خدا کے لئے گنوائے تو کیا اسے اجر نہ ملے گا؟‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں ’’اور وہ نہیں مرتے ہیں جب تک وہ اس سے کئی چند نہ پا لیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیا ہے۔ خدا تعالیٰ کسی کا قرض اپنے ذمہ نہیں رکھتا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان باتوں کو ماننے والے اور ان کی حقیقت پر اطلاع پانے والے بہت ہی کم لوگ ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد 5 صفحہ 398-399 مع حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ صدق و وفا اور اخلاص و مروّت دکھانے والوں کے نمونے ہمیں اس شان سے نظر آتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے نہ صرف ان کی محبتوں کے رخ بدل دئیے۔ پہلے محبتوں کے رخ کسی اور طرف تھے پھر اور طرف کر دئیے۔ دنیا سے خدا کی طرف کر دئیے۔ بلکہ ان محبتوں کے پیمانوں کو وہ عروج عطا کر دیا، وہ بلندیاں دے دیں جس کی مثال پہلے دنیا میں نہیں ملتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس خوبصورتی سے اس عروج اور بلندی کی مثال دی ہے کہ فرمایا کہ ان کے اس معیار محبت اور قربانی کی سابقہ انبیاء کی زندگی میں بھی مثال نہیں پائی جاتی۔ اور جہاں تک نبیوں کے ماننے والوں کا سوال ہے تو ان کی شان کیا، ان کی حالت تو صحابہ کے مقابلہ میں بہت ہی گری ہوئی تھی۔ یہ صحابہ اپنی تمام نفسانی خواہشات سے پاک تھے۔ صاف دل ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو کر صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے والے تھے اور جب یہ حالت ہو تو پھر خدا تعالیٰ بھی نوازتا ہے اور بے انتہا نوازتا ہے اور ہم صحابہ کی زندگی میں یہ باتیں دیکھتے ہیں۔

بعض صحابہ کے واقعات پیش کرتا ہوں کہ کس طرح انہوں نے اپنے نفسوں کو خدا تعالیٰ کے ماتحت کر لیا تھا۔ کیا نمونے انہوں نے دکھائے۔

حضرت عَبّاد بن بشر ایک انصاری صحابی تھے۔ عین جوانی میں تقریباً پینتالیس سال کی عمر میں ان کو شہادت نصیب ہوئی تھی۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 3 صفحہ 46 عباد بن بشرؓ دار الفکر بیروت 2003ء)،(الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 3 صفحہ 496 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) ان کی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے وقت جاگے تو مسجد سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے بہت جلدی جاگا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ آواز عَباد کی ہے؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں مَیں نے عرض کی کہ انہی کی آواز لگتی ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا دی کہ اے اللہ عَبّاد پر رحم کر۔

(صحیح البخاری کتاب الشہادات باب شہادۃ الأعمی … الخ حدیث 2655)

کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جو قرآن کریم کی تلاوت میں اپنی راتیں گزار کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے براہ راست حاصل کرنے والے بنے۔ اورراتوں کو اٹھ کر وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اور اس کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پکارتے تھے۔

حضرت عَبّاد کو اپنی ایک خواب کی وجہ سے یہ یقین تھا کہ انہیں شہادت کا رتبہ حاصل ہو گا۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبّاد نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آسمان پھٹا ہے اور مَیں اس میں داخل ہو گیا ہوں تو پھر وہ جڑ گیا ہے۔ واپس اپنی اصلی حالت میں آ گیا ہے۔ اس خواب سے وہ کہتے تھے کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کا رتبہ دے گا۔ ان کی یہ خواب جنگ یمامہ میں پوری ہوئی اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے انہوں نے شہادت پائی۔ لیکن جس دشمن سے لڑ رہے تھے اس پر آپ کے دستے نے جس میں تمام انصار شامل تھے فتح پائی۔ آپ تو شہید ہو گئے لیکن دشمن پر فتح پائی۔ حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کا چہرہ تلوار کے زخموں کی وجہ سے پہچانا نہیں جاتا تھا۔ ان کی نعش کو ان کے جسم کے ایک نشان کی وجہ سے پہچانا گیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد مترجم جلد 4 صفحہ 31 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

پھر تاریخ ہمیں ایک اور صحابی کے متعلق بتاتی ہے جن کا نام حرام بن ملحان تھا۔ یہ نوجوان نوجوانوں اور دوسروں کو قرآن سکھانے اور غریبوں اور اصحاب صفہ کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ جب بنی عامر کے ایک وفد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں تبلیغ کے لئے کچھ لوگ بھیجیں تا کہ ہمیں بھی اسلام کا پتہ چلے اور ہمارے لوگ اسلام میں داخل ہوں۔ نیت ان کی اس وقت بھی خراب تھی لیکن بہرحال انہوں نے یہ درخواست کی۔ یہ لوگ قابل اعتبار نہیں تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں سے خطرہ ہے کہ جس کو میں بھیجوں گا اسے شاید تمہارے لوگ نقصان پہنچائیں تو ان کے سردار نے کہا۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا۔ لیکن کہنے لگا کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں گا اور سارے میری امان میں ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایک وفد بنی عامر کی طرف بھیجا۔ حرام بن ملحان کو امیر مقرر کیا۔ جب یہ وفد وہاں پہنچا تو حضرت حرام بن ملحان کو شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ ان کے طور کوئی صحیح نظر نہیں آ رہے تھے۔ دَور سے پتا لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ احتیاطی تدبیر کرنی چاہئے اور سب کو وہاں اکٹھے نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے گھیر لیا تو سب کو ایک ہی وقت میں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لئے تم سب یہیں رہو اور مَیں اور ایک اور ساتھی جاتے ہیں۔ اگر تو انہوں نے ہم سے صحیح سلوک کیا تو تم لوگ بھی آ جانا اور اگر ہمیں نقصان پہنچایا تو پھر تم لوگ حالات کے مطابق فیصلہ کرنا کہ کیا کرنا ہے۔ واپس جانا ہے یا ان سے لڑنا ہے یا وہیں رہنا ہے۔ جب یہ حرام بن ملحان اور ان کے ساتھی ان لوگوں کے قریب گئے تو بنی عامر کے سردار نے ایک آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے حرام بن ملحان پر نیزے سے حملہ کیا۔ ان کی گردن سے خون کا فوارہ نکلا۔ انہوں نے اس خون کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور کہا کہ رب کعبہ کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا۔ کعبہ کے رب کی قسم مَیں کامیاب ہو گیا۔ اور بعد میں پھر ان کے دوسرے ساتھی کو بھی شہید کر دیا گیا اور پھر باقاعدہ حملہ کر کے باقی جو ستّر لوگ تھے، ان سب کو شہید کر دیا سوائے ایک یا دو کے جو بچے۔ جب ان لوگوں کو ظالمانہ طور پر دھوکے سے شہید کیا جا رہا تھا تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ایک تو ہماری یہ قربانیاں قبول فرما لے اور ہماری اس حالت کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دے کیونکہ یہاں تو اطلاع پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل نے ان صحابہ کا سلام پہنچایا اور وہاں کے حالات اور شہادت کی اطلاع دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اطلاع دی کہ وہ سب شہید کر دئیے گئے ہیں۔ ستر صحابہ تھے جیسا کہ میں نے کہا، اور ان سب کی شہادت کا آپ کو بڑا انتہائی صدمہ تھا۔ آپ نے تیس دن تک ان قبائل کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ان میں سے جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے خود ان کی پکڑ کر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہادتوں کو بڑی عظیم شہادتیں قرار دیا ہے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع … الخ حدیث 4091) (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب ثبوت الجنۃ للشھید حدیث 4917) (تاریخ الخمیس جلد اوّل صفحہ 452 سریہ المنذر بن عمرو الی بئر المعونۃ مطبوعہ موسسۃ شعبان بیروت) (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 355حدیث 12429 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس عشق و محبت اور دین کی خاطر عظیم الشان قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ’’ محبت ایک ایسی شئے ہے کہ وہ سب کچھ کرا دیتی ہے۔ ایک شخص کسی پر عاشق ہوتا ہے تو معشوق کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتا‘‘۔ پھر دنیا والوں کی ایک مثال دی آپ نے کہ ’’ایک عورت کسی پر عاشق تھی۔ اس کو کھینچ کھینچ کر لاتے تھے اور طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے۔ ماریں کھاتی تھی مگر وہ کہتی تھی کہ مجھے لذّت ملتی ہے۔ جبکہ جھوٹی محبتوں، فسق و فجور کے رنگ میں جلوہ گر ہونے والے عشق میں مصائب اور مشکلات کے برداشت کرنے میں ایک لذت ملتی ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں (دنیا داروں کا یہ حال ہے)’’ تو خیال کرو کہ وہ جو خدا تعالیٰ کا عاشق زار ہو، اس کے آستانہ اُلوہیت پر نثار ہونے کا خواہشمند ہو وہ مصائب اور مشکلات میں کس قدر لذت پا سکتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حالت دیکھو۔ مکّہ میں ان کو کیا کیا تکلیفیں پہنچیں۔ بعض ان میں سے پکڑے گئے۔ قسم قسم کی تکلیفوں اور عقوبتوں میں گرفتار ہوئے۔ مرد تو مرد بعض مسلمان عورتوں پر اس قدر سختیاں کی گئیں کہ ان کے تصوّر سے بدن کانپ اٹھتا ہے۔ اگر وہ مکّہ والوں سے مل جاتے تو اس وقت بظاہر وہ ان کی بڑی عزت کرتے کیونکہ وہ ان کی برادری ہی تو تھے۔ مگر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو مصائب اور مشکلات کے طوفان میں بھی حق پر قائم رکھا۔ وہ وہی لذت اور سرور کا چشمہ تھا جو حق کے پیار کی وجہ سے ان کے سینوں سے پھوٹ نکلتا تھا‘‘۔

پھر آپ اس واقعہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’ ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کہا کہ میں وضو کرتا ہوں۔ آخر لکھا ہے کہ سر کاٹو تو‘‘( پھر کہا کہ)’’ سجدہ کرتا ہے۔ کہتا ہوا مر گیا۔ اس وقت اس نے دعا کی کہ یا اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ( میں) تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے جا کر السلام علیکم کہا۔ آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی۔ غرض اس لذت کے بعد جو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے‘‘( جس طرح ان صحابی نے کہا تھا میں نے ربِّ کعبہ کو پا لیا۔ جو انتہا تھی عشق کی وہاں میں پہنچ گیا۔) فرماتے ہیں کہ ’’اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں۔ سچ پوچھو تو مومن کی نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جاوے کہ یا نصرانی ہو جا یا قتل کر دیا جائے گا۔ اس وقت دیکھنا چاہئے کہ اس کے نفس سے کیا آواز آتی ہے؟ آیا وہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر (وہ) مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ مومن حقیقی ہے ورنہ کافر ہے۔ غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذت ہوتی ہے۔ بھلا سوچو تو سہی کہ اگر یہ مصائب لذت نہ ہوتے تو انبیاء علیہم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزار تے ‘‘۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 308-309۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہاں تو صحابہ کی جو مثالیں ہیں ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے ایک ایسی روح پھونک دی تھی کہ جاتے ہوئے بھی یہ کہتے تھے، مرتے ہوئے یہ کہتے تھے جیسا کہ ہم نے سنا کہ کعبہ کے رب کی قسم ہم کامیاب ہو گئے۔ ہم نے خدا کو پا لیا۔ لیکن یہ وہ لوگ تھے جو نیکیاں کرنے والے تھے۔ جن پر جب ظلم کئے جاتے تھے تو اس ظلم کی خاطر قربانیاں دیتے تھے نہ کہ خود ظالم بن کر ظلم کرتے جس طرح کہ آج کل کے بعض گروہوں نے کام شروع کیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم شہید ہو گئے یا شہید ہو جائیں گے تو جنت میں چلے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ نہیں تھے۔ یہ لوگ ظلم کے خلاف جنگ کرنے والے تھے۔ ظلم پھیلانے والے نہیں تھے۔

پھر حضرت عبداللہؓ بن عمرو ایک انصاری صحابی تھے جن کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے کہ اُحد کی جنگ میں جاتے ہوئے انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ سب سے پہلے مجھے شہادت حاصل ہو گی۔ شاید انہوں نے خواب دیکھی تھی یا اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا۔ کہنے لگے کہ میری موت کے بعد تم اپنی بہنوں کا خیال رکھنا۔ان کی بیٹیاں تھیں۔ اور ایک یہودی سے مَیں نے قرض لیا ہوا ہے۔وہ قرض میرے کھجور کے باغات میں سے ادا کر دینا جب اس کی آمد آئے گی۔(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ حدیث 1351، کتاب المناقب باب علامات النبوۃ حدیث 3580) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 8 صفحہ 244 حدیث 1351 کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2003ء)

یہ تھا اللہ تعالیٰ سے محبت اور تقویٰ، پاکیزگی اور حقوق کی ادائیگی کا معیار۔ جنگ میں جا رہے ہیں۔ جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کوئی فکر نہیں۔ بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ میں شہید ہونے والوں میں سے پہلے شہید کی سعادت پانے والا ہوں یا پاؤں گا۔ یہ خوف نہیں کہ میری جوان بیٹیاں ہیں ان کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ ان حقوق کی ادائیگی کے لئے ایک تو توکّل علی اللہ ہے۔ اللہ پر توکل کیا۔ پھر بیٹے کو نصیحت کی کہ اب تم نے گھر کا بڑا بن کر ان فرائض کو پورا کرنا ہے اور بہنوں کا خیال رکھنا ہے۔ اور پھر قرض کی ادائیگی کی بھی فکر ہے کہ یہودی سے قرض لیا ہوا ہے اس کا سامان بھی مَیں تمہیں نہیں کہتا کہ تم اپنی ذات سے کروبلکہ انشاء اللہ تعالیٰ باغات کی آمد سے ادا ہو جائے گا۔ تمہارے پہ بوجھ نہیں ڈال رہا۔ ہاں ایک فرض سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں۔ ایک اسلامی حکم سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں کہ قرض کی ادائیگی کرنی ضروری ہے اور قرض اتار کر پھر ہی تم میری جائیداد کے وارث بن سکتے ہو۔ پہلی بات اور پہلا حکم یہی ہے کہ قرض اتارو۔

حضرت عبداللہ کی شہادت اور قربانی کو بھی کس طرح اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت عبداللہ کے بیٹے کو افسردہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعزیت فرمانے کے بعد فرمایا کہ مَیں تمہیں ایک خوش کرنے والی بات بتاتا ہوں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو شہادت کے بعد اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ مجھ سے جو چاہو خواہش کرو مَیں تمہیں عطا کروں گا۔ حضرت عبداللہ نے اپنے رب سے عرض کیا کہ اے میرے خدا! میں نے حقِ بندگی تو ادا نہیں کیا۔ تیرے سامنے خواہش کس منہ سے کروں۔حالانکہ آپ کے عبادتوں کے معیار تھے، قربانیوںکے معیار تھے۔لیکن پھر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے تیرا حقِ بندگی تو ادا نہیں کیا۔ اور پھر کس منہ سے تیرے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کروں۔ تیرا رحم اور فضل ہے جو عطا کر دے۔ پھر عرض کیا کہ خواہش میری اگر پوچھتا ہے اے اللہ! تو یہی خواہش ہے کہ مجھے تُو پھر دنیا میں لوٹا دے تا کہ مَیں پھر تیرے نبی کے ساتھ ہو کر دشمن کا مقابلہ کروں اور پھر شہید ہو کر آؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں یہ فیصلہ کر چکا ہوں جس کو ایک دفعہ موت دے دوں وہ دوبارہ دنیا میں لوٹایا نہیں جاتا۔(مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 389 حدیث 15756 کتاب المناقب باب فی عبد اللہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) اس لئے یہ خواہش تو پوری نہیں ہو سکتی۔ باقی انشاء اللہ ، اللہ چاہتا ہے کہ شہید کا جو مقام ہے وہ تو ملنا ہی ہے۔

اسی طرح ایک اور صحابی حضرت عمرؓو بن جموح کے بارے میں ان کے جذبہ قربانی اور شہادت کا ذکر ملتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے لنگڑا کر چلتے تھے۔ کافی تکلیف تھی۔ اس وجہ سے بدر کی جنگ میں ان کے بیٹوں نے ان کے معذور ہونے کی وجہ سے انہیں شامل نہیں ہونے دیا۔ جب اُحد کا موقع آیا اور دشمن نے حملہ کیا۔ کافر لوگ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اب تم جو چاہو کر لو مَیں نے اب تمہاری بات نہیں ماننی اور اس میں ضرور شامل ہونا ہے۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے میرے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے جنگ میں مجھے شامل ہونے سے روک رہے ہیں۔ لیکن میں آپ کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ اور عرض کیا کہ خدا کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دلی خواہش پوری کرے گا اور مجھے شہادت عطا فرمائے گا اور میں اپنے لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معذوری کی وجہ سے تم پر جہاد تو فرض نہیں بنتا۔ لیکن اگر تمہاری یہی خواہش ہے، تم یہی خواہش رکھتے ہو تو پھر شامل ہو جاؤ۔ اور بیٹوں کو بھی فرمایا کہ انہیں شامل ہونے دو۔ چنانچہ حضرت عمرو جنگ میں شامل ہوئے اور یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے شہادت عطا کر اور مجھے ناکام و نامراد اپنے گھر کی طرف نہ لوٹانا اور پھر واقعۃً ان کی یہ خواہش پوری بھی ہوئی اور وہ میدان اُحد میں شہید ہوئے۔

(اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 688-689 مترجم۔ عمرو بن الجموح مطبوعہ المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور)

پس یہ لوگ ایمان میں بڑھے ہوئے تھے۔ یقین میں بڑھے ہوئے تھے۔ کسی بھی صحابی کے واقعہ کو لے لیں۔وہ اخلاص اور وفا اور خدا تعالیٰ کی خاطر جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔

حضرت ابوطلحہ ایک انصاری صحابی تھے جو تیر اندازی میں مشہور تھے۔ احد کی جنگ میں تیر اندازی کرتے ہوئے انہوں نے بڑے جوہر دکھائے۔(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی طلحہ انصاریؓ حدیث 3811)،(صحیح البخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائِتفان ۔۔۔ الخ حدیث 4064)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ابوطلحہ کے آگے تیر ڈال دو۔ کیونکہ وہ بڑی تیزی سے تیر استعمال کرتے تھے اور ان کےیہ تیر بڑے نشانوں پر لگتے تھے۔ ان کو بھی اُحد کی جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہونے کی توفیق ملی۔یہ انصاری تھے۔ حضرت طلحہ نے تو اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے کیا ہوا تھا۔اور ابو طلحہ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی طلحہ انصاریؓ حدیث 3811) بے خوف اور بے دھڑک خطرناک ترین جگہوں پر کھڑے ہونے کو جنگ کے دوران ترجیح دیتے تھے۔ اس لئے کہ دشمن جو اسلام کو ختم کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ لڑیں۔ اس لئے کہ دنیا میں امن اور سلامتی قائم کر سکوں جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں نے ظلم کرنے کے لئے جنگیں نہیں کیں۔ بلکہ دشمن نے جب حملہ کیا تو پھر بزدلی نہیں دکھائی۔ بلکہ بہادری اور جرأت کے جوہر دکھائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا( تعالیٰ) کی طرف سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ اَسباب کیا شئےہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں جاؤ گے تو مُرَاغَمًا کَثِیْرًا(النساء101:) پاؤ گے۔ صحت نیت سے جو قدم اٹھاتا ہے۔ خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ انسان اگر بیمار ہو تو اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ صحابہ کی نظیر دیکھ لو۔ دراصل صحابہ کرام کے نمونے ایسے ہیں کہ کُل انبیاء کی نظیر ہیں۔ خدا کو تو عمل ہی پسند ہیں۔ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنی جانیں دیں اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے نبوت کی ایک ہیکل آدم علیہ السلام سے چلی آتی تھی۔‘‘ (نبوت کی ایک شکل ہے، ایک عظمت ہے جس کو ظاہر صورت میں بتایا جاتا ہے۔ ہمارے مذہب کی تاریخ میں ہمیں حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آتی نظر آتی ہے۔) فرماتے ہیں کہ ’’مگر صحابہ کرام نے چمکا کر دکھلا دی‘‘۔( صرف اس کی علمی حیثیت نہیں بتائی بلکہ عمل سے اس کو چمکا کر دکھلا دیا)’’ اور بتلا دیا کہ صدق اور وفا اسے کہتے ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں’’ حضرت عیسیٰ کا تو حال ہی نہ پوچھو۔ موسیٰ( علیہ السلام) کو کسی نے فروخت نہ کیا۔ مگر عیسیٰ کو ان کے حواریوں نے تیس روپے لے کر فروخت کر دیا۔ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ حواریوں کو عیسی علیہ السلام کی صداقت پر شک تھا جبھی تو مائدہ مانگا اور کہا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا تا کہ تیرا سچا اور جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ مائدہ سے پیشتر ان کی حالت نَعْلَمُ کی نہ تھی۔ پھر جیسی بے آرامی کی زندگی انہوں نے( یعنی صحابہ کرام نے )بسر کی اس کی نظیر کہیں نہیں پائی جاتی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ صحابہ کرام کا گروہ عجیب گروہ قابلِ قدر اور قابلِ پیروی گروہ تھا۔ ان کے دل یقین سے بھر گئے ہوئے تھے۔ جب یقین ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ اوّل مال وغیرہ دینے کو جی چاہتا ہے۔ پھر جب بڑھ جاتا ہے تو صاحبِ یقین خدا کی خاطر جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 5 صفحہ 42۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ یقین بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ہر وقت بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ ان صحابہ کے عام روز کے معاملات بھی عشق رسول کے عجیب نظارے دکھاتے ہیں۔ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کس طرح کوئی موقع ملے اور ہم اپنی محبت کا اظہار کریں۔

حضرت عبداللہ بن عَمرو کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کس طرح عام حالات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و وفا کا اظہار کریں۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنے بیٹے حضرت جابر کے ہاتھ گھر میں پکی ہوئی کوئی میٹھی چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوائی۔ جب وہ واپس آئے توبیٹے سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ارشاد فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جابر گوشت لائے ہو۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا کہ میرے آقا کو گوشت کی خواہش ہے۔ اسی وقت گھر کی ایک بکری ذبح کی اور پھر گوشت بھون کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاندان کو بھی دعا سے نوازا۔

(الجامع لشعب الایمان جلد 8 صفحہ 62-63 حدیث 5503 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2003ء)

صحابہ کو شروع میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی تبلیغ کرنے میں بڑی دقّتیں پیش آتی تھیں۔ کہیں بیٹا مسلمان ہوا اور باپ نہیں تو مشکلات ہیں۔ کہیں کوئی اَور کمزور رشتہ دار مرد یا عورت مسلمان ہوا تو دوسرے بڑے رشتہ دار تنگ کر رہے ہیں یا وہ ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ حضرت عمرو بن جموح سے پہلے ان کے بیٹے نے بیعت کر لی تھی۔ باپ مشرک تھا۔ باپ کو تبلیغ کرنے کے لئے جب اور کوئی رستہ نہیں دیکھا،وہ مانتے نہیں تھے تو بیٹے نے یہ راستہ نکالا کہ اپنے باپ کا وہ بُت جو گھر میں بڑا سجا کر رکھا گیا تھا اسے رات کو اٹھا کر کوڑے کے گڑھے میں پھینک دیا۔ عمرو بن جموح دوبارہ تلاش کر کے اپنے گھر میں اس کو لے آئے اور بڑے غصہ سے کہا کہ اگر مجھے پتا چل جائے کہ کس نے میرے بت کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے تو میں اسے بڑی عبرتناک سزا دوں۔ اگلے دن پھر بیٹا اپنے باپ کے بت کے ساتھ وہی سلوک کرتا اور کسی گڑھے میں پڑا ہوا وہ بت ملتا۔ آخر ایک دن انہوں نے یعنی عمرو نے اس بت کو خوب صاف کیا اور سجایا اور ساتھ اپنی تلوار رکھ دی اور اس بت کو کہا کہ مجھے نہیں پتا لگتا کہ کون تمہارے ساتھ یہ حرکتیں کر رہا ہے۔ لیکن اب میں تلوار بھی تمہارے ساتھ رکھ رہا ہوں اب اپنی حفاظت تم خود کر لینا۔ اگلے دن جب دیکھا تو بت پھر غائب تھا۔ تلاش کرنے پر ایک گند کے ڈھیر پر ایک مردہ کتے کے گلے میں بندھا ہوا ملا۔ عمرو یہ دیکھ کر سوچ میں پڑ گئے کہ وہ بت جسے میں نے خدا بنا رکھا ہے اس میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ تلوار پاس ہونے کے باوجود اپنا دفاع کر سکے تو اس نے میری حفاظت کیا کرنی ہے۔ چنانچہ انہوں نے بت کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تم سچے خدا ہوتے تو یوں کتے کے گلے میں نہ پڑے ہوئے ہوتے۔ پس میں بلند و برتر اللہ کی تعریف کرتا ہوں جو رزق عطا کرنے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ انصار میں سب سے آخر میں اسلام قبول کرنے والے عمرو بن جموح ہی تھے۔

(اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 688 مترجم مطبوعہ المیزان ناشرون و تاجران کتب لاہور)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ سے محبت کا جو انداز تھا اور پھر جس طرح آپ کی قوت قدسی سے اللہ تعالیٰ سے ان صحابہ کا تعلق پیدا ہوا اور پھر خدا تعالیٰ بھی بعض دفعہ ان صحابہ کو براہ راست نوازتا تھا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توسّط سے ان کو نوازتا تھا۔ اس کا ذکر بھی صحابہ کے مقام و مرتبہ کا پتا دیتا ہے۔

حضرت اّبیّ بن کعب کا تعلق باللہ کا بھی ایک خاص مقام تھا۔ بخاری میں بھی یہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تجھے قرآن پڑھ کر سناؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے اپنے صحابی کو کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں۔ حضرت اُبیّ بن کعب حیرانی سے پوچھنے لگے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایا ہے۔ اس خدا نے جو سارے جہان کا مالک ہے میرا نام لے کر کہا ہے کہ مجھے قرآن سنایا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تمہارا نام لے کر کہا ہے۔ اس پر اُبیّ بن کعب شدت جذبات سے رونے لگے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کی سورۃ پڑھ کر سنائی۔ یعنی سورۃ اَلْبَیِّنَۃ۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب کلّا لئن لم ینتہ … الخ حدیث 4960-4961) جب کسی نے ایک دفعہ بعد میں اُبیّ بن کعب سے پوچھا کہ آپ تو یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو دیکھ کر اور یاد کر کے خوش ہوا کرو تو میں خوش کیوں نہ ہوتا۔(اسد الغابہ مترجم جلد 1 صفحہ 111 ابی بن کعبؓ مطبوعہ المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور ) حضرت اُبیّ بن کعب فہم ِقرآن بھی بہت رکھتے تھے۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا۔ (یہ دو تین ہفتے پہلے بھی مَیں ایک خطبہ کے دوران بیان کر چکا ہوں)کہ قرآن کریم کی کون سی آیت ایسی ہے جسے سب سے عظیم کہا جائے؟ تو انہوں نے پہلے تو یہی کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر عرض کی کہ آیۃ الکرسی ایسی ہے جسے عظیم کہنا چاہئے۔ آیۃ الکرسی کے ضمن میں مَیں نے یہ روایت بھی بیان کی تھی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اے اُبیّ! اللہ تعالیٰ تیرا علم مبارک کرے۔ واقعی آیت الکرسی ہی قرآن کریم کی عظیم آیت ہے۔(سنن ابو داؤد کتاب الوتر باب ما جاء فی اٰیۃ الکرسی حدیث 1460)ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال ان کے ساتھ سارے قرآن کا دَور کیا۔(کنز العمال جلد 13 صفحہ 266 حدیث 36779 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء) حضرت عمر کی اجازت سے آپ لوگوں کو قرآن کریم کا علم سکھایا کرتے تھے۔ تفسیر بتایا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان حدیث 2010)

تو یہ تھے وہ صحابہ جو ترقی کرتے کرتے اپنے انتہائی مقام کو پہنچے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ ترقی تدریجاًہوتی ہے اس لئے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ آپ صحابہ کو دیکھ کر( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو دیکھ کر) چاہتے تھے کہ پوری ترقیات پر پہنچیں۔ لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا‘‘۔ (یعنی تدریجی ہوتا ہے)’’ آخر صحابہ نے وہ پایا جو دنیا نے کبھی نہ پایا تھا اور وہ دیکھا جو کسی نے نہ دیکھا تھا ‘‘۔

(ملفوظات جلد 2صفحہ 52۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر صحابہ کے بارے میںفرماتے ہیں کہ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک برتن قلعی کروا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورت نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے۔ گویا قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا کے سچے مصداق تھے‘‘۔

(ملفوظات جلد 6صفحہ 15۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ صحابہ نے اس قدر صدق دکھایا اور انہوں نے نہ صرف بُت پرستی اور مخلوق پرستی سے ہی منہ موڑا‘‘( نہ صرف بت پرستی سے اور مخلوق پرستی سے یعنی لوگوں کو پوجنے سے اور لوگوں کی خوش آمدیں کرنا یا ان کی منّتیں کرنا یہ بھی پوجنا ہی ہوتا ہے۔)’’بلکہ در حقیقت ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے۔ وہ نہایت سرگرمی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا‘‘۔

(ملفوظات جلد 6صفحہ 137۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرمایا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جسم کی طرح ہیں اور( آپ کے) صحابہ کرامؓ آپ کے اعضاء ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد 6صفحہ 279۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں صحابہ کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نمونوں پر چلتے ہوئے اپنے اخلاص و وفا کو بھی بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button